شاہ ولی اللہؒ کا اندازِ فکر
اسپیشل فیچر
شاہ ولی اللہؒ نے روایتی اسلامی تعلیم اپنے والد شاہ عبدالرحیم کی نگرانی میں حاصل کی۔ شاہ عبدالرحیم نے اپنے فرزند کو مختلف صوفیانہ سلاسل مثلاً نقشبندیہ، قادریہ اور چشتیہ میں بیک وقت بیعت کرایا۔ شاہ ولی اللہؒ نے چاروں سنی مکاتبِ فقہ میں اور یہ جن کتبِ حدیث پر مبنی تھے، ان میں گہری دل چسپی لی۔ اپنے والد کے مرقد پر مراقبے کی عادت نے ان کے اندر غور و فکر کی صلاحیت کو غالب کردیا اور غالباً اِسی عادت کی وجہ سے مسائل تصوف کے ادراک میں بھی ان کے اندر وسعتِ فکر و نظر پیدا ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم سے ان کی علمیت میں توازن و عدل کا احساس پیدا ہونے میں مدد ملی۔ انھوں نے اپنے وقت کے علما اور مشائخ پر اس باب میں کڑی تنقید کی کہ وہ مسلم عوام کو اسلام سے دور لے جارہے ہیں۔ انھوں نے مسلم عوام کی بھی سرزنش کی کہ وہ ایسے رسوم و طریق اختیار کررہے ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں۔اس حقیقت کے باوجود کہ وہ تقلید کو مسترد کرنے کا رجحان رکھتے تھے ۔ انھوں نے ایک مکتب فقہ کی دوسرے مکاتب پر نکتہ چینی کے رجحان کی مذمت کی اور ہمیشہ ان کے اختلافات دور کرنے کی کوشش کی۔ ان کی رائے یہ تھی کہ معتبر اور فاضل فقہا بذریعہ اجتہاد انفرادی فیصلے کیا کریں۔ اجتہاد کے طریقے پر عمل کرنے سے وہ لامحالہ اپنی فقہ میں حائل قانونی پیچیدگی کو رفع کرنے کے لیے دوسرے مکاتبِ فقہ کے نظریات سے بھی استفادہ کریں گے۔ ان کا خیال تھا کہ ہر نسل کے مسلمانوں میں سے تعلیم یافتہ اور فاضل لوگوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وقت کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اجتہاد سے کام لیا کریں۔شاہ ولی اللہؒ چونکہ مختلف سلاسل سے بیعت تھے، لہٰذا وہ محسوس کرتے تھے کہ تمام صوفیانہ سلسلے روحانی طور پر یکساں قدر و قیمت کے حامل ہیں۔ اس تناظر میں وہ خود کو ابن العربی کے تصورِ وحدت الوجود اور شیخ احمد سرہندی کے تصورِ وحدت الشہود کے ماننے والوں کے درمیان ایک ہمدرد اور مخلص ثالث خیال کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ کے نزدیک جہاد شریعت کے لوازم میں سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے راسخ العقیدہ مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ تصوف سے بھی ہم آہنگی اختیار کریں، کیونکہ شریعت اور طریقت ایک ہی حقیقت کے دوپہلو ہیں۔ شریعت خارجی پہلو ہے جس کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد کے تحفظ سے ہے، جب کہ طریقت باطنی پہلو ہے جس کا تعلق نیک اعمال کے ذریعے تطہیرقلب سے ہے۔ مختصر یہ کہ شاہ ولی اللہؒ کا اصل اور بڑا کردار یہ ہے کہ انھوں نے تضادات کو دور کرنے، اور الہٰیات، فقہ اور تصوف کے باہمی اختلافات میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔فارسی زبان میں ان کے ترجمۂ قرآن کو قدامت پسند علما نے مسترد کردیا، اوّل اس وجہ سے کہ ان کے نزدیک ترجمہ اصل عربی متن کے معجزانہ اثر سے خالی ہے۔ دوم اِس وجہ سے کہ دوسرے دانشوروں کو دوسری زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ لیکن ان کے فارسی ترجمے نے ایک ایسی ہیئت روشن کردی، جس کی روشنی میں آگے چل کر ان کی اولاد نے قرآن مجید کا اردو ترجمہ کیا۔شاہ ولی اللہؒ کی شخصیت میں ایک سیاسی رنگ بھی تھا۔انھیں مغلیہ حکومت کی بحالی سے، خصوصاً دہلی میں، بڑی گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے احمد شاہ ابدالی کو متعدد خطوط لکھ کر دعوت دی کہ وہ ہندوستان آئے اور مرہٹوں کو کچل دے، جنھوں نے دارالحکومت دہلی پر پورا کنٹرول حاصل کررکھا ہے۔ احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر حملہ کیا اور مرہٹوں کو کچل کے رکھ دیا، لیکن مغلیہ حکومت کی بحالی کی غرض سے نہیں، بلکہ پنجاب میں اپنے مقبوضات کے تحفظ کے لیے، جو مرہٹوں کے پے بہ پے حملوں کی زد میں تھے۔ احمد شاہ ابدالی نے بے شک مرہٹوں کی طاقت کا دیوالیہ نکال دیا، لیکن اس سے مسلمانوں کو مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے۔ اسی وجہ سے سیاسی بصیرت کے فقدان کے تحت ان پر یہ بھی نکتہ چینی کی جاتی ہے کہ انھوں نے جنگ پلاسی میں مسلمانوں پر انگریزوں کی فتح کو نظرانداز کردیا، جس نے ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار پر بدنصیبی کی مہر ثبت کردی۔ویسے یہ ہے عجیب بات کہ شاہ ولی اللہؒ نے قدامت پسندوں کے ساتھ ساتھ آزاد خیال مسلم مفکرین و مصلحین کو بھی، جو ان کے پیروکار تھے، تحریک دی۔ وہ قدامت پسندوں کے ’’آئیڈیل‘‘ اس لیے تھے کہ ان کا نقطہ نظر اور طریقہ کار بنیادی طور پر روایتی تھا اور وہ راسخ العقیدہ اسلام کے خالص پن پر زور دیتے تھے۔ آزاد خیال مفکرین نے ان کا امیج ’’آزاد خیال سکالر‘‘ کی حیثیت سے ابھارنے، بلکہ دنیائے اسلام میں ’’جدت پسندوں‘‘ کا پیشرو قرار دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ آزاد خیال مفکرین کی تعریف و توصیف کا سبب یہ ہے کہ شاہ ولی اللہؒ نے قدامت پسند علما کی مخالفت اور ناراضی کے باوجود فارسی میں قرآن کا ترجمہ کرنے کی جسارت کا مظاہرہ کیا، ’’تقلید‘‘ کو مسترد کیا اور مسلمانوں کی ہر نسل اور ہر عہد کے لیے حقِ اجتہاد کو تسلیم کیا۔قدامت پسندی کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو شاہ ولی اللہؒ کے اپنے پیرو، مثلاً عسکریت کی راہ اپنانے والے سیّد احمد بریلوی، شاہ اسماعیل شہید، اور دیوبندی علما کی کثیر تعداد، جنھوں نے بعدازاں تحریکِ خلافت میں سرگرمی سے حصہ لیا، یہ سب شاہ ولی اللہؒ سے تحریک و تشویق حاصل کرتے تھے۔ ان کے نزدیک اسلامی ریاست کا سیاسی نظام اس کے قانونی نظام کا جزوِ لاینفک ہے۔ آزاد خیالی کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو سرسیّد احمد خان، مولانا شبلی نعمانی اور علامہ اقبالؒ، اور قدرے کم معروف دانشور، زیادہ تر شاہ ولی اللہؒ کے زیراثر تھے۔اقبالؒ کے نزدیک تو شاہ ولی اللہؒ ہندوستان میں پہلے مسلمان تھے جنھوں نے ’’تغیر‘‘ کی اہمیت کا احساس کیا۔ مولانا شبلی نعمانی نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ شاہ ولی اللہ کا اندازِ فکر روایتی نہیں تھا، حج اللہ البالغہ کا ایک اقتباس اردو میں ترجمہ کیا، جس میں یہ رائے ظاہر کی گئی تھی کہ اسلامی فقہی ’’تعزیرات‘‘ مسلمانوں کی آئندہ نسلوں پر سختی سے نافذ نہیں کرنی چاہئیں۔ شبلی نعمانی کے نقطہ نظر کی تائید میں اقبالؒ نے مذکورہ اقتباس کے اردو ترجمے کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور اپنے ’’خطبات‘‘ میں شامل کرلیا۔ یہ طے کرنا ایک الگ مسئلہ ہے کہ آیا شاہ ولی اللہؒ قدامت پسند تھے یا آزاد خیال۔ ان کا معتدل و متوازن علمی طریقہ ایسا موثر و کارگر تھا کہ اس وقت کے تضادات دور کرنے میں بھی مدد ملی اور الٰہیات، فقہ اور حتیٰ کہ روحانی واردات (تصوف) کی الجھنیں سلجھانے میں بھی مدد ملی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ذات آنے والے ’’قدامت پسند‘‘ اور ’’آزاد خیال‘‘ مصلحین کے لیے سرچشمہ فکر بنی۔