غزنوی دور کا لاہور
اسپیشل فیچر
لاہور میں محمود غزنوی کی آمد سے قبل دسویں صدی ہجری کے ربع آخر میں راجہ جے پال ایک وسیع علاقے پر حکمران تھا۔ پنجاب کی وسعت پشاور سے لمغان اور کشمیر سے ملتان تک تھی۔ وہ گیارہویں صدی کے اوائل تک اس علاقے پر حکمران رہا۔ ادھر افغانستان میں سامانی بادشاہ عباسی خلفا کی طرح اپنی فوجوں میں ترک رکھنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ عبدالملک ساسانی، جو غزنی کے وسیع علاقے پر حکمران تھا، اس کے ترک غلام الپتگین جو سامانیوں کا ایک مقتدر جرنیل تھا، جس نے بعد ازاں اپنے آقا منصور بن عبدالملک سے علیحدگی اختیار کی اور سامنیوں کی طرف سے حاکم خراسان مقرر ہو کر حکمران بن گیا، اس نے غزنی تک اپنی سلطنت کو وسیع کر لیا اور پندرہ سال تک کامیابی سے حکومت کی۔ اسی عرصہ میں الپتگین کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد اس کا ترک غلام سپہ سالار اور داماد امیر ناصر الدین سبکتگین حکمران بنا۔ عدل و انصاف، مہربانی، جہانداری اور اپنی فتوحات سے سلطنت غزنی کو تقویت بخشی۔ سبکتگین کا کئی بار ہندوؤں سے مقابلہ ہوا اور وہ ان کے مقابلے پر فتح یا ب رہا۔ 975ء میں سبکتگین نے دریائے سندھ کے پار چڑھائی کی۔ اس کا مقابلہ لاہور کے برہمن قوم کے راجہ جے پال نے کیا۔ بھٹی قبیلے کے شہزادے کے مشورے پر راجا نے افغانوں سے اتحاد کیا اور ان کی مدد سے پہلے حملے کا جواب دینے کے قابل ہوا۔ یوں راجا کو مسلمانوں کی سلطنت کے پھیلاؤ پر تشویش ہوئی اور اس نے سبکتگین کے سرحدی علاقے پر حملہ کر دیا۔ لمغان کے نواح میں گھمسان کی جنگ میں جے پال کو شکست ہوئی نتیجتاً ایک لاکھ درہم تاوان جنگ ادا کرنے اور پچاس ہاتھی بطور نذرانہ پیش کرنے کے وعدے پر لاہور واپس آیا۔ خراج وصول کرنے کے لیے سبکتگین کے نمائندے ساتھ آئے۔ لاہور پہنچ کر راجا جے پال کا ارادہ بدل گیا اور اس نے ان نمائندوں کو جیل میں ڈال دیا جس کے ردعمل پر ایک اور لڑائی ہوئی اور راجا جے پال کو دوسری بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فتح کے بعد سبکتگین اپنا ایک گورنر مع 10 ہزار سواروں کے پشاور میں متعین کر گیا۔ یوں ایک طرح سے پشاور تک کا علاقہ غزنی میں شامل کر لیا گیا۔ روایت کے مطابق شکست کھانے کی وجہ سے راجا جے پال نے دریائے سندھ کے مغرب کا سارا علاقہ بشمول لمغان و پشاور سبکتگین کے قبضے میں چھوڑ کر ایک ہندو رسم کے مطابق اپنے ہی دارالحکومت کی فصیل کے باہر خودکو آگ لگا لی۔ راجا جے پال کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا انند پال تخت پر بیٹھا۔ ادھر سبکتگین کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس کے بڑے بیٹے ابوالقاسم محمود غزنوی نے 998ء میں عنان حکومت سنبھالی۔ راجا انند پال کو اپنے باپ راجا جے پال کی ذلت آمیز موت کا بہت رنج تھا۔ اس نے سارے ہندوستان کے ہندو راجاؤں سے امداد طلب کی اور ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ پشاور کے قریب حملہ آور ہوا۔ محمود غزنوی اور اس کے لشکر نے راجا انند پال کو شکست دی۔ راجا انند پال بھی باجگزاری کا وعدہ دے کر واپس چلا آیا۔ اس واقعہ کے تقریباً تیرہ برس بعد لاہور میں امن امان رہا۔ محمود غزنوی ہندوستان کی دیگر فتوحات قنوج، گوالیار، کانگڑہ، کالنجر، سومنات وغیرہ میں مصروف رہا۔ راجا انند پال کے بعد اس کا بیٹا جے پال ثانی لاہور کا حکمران ہوا۔ جے پال ثانی کی فتنہ پروری اور بدعہدی کی وجہ سے 1022ء میں محمود غزنوی کشمیر سے آیا اور لاہور پر بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کر لیا اور اسے تاخت و تاراج کیا۔ راجا جے پال ثانی اجمیر بھاگ گیا۔ اسی کے ساتھ ہی لاہور میں ہمیشہ کے لیے ہندو حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ بعد ازاں محمود غزنوی دور حکومت میںراجا جے پال ثانی نے اپنی حکومت بحال کرانے کے لیے ایک آخری کوشش کی جس میں چھ ماہ کے طویل محاصرہ کے بعد وہ پسپا ہو گیا۔ محمود غزنوی جب اپنے مفتوحہ علاقوں کے انتظام کے لیے روانہ ہوا تو اس نے اپنے معتمد افسر ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا۔ تمام مقامات پر فوجی چوکیاں قائم کیں اور یہاں مستعد افسران متعین کیے۔ یوں لاہور غزنوی سلطنت سے ملحق ہو گیا۔ ملک ایاز نے اپنے دور نظامت میں لاہور کا نہایت اچھا انتظام کیا۔ اس نے یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کرایا۔ شہر کی فصیل کو وسیع کیا۔ علاوہ ازیں شہر کی خوبصورتی میں اس قدر اضافہ کیا کہ اس کا شمار اہم شہروں میں ہونے لگا۔ سلطان محمود غزنوی کا عہد غزنویوں کے عروج کا زمانہ ہے… محمود غزنوی اور اس کی افواج کی آمد سے لاہور میں سماجی، ثقافتی، تمدنی، تہذیبی، روحانی، لسانی اور معاشی سطح پر تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں۔ محمود غزنوی کی آمد سے قبل یہاں صرف ہندو آبادی تھی لیکن لاہور کے غزنی مقبوضات میں شامل ہونے سے یہاں اسلامی تہذیب و تمدن کے عناصر پروان چڑھنا شروع ہوئے۔ غزنوی کے آنے سے دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پہلی یہ کہ دو بڑی تہذیبوں کا ملاپ عمل میں آیا۔ دوم، لسانی، فکری اور ذہنی سطح پر طرزاحساس کے نئے در وا ہوئے اور ایک اسلامی طرز احساس فروغ پایا اور لاہور اسی نئے کلچر کا ابتدائی مرکز بنا۔ اس طرح لاہور میں ایک نئے دور کا آغاز محمود غزنوی کی آمد سے ہوا۔ اس عہد میں لاہور کو بڑی ترقی اور اہمیت ملی۔ وہ فاتح بن کر آئے لیکن لاہور کو انہوں نے اپنے وطن کی حیثیت دی۔ لاہور میں اہل ہنود مقیم تھے۔ غزنوی دور میں ہزاروں خاندان غزنی اور ایران کے دیگر حصوں سے ترک وطن کر کے یہاں آباد ہو گئے۔ اس طرح مقامی ہندو معاشرہ جو پہلے تہذیبی و سیاسی سطح پر جمود کا شکار تھا اس میں مسلمانوں کے عقیدہ، زبان اور معاشرت کی صورت میں کچھ نئے اثرات داخل ہونے لگے جس کے نتیجے میںیہاں کے آداب، رسم و رواج، رہن سہن کے طریقہ کار اور بول چال کی سطح پر تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں۔ مٹی اور کانسی میں ظروف سازی، محلوں کو تصویروں سے آراستہ کرنا اور لکڑی میں کھدائی غزنوی تمدن ہی کی دین ہیں۔ غزنی سے آنے والوں میں صوفیا، علما اور شعرا بھی شامل تھے۔ ان کی آمد سے جہاں لاہور میں فارسی کا رواج ہوا وہیں لاہور کی مقامی زبان پنجابی سے فارسی کا اختلاط بھی ہوا اور ایک نئی زبان اردو اس طرح وجود میں آئی۔اسی عہد میں حسین شاہ زنجانیؒ، حضرت داتا علی ہجویریؒ، فخرالدین میراںؒ، سید اسماعیل محدث بخاریؒ لاہور تشریف لائے۔ ان صوفیا کی تشریف آوری اور رشدو ہدایت کے باعث ہندوؤں اور مسلمانوں کو باہمی میل جول اور ایک دوسرے کے افکار و نظریات سے واقف ہونے کا زیادہ موقع ملا۔ غزنویوں کے مسلسل حملوں کی وجہ سے ہندو مسلمانوں سے بہت زیادہ متنفر ہو چکے تھے۔ ان مشکل حالات میں ان صوفیا نے اپنے علم اور پاکیزہ کردار سے ہندوؤں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور بڑی تعداد میں ہندو حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