سوشل میڈیاکے واسطے پیدا ہوئی ہے نسل نو
تاریخ ِعالم میں انسانیت کا رشتہ شائد ہی کسی اور چیز سے اتنا مضبوط ا ورپرخلوص رہا ہے جتنا کہ 14 سال قبل منصئہ شہود پر آنے والے سوشل میڈیاسے طے ہو چکا ہے۔آج سوشل میڈیادلوں کی دھڑکن،آنکھوں کی ٹھنڈک،روح کی غذا اور آدابِ حیات کا جزوِ لا ینفک بن چکی ہے۔سوشل میڈیا رنگ ،نسل،زبان اور علاقہ کی تفریق کے بغیر ہر مرد وزن اور پیروجواں کیلئے آن لائن مرجع الخلائق ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی کتاب ہے ۔یہ سماجی تقاضابن چکی ہے جس کے بانی زکر برگ ہیں اور لاکھوں لوگ اس اخلاقی،معاشرتی اور سیاسی مرکز سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔لوگ جوق در جوق فیس بک کے حلقئہ ارادت میں شامل ہو رہے ہیں۔اس کی آتشِ عشق لگانے سے بآ سانی لگ تو جاتی ہے، پر بجھانے سے بجھنے کا نام نہیں لیتی۔سوشل میڈیا سے جڑے احباب کے متعدد روپ اور کئی کئی بہروپ ہیں ۔یہاں صنف ِ نازک ، صنف سخت اور صنف ِ میانہ کی تمیز جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔یہ فرینڈشپ ، فرینڈ ریکوئسٹس،کمنٹس اور سمعی و بصری کالز کا بحر ِ بیکراں ہے جس کے اندر لاکھوں غواص غوطہ زن ہیں۔انسان جنہیں آسمانوںاورزمینوں میںتلاش کررہا ہوتاہے،وہ اسے سوشل میڈیا کے خانوں سے مل جاتے ہیں۔مخلوق ِ خدا کا فیس بک میں انہماک و استغراق دیدنی ہوتا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے کائنات کے اہم ترین مسائل پہ غور کیا جا رہا ہے۔فی زمانہ وائی فائی کی عدم دستیابی اور نیٹ کے نحیف سگنل سا نحاتِ عظیم سے کم نہیں جبکہ فیس بک کا بند ہوجانا قدرتی آفت کا درجہ رکھتا ہے، لوگ ماہی بے آب کی مانند تڑپتے پھڑکتے ہیں۔ پوچھتے کیا ہو فقیروں کا ٹھکانہ ہم سے بیٹھ جاتے ہیں جہاں وائی فائی ہوتی ہےکسی کے ہاں مہمان آئیں تو سلام دعا کی جگہ، ’’یارکوڈ دسیں‘‘سننے کو ملتا ہے۔وائی فائی کے سگنلوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ یہ ہمارے اتنی قریب ہو چلے ہیں کہ پبلک مقامات،کلاس رومز،کھانے کا میز،سرکاری دفاتر،واش روم،کچن،بستر استراحت،دوران ِ سفر حتیٰ کہ حالت اعتکاف میں بھی لوگ ’’فنا فی الفیس بک ‘‘ہوتے ہیں۔اب اس کے سوا دنیا میں رکھا ہی کیا ہے؟۔روزوشب سٹیٹس لگانے، کمنٹس اورلائیک شمار کرنے میں بیت رہے ہیں۔مرغی انڈا دے یا بکری بچہ جنے،سوشل میڈیا پہ پوسٹ لازم ہے۔اسی طرح ولیموں ،جنازوں، چائے نوشی، باراتوں، مزارات، گھر اور مسجد سے نکلتے اور داخل ہوتے وقت کی تصاویر وائرل کرنا ہر سوشل میڈیاوالے پہ فرض ِ عین ہے۔ اب ،نیکی کر دریا میں ڈال ، کی جگہ کچھ بھی کر fb میں ڈال کی کہاوت مناسب ہو گی ۔سنا تھا کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے مگر آج وہ اپنے لگائے گئے، سٹیٹس سے پرکھا جا سکتا ہے ۔سوشل میڈیا،خواتین کے لئے تو نعمت سے کم نہیں ۔اب انہیں دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہنے کی مشقت کی ضرورت نہیں بلکہ وہ بہ آسانی گھر بیٹھے یہ فریضہ انجام دے سکتی ہیں۔