استعمار اور استعمارِ نو
اسپیشل فیچر
استعماریت یا کالونیل ازم کے عام معنی ایک ملک کے ذریعے دوسرے ملک یا علاقہ کو بتدریج اور منظم طریقے سے سیاسی اور اقتصادی طور پر محکوم بنانے یا ایسے محکوم علاقے برقرار رکھنے کی پالیسی کے ہیں۔ اس معنی میں نوآبادیوں یا محکوم علاقوں کا وجود قدیم زمانہ سے ملتا ہے۔ مثلاً ایشیا میں منگولوں کی توسیع استعماری نوعیت کی تھی۔ ماضی قریب میں استعمار سے مراد یورپی طاقتوں کی پندرہویں اور سولہوں صدی کی جغرافیائی دریافتوں کے بعد سے سمندر پار علاقوں میں جنگ، فتوحات اور خالی علاقوں میں نوآبادکاری کی کوششیں ہیں۔ استعماری طاقتیں نئے علاقوں کی تلاش، نوآبادکاری اور جنگ سے استعماری طاقتیں بن گئیں۔ اس سلسلے میں سپین اور پرتگال نے نوآبادکاری یا کالونیل ازم کی ابتدا کی۔ انگلستان، فرانس اور نیدرلینڈز نے ان کے مقبوضات پر دست درازی کی اور پھر یہ ممالک اپنی استعماری سلطنت وسیع کرتے گئے۔ بعد میں ڈنمارک، ناروے اور سویڈن نے بھی کچھ علاقے حاصل کیے۔ یورپی استعمار انیسویں صدی کے خاتمے تک اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا جس کے محرکات سیاسی اور اقتصادی دونوں تھے۔ ایشیا اور افریقہ میں یورپ کی استعماری توسیع کا محرک اندرون یورپ بڑی طاقتوں کے درمیان اختیار کی کشمکش بھی تھی۔ سمندر پار مقبوضات کو قومی طاقت کے حصول کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ دوسری طرف یورپ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے صنعتی انقلاب اور قومی سرمایہ دارانہ نظام کے پھلنے پھولنے سے آزاد تجارت، سرمایہ کی نکاسی، خام مال کی فراہمی اور مصنوعات کی فروخت کے لیے منڈیوں کی تلاش ہوئی۔ برطانیہ، فرانس اور نیدرلینڈز کے علاوہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں بلجیم، جرمنی، اطالیہ، ریاست ہائے متحدہ امریکا اور جاپان نے بھی اہم نوآبادیاں حاصل کیں۔ استعماری تسلط اور استعماری حکومت کے جواز میں کئی طرح کے دلائل دیے گئے۔ مثلاً نوآبادکار ملک اپنے مفادات کی تکمیل کے ساتھ نوآبادی کی پسماندہ اور غیر مہذب قومی تنظیم کو موردالزام ٹھہراتے اور کہتے کہ ان کے امور کی نگہداشت وہ خود بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے کہ نوآبادیوں کی سیاسی، تہذیبی، تعلیمی اور اقتصادی ترقی و بہبود کا اخلاقی نصب العین انہیں (یورپی اقوام) کے ذریعے حاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ استعماری ممالک اپنے ہاں آبادی کی کثرت اور اقتصادی ترقی کے لیے خام مواد کی نایابی کی بنا پر مزید علاقے اور منڈیاں حاصل کرنے کا جواز پیش کرتے۔ استعماری ممالک ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے بھی رہتے۔ اسی کشمکش کی وجہ سے پہلی عالمی جنگ ہوئی اور اس کے بعد دوسری عالمی جنگ ہوئی جس سے بہت تباہی پھیلی۔ نوآبادیاتی نظام پہلی عالمی جنگ کے بعد سے ٹوٹنا شروع ہوا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد قومی آزادی کی تحریکوں اور اقوام متحدہ کی کوششوں سے دنیا کی بیشتر نوآبادیاں آزاد ہو چکی ہیں۔ استعماری ملکوں کی حیثیت صنعتی اور معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ تھی ۔ ان کی تہذیب مشینی دور کی پیداوار تھی جبکہ نوآبادیات کی معیشت پسماندگی سے دوچار تھی اور زرعی تھی، جہاں نہ تو صنعتوں کا وجود تھا اور نہ ہی تعلیم کا دور دورہ۔ نوآبادیاتی علاقے محض حکمران ممالک کی مصنوعات کے لیے منڈیوں اور خام مال کی رسد کا مرکز تھے۔ استعماری حکومت کے امتیازی خصائص مندرجہ ذیل ہیں:۱۔ یورپی ملکوں کا یا یورپی نسل کے لوگوں کا دوسرے ملکوں یا دوسری نسل کے لوگوں خصوصاً ایشیائی و افریقی اقوام پر براہ راست سیاسی کنٹرول۔۲۔ نوآبادی کے اندر ایک سفید فام حکمران اقلیت کی بالادستی۔ ۳۔ مقامی افراد پر مشتمل ایک وفادار نوکر شاہی جو حکمران طاقت کے سیاسی، فوجی اور اقتصادی مفادات کی تکمیل اور ملکی وسائل کے استعماری استحصال میں مدد دیتی ہے۔ ۴۔ نوآبادی میں سائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی مغربی تہذیب اور مقامی زرعی اور جاگیردارانہ نظام سے وابستہ مشرقی تہذیب کے درمیان ٹکراؤ اور مغربی تہذیب کا تسلط۔ ۵۔ نوآبادی کے عوام اور وسائل کا معاشی استحصال۔ ۶۔ حکمران اقلیت میں نسلی، تہذیبی اور اخلاقی برتری کا احساس اور مقامی آبادی کو ذہنی، اخلاقی، تہذیبی، علمی اور تکنیکی اعتبار سے پسماندہ اور محتاج رکھنے کا رویہ۔ جہاں ایشیا و افریقہ و لاطینی امریکا کے پسماندہ خطوں میں استعماری نظام ٹوٹ چکا ہے وہیں توسیع پسند طاقتوں نے نوآزاد ملکوں پر بالواسطہ سیاسی و اقتصادی تسلط جمانے کے لیے نئے طریقے اپنائے ہیں۔ استعمارِنو یا نیو کالونیل ازم سے مراد استعمار کی بالواسطہ اور نئی شکلیں ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے باوجود سامراجی طاقتیں ایشیا و افریقہ اور لاطینی امریکا کے پسماندہ ملکوں کو سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے اپنے زیراثر رکھنا چاہتی ہیں۔ استعمارِ نو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے طرح طرح کے سیاسی ذرائع استعمال کرتا ہے مثلاً متعلقہ ملکوں میں فوجی اڈوں کا قیام یا پرانے اڈوں کی برقراری، اقوام کو ان کا محتاج اور دست نگر بنانا، خانہ جنگیوں میں سفارتی اور بالواسطہ فوجی مداخلت اور اپنے موافق فریق کو جتانے کی کوشش، فوجی کودیتا کے ذریعہ کٹھ پتلی حکومت کا قیام وغیرہ۔ اقتصادی ذرائع میں بیرونی امداد کو اولیت حاصل ہے جس کے ذریعے نئے ملکوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کثیر قومی کمپنیاں اس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اگر ملکی معیشت پر ان کی اجارہ داری قائم ہو جائے تو سرمایہ تیزرفتاری سے بیرون ملک سفر کرنے لگتا ہے۔