غذاؤں کی پہچان اور ان کاانتخاب

غذاؤں کی پہچان اور ان کاانتخاب

اسپیشل فیچر

تحریر : سعیدہ غنی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

تجربات نے یہی سکھایا ہے کہ خریداری آپ کا یا آپ کے کنبے کا ذاتی معاملہ ہے۔ رقم آپ کی، وقت آپ کا۔۔۔ تو پسند کیوں نہ آپ کی ہو! ہمارے ہاں کا دکان دار اکثر صرف اپنا منافع اور مفاد دیکھتا ہے اورگاہک کے فائدے کو مدنظر نہیں رکھتا۔ اس لیے دکان داروں کا دل رکھنے کے لیے ان کی چکنی چپڑی باتوں کا مسکرا کر جواب دیتے رہیں لیکن انتخاب اس چیز کا کریں جسے آپ کی عقل اور آپ کی نگاہ منتخب کرے۔ اس کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ منتخب چیز کی پہچان ہو۔ مختلف اشیائے خوردنی کی پہچان کے نمایاں پہلو یہ ہیں۔ا۔ اناج، دالیں اور ان سے تیار کردہ اشیا: دنیا بھر میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی غذاؤں میں اناج، دالیں اور ان سے بنی ہوئی اشیا شامل ہیں، جو غذائیت اور حرارے حاصل کرنے کا سستا ذریعہ ہیں۔ ثابت دالوں اور اناج کے اچھے دانوں میں ایک خاص قسم کی چمک اور ملائمت کے علاوہ بھینی سی خوشبو بھی موجود ہوتی ہے۔ دانے تقریباً یکساں سائز میں اور اپنی رنگت میں شوخی لیے ہوتے ہیں۔ دانے صاف ستھرے، وزنی اور اندر سے بھرے بھرے محسوس ہوتے ہیںجبکہ جھری دار، بے چمک اور بد رنگ قسم کے دانے اچھی کوالٹی کے نہیں ہوتے۔ اگر دانے اندر سے کھوکھلے، سوراخ دار اور سیاہی مائل ہوں تو یہ کیڑا لگنے کی علامت ہے۔ بعض اوقات دانوں کے گچھے بھی دکھائی دیتے ہیں جو جالے کی علامت ہے، انہیں ہرگز نہ خریدیں۔ ہر قسم کا آٹا بالکل خشک ہونا چاہیے جو پھونک یا ہوا سے فوراً اڑنے لگے۔ عمدہ آٹے کا رنگ شفاف اور ذرہ ذرہ الگ ہوتا ہے۔ جبکہ نم دار، بھاری، جالی دار آٹا اس کے خراب ہونے کی علامت ہے۔ اکثر آٹے میں سسری اور باریک سی سنڈی بھی پڑ جاتی ہے، جس سے نہ صرف آٹے کی رنگت اور بو بلکہ ذائقہ بھی خراب ہو جاتا ہے۔ غذائیت کے اعتبار سے ایسا آٹا نقصان دہ ہے۔ مختلف اناجوں اور میدوں، خصوصاً آٹے کے میدے سے بیکری اور مٹھائیوں کی بہت سی میٹھی اور نمکین چیزیں بنتی ہیں۔ یہ نان، بن اور ڈبل روٹی میں استعمال ہوتا ہے جو تقریباً روزانہ کی خوراک میں شامل ہوتے ہیں۔ ڈبل روٹی اور بن میں مختلف ذائقے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ اگر ایسی چیزیں پیکٹ میں بند ہوں تو ان پر تاریخ دیکھ لینا ضروری ہے۔ کھلی ڈبل روٹی اور بن وغیرہ کی سطح پر اگر کہیں سفید دھبے یا نیلاہٹ سی دکھائی دے تو یہ مت خریدیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کو پھپھوندی لگ چکی ہے۔ اس کے علاوہ سخت سطح اور اکڑاہٹ بھی باسی ہونے کی علامت ہے۔ ۲۔ سبزیاں اور پھل: مختلف سبزیاں اور پھل استعمال کے لحاظ سے دوسرا بڑا گروپ ہے جنہیں کچی یا پکی حالت میں روزانہ خوراک میں ایک آدھ مرتبہ ضرور شامل کیا جاتا ہے۔ خوراک کا یہ گروپ ہمیں وٹامن، نمکیات اور شکر جیسی نعمتیں مہیا کرتا ہے۔ لیکن گلے سڑے اور باسی پھل اور سبزیاں کھا لینے سے یہی نعمت ہمارے لیے پیٹ کی مختلف بیماریوں مثلاً دست، پیچش، اسہال وغیرہ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ایسی سبزیوں اور پھلوں کی پہچان کے چند طریقے یہ ہیں۔تازہ سبزیوں اور پھلوں کی رنگت میں شوخی، تازگی اور چمک ہوتی ہے۔ یہ اپنی وضع کو برقرار رکھے ہوتے ہیں۔ ان کی سطح ملائم یا چمک دار ہوتی ہے۔ چھلکے پتلے، خستہ اور رسیلے ہوتے ہیں۔ نرم جھری دار اور بے چمک چھلکے ان کے باسی ہونے کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہردانہ خواہ چھوٹا ہو، رس سے بھرا ہونے کی وجہ سے وزنی ہوتا ہے۔ دانہ بڑا ہو مگر ہلکا ہو تو بے رس اور پھوکا ہوتا ہے۔ تازہ اور اچھا پھل، اور سبزی بے داغ ہوتے ہیں۔ اگر چھوٹے چھوٹے کالے داغ یا نرم نرم بھورے دھبے ہوں تو یہ پھل میں کیڑا لگنے اور گلنے کی علامت ہے۔ پتوں والی سبزیوں اور پھلوں کے پتے بھی ان کی تازگی کی ایک بڑی علامت ہوتے ہیں۔ تازہ پتے رسیلے، کرارے اور کھڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ مرجھائے ہوئے، بے چمک اور ڈھیلے لٹکتے ہوئے پتے (ساگ اور پالک وغیرہ کے) پرانے ہونے کی علامت ہیں۔ پانی لگے پتوں کے کنارے بے رنگ ہو جاتے ہیں۔ ۳۔ گوشت: گوشت تروتازہ اور صاف ستھرا ہو تو اس کی اپنی تازہ سی مخصوص خوشبو ہوتی ہے۔ تازہ گوشت کے ریشے کھڑے مگر مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوتے ہیںاور دیکھنے اور چھونے میں رس دار لگتے ہیں۔ صحت مند اور تازہ گوشت پر سرکاری محکمہ کی مہر ہوتی ہے۔ چھوٹے جانور کا گوشت بہتر ہوتا ہے جس کی پہچان کے لیے ریشے، رنگت اور نرمی دیکھی جاتی ہے۔ بڑے جانور کے ریشے سخت اور قدرے اکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور رنگ بھی قدرے بھورا یا سیاہی مائل ہوتا ہے۔ گوشت اگر بکرے کا ہو تو اس کی رنگت گلابی مائل سرخ اور سطح مخملی ہوتی ہے۔ اس کی ہڈی چھوٹی ہوتی ہے۔چربی کا رنگ زردی مائل ہوتا ہے۔ گائے یا بھینس کا گوشت قدرے سرخی مائل ہوتا ہے۔ ریشہ بکرے کے گوشت سے موٹا اور ہڈی موٹی ہوتی ہے۔ لیکن چربی سفید اور سطح مخملی ہوتی ہے۔ تازہ مرغی کے گوشت کے ریشے نہایت باریک اور رنگ سفیدی مائل گلابی ہوتا ہے۔ سینہ گوشت سے بھرا ہوتا ہے۔ تازہ مچھلی کی آنکھیں چمکیلی، صاف ستھری اور باہر کو ابھری ہوتی ہیں۔ اس کے گلپھڑے سرخی مائل اور صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
سپارٹا جہاں ہر شہری کیلئے فوجی تربیت لازم تھی

