داڑھ نکلوا دیجیے
اسپیشل فیچر
ہمارا ایک دانت تھا جس پر ملک بھر کے ڈاکٹروں کے ایک مدت سے دانت تھے، اسے ہم ان لوگوں کی دست برد سے 10 سال تک تو بچاتے رہے لیکن آخر جاں بحق ہوا۔ اس سے ہمارے حسن خدا داد میں تو چنداں فرق نہیں پڑا۔ کیونکہ یہ دکھانے کا دانت نہ تھا، کھانے کا تھا، یعنی بہت پیچھے کی ایک داڑھ۔ تاہم اس کی مفارقت کا افسوس ضرور ہوا۔ ہماری اس داڑھ کے نکلوانے میں ہچر مچر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایک دوست نے کہا کہ یہ عقل داڑھ ہے، اگرچہ اس کے ہونے سے عملاً کچھ فائدہ کبھی نہیں پہنچا لیکن اس کے نکلوانے سے تو بھرم بھی جاتا رہے گا۔ ہمارے ایک ماہر ڈاکٹر نے شک رفع کیا اور کہا یہ عقل داڑھ نہیں اور اس کے نکلنے کی تمہارے نظام جسمانی میں گنجائش بھی نہیں۔ اب رہا علاج۔ اس کے لیے ایک وٹرنری ہسپتال تو ہم بے شک نہیں گئے حالانکہ بعض مہربانوں نے اس کا مشورہ بھی دیا تھا اور اس کے ڈاکٹر کی شہرت بھی سنی تھی۔ ہاں کوئی اور معالج ہم نے نہیں چھوڑا۔ ’’بنا کر مریضوں کا ہم بھیس غالب‘‘ نکلتے تھے۔ تو سائیں چنن دین سنیاسی سے لے کر پروفیسر اے آر (اللہ رکھا) چشتی عاملِ کامہ اور عزرائیل الاطبا حکیم فضل مولیٰ تک کے درِ دولت پر جا دستک دیتے تھے۔ فقیری منجن بھی استعمال کیا… لیکن درد نے برابر ترقی ہی کی۔ عشرہ ترقیات منا کر دم لیا۔ بعض لوگوں نے چینی دندان سازوں سے رجوع کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ چین سے ہماری ہمدردیاں ڈھکی چھپی نہیں لیکن خطرہ یہ تھا کہ ان میں کوئی کومن تانگ کا ہمدرد نکلا تو پورا جبڑا نکال لے گا۔ یہ احتیاط مقامی لوگوں کے باب میں بھی ضروری معلوم ہوئی۔ کیونکہ خود ہمارے ملک میں بعض سیاسی جماعتیں کومن تانگ سے رشتہ رکھتی ہیں… دانت نکلواتے وقت دیکھ لینا چاہیے کہ ڈاکٹر کا کس جماعت سے تعلق ہے۔ ہمارے ملک میں بے ڈگری کے ڈاکٹروں کی کمی نہیں۔ سبزے کی طرح انہیں کہیں جگہ نہ ملی تو فٹ پاتھوں پر ہی کائی بن کر جم گئے ہیں۔ بعض تو ان میں سے باکمال ہیں کہ منہ میں (مریض کے منہ میں) انگلی ڈال کر انجکشن دیے بغیر دانت نکال لیتے ہیں اور اس میں اس کی تخصیص نہیں کہ دانت بیمار تھا یا تندرست۔ ہمارے ایک دوست نے ایک بار ایسے ہی ایک ڈاکٹر سے دانت نکلوایا تھا۔ اس نے زنبور ڈالا اور دانت نکال کر ہمارے دوست کے ہاتھ میں دے دیا۔ دانت ہی نہیں اس کا چھلا اور پلیٹ بھی… ہمارے دوست نے احتجاج کیا تو وہ ڈاکٹر صاحب بتیسی نکال کر بولے ’’اسے بھی بدلوا لیجیے۔ آج کل مصنوعی دانتوں میں بھی کیڑا لگ جاتا ہے۔‘‘پھر پھرا کر دنیا بھر کے چکر لگا کر ہم اپنے دوست ڈاکٹر طیب محمود کے پاس آئے کہ اے طبیب جملہ علتہائے ما، اس بد ذات کو نکال۔ اب انہوں نے پس وپیش کی۔ ہم نے کہا، آج کل لوگوں کے دل اور گردے بدلے جا رہے ہیں، آپ اسے نکال کر کسی بکری کا دانت ڈال دیجیے تو مانوں۔ لیکن وہ راضی نہ ہوئے اور بولے۔ دانتوں کی سائنس نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی، اور جب انہوں نے ہمارا دانت نکالنے کی حامی بھرلی تو ہم پر رقت طاری ہو گئی اور ہم نے دیوانی مقدموں کی طرح تاریخیں ڈالنی شروع کیں۔ ذرا یہ ملک کے حالات تو ٹھیک ہو لیں۔ بالغ حق رائے دہندگی کا مطالبہ منظور ہو لے۔ ایمرجنسی ختم ہو طالب علم رہنما چھوٹیں تو بے شکل نکال دیجیے گا۔ آخر ایک روز انہوں نے کہا، ایمرجنسی ختم ہوئی، باقی مطالبے بھی پورے ہونے والے ہیں۔ اب میرا یہ مطالبہ ہے کہ اس داڑھ کو نکلوا دیجیے۔ اس پر ہم نے کہا، آج نہیں، آج تو بارش کے سے آثار ہیں اور ایسے عالم میں دانت نکلوانا اچھا نہیںہوتا۔ یوں بھی منگل کا دن ہے۔ اس پر وہ بولے، اچھا صفائی کر دوں، اور پھر واقعی انہوں نے صفائی کر دی۔ داڑھ نکال کر ہمارے ہاتھ میں دے دی۔ کانوں کان بلکہ دانتوں دانت خبر نہ ہوئی۔