حضرت سخی سلطان باھو ؒ کے حالات زندگی
اسپیشل فیچر
برصغیر پاک وہند میںاسلام تلوار سے نہیں بلکہ اولیاء اللہ کے کردار وگفتارسے پھیلاہے ۔ اولیاء کرام کی کاوشوں کی وجہ سے اسلام کو فروغ ملا۔ پاکستان کے قیام میں اکابرین اہل سنت نے بہت اہم کرداراداکیا۔ برصغیر پاک وہند میں اولیاء کرام نے اسلام کی جوخدمت کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یہ ایک مسلمہ حقیقت اور تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر پاک وہندکی آبادی کو اسلام کی دولت اولیائے کرام کی پرامن تبلیغی مساعی کی بدولت نصیب ہوئی۔ انہی کے باطنی تصرفات نے اس خطہ پر مسلمانوں کو حکمرانی کے مواقع فراہم کئے۔ تو پھر ماننا پڑے گا کہ برصغیر پاک وہندمیں اشاعت اسلام کا حقیقی سہرا اولیاء کرام کے سر ہے جو سرزمین پاک وہند پر آفتاب عالم کی طرح طلوع ہوئے۔ آج جس عظیم ہستی کامیں تذکرہ کرنے جا رہا ہوں۔ اسے عالم ِ اسلام میں ’’سلطان العارفین ،شمس السالکین سلطان باہوؒ ‘‘کے نام سے یادکیاجاتاہے ۔ایمان سلامت ہرکوئی منگےعشق سلامت کوئی ہوایمان منگن شرماون عشقوںدل نوں غیرت ہوئی ہوترجمہ:ہر ایک ایمان کی سلامتی چاہتا ہے لیکن عشق کی سلامتی چاہنے والا کوئی کوئی ہوتا ہے۔ ایمان چاہتے ہیں مگر عشق سے کتراتے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہمارے دلوں میں غیرت بھڑک اٹھتی ہے۔آپؒ کا اسمِ گرامی ’’سلطان باہو‘‘تھا ۔ آپؒ کے والد ماجدکا نام ’’حضرت بازید محمدؒ‘‘جبکہ والدہ ماجدہ کانام ’’حضرت بی بی راستیؒ‘‘ تھا۔ حضرت سخی سلطان باہوؒ کی ولادت باسعادت ماہ رمضان المبارک میں ۱۰۳۹ھجری میں موضع اعوان (شورکوٹ،ضلع جھنگ) میں ہوئی۔ آپؒ نے ابتدائی باطنی و روحانی تعلیم و تربیت اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ کیونکہ آپؒ ابھی کم سن ہی تھے کہ والد ماجد کا وصال ہوگیا تھا۔ حضرت سلطان باہوؒ کے والد دہلی میں مغلیہ حکومت میں ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ آپ ایک صالح، شریعت کے پابند، حافظِ قرآن فقیہ شخص تھے۔حضرت سیدسخی سلطان باہوؒ پیدائشی ولی تھے۔ آپؒ کی پیشانی نورِ حق سے اس قدر منور تھی کی اگر کوئی کافر آپ کے مبارک چہرے پر نظر ڈالتا تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا تھا۔آپ ؒکی نظر ولایت سے جوق درجوق غیرمسلموں نے کلمہ پڑھناشروع کیا۔ بعدازاں آپؒ نے دہلی میں سیدالسادت حضرت پیر سید عبدالرحمن جیلانی دہلوی کے ہاتھ پر ظاہری بیعت کی اور ایک ہی ملاقات میں فقر کی وراثت کی صورت میں اپنا ازلی نصیبہ ان سے حاصل کر لیا۔ حضرت سخی سلطان باھو ؒ کی زندگی کا بیشتر حصہ سیروسیاحت ’’سیروفی الارض‘‘میں گزرا ۔آپؒ زیادہ تر ملتان، ڈیرہ غازی خان، چولستان، ڈیرہ اسماعیل خان، وادی سون سکیسرضلع خوشاب وغیرہ کے علاقوں میں سفرکر کے مخلوق خدامیں وعظ و نصیحت اور حکمت ومعرفت عام کرکے متلاشیان حق کو حق کی راہ دکھاتے رہے ۔حضرت سخی سلطان باھوؒ نے چارشادیاں کیں۔ جن سے آٹھ بیٹے اورایک بیٹی پیداہوئی۔ سب سے چھوٹے صاحبزادے سلطان حیات محمد نے بچپن میں انتقال فرمایا۔آپؒ نے علم تصوف پرڈیڑھ صدکے قریب کتابیں بزبان فارسی چھوڑی ہیں۔ مجموعہ ابیات پنجابی بھی آپؒ کی یادگارہیں۔حضرت سخی سلطان باھوؒ نے یکم جمادی الثانی ۱۱۰۲ھجری شب جمعہ تریسٹھ سال کی عمرمیں داعی اجل کولبیک کہتے ہوئے سفرآخرت فرمایا۔