سپارٹا جہاں ہر شہری کیلئے فوجی تربیت لازم تھی

پہلی یونانی تہذیب کا سراغ تاریخ کی کتابوں میں 2200قبل مسیح کے آس پاس بحیرہ روم کے جزیرہ کریٹ میں ملتا ہے۔ اس تہذیب کو ''مینو تہذیب‘‘ کے نام سے شہرت حاصل تھی ، جو مینو نامی ایک حکمران کے نام سے منسوب ہے۔ منوین افراد کاشتکاری اور ماہی گیری کے پیشوں سے وابستہ تھے جبکہ جن حکمرانوں کی یہ رعایا تھے ان کا شغل عالیشان محلات کی تعمیر اور شان و شوکت سے زندگی گزارنا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں اسی دور کے '' شاہ مینوس محل‘‘ نامی ایک محل کا ذکر ملتا ہے جو اپنے دور کے فن تعمیر کا ایک نادر شاہکار تھا۔ یہ تہذیب لگ بھگ سات سو سال تک جاری رہی، اس کے بعد اس تہذیب بارے تاریخ کی کتابیں خاموش ہیں۔ اس کے بعد 1500 قبل مسیح کے آس پاس ایک قدیم شہر'' میسینی‘‘ کے آثار ملتے ہیں۔ ''میسینیئن‘‘لوگ پچھلی تہذیب '' مینوئیوں‘‘ سے کئی گنا مالدار اور جنگجو ہو گزرے ہیں۔ ان کے سلاطین نے بھی نہ صرف عالیشان محلات تعمیر کرائے بلکہ ان کی قبروں سے سونے اور جواہرات کے آثار بھی ملے۔میسینئین پیدائشی جنگجو تھے اس لئے یہ ہر وقت ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے بلکہ دور دراز علاقوں میں جا کر جنگوں کیلئے بھی مشہور تھے۔ یونانی نسل نے اپنے اسلاف سے ملنے والے ورثے کو تعمیری سوچ میں ڈھالنے کا عزم کیا۔ایک مرتبہ پھر یونان میں شہری ریاستوں کا رواج عام ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ یہاں کی ریاستیں سکڑنا شروع ہوئیں اور 500قبل مسیح کے آس پاس یونان صرف دو بڑی ریاستوں سپارٹا اور ایتھنز تک محدود ہو گیا۔ایتھنز کے لوگ ترقی پسند اور جمہوری سوچ کے مالک تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سپارٹا کے لوگ فطرتاً جنگجوانہ فطرت کے مالک تھے ان کے پاس ایک تربیت یافتہ فوج اور خفیہ نیٹ ورک کا نظام تھا۔ سپارٹا شہر پیلوپونیس کے جنوبی ساحل سے لگ بھگ 38 کلومیٹر دورواقع ہے۔ سپارٹا ایک قدیم شہر تھا جسے ڈورین نسل کے لوگوں نے 1000 قبل مسیح میں آباد کیا تھا۔ اس شہر میں ڈورین نسل کے علاوہ دوسروں کا داخلہ ممنوع ہوا کرتا تھا۔سپارٹا کے لوگ قدامت پرست تھے لیکن اس کے باوجود بھی سپارٹا کا ہر شہری ریاست کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا جو ریاست کے ہر حکم کا پابند ہوتا تھا۔ہر شہری فوج کا حصہ تصور ہوتا تھا اور ہر شہری کو لازماً فوجی تربیت کے مرحلے سے گزرنا ہوتا تھا۔ ریاست کے ہر بچے کو سات سال کی عمر کے بعد ماوں سے جدا کر کے بیس سال کی عمر تک ریاستی تربیت گاہ میں گزارنے ہوتے تھے۔اس دوران انہیں ماہر فوجی انسٹرکٹر جنگی تربیت کے ساتھ ساتھ دوڑنا ، کشتی لڑنا ، تیر اندازی سمیت مختلف ورزشوں کے ذریعے سخت جان اور ایک اچھا سپاہی بننا سکھاتے تھے۔شادی کے بعد انہیں گھر پر رہنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی بلکہ تربیت گاہ میں رہ کر انہیں دوسروں کو تربیت دینا ہوتی تھی۔ لڑکیوں کوبھی شادی کے مرحلے تک ایسے ہی مراحل سے گزرنا ہوتا تھا۔ انہیں مستقبل کی ماؤں کی حیثیت سے بہادر ، نڈر اور سخت جان بنایا جاتا تھا تاکہ مستقبل میں یہ بہادر مائیں بن سکیں۔ سپارٹائی حکمرانوں کا یہ نظریہ تھا کہ اگر عورت بحیثیت ماں بہادر اور نڈر ہو گی تو اگلی نسل بھی بہادر ہو گی۔ 700 قبل مسیح سے 300 قبل مسیح کے دور میں سپارٹائی فوج کی تنظیم اور تربیت پوری دنیا میں عروج پر تھی۔