د ر خت ،زمین کا زیور
درخت ہماری زمین اور اس کے ماحول کی بقا ء کی علامت و ضمانت ہیں۔ یہ اللہ عزوجل کا ماحول دوست عطیہ ہیں۔ درخت، فطرت اور دنیاوی تغیرات کی تلخیوں اور موسمی سختیوں میں اعتدال کا موجب بنتے ہیں۔ماحول کو خوشگوار یا کم از کم قابلِ برداشت بنا کر آب وہوا میں توازن بنائے رکھتے ہیں۔پہاڑوں ،میدانوں کی دلکشی اور خوبصورتی کا سبب ہیں۔ترقی کی خوفناک رفتارنے زمین کو بہت سے خطرات سے بھی دوچار کردیا ہے۔ تیز رفتارترقی فضائی آلودگی، گرین ہائوس ایفیکٹ اور گلوبل وارمنگ کا موجب بن رہی ہے جس سے جانداروں کی زندگی دو بھر ہو چکی ہے۔آلودگی نے ہماری دھرتی کو ہر لحاظ سے داغدار کردیا ہے۔ترقی اور آلودگی لازم و ملزوم ہیںلہٰذا ترقی سے انکار ممکن نہیں ہے مگر دنیا کے سب سے بڑے مسئلے یعنی ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا حل پیڑ پودوں کی کثرت سے موجودگی ہے۔کیونکہ درخت ہر قسم کی آلودگی کی ڈھال ہیں۔ ایک درخت کئی انسانوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔دس بڑے پیڑ ایک ائیر کنڈیشنر کے مساوی ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں۔فضائی آلودگی کو حیرت انگیز طور پر زائل کر کے صاف ماحول فراہم کرتے ہیں ۔ مضر صحت گیسوں کو جذب کرتے ہیں ۔ شور کی آلودگی کی عفریت و اذیت کو بھی درخت کم کرتے ہیں۔ آندھیوں کی شدت درختوں کے موجب کنٹرول میں رہتی ہے۔تالابوں اور جو ہڑوں کے کناروں پہ لگے درخت گندے پانی کے اثرات و بدبو کم کرتے ہیں او ر ان کے پتے ماحول کو صاف ہوا مہیا کرتے ہیں۔سخت گرمیوں میں خود دھوپ برداشت کرتے ہیں جبکہ انسانوں کو چھائوں کی نعمت فراہم کرتے ہیں۔کچھ درخت سیم و تھور والی زمین کو قابلِ کاشت بناتے ہیںتو کچھ چارے کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ایندھن، سایہ، لکڑی،پھل اور سرمایہ سب کچھ تو درختوں سے حاصل ہوتا ہے۔ سفیدہ اگرچہ وافر پانی صرف کرنے کی وجہ سے اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر پھر بھی نہایت کار آمد درخت ہے۔اسے کھیتوں کی بجائے سڑکوں،بازاروں، گلیوں اور سیوریج سسٹم کے قریب لگانے سے فاضل اور گندہ پانی استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ چوبیس گھنٹوں میں پچاس لٹر سے زائد پانی استعمال کرتا ہے اور چھ ماہ بعد کٹائی سے ایندھن بھی لیا جاسکتا ہے۔پرانے دیو قامت پیڑ تو اب کم کم ہی دِکھتے ہیں۔ان پہ مختلف النوع پرندوں کا بسیرا ہوتا ہے اور ایسے درختوں کا خاتمہ ماحول کے ساتھ ساتھ دیگر جاندارو ںکے لئے بھی نا قابلِ تلافی نقصان ہے۔بقول پروین شاکر، اس بار جو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے کسی ملک کے پچیس فیصد رقبے پہ جنگلات ہونا ضروری ہیں۔شومئی قسمت کہ وطنِ عزیز میں یہ شرح صرف چار فیصد ہے اور اسے بھی وطن کے باسی اور ٹمبر مافیا ہڑپ کیے جارہے ہیں۔ لوگ نئے درخت لگانے کی بجائے پہلے والوں کے پیچھے پڑے ہیں حتیٰ کہ عوام اپنی سماجی و مذہبی تقریبات و ضیافتوں کے لئے چوری اوپر سے سینہ زوری کے مصداق،انہی پیڑوں کا قتل ِعام کئے جارہے ہیں۔سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر میں بے شمار قیمتی درخت اکھاڑے جارہے ہیں۔اسی المیے کا رونا مجید امجد نے اپنی نظم ’’توسیع ِشہر‘‘ میںرویا تھا ۔ ہماری آبادی اس رفتار سے بڑھ رہی ہے کہ لوگوں کو اپنے سوا اور کسی چیز یا قدرتی وسائل بڑھانے میں دلچسپی نہیں۔انہیں صرف حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا آتا ہے۔اگر ہر پاکستانی اپنے حساب سے اپنے گھر،گلی ،محلے،ادارے اور کھیتوں کو گرین بیلٹ بنانے کا ارادہ کرلے تو یہ دیس جنت بن جائے گا ۔ان گنت ماحولیاتی و اقتصادی مسائل کا مداوہ ہوگا۔ ووٹ، سیاست ،سماج اور کاروبار کو بہت عزت دے لی آیئے اب درختوں کو عزت دے کر دیکھتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں۔ آئیے ہم سب شجر کشُی کی بجائے شجر کشَی کا عہد کریں کیونکہ یہ عمل معاشرتی و ماحولیاتی افادیت کے ساتھ ساتھ باعثِ اجروثواب بھی ہے۔٭…٭…٭