مجید امجد کے ابتدائی حالات زندگی
اسپیشل فیچر
اپنے بیان کے مطابق مجید امجد 29 جون 1914ء کو جھنگ مگھیانہ میں پیدا ہوئے۔ (جھنگ دو حصوں پر مشتمل ہے: جھنگ شہر، جو پرانا شہر ہے اور جھنگ صدر جو نسبتاً نیا ہے۔ پہلے جھنگ صدر، کو جھنگ مگھیانہ کہا جاتا تھا) والد کا نام علی محمد تھا۔ وہ ڈسٹرکٹ بورڈ میں نائب قاصد تھے۔ ان کا نام عبدالمجید رکھا گیا۔ دو ڈھائی برس کے تھے کہ ان کے والد نے دوسری شادی کر لی۔ ناقابل رشک معاشی حیثیت اور پہلوٹھی کی اولاد نرینہ ہونے کے باوجود، علی محمد نے دوسری شادی کیوں کی، یہ راز اب تک پردۂ اخفا میں ہے۔ تاہم یہ حقیقت بہرحال عیاں ہے کہ اپنے والد کی دوسری شادی نے مجید امجد کی زندگی پر گہرے اور بعض صورتوں میں فیصلہ کن اثرات ڈالے۔مجید امجد کی والدہ نے اپنے شوہر کی دوسری شادی کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ دو ڈھائی سالہ عبدالمجید کو اپنی گود میں لے کر اپنے میکے آ گئیں، کبھی واپس نہ جانے کا مصمم ارادہ باندھے! حقیقت یہ ہے کہ اس انکار نے ہی عبدالمجید کو مجید امجد بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مجید امجد باپ کی محبت سے ضرور محروم ہوئے، مگر دوسری طرف اپنی ماں کی غیر منقسم محبت کے بلا شرکت غیرے مستحق ٹھہرے۔ کیا ماں کی غیر منقسم محبت، باپ کی محبت سے محرومی کا مداوا بن سکی؟ مجید امجد کی شخصیت کے مطالعے میں یہ ایک اہم سوال ہے۔ غالباً نہیں بن سکی۔ چنانچہ مجید امجد عمر بھر ماں کی محبت سے حد درجہ مغلوب رہے۔ تعلق اور شادی کے معاملے میں مجید امجد ماں کی طرح ہی ثابت قدم رہے! نہ مجید امجد کی والدہ نے دوسری شادی کی اور نہ مجید امجد نے! اور جب بھی انہیں دوسری شادی کے لیے کسی نے قائل کرنے کی کوشش کی تو وہ یہ کہہ کر انکار کر دیتے کہ جس دکھ سے ان کی والدہ گزری ہے، وہ گوارا نہیں کرتے کہ ان کی بیوی بھی اس دکھ سے گزرے!مجید امجد کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ان کے نانا مولوی نور محمد اپنے عہد کے مشہور حنفی العقیدہ عالم، مفسر قرآن، شارح حدیث رسولؐ، فارسی کے شاعر، منجم اور مشہور حکیم تھے۔ ان کو علم ورثے میں ملا تھا اور ان کے خاندان کو اسی علمی مرتبے کی وجہ سے سیال حکمران نواب احمد خاں، چنیوٹ سے جھنگ لایا اور ان کے (جد) میاں نور احمد نقشبندی کو شہر کی امامت پر فائز کیا۔ نقشبندی سلسلے میں حکومت وقت سے ٹکرانے کی جرأت تاریخی طور پر ودیعت ہے۔ چنانچہ میاں نور احمد نقشبندی نے 1857ء کی جنگِ آزادی کے وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا تھا اور اس جرم میں قید ہوئے تھے۔ وہ سید احمد شہید کی تحریک سے بھی متاثر تھے۔ کیا خبر یہی نقشبندی عنصر، مجید امجد کی والدہ کی شخصیت میں بھی سرایت کر گیا ہو! یہ عنصر مجید امجد کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتا ہے، مگر نمایاں اور غالب نہیں ہے۔ بظاہر مجید امجد کی شخصیت میں بغاوت اور انکار کے عناصر نظر نہیں آتے۔ وہ شکایت کرنے اور بر سر پیکار ہونے کا بالعموم مظاہرہ نہیں کرتے، اس کے برعکس خاموشی، تسلیم اور ایک نوع کی داخلی علیحدگی کے قائل محسوس ہوتے ہیں، لیکن ان کی یہ شخصیت، پوری شخصیت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی خاموشی بزدلانہ اور ان کی تسلیم کی خُو انفعالی نہیں تھی اور نہ ان کی داخلی علیحدگی، باطنی بے حسی تھی۔ خواجہ محمد زکریا نے لکھا ہے :’’نہ انکسار کرتے تھے نہ تعلّی۔۔۔۔ ہمیشہ انہیں مدح و ذم سے مُستغنی پایا۔۔۔۔ معلوم نہیں کہ وہ عظمت انسانی کی کس منزل پر تھے۔ اپنے نظر انداز کیے جانے کی طرف اشارہ تک نہیں کرتے تھے۔‘‘ خواجہ صاحب نے عظمتِ انسانی کی جس منزل پر استعجاب کا اظہار کیا ہے، وہ دراصل ہر شے کی اصل و مدعا کے عرفان کی منزل ہے، جس تک مجید امجد بہر حال رفتہ رفتہ پہنچے تھے۔ تاہم عرفان کے اس سفر کی سمت نمائی ان کے بچپن اور خاندانی حالات نے ہی کر دی تھی۔۔