یہاں کے سخت جان اور بہترین نشانے باز مسلح پیدل سپاہیوں کو ''ہوپلائیٹ‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ یہ '' ہوپلون ‘‘ نامی مخصوص دھاتی ڈھال پہن کر میدان میں اترا کرتے تھے۔سپارٹا فوجیوں کی پہچان یہی بھاری بھر کم ڈھال ہوا کرتی تھی جسے دوران جنگ یہ اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی سے لے کر کلائی تک پہنا کرتے تھے۔ اس ڈھال کو زیادہ دیر تک اٹھائے رکھنا ایک مشکل کام ہوتا تھا۔اس لئے جنگ جیتنے کی صورت میں یہ اسے میدان میں خوشی سے اچھال کر پھینک دیا کرتے تھے اور شکست کی صورت میں اس کی لاش کو اس کے اوپر رکھ کر اس کے گھر بھجوایا جاتا تھا۔سپارٹا کے عسکری علاقوں میں اپنی ڈھال کو سنبھال کر رکھنے کا مطلب بہادری اور وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ تبھی تو روایات میں آیا ہے کہ سپارٹائی ماں اپنے گھر کے مردوں کو جنگ کیلئے روانہ کرنے سے پہلے ڈھال ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں ''اس ڈھال کی لاج رکھنا، ڈھال پہن کر ہی زندہ واپس آنا ورنہ واپسی پر اپنی لاش کو ہی اس ڈھال پر رکھوا کر لانا‘‘۔ تنظیمی ڈھانچہ : قدیم یونانی جب اس سرزمین پر آکر آباد ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے چھوٹی چھوٹی بستیاں بنائیں۔ جنہیں یہ ''پولیس‘‘ کہتے، یہ دراصل ان کی ریاستیں تھیں۔ان شہریوں کی زبان اگرچہ ایک تھی لیکن ان کے اندر سیاسی اتحاد اور نظم و نسق کا فقدان تھا جس کی وجہ سے یہ ہر وقت باہم دست و گریباں رہتی تھیں۔ یہاں کی ہر ریاست کے باشندے اپنے آپ کو آزاد تصور کرتے تھے ۔سپارٹا کے حکومتی ڈھانچے میں بیک وقت دو حکمران اور پانچ نمائندے ہوتے تھے جنہیں ''ایفورز‘‘ کہا جاتا تھا۔ ایفورز کا انتخاب باقاعدہ طور پر اسمبلی میں حق رائے دہی کے ذریعے کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ ایفورز اور حکمرانوں کے باہمی مشورے سے 28 ممبران پر مشتمل ایک کونسل ہوا کرتی تھی جو ریاستی امور کو نمٹانے میں مرکزی کردار ادا کرتی تھی۔ ایفورز چونکہ عوام کی طاقت کے نمائندے تصور ہوتے تھے اس لئے ریاست کے حکومتی فیصلوں میں ان کا کردار اہم ہوتا تھا۔ جب ان کی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی وہ کسی ایک ایفور کی سربراہی میں روانہ ہوتی تھی جسے مکمل اختیارات حاصل ہوتے تھے۔ سپارٹا کا خاتمہ : طاقت کے نشے میں بدمست سپارٹا نے سب سے پہلے لیکونیا کو فتح کیا اس کے بعد 730 قبل مسیح میں میسنیا فتح کیا۔یہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنایا جنہیں ''ہیلاٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ سپارٹا نے اپنے سب سے بڑے اور پرانے حریف ایتھنز کے ساتھ نوک جھونک جاری رکھی ہوئی تھی بالآخر404 قبل مسیح میں اس نے باقاعدہ چڑھائی کرکے ایتھنز کو شکست سے دوچار کیا۔ ایتھنز ، سپارٹا اور دیگر یونانی ریاستیں آپس میں ایک عرصہ تک دست و گریباں رہ کر اپنی طاقت تیزی سے کھوتی چلی گئیں۔سپارٹا کی قوت کچھ عرصہ قائم لیکن 379 قبل مسیح میں لیوکڑا کی لڑائی میں تھیبز سے شکست کے بعد بالکل ختم ہو گئی ، خود تھیبز بھی اپنی طاقت کھو بیٹھا اور یوں سپارٹا سمیت ایک ایک کرکے یونانی ریاستوں کا شیرازہ بکھر گیا۔بعد ازاں 338قبل مسیح سکندر اعظم کا باپ اور مقدونیہ کا بادشاہ فلپ بچے کھچے یونان پر قابض ہو گیا۔       

