امن کا خواب
اسپیشل فیچر
انسان چاہتا ہے کہ زندگی خوش گوار، ہنستی مسکراتی اور پُرسکون ہو۔ مگر دکھ اور تکالیف ہیں کہ پیچھا نہیں چھوڑتیں۔کبھی تکالیف چھوٹی چھوٹی سی ہوتی ہیں اور کبھی اتنی بڑی کہ برداشت سے باہر۔ کچھ کے اسباب انسان کے بس سے باہر ہوتے ہیں جیسے اچانک آنے والے زلزلے، پیدائشی ذہنی و جسمانی نقائص اور خشک سالی وغیرہ۔تاہم بیشتر تکالیف انسانوں کے اپنے کیے دھرے کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ مثلاً جارحیت، تشدد اور جنگیں ۔ بدقسمتی سے امن کی بجائے چار سو یہی نظر آتی ہیں۔ انسانی تاریخ بھی جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ ماضی قریب سے آج تک کے سفرکو دیکھیں تو افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور شام کے خونیں ایام نظر آتے ہیں۔اس سب کے باوجود امن کا خواب ہے کہ مرتا نہیں۔ معروف گلوکار اور امن کے داعی جون لِینن کے الفاظ میں ’’ہم بس اتنا چاہتے ہیں کہ امن کو ایک موقع دیا جائے۔‘‘ مگر کیسے؟بدامنی کی ایک وجہ برداشت اور رواداری کا نہ ہونا یا اس کی کمی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر فرد مختلف ہے۔ خیالات، عقائد اور وابستگیاںالگ الگ ہیں۔ثقافتیں اور تہذیبیں مختلف ہیں۔ دراصل تنوع زندگی کا لازمی جزو ہے۔ مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب کچھ لوگ، معاشرے، قومیں یا طبقے انسانوں کی اس رنگارنگی کو تسلیم نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ انہیں کی بالادستی ہو۔ اس مقصد کے لیے وہ زبردستی کا سہارا لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ نتیجہ جارحیت یا تشدد کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ صورت حال ممالک کے اندراور ان کے مابین دونوں سطحوں پر دکھائی دیتی ہے۔ ملک کے اندر جارحیت اور تشدد بڑھے تو خانہ جنگی، ممالک کے درمیان ہو تو جنگ۔ اگر خیالات، عقائد اور وابستگیوں کے تنوع کو تسلیم کر لیا جائے تو امن قریب تر ہو۔امن کی بنیادی شرائط میں تنوع کو تسلیم کرنے اور روادار ی کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ انصاف بھی شامل ہے۔ممالک کے درمیان جارحیت یا جنگ سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثالیں دو عالمی جنگیں ہیں جو اتنی پھیلیں کہ کروڑوں افرادجان سے گئے، زخمی اور معذور ہوئے۔ دوسری عالمی جنگ نے ممالک اور معاشروں کو اتنا تھکا دیا کہ تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی صورت میں ایک عالمی فورم بنانا لازمی خیال کیا گیا۔ اس فورم کی جنرل اسمبلی نے قرار داد 72/130 کے ذریعے ’’امن کے ساتھ اکٹھے رہنے ‘‘کا عالمی دن 16 مئی مقرر کیا۔ یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد امن، رواداری، قبولیت اور یکجہتی کو فروغ دینا ہے۔ اسے منا کر اس خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم مل جل کر رہیں گے اور اختلافات کے باوجود ہمارا اتحاد پارہ پارہ نہیں ہو گا ۔ ہم تنوع کو قبول اور رواداری کا مظاہرہ کریں گے۔ ہم ایسی دنیا تعمیر کریں گے جس میں پائیدار امن، یکجہتی اور ہم آہنگی ہو۔کیونکہ یہ یقین مرا نہیں کہ اپنے پیدا کردہ مسائل کا حل بھی اپنے ہاتھ میں ہوتاہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عالمی دن سے ایک روز قبل ہی اسرائیلی افواج نے فلسطینی مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ کرتے ہوئے کم از کم 55 افراد کو مار ڈالا۔ 2700کے قریب زخمی ہوئے۔کشمیر کی مثال بھی سامنے ہے جہاں آئے روز انڈیا کی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں عام افراد مارے جاتے ہیں، تشدد سہتے ہیں اور تذلیل برداشت کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اورجنوبی ایشیا کے ان دونوں علاقوں کے سلگنے کی جڑ ناانصافی ہے، جس میں طاقت ور کا احتساب نہیں ہوتا اور وہ من مرضی کے قابل ہوتاہے۔ وہ انسان کے بنیادی حقوق کو پاؤں تلے کچلتا ہے تو اس کے خلاف غم و غصہ اور ردِعمل بڑھتا ہے۔ ناانصافی بدلے کے جذبے کو بھی بیدار کرتی ہے۔ ایسی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی فورم کمزوروں کے حقوق کے تحفظ میں بار بار ناکام ہوتے ہیں۔ ان میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے جن سے یہ تاثر زائل ہو کہ اقتصادی اور عسکری لحاظ سے طاقت ور ممالک کا کہازیادہ وزن رکھتا ہے اور وہ اس قابل ہیں کہ اقوام عالم کی اکثریت کی رائے کو رد کر سکیں۔ امن کے معنی وسعت اختیار کر چکے ہیں اور دورِجدیدمیں تشدد کی محض عدم موجودگی کو امن سے تعبیر نہیں کیا جاتا۔ خوف کی وجہ سے چھانے والا سناٹا امن نہیں ہوتا۔ کسی جابر حاکم کے دور میں پایا جانے والا سناٹا امن نہیں کہلاتا۔لہٰذا سماج میں ان تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو حقیقی امن کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔ ۔٭…٭…٭