دکنی دور کی اہمیت
اسپیشل فیچر
تیرہویں صدی سے سترہویں صدی تک دکنی ادب کے کئی اہم کارنامے منظر عام پر آئے۔ دکنی میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ 1867ء تک برقرار رہا چنانچہ اسی برس حیدرآباد کے ایک صوفی فقیر اللہ شاہ حیدر نے نہال چند لاہوری کی تصنیف ’’بکاولی‘‘ کے مقابل میں اپنی تصنیف ’’تناولی‘‘ پیش کی۔ باقر آگاہ اپنی مثنوی ’’گلزار عشق‘‘ کے دیباچے میں جو 1796 ء میں لکھی گئی ’’دکنی‘‘ پر کئے ہوئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’مقصود اس تمہید سے یہ ہے کہ اکثر جاہلان و ہرزہ سرایاں زبان دکنی پر اعتراض اور ’’گلشن عشق‘‘ و ’’علی نامہ‘‘ کے پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں اور جہل مرکب سے نہیں جانتے کہ جب تک ریاست سلاطین دکن کی قائم تھی زبان ان کے درمیان خوب رائج تھی ۔۔۔ ‘‘۔ دکنی(زبان) کے ادوار: دکنی کی ترقی کا اندازہ لگانے کے لئے دکنی ادب کی تاریخ کو ان چار ادوار میں منقسم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور: گجرات میں دکنی یا قدیم اردو کا چلن۔ دوسرا دور: 1324 ء سے 1686 ء تک علاؤ الدین خلجی اور محمد بن تغلق کے حملوں کے بعد بہمینہ سلطنت کے قیام اور بہمینہ سلطنت کے سقوط کے بعد گولکنڈہ، بیجا پور اور احمد نگر کے شمالی ہند میں انضمام تک۔ تیسرا دور:۔ جب اور نگ زیب کے عہد میں دکنی کا اہم مرکز اور نگ آباد تھا۔ چوتھا دور:۔ دور آصفی۔ مرکز گجرات ،گجرات میں اس زبان کی سرپرستی حضرت عین الدین گنج العلم، شاہ علی جیو گام دھنی، بہلاؤ الدین باجن، شیخ خوب محمد چشتی، جیسے علما و صوفیا نے کی۔ شاہ علی جیوگام دھنی نے اپنی یادگار، ایک اردو دیوان ’’جواہر اسرار اللہ ‘‘ چھوڑا۔ شیخ خوب محمد نے اپنے مرشد بہا الدین باجن کے کلام کی شرح ’’خوب ترنگ‘‘ کے نام سے لکھی۔ ما بعد کے زمانے میں محمد امین گجراتی کی تصنیف ’’یوسف زلیخا‘‘ قدیم اردو کی اہم تصنیف ہے۔ سید علی جیوگام دھنی کے کلام کو ان کے ایک شاگرد نے ترتیب دیا اس میں ان کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے۔ ’’دربیان توحید و اسرار باالفاظ گجری بطریق فرمودہ‘‘ یہ نام گجری اور گوجری دکنی کے لیے اس دور میں خاصا مقبول رہا۔ چنانچہ بیجاپور کے مشہور صوفی شاہ برہان الدین جانم اپنی تصانیف ’’کلمۃ الحقائق‘‘ اور ’’حجۃ البقا ‘‘ میں دکنی کو گجری کے ہی نام سے یاد کرتے ہیں۔ گجرات کے ساتھ دکنی کی سرپرستی دکن کی جن سلطنتوں نے کی ان میں سلطنت بہمینہ اور اس کے انفراض کے بعد عادل شاہی، قطب شاہی، نظام شاہی، عماد شاہی، برید شاہی وغیرہ مشہور ہیں۔ بہمینہ سلطنت کے زمانے میں دکنی کی ترقی علا ؤ الدین خلجی ہوئی ۔ 1324 میں محمد تغلق نے دیو گڑھی دولت آباد کو ہندوستان کا پایہ تخت بنانا اور دہلی سے کثیر پیمانے پر آبادی کا انتقال عمل میں آیا۔ اس طرح ’’دکنی‘‘ (قدیم اردو) خاص طور سے مہاراشٹر (دولت آباد) کے اطراف کے علاقے میں تیزی سے پھیلنے لگی کیونکہ دکن میں مراٹھی، کنڑی، تلنگی اور تامل زبانیں بولی جاتیں تھیں۔ اس لئے اردو یا دکنی ہی مشترک زبان کے طور پر حاکم و محکوم کے مابین ارتباط کا ذریعہ بنی۔ دکنی کی اشاعت و ترویج دو محاذوں سے ہوئی ’’خانقاہ‘‘ اور ’’دربار‘‘ خانقاہوں میں صوفیا نے عقائد و مذہب کی تبلیغ کا ذریعہ اس مشترک زبان کو بنایا جو دکن میں مقبولیت حاصل کر رہی تھی۔ اس لیے جب محمد بن تغلق کے خلاف دکنی امرا نے علم بغاوت بلند کر کے علا الدین حسن بہمینی کو اپنا فرماں روا تسلیم کیا تو دربار میں بھی اس زبان کی سرپرستی کی گئی۔ بہمینی خاندان کے حکمرانوں نے جہاں مقامی زبانوں کی سرپرستی کی وہیں عربی، فارسی، اردو (دکنی) کو بھی فروغ دیا۔ بہمینی دور کے اکثر فرماں روا علم دوست اور ادب پر ور تھے۔ احمد شاہ بہمینی کے زمانے میں حضرت سید بندہ نواز گیسو دراز دن تشریف لائے، آپ نے عربی فارسی کی تصانیف کے علاوہ چند رسائل ’’دکنی‘‘ میں تصنیف فرمائے ، اور بعض رسائل کو غلط طور پر آپ سے منسوب کر دیا گیا۔ بہر حال یہ امر مسلم ہے کہ اس زمانے تک دکنی زبان میں اتنی سکت آ گئی تھی کہ وہ اظہار خیال کا ذریعہ بن سکے۔ خواجہ بندہ نواز کے خلفا اور تلامذہ میں بھی کئی نے اس زبان میں تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ بہمینی دور کے مشہور شعرا اور ادبا جن کے کارنامے منظر عام پر آ چکے ہیں مندرجہ ذیل ہیں : ۱۔ حضرت عین الدین گنج العلم گجرات سے دکن تشریف لائے۔ ۲۔ سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز، ۳۔ حضرت اکبر حسینی، ۴۔ حضرت عبد اللہ حسینی، ۵۔ نظامی۔ مصنف کدم راو پدم راؤ، ۶۔ امیر الدین شاہ میراں جی شمس العشاق، ۷۔ فیروز مصنف پرت نامہ یا توصیف نامہ میراں محی الدین، ۸۔ اشرف مصنف نوسرہار۔ ان کے علاوہ احمد، محمود، آذری، خیالی وغیرہ کے بھی نام ملتے ہیں۔