سوء ادب:واپسی

سوء ادب:واپسی

ایک سیٹھ کے ہاں ڈاکا پڑا ، جب انہیں گھر سے کچھ نہ ملا تو انہوں نے اس کی موٹی بیوی کو اٹھا کر گاڑی میں لادا اوریہ کہہ کر چلے گئے کہ اگر کل شام تک دو لاکھ روپے ادا نہ کیے گئے تو ہم تمہاری بیوی کو واپس چھوڑ جائیں گے۔پندہ ہرن دی چوکڑییہ ہمارے بہت عزیز دوست ، پنجابی اور اردو کے نام ور شاعر عامر سہیل کی صدارتی ایوارڈ یافتہ کتاب ہے جسے پرنٹ میڈیا پبلیکیشنز رائل سنٹر، 12 ایبٹ روڈ نے شائع کیا ہے۔''چڑھاوا‘‘ کے نام سے انتساب ہے جو شفقت اللہ مشتاق (سیکرٹری ٹیکسز ریوینیو، ڈاکٹر ہارون اشرف ، پروفیسر افضل اعوان ) (ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز اور پروفیسر سید اسد عباس زیدی کے نام ہے ) ۔پسِ سرورق مصنف کی تصویر کے ساتھ عطاالحق قاسمی کی رائے درج ہے جو کچھ اس طرح سے ہے : ''عامر سہیل نال تعلق ہون دے ہور کئی سارے کارناں چوں اک وڈاکارن اوہدی سوہنی تے دلاں چے نقش ہو جان والی شاعری ہے۔ میں جدوں وی اوہنوں پڑھیایاں سُنیا اوہدیاں نظماں تے غزلاں دے شعراں نے مینوں سرشار کر دتا اے۔ عامر سہیل اک وڈا شاعر ہے، اوہدیاں غزلاں دے شعر باغاں چے کھڑے سجرے پھلاں طراں دور دور تک مہکاں ماردے وکھالی دیندے نیں۔ مجتیاں دے خوبصورت رنگاں چے رنگیاں اوہدایاں نظماں چے راتاں دے جگراتے عمراں دے اُچے نیویں پندھ صاف صاف وکھالی دیندے نیں۔ اردو شاعری وچ پاکستان دے گنتی دے وڈے شاعراں چے اپنی تھاں بنان والے عامر سہیل دے اندر دا درویش شاعر اوہدی ایس پنجابی شاعری دی کتاب ''پندھ ہرن دی جوکڑی‘‘ چے چڑھدے سورج دیاں لشکاں وانگر نظر آندا ہے۔ ایہدے چے کوئی دوجی رائے نہیں کہ عامر سہیل اک مہان شاعر ہے تے اوہدی ایہ کتاب پنجابی ادب چے ہمیش یاد رکھی جاوے گی۔اس کے علاوہ بھارتی پنجاب سے امرت پال سنگھ شیدا کی رائے ہے جو اندرون پسِ سرورق درج کی گئی ہے۔ دیباچہ صغیر تبسم نے لکھا ہے ۔نظموں کی کل تعداد 79 ہے تزئین و تریب اور ٹائٹل نسیم گلفام نے بنایا ہے جبکہ کتاب کی قیمت 600 روپے ہے ۔ اردو شاعری میں دھومیں مچانے کے بعد پروفیسر عامر سہیل کا یہ پہلا پنجابی مجموعہ ہے جس نے ادبی ہلکوں میں خاصی ہل چل پیدا کر رکھی ہے ۔اور اب آخر میں اسی مجموعہ میں سے یہ نظم !نظم ننکانہ صاحب جسم دا دوجا نام فقیری کیہ لالچ ، کیہ کھیڈ لانگھا جانے ، نانک جانے رت دے سو سو شیڈکنج کجل دی دھار گواچی روندے روز بلیڈ رُوحاں وچ سرطان اساڈے بُو ہے نال پریڈآج کا قطعہرے ہنیرے اُگ پئے اکھاں دے اندر ، ظفرکْھلّی گنڈھ گیان دی آئی گل اخیر تے    

