مولانا محمد علی جوہربحیثیت صحافی
اسپیشل فیچر
مولانا محمد علی جوہر کی ہمہ گیر شخصیت کے تمام زاویوں کا انعکاس اور ان کے ذہنی و فکری کمالات کا اظہار سب سے زیادہ اگر کسی شعبے میں ہوا، تو وہ صحافت کا شعبہ ہے۔ مولانا کے بارے میں بلاخوف یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ پیدائشی صحافی تھے۔ صحافت سے انہیں یک گونہ طبعی مناسبت اور فطری لگاؤ تھا بلکہ یہ کہنا حق بجانب ہے کہ صحافت ان کے رگ و پے میں خون بن کر دوڑ رہی تھی۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحافتی زندگی کا باقاعدہ آغاز ’’کامریڈ‘‘ سے ہوتا ہے۔ 14 جنوری 1911ء کو مولانا نے کلکتہ سے ’’کامریڈ‘‘ کے نام سے ایک انگریزی اخبار شائع کیا۔ جدوجہد آزادی میں یہ اخبار سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے قدیم صحافتی روایتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک منفرد راستہ اختیار کیا۔ اس کے نتیجہ میں جہاں ایک جانب محمد علی جوہر کی لاجواب اور بے مثال انشا پردازی، حق گوئی، بے باکی، غیر جانبداری اور صداقت پسندی نے انگریزی ایوان میں لرزہ طاری کر دیا اور انگریزی حکام کو چونکنے پر مجبور کردیا، تو دوسری جانب برصغیر کے عوام، خصوصاً مسلمانوں کو ایک جری اور دلیر قائد مل گیا۔ مولانا محمد علی نے ’’کامریڈ‘‘ میں صحافت کے نئے رجحانات کو سمویا، وقت اور حالات کے تقاضوں کو پورا کیا اور اس دور کے اہم مسائل کو اپنا موضوع بنایا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر طرف ’’کامریڈ‘‘ کی دھوم مچ گئی۔ ’’کامریڈ‘‘ کے بعد مولانا محمد علی جوہر نے ایک انقلابی اخبار ’’ہمدرد‘‘ فروری 1913ء کو جاری کیا۔ یہ ایسا اخبار تھا کہ جس نے قومی جذبات و سیاسی شعور کو بیدار کر کے ملک میں تہلکہ مچا دیا اور ہندوستان پر قابض انگریزی ایوان حکومت میں زلزلہ پیدا کر دیا۔ ’’ہمدرد‘‘صرف اخبار نہیں تھا، بلکہ انگریزی حکومت کے خلاف یہ ایک تحریک تھی، جس نے ملک و ملت کے سرد لہو کو گرم اور رواں دواں کردیا۔ مردہ دلوں میں نئی جان ڈال دی، مظلوموں اور مغلوبوں کو آزادی کا شیدائی و فدائی بنا دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں حالانکہ اردو کے چند ایسے اخبارات تھے، جو ملک بھر میں مشہور اور مقبول تھے، جن میں ’’زمیندار، اردوئے معلیٰ، تہذیب الاخلاق اور اودھ اخبار‘‘ سرفہرست ہیں۔ ظفر علی خان کا ’’زمیندار‘‘ اس وقت ایک ایسا اخبار تھا جو اردو صحافت کے افق پر جگمگا رہا تھا۔ ایسے وقت میں ’’ہمدرد‘‘ نے اپنی الگ انفرادیت اور شناخت قائم کی۔ قلیل مدت میں ہی ’’ہمدرد‘‘ کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا، کیونکہ یہ عوام کے دل و دماغ پر چھا گیا تھا۔ اس نے فکر و نظر کے زاویے اور گوشے بدل دیے، نئی راہیں کھولیں اور نئے لب و لہجے میں نیا پیغام دیا۔ ’’ہمدرد‘‘ نے مسلمانوں کی حمیت ایمانی کو للکارا اور انگریزوں کی نفرت کا نقش ان کے دلوں میں بٹھا دیا۔ اس کے علاوہ ’’ہمدرد‘‘ اخبار نے ’’زمیندار‘‘ کے مقابلے میں سنجیدگی اور متانت کے ساتھ مدلل صحافت کا راستہ اختیار کیا۔ ’’ہمدرد‘‘ کی پالیسی وہی تھی جو ’’کامریڈ‘‘ کی تھی۔ ’’زمیندار‘‘ نے جہاں عوامی صحافت کو متعارف کرایا تو وہیں ’’ہمدرد‘‘ نے معیاری صحافت کو برقرار رکھا۔ اس وقت مولانا محمد علی جوہر نے صحافیوں کے لیے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا اور ’’کامریڈ‘‘ کی چھ جون 1913ء کی اشاعت میں یہ تحریر فرمایا کہ صحافی کو ذاتی مفاد سے مبرا ہونا چاہیے۔ مبالغہ آرائی، عبارت آرائی اور قصہ خوانی سے اجتناب برتنا چاہیے۔ اس کا مقصد اپنی قوم کو فائدہ پہنچانا ہو، نہ کہ کسی دیگر قوم کو ضرر پہنچانا۔ صحیح اور مصدقہ خبریں چھاپنی چاہئیں اور مذہبی بحثوں سے بچنا چاہیے۔ صحافت کا مقصد مولانا محمد علی جوہر کے نزدیک ملک و ملت کی بے لوث خدمت کرنا تھا۔