جگنو کی روشنی
اسپیشل فیچر
جگنو دنیا کے تقریباً ہر براعظم میں پایا جاتا ہے۔ زیادہ تر منطقہ حارہ میںملتا ہے۔ شمالی امریکا، برطانیہ، برازیل، کیوبا اور یورپ اس کے خاص مسکن ہیں۔ صرف آسٹریلیا میں اس کی بیس اور دنیا بھر میں 21 سو کے قریب اقسام ہیں۔ ’’چمکدار مکھیاں (فائر فلائیز) کے ساتھ ساتھ انہیں ’’چمکدار کیڑا‘‘ (گلو وارم) بھی کہا جاتا ہے۔ جگنو کی بعض اقسام میں مادہ کے پَر نہیں ہوتے اور یہ رات کے وقت زمین پر رینگتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے برعکس نر اڑ سکتا ہے۔ مادہ کے جسم سے تیز روشنی نکلتی ہے، لیکن نر کے چمکنے والے اعضا بہت مدھم ہوتے ہیں، بلکہ بعض اقسام میں تو سرے سے ہوتے ہی نہیں۔ بعض اقسام میں نر اورمادہ دونوں اڑنے کے ساتھ ساتھ چمکنے کی یکساں صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ شکل کو شباہت میں نر جگنو کے جسم کا رنگ گہرا بھورا اور چھاتی زرد اور گلابی ہوتی ہے۔ اگر اس کے جسم کو آٹھ مختلف حصوں میں تقسیم کیا جائے، تو چھٹے اور ساتویں حصے میں پیٹ کی دونوں جانب دو بڑے بڑے سرخ نشان ہوتے ہیں۔ یہی نشان جگنو کی روشنی کا منبع ہیں ۔ سائنس دانوں نے تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جگنو کے جسم میں دو کیمیائی مواد ہیں جنہیں لوسفیرین اور لوسیفیریزکہا جاتا ہے۔ لوسفیرین ’’جگنو کی لالٹین‘‘ کے لیے تیل کا کام دیتا ہے اور ہوا سے آکسیجن ملتے ہی بھڑک اٹھتا ہے۔ لوسیفیریز پروٹین جلنے کے عمل کو جاری رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں لوسیفیریز لالٹین کے لیے ’’پائپ لائن‘‘ بنتا ہے۔ جگنو کا نظام تنفس اور عصبی نظام روشنی پیدا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جگنو سانس لیتا ہے، تو سانس کی نالی کے ذریعے ہوا اس کیمیائی مادے کو چھوتی ہے جسے لوسیفیرین کہتے ہیں۔ ہوا لگتے ہی یہ مادہ شعلے کی صورت میں جل اٹھتا ہے۔ روشنی پیدا کرنے کے لیے لوسیفیرین اور لوسیفیریز کے علاوہ آکسیجن، میگنیشیم اور نامیاتی کیمیکل اے ٹی ایم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جگنو کی اس روشنی کے بارے میں کئی اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ بعض ماہرین حیاتیات کا خیال ہے کہ نر جگنو روشنی پیدا کر کے مادہ کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ لیکن بعض ماہرین اس نظریے کو درست نہیں مانتے۔ کیونکہ بعض قسموں میں نر سرے سے روشنی ہی نہیں دیتے۔ ایک خیال یہ ہے کہ جگنو کی روشنی ایک مدافعتی قوت ہے جو اسے کیڑے مکوڑے کھانے والے جانوروں سے بچاتی ہے۔ مثال کے طور پر رات کو اڑنے والے شکاری پرندے، چمگادڑ، الو وغیرہ جگنو کی روشنی سے خائف ہو کر اسے ہڑپ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ روشنی پیدا کر کے جگنو اپنے شکاریوں کو خبردار بھی کرتے ہیں۔ ہم موم بتی کے شعلے کو نہیں چھو سکتے، لیکن جگنو کو ہاتھ میں پکڑنے سے ہمارا ہاتھ نہیں جلتا۔ جگنو کی روشنی ’’سرد‘‘ ہوتی ہے، اس لیے گرمی پیدا نہیں ہوتی۔ جگنو دن پھر مختلف پتوں، سیلی گھاس اور فصلوں میں چھپا رہتا ہے اور رات کے وقت باہر نکلتا ہے۔ نم دار جگہوں، باغوں اور لہلہاتے سبزہ زاروں میں عام ملتا ہے۔ جھیل، ندی اور دریا کے کنارے اس کی مرغوب ترین جگہیں ہیں۔ اس کی خوراک گھونگھوں اور چھوٹے موٹے کیڑوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ گوشت کھانے کا بہت رسیا ہے۔ دوسرے کیڑوں کو پھانسنے میں ماہر شکاری کی طرح داؤ پیچ لڑاتا ہے، چنانچہ شکار پھانسنے سے پیشتر اسے بے ہوش کر لیتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے سرجن آپریشن سے پہلے مریض کو بے ہوش کر دیتے ہیں۔جگنو کی ٹانگیں چھوٹی چھوٹی اور تعداد میں چھ ہوتی ہیں، لیکن یہ ٹانگوں سے تیزی سے درخت پر نہیں چڑھ سکتا۔ قدرت نے اسے عجیب و غریب عضو سے نوازا ہے جسے ’’انگلیوں کا گچھا کہتے ہیں۔ یہ انگلیاں لچکدار ہوتی ہیں اور بوقت ضرورت انہیں ہر طرف موڑا جا سکتا ہے۔ یہ عضو ایک لیس دار مادہ بھی خارج کرتا ہے جس کی مدد سے جگنو دیوار یا درخت کی سطح سے چپک جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اوپر چڑھنے لگتا ہے۔ زمانہ قدیم ہی سے انسان جگنوؤں سے فائدہ حاصل کرتا چلا آیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایزٹکس (امریکا کے مقامی باشندے) لوگ بید کی بنی ہوئی ٹوکریوں میں بہت سے جگنوؤں کو بند کر لیتے تھے اور راتوں کو سفر کے دوران میں ان کی روشنی سے مدد لیتے تھے۔ ڈومنگو قبائل جگنوؤں کو پکڑ کر انہیں تاگے کی مدد سے ہاتھ پاؤں کے ساتھ باندھے لیتے تاکہ جنگل میں سفر کرتے وقت ان ننھے منے چراغوں سے اپنا راستہ تلاش کر سکیں۔