رمضان کے پکوان:کھٹے گلگلے

رمضان کے پکوان:کھٹے گلگلے

اجزا ء:بیسن آدھاکلو ،میدہ دوکھانے کے چمچ،زیرہ ایک چائے کا چمچ،نمک آدھاچائے کا چمچ،سرخ مرچ آدھاچائے کا چمچ ، بیکنگ پائوڈر آدھا چائے کا چمچ ،پانی حسب ضرورت ۔ کھٹائی بنانے کیلئے اشیاء : چینی4کھانے کے چمچ ،نمک ایک کھانے کا چمچ ،سرخ مرچ آدھا کھانے کا چمچ، چاٹ مصالحہ ایک کھانے کا چمچ،ٹماٹو کیچپ آدھا چائے کا کپ ،زیرہ ایک کھانے کا چمچ (پسا ہوا)،کوکنگ آئل حسب ضرورت (ڈیپ فرائی)ترکیب : سب سے پہلے املی کو چینی اور دوگلاس پانی ڈال کر پین میں چولہے پر ہلکی آنچ پر رکھیں اور 20منٹ کے بعد اتار کر ٹھنڈا ہونے دیں۔ بعد میں اس املی کو ہاتھ سے مسل کر گودا الگ کرلیں اور چھان لیں اس طرح کھٹا الگ ہو جائے گا۔ اب اس کھٹے میں نمک، سرخ مرچ، کیچپ ،زیرہ اور چارٹ مصالحہ ڈال دیں اور ان کو چمچ سے ملا لیں۔ دوتین آئس کیوب بھی ڈال دیں۔ اب بیسن میں میدہ، نمک، سرخ مرچ، زیرہ اور بیکنگ پائوڈر ڈال کر ان کو مکس کرلیں اور اب پانی سے اس کو گھول لیں۔ پانی اس حساب سے ڈالیں کہ بیسن ذرا گاڑھا گاڑھا ہی رہے زیادہ پتلا نہ ہو جائے۔ ایک کڑاہی لیں ۔ اس میںکو کنگ آئل ڈیپ فرائی کرنے کے لیے رکھ دیں۔ جب آئل گرم ہوجائے تو اس آمیزہ کو چمچ کی مددسے چھوٹے چھوٹے گولے کی طرح ڈالیں ۔ جب سارے گولے ہلکے برائون ہوجائیں تو ان کو گرم گرم نکال کر تیار شدہ کھٹے والے پانی میں ڈال دیں اور اوپر سے چاٹ مصالحہ چھڑک دیں اور پیش کریں۔ ہاٹ چکن سلاد اجزاء : مرغی 4کپ (ابلی ہوئی چھوٹے چوکور ٹکڑوں میں کٹی ہوئی)،کریم آف چکن سوپ 2کپ ،مایونیز 4کپ ،سفید بٹن شروم 1کپ (باریک کٹے ہوئے )،دھنیا ایک گڈی (باریک کٹا ہوا)،آلو کے چپس 1کپ (کچلے ہوئے )،چیڈرچیز 1کپ (کدوکش کی ہوئی)،کوکنگ آئلمایونیز بنانے کی ترکیب : 10عدد انڈوں کی زردی کو اچھی طرح پھینٹ لیں اس میں دوکھانے کے چمچ فرنچ مسٹرڈ اور سرکہ ایک کھانے کا چمچ ملادیں، اس میں 250گرام کوکنگ آئل تھوڑا تھوڑا کرکے شامل کریں اور پھینٹتی جائیں جب تک یہ مایونیز مکمل نہ بن جائے۔ کریم آف چکن سوپ بنانے کی ترکیب :ایک دیگچی میں کھانے کا ایک چمچہ کوکنگ آئل ڈالیں ساتھ ہی ایک چائے کا چمچ میدہ ڈال دیں اسے ہلکی آگ پر 2منٹ پکائیں پھر چولہے سے اتار کر اس میں ایک عدد مرغی کی یخنی ملادیں اور اس وقت تک پکائیں جب تک گاڑھا نہ ہوجائے۔ اب چولہے سے اتار کر اس میں تازہ کریم دو کپ ڈال دیں اور ملالیں کریم آف چکن سوپ تیار ہے۔ سلاد بنانے کی ترکیب :ایک پیالے میں مرغی کے ٹکڑے ، کریم آف چکن سوپ، مایونیز، سفید بٹن مشروم اور دھنیا باریک کٹا ہواسب ملا کر اچھی طرح سے یک جان کرلیں، ایک بیکنگ ڈش لے کر اس کو ہلکا سا چکنا کریں، اس مکسچر کو اس ڈش میں ڈالیں۔ ڈش میں آمیزے کو پھیلا کر اوپر سے پنیر اور چھڑک دیں۔ 20منٹ تک 350ڈگری یا بہت تیز گرم اوون میں بیک کریں اس سلاد کو 20منٹ بعد گرم گرم پیش کریں۔  