ویسے بھی فیس بک خواتین کی ممنون ہے کیونکہ ڈیٹا ٹرانسفر کرنے کی ٹیکنالوجی اس نے خواتین سے ہی مستعار لی ہے۔ حج وعمرہ کی ادائیگی کی تشہیر سوشل میڈیا کا نورانی پہلو ہے جس میں سیلفی کو نہائیت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اب عمرے کی نیت کے ساتھ سیلفیوں کی نیت بھی ضروری خیال کی جاتی ہے ۔مقامات ِمقدسہ میں سیلفی پہ پاپندی کی خبر حجاج خواتین و حضرات کے روحانی وسماجی جذبات پر خاصی گراں گزری ہے اور اسے سوشل میڈیا حقوق کے منافی سمجھا جارہا ہے کیو نکہ سیلفی فیس بک کا بنیادی رکن ہے۔بقول شاعر کچھ فرینڈز اپنی سیلفیوں پہ یوں ا ِتراتے ہیں۔۔۔۔ سنا ہے دل کو لُبھاتی ہیں سیلفیاں میریسنا ہے لوگ انہیں زوم کر کے دیکھتے ہیںاہل ِ فیس بک اب اس جہاں میں صورت ِ خورشید ہی تو ہیںکیونکہ وہ بھی اُدھر ڈوب کر اِدھر اور اِدھر ڈوب کر اُدھر نکلنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔حسرت ہے ان عشاق پر جو فیس بک کی فیوض وبرکا ت سمیٹے بغیر صدیو ں قبل ملک ِعدم سدھار گئے۔ رانجھا، مجنوں،ماہیوال اور مرزا اگر اس سے مستفید ہوتے توانہیںآبلہ پائی،صحرا نشینی اور معاشرتی مخاصمت و رقابت سے دو چار نہ ہونا پڑتا اور رانجھا ہیر کے ساتھ ساتھ ،سسی ،صاحباں اور سوہنی کا فرینڈ بھی نکلتا۔رانجھے کی بانسری، ہیر کی چوری، سوھنی کے گھڑے ، فرہاد کے تیشے اور لیلیٰ کی کتیا کی پوسٹوں کو ہزاروں لائک ملتے۔اگرچہ کیدو اور صاحباں کے بھائیو ں کے آن لائن ہونے کا احتمال ہوتا مگر یقینا انہیں بھی اپنی اپنی پڑی ہوتی کیونکہ فیس بک تو محبت کا لنڈا بازار ہے۔کچھ ایسے احباب اسے کار ِشر سمجھتے ہیں جن کے پاس یا تو سیل فون نہیں یا پھر فیس بک چلانے کے اسرار ورموز سے نا آشنا ہیں۔انکے خیال میں یہ سوشل میڈیا کم اور فیک بَک بَک زیادہ ہے کیونکہ اب لوگ ایک ہی گھر میں بیٹھے ماں باپ،بہن بھائی اوراولاد سے دور اوردور بیٹھے انجان لوگوں کے قریب ہیں اور یہ سب سے بڑا فیملی ممبر بن چکی ہے۔ہر گھر میں ونڈو کھلی ہے جس میں سے ہر چیز آ اور جا سکتی ہے اک دور تھاکہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے،دیکھتے بھالتے اور دوستیاں قائم کرتے تھے۔پھر قلمی دوستی کا دور چلا اور اب ، نہ سوچا نہ سمجھانہ دیکھا نہ بھالا تیری آرزو نے مجھے مار ڈالا کے مصداق ہزاروں آن لائن اور آف شور فرینڈز کا جمِ غفیربراجمان ہے۔مگر سارے کے سارے محض لائک مائنڈڈ دوست ہیں ۔ مخالفت برداشت کرنے کی صلاحیت بتدریج دفن ہوتی جا رہی ہے۔لوگ اخلاق اور شائستگی سے عاری ہوکر دلوں کی بھڑاس نکالتے ہیں کیونکہ فیس بک مادر پدر آزادی فراہم کرتی ہے۔نئی نسل اختلافی بات سننے کی عاد ی نہیں رہی۔اسی طرح مذہبی و شرعی معاملات میںہزاروں مفتیان ِ عِظام بھی آن لائن ہوتے ہیں جو فتووں سے مزین دراز زبانوں کے حامل ہیں۔غالب اس دور میں ہوتے تو یہی کہتے، فیس بک غالب نکما کر گئی۔۔ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے!