اردو کا رسم الخط
اسپیشل فیچر
اردو ایک ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا رسم الخط سامی خاندان کی زبان عربی سے ماخوذ ہے۔ عربی سے اس رسم الخط کو فارسی نے لیا اور فارسی سے یہ اردو میں آیا۔ صدیوں کے اس تہذیبی اور تاریخی سفر میں اس رسم الخط میں بہت سی تبدیلیاں ہو گئیں۔ اردو دنیا کی ان چند انتہائی متمول زبانوں میں سے ہے جن کا دامن اخذ و استفادے کے اعتبار سے ایک سے زیادہ لسانی خاندانوں سے بندھا ہوا ہے اس کے ذخیرہ الفاظ کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہند آریائی مآخذ یعنی سنسکرت، پراکرتوں اور اپ بھرنشوں سے آیا ہے، تو ایک چوتھائی حصہ جو دراصل ہند آریائی گروہ کی زبانوں میں اس کے امتیاز و افتخار کا ضامن ہے، سامی اور ایرانی مآخذ یعنی عربی، فارسی زبانوں سے لیا گیا ہے۔ اردو کے ذخیرہ الفاظ میں جو بے مثل تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے، وہ اردو صوتیات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اردو صوتیات میں ایک پرت تو ہند آریائی آوازوں کی اور اس کے ساتھ ساتھ دراوڑی آوازوں کی ہے۔ اور دوسری اتنی ہی اہم پرت مشرق وسطیٰ کی زبانوں سے ماخوذ آوازوں کی ہے اردو دنیا کی ان چند ’’تہ دار‘‘ زبانوں میں سے ہے جس میں متعدد منفرد اور ممتاز صوتیاتی نظام ایک وسیع تر لسانی پیکر میں ڈھل کر بیک وقت کام کرتے ہیں۔ یہ ’’کثیر لسانیت‘‘ جہاں اردو میں ایسی وسعت، لوچ اور لطافت پیدا کر دیتی ہے جو دوسری ہند آریائی زبانوں کے لیے لائق رشک ہے وہاں رسم الخط سے ایسے تقاضے بھی کرتی ہے جن کو پورا کرنا آسان نہیں۔ اردو جیسی مخلوط و ممزوج زبان کے لیے کسی بھی ایک خاندان کا رسم الخط اپنایا جاتا، دوسرے خاندان کی آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے اس میں نئی گنجائشیں نکالنی ہی پڑتیں۔ چنانچہ زمانہ قدیم میں جب اردو عربی فارسی رسم الخط میں لکھی جانے لگی تو کئی علامتیں ایسی تھیں جن کے لیے آوازیں نہیں تھیں، اور کئی آوازیں ایسی تھیں، جن کے لیے علامتیں نہیں تھیں۔ وقتاً فوقتا نئی علامتوں کا اضافہ ہوتا رہا، اور تبدیلیوں کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ زبان کے ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلیاں ازخود ہوتی رہیں، اور لکھنے والے اپنے اپنے طور پر لکھاوٹ کی صحت کا التزام کرتے ہے۔ اس وقت کسی معیاری بندی یا ضابطے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، کیونکہ رسم الخط ایک نئی وضع پر آ رہا تھا، اور اردو کے ’’کثیر صوتیاتی‘‘ مزاج سے ہم آہنگ ہونے کا عمل جاری تھا۔برطانوی اقتدار کے قائم ہو جانے کے بعد مستشرقین اردو کی طرف متوجہ ہونے شروع ہوئے، اور خصوصاً فورٹ ولیم کالج کے قیام سے کچھ پہلے اور بعد میں بھی جب اردو لغات اور قواعد کی کتابیں لکھی جانی لگیں تو اردو رسم الخط کے مطابق صحت سے لکھنے کے مسائل یعنی املا پر بھی توجہ دی جانے لگی۔ جان جوشوا کٹلر، مُل، جان گل کرسٹ، جوزف ٹیلر، ٹامس روبک، جان شکسپئر، ڈنکن فاربس، ایس ڈبلیو فیلن اور جان پلیٹس ان چند مستشرقین میں ہیں جن کے لغات اور صرف و نحو کی کتابوں میں اردو املا سے باخبری کا گہرا احساس پایا جاتا ہے۔ مستشرقین کی تصانیف میں اکثر اردو الفاظ یا جملوں کو رومن حروف میں لکھنا پڑتا تھا جس کے لیے اردو تہجّی اور رومن حروف تہجّی میں مطابقت کا کوئی نہ کوئی نظام قائم کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ غیر اہلِ زبان کو اردو پڑھانے کے لیے ان قاعدوں اور ضابطوں کو بھی سمجھنے سمجھانے کی ضرورت تھی جن کے مطابق حروف کے جوڑنے سے الفاظ اور عبارت لکھی جاتی ہے مستشرقین کی یہ کوشش تقریباً ایک صدی جاری رہیں لیکن خود اردو والوں نے ان امور کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی یوں تو انّیسویں صدی میں جب لکھنو کو ادبی مرکزیت حاصل ہو گئی تو دہلی اور لکھنو کی ادبی و لسانی چشمک میں جی کھول کر ہندی کی چندی کی گئی، لیکن زبان کے جن پہلوؤں پر زیادہ توجہ صرف ہوئی، وہ شعر کی زبان سے متعلق تھے؛ بول چال کی زبان اور نثر کی زبان برابر بے توجہی اور غفلت کا شکار رہی۔ متروکات، تذکیر و تانیث اور صحتِ استعمال ہی کو زبان کی کل کائنات سمجھا جاتا تھا۔بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے جب اردو ادب کے قدیم سرمائے کی تلاش و تحقیق کا کام شروع ہوا، اور مولوی عبدالحق کے زیرِ نگرانی انجمن ترقی اردو سے قدیم تذکرے، دواوین اور کلیات مرتب ہو کر شائع ہونے لگے، تو ترتیب و تدوین کے مسائل کے ساتھ ساتھ صحتِ املا کا خیال بھی ذہنوں میں آیا۔ مولوی عبدالحق نے قواعدِ اردو لکھی اور اسٹنڈرڈ انگریزی اردو لغت کا کام بھی مکمل کرایا۔ اس دوران میں اردو کی بے قاعدگیوں کا احساس اور بھی شدید ہوا ہو گا۔ بیسویں صدی میں تین خاص لغات بھی منظرِ عام پر آئے: فرہنگ آصفیہ، سیّد احمد دہلوی؛ نور اللغات، نور الحسن نیّر کاکوروی؛ اور جامع اللغات، فیروز الدّین لیکن سائنسی نظر کے فقدان کی وجہ سے ان میں املا کے مسائل پر وہ توجہ نہ ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی۔٭…٭…٭