حکایت سعدیؒ :سکون اور خوشی

حکایت سعدیؒ :سکون اور خوشی

ایک بادشاہ کی جب عمر ختم ہونے پر آئی تو اس وقت اس کا کوئی قائم مقام یا جانشین موجود نہیں تھا۔ اس لیے اس بادشاہ نے وصیت کی کہ صبح کو شہر میں جو شخص پہلے داخل ہو اسی کے سر پر شاہی تاج رکھ کر اسے بادشاہ بنا لینا۔اتفاقاً اس صبح سب سے پہلے ایک فقیر شہر میں وارد ہوا۔ اس نے تو عمر بھر ایک لقمہ بھی جمع نہیں کیا تھا اور وہ اپنے لباس میں پیوند پر پیوند لگاتا جاتا تھا۔بہرصورت امرا اور حکومت کے اہلکاروں نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق عمل کیا اور خزانوں کی کنجیاں فقیر کے سپرد کر دیں۔ اس فقیر نے کچھ عرصہ بادشاہت کی لیکن امرا نے اس فقیر بادشاہ کی اطاعت سے منہ پھیر لیا تھا۔ یہی نہیں ہر طرف کئی سلاطین اور حکمران لڑنے جھگڑنے لگے تھے۔ اس کے علاوہ فوج اور رعیت بغاوت پر اتر آئے تھے اور چند شہروں کے کچھ حصے بادشاہ کے قبضے سے نکل گئے تھے۔اس ساری صورت حال میں وہ فقیر بادشاہ بڑا متفکر تھا اور حالت تشویش میں بھی تھا کہ اس کا ایک پرانا دوست اس سے آ کر ملا۔ وہ کبھی فقیری کے دور میں اس کے ساتھ تھا۔ اس نے اب جو اپنے دوست کا یہ مرتبہ دیکھا تو کہا کہ خدائے عزوجل نے تجھے یہ درجہ عطا کیا ہے اور تیرا نصیب بلند کیا ہے کہ تیرا پھول کانٹے سے نکل چکا ہے اور تیرا کانٹا تیرے پاؤں سے نکل چکا ہے۔اس پر اس فقیر بادشاہ نے دوست سے کہا اے عزیز! یہ مبارک باد دینے کا وقت اور موقع نہیں بلکہ میرے ساتھ مقام تعزیت ہے کہ جب تو نے مجھے پہلے دیکھا تھا اس وقت مجھے صرف روٹی کی فکر تھی، آج پورے جہان کی فکر ہے۔اس حکایت کا مقصود یہ ہے کہ مال و دولت حقیقی سکون اور خوشی کا موجب نہیں ہو سکتے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ اگر اختیار، جاگیر یا سرمایہ قبضے میں آ جائے تو زندگی آسان ہو جائے گی۔

آج کا دن

آج کا دن

برطانیہ میں برقی ٹرین متعارف ہوئی1904ء میں برطانیہ میں برقی ٹرین کا آغا ز کیا گیا ۔ برقی ٹرین اس سے قبل بھی برطانیہ میں موجود تھی لیکن اس میںکئی قسم کی تکنیکی خامیاں موجود تھیں۔ ابتدا میں ٹرین لیورپول سے ساؤتھ پورٹ کے درمیان چلائی گئی۔ پہلے سے موجود ٹرینوں میں خا میاں دور کرنے کے بعد 12مارچ 1904ء کو باقاعدہ طور پر برقی ٹرین کا افتتاح کیا گیا۔ یہ برقی ٹرین ہر قسم کے تکنیکی مراحل سے گزر کر قابل استعمال بنی تھی۔ماسکو،روس کا دارالحکومت بناماسکو کو 1918ء میں دوبارہ روس کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ ماسکو کا شمار دنیا کے بڑے آبادی اوررقبے والے شہروں میں ہوتا ہے ۔ ماسکو شہر کا رقبہ2ہزار 561 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ25لاکھ کے قریب ہے۔ 18ویں صدی کے شروع میں ماسکو کی جگہ پیٹس برگ کوروس کا دارالحکومت بنایا گیا تھا۔جرمنی نے آسٹریا پر حملہ کیا1938ء میں جرمنی نے آسٹریا پر گریٹر جرمنی کے تحت حملہ کیا۔ آسٹریا میں ایک ریفرنڈم کروایا جا نا تھا جس میں عوام نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا وہ جرمنی کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا ایک الگ ملک کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں۔ ریفرنڈم سے صرف ایک دن قبل جرمن افواج بارڈر کراس کرتی ہوئی آسٹریا میں داخل ہو گئیں ۔ اس موقع پر آسٹریا کی افواج نے جرمن افواج کو بغیر کسی مزاحمت کے آسٹریا میں داخل ہونے دیا۔ماریشس کا یوم آزادی1968ء میں آج کے دن ماریشس نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ ماریشس ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ 2ہزار40 مربع کلومیٹر ہے۔ ماریشس کو دنیا میں ایک اہم سیاحتی مقام سمجھا جاتا ہے اور دنیا بھر سے سیاح ہر سال لاکھوں کی تعداد میں اپنی چھٹیاں خوشگوار بنانے کیلئے ماریشس کا رخ کرتے ہیں۔ماریشس کا دارالحکومت پورٹ لوئس ہے جہاںاس کی زیادہ آبادی موجود ہے۔   

