بال ٹمپرنگ کے7اہم واقعات ٹنڈولکر اور آتھرٹن پر بھی بال ٹمپرنگ کے الزامات لگے
کرکٹ کی دنیا میںبال ٹمپرنگ کے متعدد واقعات پیش آئے لیکن7زیادہ اہم ہیں ، ان میچزمیں بھارت ،جنوبی افریقہ،آسٹریلیا اور پاکستانی کھلاڑیوں کے نام بھی سامنے آئے ۔ زیادہ تر ٹمپرنگ جنوبی افریقہ کیخلاف ہوئی۔ 1990میں نیوزی لینڈ کے بائولر کرس پرنگل بال ٹمپر کرتے ہوئے پکڑے گئے ،انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا مگر آئی سی سی اور امپائروں نے انہیں کسی قسم کی سزا دینے سے گریز کیا کیونکہ انہوں نے یہ حرکت کراچی میں کھیلے جانے والے میچ میں پاکستان کے خلاف کی تھی۔اس لئے ’’معافی‘‘ تو بنتی تھی۔انہوں نے فیصل آباد میں اپنی زندگی کی بہترین اننگ کھیلی جب صرف 155رنز کے عوض 11وکٹیں لینے میں کامیاب رہے۔پھر انہوں نے خود ہی اعتراف کر لیا کہ وہ گیند کوبوتل کے ڈھکنے سے ٹمپر کرتے رہے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شائد پاکستانی کھلاڑی بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ بال ٹمپرنگ کا دوسرا واقعہ 1994ء میں برطانیہ اور جنوبی افریقہ کے مابین میچ میں سامنے آیا،برطانوی کھلاڑی اپنی ہوم گرائونڈ پر کھیل رہے تھے۔ مگر کپتان مائیکل آتھرٹن کو جیت کی فکر تھی، اسی فکر میں وہ گیند کو مٹی سے گھستے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ ان کی اس حرکت کی درجنوں تصویریں سامنے آگئیں۔ میڈیا نے انکار کے راستے ہی بند کر دئیے۔مگر کپتان آتھرٹن بھی کم نہ تھے ۔بہت شاطر اور چالاک آدمی تھے۔کہنے لگے ۔۔۔’’میں مٹی سے ہاتھ پر لگی نمی ’’پونچھ ‘‘رہا تھا۔ میں جیب میں پرانی مٹی رکھتا ہوں،تاکہ میں ہاتھوں کا پسینہ اور گیند کی نمی دور کر سکوں‘‘۔آئی سی سی کے ریفری رچرڈ برگ نے کوئی ایکشن نہ لیا مگر برطانوی کرکٹ بورڈ نے 2ہزار پائونڈ جرمانے کی سزا سنا دی ۔یہی آتھرٹن اب تجزیہ کار بنے بیٹھے ہیں اور اپنے تجزیوں میں آسٹریلوی ٹیم سے اظہار ہمدردی میں مگن ہیں ۔ خود جو یہ حرکت کر چکے ہیں۔اسی لئے شائد انہیں بال ٹمپر کرنے والوں سے خصوصی لگائو ہے۔وہ کہتے ہیں کہ آسٹریلوی کھلاڑی سمتھ پر لائف ٹائم کی پابندی’’مضحکہ خیز‘‘ ہے ۔ 2000ء میں بال ٹمپرنگ کا الزام پاکستانی فاسٹ بائولر وقار یونس پر لگا۔پاکستان ٹیم سری لنکا کی گرائونڈ پر جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کھیل رہی تھی۔ نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے میچ کے ریفری جان ریڈ نے نہ صرف ان پر آدھی میچ فیس کے برابر جرمانہ عائد کیابلکہ معطل بھی کر دیا۔بقول امپائر وہ ناخنوں سے بال کو کھرچنے کی کوشش کر رہے تھے۔جبکہ وقار یونس نے کہا کہ وہ گیند پر لگا گند صاف کر رہے تھے۔یہی دلیل بھارتی کھلاڑی سچن ٹنڈولکر نے دی تو سب نے مان لی۔لیکن وقار یونس نے دی تو کوئی نہ مانا۔ بال ٹمپرنگ کی ایک اور سنگین حرکت 2001ء میں سچن ٹنڈولکر نے کی۔ بھارتی ٹیم پورٹ الزبتھ کی گرائونڈ میںجنوبی افریقہ کے خلاف میچ کھیل رہی تھی۔ امپائر مائیک ڈینس نے سچن ٹنڈولکر کو بال ٹمپر کرتے ہوئے پکڑ لیا۔ٹی وی کیمروں میں وہ گیند کے اوپر سے کچھ صاف کرتے ہوئے پائے گئے۔امپائر کو بتائے بغیر گیند کے ساتھ کسی قسم کی حرکت کرنا خلاف ضابطہ ہے۔