ڈرامے کا حقیقی مفہوم
اسپیشل فیچر
آخر ڈراما ہے کیا اور اس میں کون سی ایسی خصوصیات موجود ہیں جو اسے دوسری اصناف ادب سے متمیز کرتی ہیں۔ یعنی ہمیں یہ بات معلوم کرنی ہو گی کہ جب ایک خاص تحریر کو ڈرامے کا نام دیتے ہیں تو کیوں دیتے ہیں اور وہ کون سے ایسے اجزا ہیں جن کی باہمی ترتیب سے ڈراما تشکیل پذیر ہوتا ہے۔ جب ہم کسی چیز کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی تعریف یہ کی گئی ہے تو اگرچہ یہ تعریف اس کے تمام پہلوؤں پر محیط نہیں ہوتی، تاہم اس کا ایک واضح مفہوم ہمارے ذہن میں ضرور آ جاتا ہے اور جہاں تک ڈرامے کی تعریف کا تعلق ہے تو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ڈراما نام ہے ایک ایسی کہانی کا جسے اداکاروں کے توسط سے سٹیج پر سٹیج کے لوازم کے ساتھ تماشائیوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس تعریف کی روشنی میں ذرا غور کریں تو ڈرامے کی ترتیب ان بنیادی عناصر یا اجزا سے ظہور پذیر ہوتی ہے جن کا ابھی ابھی ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی سٹیج، سٹیج کے لوازم، کہانی، اداکار اور تماشا بیں۔ پہلا جزو کہانی ہے۔ کہانی مختلف واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ یہ واقعات ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہوتے ہیں کہ کسی واقعے کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہر واقعہ دوسرے واقعات پر اثر انداز ہوتا ہے، اور خود بھی ان واقعات سے متاثر ہوتا ہے۔ دوسرے جزو میں اداکار آتے ہیں۔ کہانی جب سٹیج پر دکھائی جائے گی، تو اداکاروں کے ذریعے ہی دکھائی جائے گی۔ یہ اداکار کہانی کے کردار ہوں گے جن میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا رول ہو گا۔ سٹیج کے لوازم سے مراد ہے پردہ، روشنی، فرنیچر اور خاص خاص کیفیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے موسیقی۔ ڈرامے کے واقعات جس جس مقام پر رونما ہوتے ہیں، سٹیج پر وہ مقام بنائے جاتے ہیں۔ ڈرامے کے واقعات کسی ڈرائنگ روم میں صورت پذیر ہوتے ہیں، تو سٹیج پر ڈرائنگ روم بنایا جائے گا۔ ان واقعات کا تعلق سکول کے کسی کمرے ، باغ کے کسی حصے یا گھر کے صحن سے ہو گا تو اس کو پیش نظر رکھ کر سٹیج کے لوازم مہیا کیے جائیں گے۔ چوتھے جزو میں تماشائیوں کی موجودگی ضروری تصور کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے اگر ڈرامے کے دیکھنے والے ہی موجود نہ ہوں گے تو ڈراما آخر دکھایا کیوں جائے گا؟ تماشائیوں کے بغیر ڈرامے کو سٹیج کرنے کا آخر مقصد کیا ہے؟ ڈراما صرف اس لیے سٹیج کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے یعنی تماشائی اسے دیکھیں، ورنہ سٹیج کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ یہاں ایک سوال کیا جا سکتا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ جس ڈرامے کی یہ تعریف کی گئی ہے اور جس کے بنیادی عناصر یا اجزائے ترکیبی کی نشان دہی ہوئی ہے یہ سٹیج ڈراما ہے۔ مگر ڈراما صرف سٹیج پر ہی نہیں دکھایا جاتا۔ ڈراما ریڈیو سے بھی نشر ہوتا ہے۔ ٹی وی کی وساطت سے بھی اس کی صورت پذیری ہوئی ہے، اور وہ بھی تو ڈراما ہی ہوتا ہے جو کسی رسالے میں چھپتا ہے یا کتابی شکل اختیار کرتا ہے۔ کیا جن اجزا کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ ڈرامے کے میڈیا یا ذریعہ اظہار کے لیے ضروری ہیں؟ اس کا اختصار کے ساتھ جواب یہ ہو گا کہ ڈرامے کے ہر ذریعے اظہار کے ساتھ اس کے مخصوص فنی تقاضے وابستہ ہیں۔ ریڈیو ڈراما صوتی ڈراما ہوتا ہے۔ کہانی اور کرداروں کی یہاں بھی ضرورت ہے۔ یہاں سٹیج دکھائی نہیں جاتی بلکہ اس کا اظہار کرداروں کی آوازوں اور ان کے ساتھ صوتی اثرات سے ہوتی ہے۔ ٹی وی کا ڈراما بڑے وسیع میڈیا کا ڈراما ہے۔ سٹیج تو محدود ہوتی ہے۔ کوئی ڈرائنگ روم، کوئی کمرہ، کوئی صحن، کسی باغ کا کوئی گوشہ اور ایسے ہی اور مقامات۔ مگر ریڈیو اور ٹی وی ڈرامے میں ایسی کوئی محدود مقامیت نہیں ہوتی۔ ریڈیو ڈرامے میں صوتی اثرات کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام پر جایا جا سکتا ہے۔ ابھی سامعین کسی باغ میں کرداروں کو ہم کلام پاتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے میں ریلوے سٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں۔ ٹی وی ڈرامے کو بھر پور آزادی حاصل ہے۔ ڈرامے کی ایک شکل وہ بھی ہے جسے کتابی ڈراما کہا جا سکتا ہے۔ ڈراما لکھا جاتا ہے اور پھر رسالے یا کتاب میں چھپوا لیا جاتا ہے۔ یہ ڈراما پڑھا جاتا ہے اور پڑھنے والے اس سے لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔ ہمارے بعض نقاد اس کتابی ڈرامے کو حقیقی ڈراما تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ڈراما تو ہوتا ہی دکھانے کے لیے ہے، پڑھنے کے لیے نہیں۔ وہ اپنی دلیل کو زیادہ معقول اس بنا پر ثابت کرتے ہیں کہ ڈرامے کا اصل ڈرائی لفظ ہے جو یونانی لفظ ہے، اور اس کا صریحاً مفہوم ہی ’’کر کے دکھانا‘‘ ہے، گویا ڈراما کرنے کی چیز ہے، پڑھنے کی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈراما اصلاً کرنے کی چیز ہے، جیسا کہ اس کے لغوی معنی سے واضح ہوتا ہے مگر آج ہم یونانِ قدیم کے ڈراموں کے علاوہ شیکسپیئر، مارلو وغیرہ کے ڈرامے بیشتر مطالعہ کرتے ہیں۔ ڈرامے کی یہ تعریف جو کی گئی ہے اسے ناول یا مختصر یا طویل کہانی سے الگ کر دیتی ہے اور اس کے لیے مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ٭…٭…٭