بچوں کے تین عام امراض
اسپیشل فیچر
کسی زمانے میں توہم پرست لوگ بیماری کو کسی روح کی ناراضگی، آسیب یا بھوت پریت کے اثر سے منسوب کرتے تھے اور اس کا علاج دواؤں کی بجائے ٹوٹکوں وغیر ہ سے کرتے تھے۔ لیکن سائنس کی ترقی کی بدولت اب یہ بات بخوبی ثابت ہو گئی ہے کہ تمام امراض خواہ وہ بچوں کے ہوں یا بالغ افراد کے۔ ۱۔ جراثیم، ۲۔ غذا کے مختلف بنیادی عناصر کی کمی، ۳۔ خلیات جسم کے غیر معمولی ردعمل (ذکی الحسی یا الرجی)۔ ۴۔ نفسیاتی مسائل سے پیدا ہوتے ہیں۔جراثیمیہ وہ ننھے ننھے جاندار ہیں جو آنکھ سے نظر نہیں آ سکتے اور صرف خوردبین کی مدد سے دیکھے اور شناخت کیے جا سکتے ہیں۔بعض جراثیم تو اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ معمولی خوردبین سے بھی دکھائی نہیں دیتے اور محض دوسرے طریقوں سے ان کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ ان کو وائرس کہتے ہیں۔ چیچک، خسرا، فالج اطفال اور انفلوئنزا وغیرہ ایسے ہی جراثیم سے پیدا ہونے والے امراض ہیں۔ جراثیم یا وائرس سے پیدا ہونے والی تمام بیماریاں متعدی یعنی ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے والی ہیں۔ غذا کے بنیادی عناصریہ نشاستہ و شکر (کاربوہائیڈریٹس) چربی، پروٹین، حیاتین اور نمکیات ہیں۔ اگر غذا ناکافی اور ناقص ہو اور جسم کو ان میں سے کسی ایک عنصر کی ضروری مقدار مہیا نہ ہو تو صحت میں خلل واقع ہوتا ہے اور مختلف امراض اور عارضے پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً فولاد کی کمی سے انیمیا یعنی خون کی کمی حیاتین کی کمی سے رکٹس اور حیاتین ’’ج‘‘ کی کمی سے سکروی پیدا ہو جاتی ہے۔ الرجیاس سے مراد وہ کیفیت ہے جس میں جسم کے خلیات مختلف جراثیمی زہروں یا دوسرے مضر صحت مادوں کے خلاف غیر معمولی ردعمل پیش کرتے ہیں۔ جس سے بیماری کی شکل میں مختلف علامتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ دمہ، ایگزیما اور چھپاکی کا مرض اسی طرح پیدا ہوتا ہے۔ نفسیاتی مسائل جہاں تک غلط عادات اور نفسیاتی اسباب کا تعلق ہے، بچے کو سوسائٹی کا ایک مفید رکن بنانے کے دوران میں بہت سے نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ بچے کے تعلقات ماں، باپ، بہن، بھائیوں، ہمسائیوں اور سکول کے ہم جولیوں سے جوں جوں بڑھتے اور قائم ہوتے ہیں، بہت سے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ اگر ان کی طرف مناسب توجہ نہ دی جائے تو بسا اوقات بچہ اعصابی کش مکش اور غیر طبعی ذہنیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ رات کو بستر پر پیشاب کر دینا، سکول سے بھاگ جانا، کھانے سے انکار اور ہسٹیریا وغیرہ ان غیر طبعی کیفیات کی چند مثالیں ہیں جو نفسیاتی مسائل کے زیر اثر نمودار ہوتی ہیں۔ ان بنیادی توجیہات کا اطلاق زندگی بھر رہتا ہے۔ بچے بالغوں کے مقابلے میں امراض میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں اور اس کش مکش میں اپنے جسم میں اسی قدر قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں جس سے افراد کو بلوغت کے کوئی تیس برس صحت و توانائی کے مل جاتے ہیں۔ بچوں کی پرورش اور امراض اطفال کا مطالعہ ایک نئی سائنس ہے ۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے میں اپنی حیران کن ترقی کی وجہ سے ایک عظیم الشان سائنس کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ بچوں کی خوراک، ان کی ذہنی نشوونما کے ارتقائی مراحل اور ایسے ہی کئی مطالعے اب پہلے کی طرح مبہم نہیں رہے۔ ان کا ماہر ہر ملک میںاہم کر دار ادا کر رہا ہے۔ اسہالیہ بچوں کا نہایت تشویش ناک عارضہ ہے جو عموماً موسم گرما کے اواخر میں نہایت شدت سے پھیلتا ہے۔ بچوں میں اسہال کے تین اسباب ہو سکتے ہیں:نامناسب اور نقصان دہ غذا۔پیچش جو خاص قسم کے جراثیم سے ہوتی ہے۔مختلف متعدی امراض مثلاً چیچک، خسرہ، گلے آنا، نمونیا، گردوں کی سوزش وغیرہ جن میں زہریلے مادے آنتوں اورمعدے سے خارج ہوتے ہیں اور نتیجے کے طور پر دستوں کا عارضہ پیدا کرتے ہیں۔ لیکن اکثر دودھ اور دودھ ملانے کے سامان کی مناسب صفائی نہ ہونے کی وجہ سے گردوغبار اور مکھیوں کی وساطت سے خطرناک قسم کے جراثیم بچے کے معدے اور آنتوں میں سرایت کر کے خارش اور سوزش پیدا کر دیتے ہیں۔ جن کے باعث شدید اسہال اور ہیضے کی سی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ بچہ بہت جلد کمزور اور نڈھال ہو جاتا ہے۔ دست خواہ کسی وجہ سے بھی ہوں تین خطرناک نتائج کے ذمہ دار ہوتے ہیں:اول جسم سے پانی کا غیر معمولی اخراج جس سے جسم کے زہریلے مادے گاڑھے ہو کر اعضائے رئیسہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ دوسرے نمکیات کے ضائع ہونے سے جسمانی بافتوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ تیسرے حیاتین اور دیگر عناصر غذائیہ مثلاً پروٹین وغیرہ کی کمی سے جسم کی نشوونما رک جاتی ہے۔ کیچوے اور چمونےیہ کیڑے بچوں میں عام ہوتے ہیں لیکن ایسی علامات نمایاں نہیں ہوتیں جن سے ان کی موجودگی کا پتہ چل سکے۔ کیچوے چھوٹی آنتوں میں رہتے ہیں اور اپنے مقام سے گزر کر بڑی آنتوں کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ یہ قے کے ساتھ بھی خارج ہو سکتے ہیں۔ چمونے چھوٹے چھوٹے دھاگوں کے ٹکڑوں کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر اوپر کی آنت میں رہتے ہیں لیکن عموماً آخری آنت میں پہنچ کر پاخانے کے مقام پر جمع ہو جاتے ہیں اور مرنے سے پہلے انڈے چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کی علامات میں بھوک کی کمی، چہرے کی زردی، دردسر، دانت پیسنا اور سوتے میں ڈرنا، پاخانے کے مقام پر خارش کا ہونا خصوصاً رات کے وقت سوتے ہوئے پیشاب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔رِکٹسیہ بیماری ہڈیوں کے اندر کیلشیم کے ناکافی طور پر جمع ہونے اور ناقص طور پر جزو بدن بننے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں ہڈیاں نرم پڑ جاتی ہیں اور جسم کے بوجھ سے خم کھا کر ٹیڑھی اور بدوضع ہو جاتی ہیں۔چھاتی کی ہڈیاں پچک جا تی ہیں جس سے تنفس پر برا اثر پڑتا ہے۔ دانت کمزور ہو جاتے ہیں اور بے قاعدہ اور ٹیڑھے نکلتے ہیں اور جلد گر جاتے ہیں۔ کیلشیم کے جزو بدن بننے کے لیے حیاتین ’’د‘‘ کا ہونا ضروری ہے۔ رکٹس میں اس حیاتین کی کمی ہوتی ہے۔ اس لیے کیلشیم فاسفورس کی مقداریں جسم میں غیرمتوازن ہو جاتی ہیں۔ ابتدا میں نزلہ اور نمونیا کے بار بار حملے ہوتے ہیں۔ اسہال کے دورے بار بار پڑتے ہیں۔ سر میں پسینہ زیادہ آتا ہے۔ بچہ دیر سے چلنا سیکھتا ہے۔ دانت تاخیر سے نکلتے ہیں۔ چھاتی کا اگلا حصہ سامنے ابھر آتا ہے۔ ٭…٭…٭