سچن بھی اسی ضابطے کے تحت انہیں ایک میچ سے آئوٹ کرنے کا حکم ملا۔ مگروہ اپیل میں چلے گئے جو آئی سی سی نے منظور کر لی۔ سچن ٹنڈولکر نے دلیل دی کہ وہ بال پر لگی ہوئی گھاس صاف کر رہے تھے۔یہ دلیل آئی سی سی کے دل کو لگی اور امپائر کا فیصلہ واپس ہو گیا۔ بال ٹمپرنگ کا الزام انضمام الحق پر لگا۔ 2006ء میں پاکستانی ٹیم برطانیہ کیخلاف اوول کی گرائونڈ میںمیچ کھیل رہی تھی۔میچ کے آخری روز دو امپائر وں ڈیرل ہیئر اور بلی ڈاکٹروو نے ان پر بال ٹمپرنگ کا الزام لگاتے ہوئے گیند کی تبدیلی اورانضمام الحق کو دو میچوں میں شرکت کرنے سے روک دیا۔دونوں امپائروں نے باہم مشورے سے برطانوی ٹیم کو پانچ رنز عنایت کر دئیے۔اسے امپائروں کا متنازعہ ترین فیصلہ سمجھاجاتا ہے۔ چائے کے وقفے تک میچ جاری رہا،اس دوران ٹیم نے بات چیت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ کپتان نے ٹمپرنگ نہیں کی لہٰذاامپائروں کے غلط فیصلے کے خلاف وہ مزید میچ نہیں کھیلیں گے ۔ اندھیرا پھیل رہا تھا۔امپائر نے 15منٹ انتظار کے بعد برطانوی ٹیم کو فاتح قرار دے دیا۔دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا اور آخری واقعہ ہے جب کسی ٹیم کو اس طرح فاتح قرار دیا گیا۔ انضمام الحق نے آئی سی سی میں اپیل کی جو منظور کر لی گئی اور امپائر کی جانب سے ٹمپرنگ کے فیصلے کو غلط قرار دیا گیا۔مگر ٹیم کی جانب سے میچ نہ کھیلنے کی ذمہ داری انضمام پر ہی ڈالی گئی۔ بال ٹمپرنگ کا ایک اورالزام شاہد آفریدی پر لگا۔ 2010ء میں آسٹریلوی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوئے وہ بال کو دانتوں سے ٹمپر کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ میچ کے آخری روز بال کو دانتوں سے چباتے ہوئے میڈیا پر آنے والی تصویروں نے دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچا دیا۔پاکستان یہ میچ سے ہار گیا۔ بال ٹمپر نہ بھی ہوتی تو کیا تھا ،آفریدی نے پہلے حیرت انگیزدلیل دی۔ کہنے لگے۔۔۔ میں تو بال کی خوشبو سونگھ رہا تھا۔تاہم بعد میں خوشبو ہوا میں اڑ گئی۔اور انہوں نے بال ٹمپرنگ پراظہارافسوس کرتے ہوئے کہا کہ’’ دنیا میں ایک بھی ٹیم ایسی نہیں جو گیند کو ٹمپر نہ کرتی ہو۔مگرمیرا طریقہ غلط تھا۔میں نے میچ جیتنے کے لئے گھبراہٹ میں ایسا کیا مگر مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘۔بال ٹمپرنگ کا ایک اور واقعہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے مابین 2016ء میں کھیلے جانے والے ایک میچ میں سامنے آیا۔ جب جنوبی افریقہ کے کپتان فاف ڈوپلیسی بال ٹمپرنگ کے مرتکب ٹھہرائے گئے۔ ان پر گیند کو شائن کرنے کے لیے mint کے استعمال کا الزام لگا۔ وہ بار بار منہ میں انگلیاں ڈال کر گیند کو شائن کر رہے تھے۔انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے انہیں میچ فیس کے 100فیصد جرمانے کی سزا سنائی۔ غالباً آسٹریلوی کپتان نے شاید اسی میچ کا بدلہ اتارا ہے۔کپتان اگر بال کوٹمپر کرے تو حریف ٹیم کے کپتان کا بھی ’’حق ‘‘توبنتا ہے!اسے کہتے ہیں۔۔۔ کپتان بمقابلہ کپتان۔ اس طرح آسٹریلوی کپتان نے افریقہ کے کپتان کا دو سال پرانا حساب چکتا کر دیا۔یاد رہے جنوبی افریقہ کے کپتان 2013ء میں بھی گیند کو زپ سے گھستے ہوئے پکڑے گئے تھے۔جس پر انہیں جرمانہ بھی ہوا تھا۔٭…٭…٭