نفسیاتی تحقیق کا طریقہ کار
اسپیشل فیچر
دوسرے جدید علوم کی طرح نفسیات میں بھی سائنسی اصولوں کو اختیار کیا جاتا ہے۔ سائنسی اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہر طریقے کے اپنے مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ نفسیات میں تحقیق کا جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے وہ صورت حال کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کوئی ایک طریقہ مناسب ہوتا ہے تو بعض اوقات کوئی دوسرا طریقہ۔ دوسرے سائنسی علوم کی طرح نفسیات میں بھی ان حقائق کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو مشاہدہ میں آ سکیں۔ اس میں موہوم خیالی یا فرضی تصورات کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے جدید نفسیات نے روح کے ذکر کو نظرانداز کر دیا ہے۔ طبیعیات، کیمیا اور دوسرے سائنسی علوم کی طرح نفسیات کے نزدیک کوئی واقعہ بغیر سبب کے نہیں ہوتا۔ ہر نفسیاتی واقعہ کا کوئی سبب ضروری ہے۔ مثلاً ایک زمانہ سے لوگ خواب یا پاگل پن کا سبب بتانے سے قاصر تھے لیکن سگمنڈ فرائڈ نے یہ بتایا کہ ان کے اسباب موجود ہیں، البتہ ان کا پتہ لاشعور میں لگانا ہوگا۔ بعد ازاں اس میدان میں مزید ترقی ہوئی اور پاگل پن کی سماجی، جینیاتی اور کیمیائی وجوہ کے بارے میں معلوم ہوا۔ نفسیات واقعات کی اچھائی یا برائی سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہ اخلاقیات کا موضوع ہے۔ جیسے ایک سائنس دان کو بارود کے اچھے اور برے نتائج سے اتنا تعلق نہیں ہوتا جتنا اس کی ترکیب اور بنانے کے عمل سے۔ نفسیات کا تعلق فرد اور اس کے کردار سے ہے اور اس کے لیے مواد جمع کرنے اور صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لیے جو طریقہ بھی مفید ہو اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک میں کیس سٹڈیز، سروے اور مشاہدے شامل ہیں۔ اسے ڈسکرپٹو یا یا تشریحی طریقہ کہا جاتا ہے۔ اس میں محققین مختلف واقعات، تجربات یا رویوں کی تشریح کرتے ہیں اور ان کے درمیان تعلق کو تلاش کرتے ہیں۔نفسیاتی تحقیقات میں افراد کے خیالات، احساسات اور مشاغل سمجھنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ پیش گوئی اور مسئلے پر قابو پانے کا سوال بعد میں آتا ہے۔ افراد کے کردار کے مطالعہ میں دو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ۱۔ مطالعہ باطن (Introspection)، اور ۲۔ خارجی مشاہدہ (External Observation)۔ ایک فرد کے اندر جو نفسیاتی افعال ہوتے رہتے ہیں ان کا تفصیلی بیان یا رپورٹ مطالعہ باطن کہلاتی ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا مشاہدہ ہے۔ بعض لوگوں مثلاً واٹسن کا خیال تھا کہ مطالعہ باطن غیر سائنسی اور بے معنی ہے۔ اس کے برخلاف شروعاتی ماہرین نفسیات مطالعہ باطن ہی کو اہمیت دیتے تھے۔ یہ دونوں نظریے غیر متوازن ہیں۔ اگر نفسیات کا موضوع وقوف، احساس اور محرکات کی تشریح اور تجزیہ ہو تو ظاہر ہے کہ فرد کے اندر کی دنیا پر دھیان دینا ہو گا اور صحیح رپورٹ دینی ہو گی۔ فرائڈ کا خیال ہے کہ بہت سارے افعال جنہیں ہم شعوری سمجھتے ہیں دراصل اس کے اسباب لاشعوری ہوتے ہیں۔ تاہم مطالعہ باطن میں کوئی فرد اپنے بارے میں جو معلومات دیتا ہے دوسرے سائنس دانوں کے لیے اس کے نتائج کی پڑتال مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے افراد کے مطالعہ کے لیے دوسرے طریقوں کو استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔ باطنی مشاہدہ کی تکمیل کے لیے خارجی مشاہدہ ضروری ہے۔ اس سے باطنی مشاہدوں کی جانچ پڑتال ہو جاتی ہے۔ خارجی اور باطنی دونوں قسم کے مشاہدات صرف وہی کر سکتا ہے جس نے اس کی مہارت حاصل کر لی ہو۔ خارجی مشاہدے میں زیرمشاہدہ فرد کے ماضی و حال کے کردار کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس کے تمام مثبت و منفی عوامل کا علم حاصل کیا جاتا ہے اور ان معلومات کی بنیاد پر صحیح نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ مواد اکٹھا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے بعد مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کی جا سکتی ہے مثلاً ایک شخص کے بارے میں مواد جمع کرنے سے پتہ چلا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہے۔ وہ ایسی باتیں کرتا ہے جو دکھ درد سے بھری ہوں اور زندگی کے مثبت پہلو نہیں دیکھتا۔ وہ اپنے جذبات کو درست مانتا ہے لیکن ایک ماہر نفسیات اس کی باتوں، جذبات اور پھر رویوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد بتا سکتا ہے کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہے ۔ وہ اسے اس سے باہر لانے کے بارے میں مشورے دے سکتا ہے اور لائحہ عمل ترتیب دے سکتا ہے۔ فرد کی زندگی کا گہرا مطالعہ کرنے کے لیے سوانح عمری کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ مثلاً ماضی میں وہ کیا حالات تھے جن میں کوئی شخص اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا یا کسی ذہنی خلل میں مبتلا ہوا۔