مولوی عبدالحق کے تعلیمی ایام
اسپیشل فیچر
مولوی عبدالحق کا خاندان اوسط درجے سے تعلق رکھتا تھا لیکن ان کے والد نے اپنے بچوں کی تعلیم پر پوری توجہ دی۔’’ یہاں تک کہ زمین بیج دی اور قرض بھی حاصل کیا ہر طرح کی مصیبت اٹھائی لیکن اپنے لڑکوں کی تعلیم کے لئے کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔‘‘ مولوی عبدالحق کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور ان کا دل کھیل کود کی بجائے لکھنے پڑھنے میں زیادہ لگتا تھا اس سلسلے میں ریڈیو پاکستان کے بچوں کے ایک پروگرام میں مولوی عبدالحق نے ایک بچے کے سوال پر کہ انہیں کون سا کھیل پسند تھا جواب دیتے ہوئے فرمایا:’’ یوں تو بچپن میں انہوں نے گیڑیاں اور گلی ڈنڈا بھی کھیلا ہے لیکن وہ کھلنڈرے نہیں تھے وہ بچپن سے غور و فکر کرنے کے عادی تھے یہی وجہ ہے کہ سرسید احمد خان انہیں عبدالحق فلسفی کے نام سے یاد کرتے تھے۔‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مولد اور تاریخ پیدائش کی طرح ان کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اقبال یوسفی تحریر کرتے ہیں:’’ ابتدائی تعلیم اپنے ننھیال سرواہ میں پائی جو ھاپوڑ کے قریب میرٹھ ہی کے ضلع میں واقع ہے پرائمری کے بعد مڈل تک ان کی تعلیم مشرقی پنجاب میں ہوئی۔‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بھائی احمد حسن نے اپنے مضمون’’ ابدی بھائی‘‘ میں تحریر کیا کہ ان کی میٹرک تک تعلیم پنجاب میں ہوئی۔مولوی عبدالحق کی ابتدائی تعلیم کے ضمن میں مختلف محققین بھی اس بات پر تو متفق ہیں کہ ان کی کم از کم مڈل تک تعلیم پنجاب میں ہوئی لیکن یہ بات حتمی طور پر نہیں کہہ سکے کہ پنجاب کی وہ کون سی بستی اور درسگاہ تھی جس سے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے علم کا فیض حاصل کیا یا ان کے وہ کون سے ابتدائی معلمین تھے جن سے ان کے نیاز مندانہ مراسم تھے لیکن گوجرانوالہ کے ایک قانون گو شیخ خاندان کے چشم و چراغ خالد محمود ربانی مرحوم (صحافی) کی جستجو سے اس راز سے پردہ اٹھ گیا ہے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مڈل تک تعلیم گوجرانوالہ مشن ہائی سکول میں ہوئی جہاں خالد محمود ربانی مرحوم کے دادا ان کے معلم تھے اور مولوی عبدالحق کے ان سے نیاز مندانہ مراسم تھے اس سلسلے میں خالد محمود ربانی کے پاس مولوی عبدالحق کی وہ نایاب تحریر ہے جو انہوں نے خالد محمود ربانی کے والد محترم شیخ اکرم ربانی سپرنٹنڈنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کو ان کے اس خط کے جواب میں تحریر کی تھی جو انہوں نے مولوی صاحب کو گوجرانوالہ آنے کی دعوت کے لئے لکھا تھا۔بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مرقومہ 17فروری 1953ء کے مکتوب سے ان کی ابتدائی تعلیم سے پردے اٹھ جاتے ہیں اور یہ بحث ختم ہو جاتی ہے کہ مڈل تک انہوں نے پنجاب میں کس جگہ تعلیم حاصل کی تھی مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں:’’ آپ کے والد شیخ کرم داد گوجرانوالہ کے مشن ہائی سکول میں معلم تھے اور میں طالب علم تھا وہ میرے حال پر بڑے مہربان تھے اور بہت شفقت فرماتے تھے کچھ دنوں بعد میں علی گڑھ چلا آیا اور ایم اے او کالج میں داخل ہو گیا اس کے چند سال بعد جب علی گڑھ کالج میں مسلم ایجوکیشن کانفرنس کا اجلاس ہوا تو آپ کے والد بھی اس میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے اس موقع پر ان سے ملاقات ہوئی وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے تعلیم سے فراغت کے بعد میں حیدر آباد دکن چلا گیا۔ بہت عرصے کے بعد جب میں صوبہ اورنگ آباد کا صدر مہتمم تعلیمات تھا آپ کے والد کا خط آیا(انہوں نے شاید اخباروں میں نام پڑھا تھا) اور مجھ سے دریافت کیا کہ تم وہی عبدالحق ہو جو کچھ دن گوجرانوالہ میں تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ میں وہی ہوں تو بہت خوش ہوئے۔۔۔۔۔ معلوم نہیں وہ مشن ہائی سکول اب ہے یا نہیں اس وقت گوجرانوالہ کوئی بڑا شہر نہیں تھا۔۔۔ اس زمانے میں منشی محبوب عالم گوجرانوالہ ہی میں تھے اور انہوں نے اپنا ہفت روزہ ’’ پیسہ اخبار‘‘ وہیں سے نکالا تھا۔‘‘ کالج کے سکول میں داخل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق انٹرنس پاس کرنے سے قبل ہی علی گڑھ گئے اور یہ امتحان انہوں نے علی گڑھ کے زمانہ قیام میں پاس کیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے علی گڑھ کے مدرسے میں بڑی دلجمعی سے پڑھا انہیں کھیل کود سے رغبت نہ تھی مولوی عبدالحق ان ایام رفتہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:’’ کالج میں تمام پروفیسر سوائے عربی، فارسی، سنسکرت اور ریاضی کے انگریز تھے، فارسی، عربی کے پروفیسر مولانا شبلی اور مولانا عباس حسین تھے ریاضی کے بابو مکر جی، مولانا شبلی، شاعر ادیب اور مؤرخ تھے ان کی جماعت میں بیٹھ کر جی خوش ہوتا تھا۔ ادبی نکات اور اشعار اور لطائف سنا کر تاریخی واقعات اس طرح بیان کرتے تھے کہ درس کا حق ادا ہو جاتا تھا۔ عباس حسین نرے ملا تھے ادبی ذوق سے عاری، البتہ ضلع جگت کے استاد تھے ضلع بولنے سے کبھی نہ چوکتے اور جو کوئی ان کے جواب میں ویسا ہی بول جاتا تو باغ باغ ہو جاتے۔۔۔۔۔ پروفیسر آرنلڈ کی حیثیت کالج میں خاص بلکہ امتیازی تھی وہ علم کے سچے طالب اور علم دوست تھے۔‘‘ کالج کے زمانے میں جو نامور شخصیات ان کی ہم جماعت تھیں ان میں ڈاکٹر ضیاء الدین، مولوی حمید الدین، مولانا ظفر علی خان، ولایت اللہ، سید محفوظ علی، خواجہ غلام الثقلین، شیخ عبداللہ، سیٹھ یعقوب حسین اور خان بہادر شوکت علی شامل تھے۔ان تمام مباحث کا حاصل یہ ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انٹرنس(میٹرک) یا بی اے علی گڑھ سے کیا شہاب الدین ثاقب لکھتے ہیں’’ 1892ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد مولوی صاحب بی اے کی جماعت میں پہنچے بی اے میں فلسفے سے شغف ہوا، اس وجہ سے شمس العلماء مولانا خلیل احمد مرحوم بہت دنوں تک انہیں فلاسفر کے لقب سے یاد فرماتے تھے۔‘‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے بی اے کرنے کے سلسلے میں بھی مختلف اور متضاد بیانات ہیں مثلاًافضل صدیقی، شاہد عشقی، ممتاز حسین، ڈاکٹر سید معین الرحمن اور حکیم اسرار احمد وغیرہ نے بی اے پاس کرنے کا سال 1894ء تحریر کیا ہے، جبکہ شہاب الدین ثاقب نے ایم اے او کالج کی ڈائریکٹری کے حوالے سے تحریر کیا ہے:’’ مولوی عبدالحق نے 1895ء میں بی اے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔۔۔۔۔۔ ضیاء الدین احمد، ظفر علی خان، سید محفوظ حسین اور محمد ولایت اللہ وغیرہ مولوی صاحب کے ہم جماعت تھے اور سب نے ساتھ ہی 1895ء میں بی اے پاس کیا۔‘‘ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مولوی عبدالحق نے 1895ء میں بی اے کیا۔ ۔۔