ہمدردی کی طاقت
اسپیشل فیچر
فلسفی آرتھر شوپنہار نے کہا تھا ’’درد مندی ایک ایسا وصف ہے جو انسانی اخلاقیات کی بنیاد ہے۔‘‘اگر آپ خود کو بدلنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہر روز نیکی کا کوئی کام کرنا ہوگا۔ جب ہم کسی بھی دوسرے شخص کی مدد یا اس سے بغیر کسی صلہ کے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہوتی ہے۔ رحم دلی اور ہمددری یہ دونوں جذبے ساتھ ساتھ ہیں، اگر آپ رحم دل انسان ہیں تو آپ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کرتے ہیں اور لوگوں کے کام آتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ رحم دلی صرف آپ کے کاموں ہی سے ظاہر ہو بلکہ آپ اگر کسی شخص کے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں تو یہ بھی آپ کی اس شخص سے ہمدردی کو ظاہر کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم میں سے بہت سے لوگ بہت تنگ نظری سے دنیا کو دیکھتے ہیں اور اسی طرح اپنی پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔ بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں اور وہ صرف اپنی ذات تک محدود رہتے ہیں تو ان کی دنیا صرف ان کی ذات کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ان میں سے کچھ بچے اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل آتے ہیں اور کچھ بچے اپنی ذات تک ہی محدود رہتے ہیں اور ان کے لیے دنیا پہلے جیسی ہی رہتی ہے۔ وہ ایسے سوچتے ہیں کہ دنیا کس طرح میری خدمت کر سکتی ہے؟ لوگ میرے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ ہم میں سے اکثر لوگ اسی انداز میں سوچتے ہیں کہ دنیا ہمارے لیے کیا کرتی ہے جبکہ ہمیں اس انداز سے سوچنا چاہیے کہ ہم دنیا کو کیا دے رہے ہیں۔ ایک کام جو ہم سب لوگوں کے لیے کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم ان کے دکھ درد میں ان کا ساتھ دیں اور جس طرح ممکن ہو ان کی مدد کریں۔ کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ دوسروں کے کام آئیں اور پھر دوسرے لوگوں سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ دراصل جب آپ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو اس سے آپ کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اس میں جسمانی مدد اور دعاؤں کا ملنا اور آپ کے بارے میں مثبت خیالات، سب شامل ہیں۔ میں اس کام سے واقف ہوں۔ آپ دوسرے لوگوں کے لیے رحم کا جذبہ رکھتے ہیں، تو وہ کسی نہ کسی صورت میں آپ کے پاس واپس آتا ہے۔ جب کبھی میں مشکل میں گھرے انسان سے ملتا ہوں، وہ کتنا بھی غیر مہذب اور غصیلا کیوں نہ ہو، میں ہمیشہ اس کے ساتھ ہمدردی کرتا ہوں اور اس کے بارے میں اپنے خیالات اور رویہ اچھا رکھتا ہوں۔ رحم دلی کمزوری نہیں بلکہ یہ آپ کو طاقت دیتی ہے اور آپ کی شخصیت کی نشوونما کرتی ہے۔ اپنے دل میں ہر شخص کے لیے ہمدردی کا جذبہ رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص غصیلا ہے تو اس سے بھی ہمدردی ہونی چاہیے، چاہے اس کے رویے پر افسوس کریں۔ اگر شعوری طور پر ایسے انسانوں سے اچھا برتاؤ کیا جائے اور ہمدردی ظاہر کی جائے تو ان کا غصہ، نفرت اور جارحیت تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔ دوسرے لوگوں کے بارے میں نرمی کا رویہ اور رحم کا جذبہ رکھنا ایک ایسی صلاحیت ہے جو ہمیں انسانیت سکھاتی ہے۔ اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ دوسروں کا دکھ سمجھیں اور ان کی مدد کریں۔ اگر وہ غصے اور جارحیت کا رویہ رکھتے ہیں تو اس کا برا نہیں ماننا چاہیے بلکہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ تکلیف میں ہیں، ان کا دن اچھا نہیں گزرا یا وہ لوگ مجھے کسی وجہ سے پسند نہیں کرتے، میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں اچھا سلوک کروں اور اپنے ردعمل کو قابو میں رکھوں۔ اگر ہم کوشش کریں تو ایسا کر سکتے ہیں۔