امام بخاری ؒ کا مزار
اسپیشل فیچر
امام بخاری ؒ کا صحیح نام محمد بن اسماعیل البخاری تھا لیکن اہل جہاں انہیں امام بخاریؒ کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ 194 ھ میں بروز جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ نہایت چھوٹی عمر میں آنکھوں کی بیماری کی وجہ سے امام بخاریؒ کی بصارت جاتی رہی۔ کافی علاج معالجہ سے بھی اُن کی بینائی بحال نہ ہو سکی۔ آخر کار والدہ کی دُعائیں مستجاب ہوئیں اور ایک دن خواب میں حضرت ابراہیم خلیل اﷲ ؑنے بشارت دی کہ تمھاری دُعائوں کے طفیل اﷲ رب العزّت نے تمھارے بیٹے کی بینائی بحال کر دی ہے۔ والدہ صبح اُٹھیں تو دیکھا کہ بیٹے کی آنکھیں واقعی روشن ہو چکی تھیں۔ امام بخاریؒ نے ابتدائی تعلیم بخارا ہی میں حاصل کی پھر دوسرے شہروں کا رُخ کیا۔ مکہ اور مدینہ میں بھی قیام رہا۔ امامؒ کی تالیفات میں حدیث کی کتاب صحیح جامع البخاری کو انتہائی مستند تصور کیا جاتا ہے۔ آپؒ نے حدیث رسول ﷺ کو اکٹھا کرنے اور حدیث کے درس و تدریس میں ہی ساری زندگی بتا دی۔ آپؒ کے درس حدیث میں شامل ہونے والوںکی تعداد پندرہ پندرہ ہزار تک پہنچ جاتی تھی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بخارامیں حدیث کا درس دیا کرتے۔ والی ِبخارا نے خواہش ظاہر کی کہ آپؒ بچوں کو درس حدیث دینے کے لیے اُس کے محل میں آیا کریں۔ آپؒ نے کہا کہ یہ حدیث کی توہین کے مترادف ہوگا۔ آپؒ نے والی ِبخارا کے محل میں جاکر درس دینے سے انکار کر دیا کہ جس کسی طالب علم نے درس حدیث کافیض حاصل کرنا ہو اُسے چاہیے کہ وہ مقامِ درس حدیث میں خود چل کر آئے۔ کچھ حاسدوں نے امامؒ کے خلاف والی بخارا کے کان بھرنا شروع کر دیئے۔ ان حالات کے پیش نظر اہل سمر قند نے آپؒ کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ آپؒ بخارا چھوڑ کر سمر قند کے لیے روانہ ہو گئے۔ ابھی راستہ میں ہی تھے کہ بیمار پڑ گئے اور چند ہی روز بعد اﷲ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ آپؒ عیدالفطر کے دن 62 سال کی عمر میں فوت ہو ئے۔ آپ ؒ کا مزار سمر قند شہر سے 25 میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹی سی بستی میں واقع ہے۔ مزار کا احاطہ کافی وسیع ہے۔ احاطے میں داخل ہو تے ہی بائیں جانب مسجد اور مزار کا حجرہ ہے۔ جس میں مسجد کے امام اور مدرسے کے طالب علم، علم کی پیاس بجھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ بائیں جانب بہت وسیع مسجد واقع ہے۔ اور پورا احاطہ گزر کر سامنے آخر میں امام بخاری ؒکا مزار ہے۔ مزار چار ستونوں کی چھت کے نیچے ہے۔ اور چاروں اطراف کھلا ہے۔ روایت ہے کہ امام بخاریؒ کے انتقال کے بعد جب انھیں دفنایا گیا تو قبر سے عطر کی خوشبو آنی شروع ہو گئی اور زائرین تبرکاً وہ تھوڑی سی خاک اُٹھانے لگ گئے۔یہاں تک کہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں آپ کی قبر کی مٹی غائب ہی نہ ہو جائے تو اس خطرہ کے پیش نظر قبر کے تعویز کو پختہ کر دیا گیا۔ لیکن مزار سے خوشبو آج بھی ویسے ہی آ رہی ہے۔1974 ء میں تاشقند مسلم ریلجس بورڈ نے آپؒ کے بارہ سو سالہ جشن ولادت کے موقع پر ایک خصوصی عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد کروایا۔ جس میں 26 مسلمان ممالک کے علماء کرام کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس کانفرنس میں پاکستان سے مولانا عبدالقادر آزاد، حضرت علامہ مفتی نصیرالاجتہادی اور مولانا قاری ظاہر القاسمی نے شرکت کی تھی ۔ حکومت پاکستان نے مزارامام بخاریؒ کے لیے ایک خوبصورت اوربڑے قالین کا تحفہ بھی بھجوایا تھا جو سابق سفیر پاکستان شفقت علی شیخ نے مزار کے مہتمم کے حوالے کیا۔ مسجد کے قریب بڑی لائبریری بھی ہے جس میں امام بخاری ؒ کی تمام تالیفات اور دوسری اسلامی کتب کا ایک قیمتی ذخیرہ موجود ہے۔ امام بخاریؒ کا مزار اور اُس سے ملحق مدرسہ روسی حکومت کے دور میں شہر سے دور ہونے کی وجہ سے کسی نقصان سے محفوظ رہا۔٭…٭…٭