گلاب
اسپیشل فیچر
گلاب کے پھول انسان کے لئے ہمیشہ سے ہی اہم رہے ہیں۔یونانی دیومالا سے پتہ چلتا ہے گلاب کے پھول کے بغیر وہ لوگ عبادت نہیں کرتے تھے۔ خصوصاً وینس دیوی کے چرنوں میں گلاب چڑھایا جاتا تھا۔ یہودی اسے خصوصی طور پر باغوں میں لگاتے تھے۔ دمشق میں اس کا عطر اور شربت استعمال کیا جاتا تھا۔ رومن بادشاہ سب سے بہادر جرنیل کو گلاب کا پھول بطور تحفہ دیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا پھولوں کا تاج پہننے سے سر کا درد دور ہو جاتا ہے۔ معروف شاعر عمر خیام بھی گلاب کا شیدائی تھا۔ اس نے اپنی شاعری میں جابجااس کی تعریف کی ہے۔ عمر خیام کی لازوال رباعیات کو انگریزی کے قالب میں ڈھالنے والے گلاب کی قلم خاص طور پر منگوا کر بطور عقیدت لگائی گئی۔ شیکسپیئر نے کئی جگہ اس کے پودے کی تعریف کی ہے۔ نیرو جیسا سنگ دل رومن بادشاہ بھی اس پھول کا شیدائی تھا۔ موسم گل میں وہ زیادہ سے زیادہ اس پھول کے پودے لگواتا۔ محل کی گزرگاہ میں گلاب کی تازہ پنکھڑیوں کا فرش بچھایا جاتا۔ اس کی خواب گاہ کو تازہ گلاب سے سجایا جاتا اور اس کا بستر بھی گلاب کی سرخ مخملی پتیوں سے مزین ہوتا۔بابر نے جب ہندوستان میں قدم رکھا تو یہاں کی آندھیوں، گرمی اور گردوغبار سے پریشان ہو گیا۔ فرغانہ کے گل رنگ مرغزاروں میں پلے بڑھے مغلوں نے ایسے موسم کی تمازت کا کبھی سامنا نہ کیا تھا۔ بابر کو پھولوں خصوصاً گلاب سے عشق تھا۔ اس نے کابل میں بہت سے باغات لگوائے تھے ۔ اس میں مشہور باغ ’’باغِ وفا‘‘ شامل تھا۔ اس نے آگرہ میں عمارات شروع کرائی تو قسطنطنیہ سے ماہر تعمیر استاد طلب کیے۔ جب عمارات کی تعمیر ہو چکی تو اس نے خود گھوم پھر کر باغات کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب کیا اور اپنی خاص نگرانی میں گلاب اور نرگس کے پودے لگوائے۔ بابر نے اپنی بیٹیوں کے نام بھی گلاب کی مناسبت سے رکھے، گل بدن، گل چہرہ، گل رنگ وغیرہ ۔ نورجہاں گلاب کی شیدائی تھی۔ اس کی ہر تصویر میں گلاب کا پھول نظر آتا ہے۔ وہ گلاب کے عرق سے نہاتی تھی۔ عطر تیار کرنے کے لیے تازہ کشید کیا ہوا عرق گلاب رات کو کھلے برتنوں میں رکھ دیا جاتا اور صبح جو چکنائی سطح پر جمع ہوتی اسے احتیاط سے اتار لیا جاتا ۔الف لیلہ کی کہانیوں میں ہے کہ خلیفہ بغداد مہمانوں کو کھانے کے بعد گلاب کی شہد آمیز پتیوں کا خوشبودار مربہ پیش کیا کرتے۔