پرندے
اسپیشل فیچر
پرندوں کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ یہ رینگنے والے جانوروں کی ارتقائی شکل ہیں۔دُنیا کا قدیم ترین پرندہ ’’آرکیوپیٹرکس‘‘ تھا جس کا ڈھانچا جرمنی میں دریافت ہوا تھا ۔سائنس دانوں نے اس کے زمانے کا اندازہ190ملین سال لگایا ہے۔اس کی شکل رینگنے والے جانوروں کے مشابہ تھی۔ مثلاً مُنہ میں دانت اور لمبی سی دُم۔ لیکن اس کے بازوں اور دُم پر لمبے لمبے پَر تھے۔ پرندہ: گرم خون اور پَر والاجانور ہے۔ میمل کی طرح پرندوں میں بھی پنجر اور ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔جن کے سہارے ان کا نظام ِ جسمانی قائم رہتا ہے۔لیکن میمل بچے پیدا کرتے ہیں اور اُن کو دودھ پلاتے ہیں۔ جبکہ پرندے انڈے دیتے ہیں ، بچوں کو ٹھوس غذا کھلاتے ہیںاور روزی یا دانے کی تلاش کیلئے ہوا میں لمبی پرواز بھی کرتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق دُنیا میں پرندوں کی 85 سو کے لگ بھگ انواع پائی جاتی ہیں۔ہر نوع کا رنگ روپ اور جسامت فرق ہوتی ہے۔سب سے بڑا اور چھوٹا پرندہ: سب سے بڑا پرندہ ’’شُتر مُرغ‘‘ نو فُٹ تک اُونچا اور تین سو پائونڈ تک وزنی ہوتا ہے اور سب سے چھوٹا ’’ہمنگ برڈ‘‘ ہو تا ہے جس کے پروں سے گنگنا نے کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس کی بعض اقسام کی جسامت تین اِنچ سے بھی کم اور وزن 1/7اونس کے لگ بھگ ہوتا ہے۔تیزرفتار و بلندی پر اُڑنے والے: پرندوں میں ہجرتی باز ،گولڈن ایگل، سو فٹ جو ابابیل کی طرز کا ایک پرندہ ہے اور ’’شِکرا‘‘ تیز رفتار کہلاتے ہیں ۔ جبکہ بلند اُڑنے والے پرندوں میں اہم نام گدھ اور چیل کے ہیں۔کیوی ،شُتر مُرغ: یہاں یہ بھی اہم ہے کہ تمام پرندوں کے پَر ہوتے ہیں لیکن تمام پرندے اُڑ نہیں سکتے۔ نیوزی لینڈ کے مشہور پرندے کیوی کے پَر اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ بمشکل نظر آتے ہیں۔ شُتر مُرغ کا جسم بہت بھاری اور سینے کی ہڈیاں سخت ہوتی ہیں لہٰذا وہ بھی اُڑنے سے معذور ہے۔ پرندوں کی چونچیں: یہ بھی جسامت و شکل کے لحظ سے مختلف ہوتی ہیں ۔مچھلیاں پکڑنے والے پرندوں مثلاً بگلے اور رام چڑیا (کنگ فشر) کی چونچ لمبی اور نوکیلی ہوتی ہے۔ شکاری پرندوں عقاب وغیرہ کی سخت اور خمیدہ و دانہ دُنکا چُگنے والے پرندوں کی چونچ چھوٹی مگر مضبوط ہوتی ہے۔ پرندوں کے نظامِ تنفس: اس نظام میں سب سے اہم ہوا کی تھیلیاں ہیں جو پھیپھڑوں سے جُڑی ہوتی ہیں اور ان کی شاخیں جسم کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوتی ہیں۔ یہ تھیلیاں پرندے کو اُڑنے اور تیرنے میں مدد دینے کے علاوہ اس کے جسم کے درجہ ِحرارت کو بھی کنٹرول کرتی ہیں۔ اکثر پرندوں کے پوٹے ہوتے ہیں جس میں وہ عارضی طور پر خوارک ذخیرہ کرتے ہیں۔دِل و دماغ: میمل کی طرح پرندوں کے دل میں بھی چار خانے ہوتے ہیں جن کے ذریعے ان کے جسم کو آکسیجن آمیز خون ملتا رہتا ہے۔ساتھ میں میمل کی طرح ہی پرندے بھی گرم خون والے جانور ہیں جس کے سبب وہ سرد موسم برداشت کر سکتے ہیں۔پرندوں کا دماغ نسبتاً زیادہ بڑا ہو تا ہے جو حرکت اوربصارت سے مربوط ہوتا ہے۔اِن کی آنکھیں سر کے دونوں جانب ہو تی ہیں اور بیک وقت مختلف سمتوں میں دیکھ سکتے ہیں۔صرف اُلُّواس کُلیّے سے مستثنیٰ ہے۔ انسان کی طرح اس کی آنکھیں سامنے کی طرف ہوتی ہیں لیکن یہ انسان کے برعکس گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھ سکتا ہے۔گھونسلے و انڈے: پرندوں کی تقریباً تمام انواع اپنے رہنے کیلئے گھونسلے بناتی ہیں۔ یہ گھونسلے ہموار زمین، درختوں کی شاخوں اور کھوہوں ، غاروں، چٹانوں یا مکانوں کے جھجوں میں بناتے ہیں ۔ کوئل سمیت بعض پرندے دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں انڈے دیتے ہیں تاکہ وہ اُن کے تخت و تاراج سے محفوظ رہیںاور وہی پرندے اُنھیں سیتے ہیں۔پرندوں کی مادائیں ایک جھول میں ایک سے لیکر بیس تک انڈے دیتی ہیں۔ایک موسم میں دو جھول بھی ہو سکتے ہیں۔نر و مادہ دونوں باری باری انڈے سیتے ہیں۔یہ مدت مختلف انواع میں 10سے 80دن تک ہے۔ پرندوں کی عر صہ ِ حیات: اس میں بھی عظیم تفاوت پایا جاتا ہے۔بعض پرندوں کی عمر بہت کم ہو تی ہے اور بعض 20سے30سال تک عمر پاتے ہیں۔ سیلانی پرندے: بعض پرندے ایک ہی جگہ مستقل رہائش رکھتے ہیں اور بعض موسم کے لحاظ سے نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔جو سیلانی پرندے کہلاتے ہیں۔دلچسپ یہ ہے کہ یہ پرندے خشکی اور سمندری مسافت کو بے تکان طے کر لیتے ہیںاور وقت کی پابندی کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔فصلی پرندوں کے اس نظام ِاوقات پر بادل ، دھوپ،بارش اور موسم کی دوسری فوری تبدیلیاں کوئی اثر نہیں کرتیں۔ البتہ آندھی ضرور رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔٭…٭…٭