ن م راشد …… ایک غیر روایتی شاعر کہا جاتا ہے کہ وہ ایک انوکھے شاعر تھے
اسپیشل فیچر
جب بھی کسی غیر روایتی اور انوکھے شاعر کی بات ہوتی ہے تو زبان پر ن م راشد کا نام آتا ہے۔ ن م راشد کا اسلوب چاہے وہ غزل ہو یا نظم، نہایت غیر روایتی تھا۔ بعض اوقات تو ان کا کلام پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کیونکہ جو منظر نامہ وہ پیش کرتے ہیں وہ کسی دوسرے شاعر کے ہاں نظر نہیں آتا۔ علاوہ ازیں زبان، محاورہ اور تراکیب کے حوالے سے وہ ایک مختلف شاعر نظر آتے ہیں۔ انہیں ایک مشکل پسند شاعر بھی کہا جاتا ہے بعض اوقات ان کی شاعری فوری طور پر سمجھ نہیں آتی اور قاری کو ان کا کلام سمجھنے میں دیر لگتی ہے۔ اس کے علاوہ موضوعات کا تنوع بھی ملتا ہے۔ وہ جدید طرز احساس کے بہت بڑے شاعر تھے۔ جدید اردو شاعری کے حوالے سے ان کا مقام بہت بلند ہے۔ن م راشد کا پورا نام نذر محمد راشد تھا۔ وہ یکم اگست 1910 کو علی پور چٹھہ کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں انہوں نے تھوڑے عرصے کیلئے رائل انڈین آرمی میں خدمات سر انجام دیں، انہیں کیپٹن کا عہدہ دیا گیا۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ آل انڈیا ریڈیو نیو دہلی اور لکھنؤ میں کام کرتے تھے۔ 1947 میں ان کا تبادلہ پشاور کر دیا گیا۔ یہاں وہ 1953 تک کام کرتے رہے۔ بعد میں وائس آف امریکہ نے ان کی خدمات حاصل کرلیں، اور وہ نیو یارک چلے گئے۔ وہ تھوڑے عرصے کیلئے ایران بھی رہے۔ پھر وہ اقوام متحدہ کیلئے کام کرتے رہے۔ اقوام متحدہ میں نوکری کے دوران انہیں کئی ممالک میں رہنا پڑا۔ انہیں اردو ادب میں جدیدیت کا باپ (Father of Modernism) بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں پاکستانی ادب میں فیض احمد فیض کے ساتھ عظیم ترقی پسند شاعرتسلیم کیا جاتا ہے۔ن م راشد کے موضوعات ظلم کے خلاف جدوجہد سے شروع ہوتے ہیں اوریہ الفاظ اور ان کے معانی کے رشتے کے درمیان سفر کرتے ہیں پھر زبان اور آگہی کے درمیان سفر کرتے ہیں اور پھر ایک تخلیقی عمل معرض وجود میں آتا ہے اور یہ عمل ان کی پوری شاعری میں نظر آتا ہے۔ اپنے غیر روایتی خیالات اور انداز زندگی (Life Style) کی وجہ سے انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔یہ وہ دور تھا جب پاکستانی ادب اور ثقافت کے علمبردار یہ تسلیم کرتے تھے کہ ان کی جڑیں مشرق وسطیٰ میں ہیں قوم کی تاریخ اور نفسیات کی تشکیل کیلئے راشد نے فارسی زبان کا استعمال کیا۔ راشد نے جدید ایرانی شاعری کے مجموعے کی تشکیل کی جس میں نہ صرف ان کے تراجم شامل تھے بلکہ ایک تفصیلی تعارفی مضمون بھی شامل تھا۔ انہوں نے غزل کے روایتی اسلوب کے خلاف بغاوت کی اور اردو ادب میں آزاد نظم کے بڑے ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔ ان کی پہلی کتاب ’’ماورا‘‘ نے آزاد نظم متعارف کرائی۔ تکنیکی لحاظ سے اس میں مکمل شعریت بھی ہے اور نغمگی بھی۔ ان کی آخری دو کتابوں میں ان کے سیاسی خیالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ضیا محی الدین کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب ہر کوئی انگریزی سیکھنے کی جدوجہد کر رہا تھا کیونکہ ایک اچھی نوکری کے حصول کیلئے انگریزی زبان میں مہارت بہت ضروری تھی، راشد اپنی شاعری کو ایک نئی شکل دینے میں مصروف تھے۔ راشد کی شروع کی شاعری پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ جان کیٹس، رابرٹ برائوننگ اور میتھیو آرنلڈ سے بڑے متاثر ہیں کیونکہ انہوں نے بہت سے سانیٹ ان شاعروں کے انداز میں لکھے لیکن بعد میں انہوں نے اپنا اسلوب اپنایا۔ ان کی کتابوں میں ’’ماورا، ایران میں اجنبی، لامساوی انسان، گمان کاممکن اور مقالات‘‘ شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی غزلوں کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔-1 حسرت انتظار یار نہ پوچھہائے وہ شدت انتظار نہ پوچھ-2 حیات شوق کی یہ گرمیاں کہاں ہوتیںخدا کا شکر ہمیں نالۂ رسا نہ ملا-3 تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہادل میں ترے وہ ذوق محبت نہیں رہا-4 ترے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملامگر جو تو نہ ملا زیست کا مزا نہ ملاان کی آزاد نظم افسانۂ شہر کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں شہر کے شہر کا افسانہ، وہ خوش فہم مگر سادہ مسافرکہ جنہیں عشق کی للکار کے رہزن نے کہا:آؤ!دکھلائیں تمہیں ایک درِبستہ کے اسرار کا خوابشہر کے شہر کا افسانہ وہ دل جن کے بیاباں میںکسی قطرۂ گم گشتہ کے ناگاہ لرزنے کی صدا نے یہ کہا:’’آؤ دکھلائیں تمہیں صبح کے ہونٹوں پہ تبسم کا سراب!‘‘ن م راشد نے اعلیٰ درجے کی آزاد نظمیں لکھی ہیں اور ان نظموں میں ان کا فن اوج کمال کو پہنچ گیا۔ 1975 میں لندن کے ایک ہسپتال میں ن م راشد کا انتقال ہوگیا۔ ان کی میت کو جلا دیا گیا۔ حالانکہ ان کی وصیت میں ایسا کچھ نہیں لکھا تھا۔ بہرحال ترقی پسند اردو ادب میں انہیں ایک عظیم شاعر قرار دیا جاتا ہے۔ ٭…٭…٭