دنیا کی خوبصورت مساجد

دنیا کی خوبصورت مساجد

الفاتح مسجد( بحرین)بحرین کے دارالحکومت منامہ میں واقع الفاتح مسجد کا شمار دنیا کی انتہائی خوبصورت اور چند بڑی مساجد میں ہوتا ہے، مسجد کی لمبائی 330 فٹ اور چوڑائی246فٹ ہے۔ اس طرح اس کا کل رقبہ81180مربع فٹ ہے۔ اس میں 7ہزارنمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ پورے بحرین میں یہ سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ منامہ کے جنوب مشرق میں شاہ فیصل ہائی وے کے پاس جفیر ٹائون میں یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کا مرکزی گنبد فائبر گلاس کا بنا ہوا ہے۔ اس کا وزن 60فٹن (60ہزارکلو گرام)ہے۔ گنبد کا قطر 79 ہزارفٹ ہے۔ اس وقت فائبر گلاس سے بنایا گیا یہ گنبد دنیا کا سب سے بڑا گنبد ہے۔ مسجد کے فرش میں لگا ہوا سنگ مر مر اٹلی سے منگو ایا گیا جبکہ ہال کے اندر گنبد کے نیچے لٹکا ہوا شاندار فانونس آسٹریا سے درآمد کیا گیا ہے۔ مسد کے دروازے ساگوان کی قیمتی لکڑی سے تیار کئے گئے ہیں جو بھارت سے منگوائی گئی تھی۔ مسجدکے مرکزی ہال میں قرآنی آیات خطِ کوفی میں لکھی ہوئی ہیں۔یہ مسجد بحرین کے سابق حکمران شیخ عیسیٰ بن سلمان الخلیفہ نے 1987ء میں تعمیر کروائی اور بحرین کے فاتح احمد الفاتح کے نام سے سا کو موسوم کیا۔ مسجد سے ملحق بہت بڑی نیشنل لائبریری بنائی گئی ہے۔ اس مسجد کے دومینار ہیں۔جامع الازہر، قاہرہ(مصر)یہ مسجد قاہرہ کے مرکزی چوک الحسین سکوائر میں واقع ہے۔ اس مسجد کی تعمیر970ء میں شروع ہوئی اور دو سال بعد میں یہ مکمل ہوئی۔ اس طرح یہ مسجد 1055 سال پرانی ہے۔ خلفائے راشد کے دور میں 642ء میں جب مسلمانوں کے نامور جرنیل حضرت عمر و بن العاصؓ نے رومیوں کو شکست دی تو فسطاط( قدیم قاہرہ) میں ایک مسجد تعمیر کی تھی، جو جامع عمرو بن العاض ؓ کہلاتی ہے۔ جب970ء میں فاطمی سلطنت کا نیا دارالخلافہ قاہرہ آباد ہوا تو فاطمی سپہ سالار جو ہر الصقلی نے خلیفہ المعزلدین اللہ کے حکم کی تعمیل میں جامع الازہر کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد دنیا کی ایک اوّلین یونیورسٹی جامعہ الازہر کا مرکزی مقام تھی۔پہلے پہل اس مسجد کا نام جامع المنصور رکھا گیا جو تیسرے فاطمی خلیفہ اسماعیل المنصور (المعز کے والد) کے نام پر تھی۔ اس کا نام حضرت فاطمۃ الزہراؓکے نام سے منسوب کر کے جامع الازہر رکھ دیا گیا اور آج تک یہ مسجد اسی نام سے مشہور ہے۔جامع الازہر کا رقبہ 84000مربع فٹ ہے اور اس میں 20ہزار نمازی ایک ہی وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔مسجد کے پانچ مینار ہیں مسجد کا صحن 275فٹ طویل اور 112فٹ چوڑا سفید مر مر کے درجنوں ستون بنائے گئے ہیں۔ اس کے علماء ہمیشہ حکومت وقت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