بائیں بازو میں درد کی 4 وجوہات

بائیں بازو میں درد کی 4 وجوہات

اسپیشل فیچر

تحریر : سکاٹ فروتھنگم


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

اگر آپ کے بائیں بازو میں درد ہو رہا ہے تو اس کی ایک وجہ تشویش (اینگزائٹی) ہو سکتی ہے۔ تشویش سے پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہوتا ہے جس سے درد ہو سکتا ہے۔دل کا دورہ، انجائنا اور انجری بھی اس درد کی وجہ ہو سکتے ہیں۔ دراصل بائیں بازو کے سُن اور کمزور ہونے اور اس میں درد ہونے کے متعدد جسمانی اور نفسیاتی اسباب ہوتے ہیں۔ بائیں بازو میں درد کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ دل کے دورے کے بارے میں معلوم کیا جا سکے۔ آئیے اس درد کی چاراہم وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں: ۱۔ تشویش سے درد پیدا ہو سکتا ہے اور اگر کسی دوسری وجہ سے بائیں بازو میں پہلے سے درد ہو تو تشویش سے یہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ تشویش معمولی سے درد کو بڑھا سکتی ہے۔ ۲۔ عام طور پر دل کے دورے کی ابتدائی علامت بائیں بازو میں اچانک درد ہونا ہے جو چند منٹوں میں بڑھ جاتا ہے۔ دل کے دورے کی دیگر علامات یہ ہیں: سینے کے درمیان دباؤ یا بے چینی، جبڑوں، گردن، کمر یا معدے میں بے چینی، سانسوں میں تیزی، متلی، سر چکرانا اور اچانک ٹھنڈے پسینے آنا۔ ۳۔ جب دل کو پوری طرح آکسیجن میسر نہیں آتی تو سینے میں درد ہوتا ہے جسے انجائنا کہتے ہیں۔ انجائنا سے بائیں بازو میں درد ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ کندھوں، گردن، کمر یا جبڑوں میں بے چینی ہو سکتی ہے۔ ضعفِ معدہ کی شکایت ہو سکتی ہے۔ انجائنا عموماً دل کی شریانوں میں خرابی کی علامت ہوتا ہے اور اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ۴۔ ہڈی یا بافت میں انجری بائیں بازو میں درد کی وجہ ہو سکتی ہے۔ بائیں بازو یا کندھے کی ہڈی میں فریکچر سے یقینا درد ہوتا ہے، نیز ہڈیوں اور بافتوں کے درمیان پانے جانے والے مائع کی سوزش جسے ’’برسیٹس‘‘ کہتے ہیں، درد پیدا کر سکتی ہے۔ کلائی کے نزدیک بازو کے اعصاب پر دباؤ پڑنے سے درد ہو سکتا ہے۔ اس کیفیت کو ’’کارپل ٹنل سینڈروم‘‘ کہتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کا مرض ’’ہرنیاٹڈ ڈِسک‘‘ بھی وجہ ہو سکتا ہے جس میں معاون ڈسکس پھٹ جاتی ہیں۔ کندھوں کی ’’روٹر کف‘‘نامی بافتوں اور ٹینڈنز (ہڈی کو پٹھوں سے جوڑنے والی نسیں) کا پھٹنا، اور ٹینڈنز کی سوزش درد پیدا کرتے ہیں۔ اگر بائیں بازو میں اچانک، شدید درد ہو یا اس کے ساتھ سینے میں جکڑن یا دباؤ محسوس ہو تو کسی انتظار کے بغیر علاج کے لیے رجوع کرنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
اپنی سماعت کی حفاظت کریں!

اپنی سماعت کی حفاظت کریں!

کان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ہمارے دماغ کو ملنے والے تمام پیغامات کا تقریباً 23 فیصد حصہ کانوں کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے۔ سب سے پہلے آواز کی لہریں کان کے بیرونی حصہ میں داخل ہو کر اس حصے کی نالی سے گزر کر پردہ سے ٹکراتی ہیں، پھر یہ کان میں وسطی حصے میں موجود ہڈیوں سے باری باری ٹکراتی ہیں۔ آواز کی لہریں سماعت کے عضو سے ٹکراتی ہوئی دماغ تک پہنچتی ہیں۔ وہاں دماغ انہیں ڈی کوڈ کرتے ہوئے معنی دیتا ہے کہ یہ آواز کس طرف یا سمت سے؟ کس چیز کی آواز ہے؟ اس آواز کا مطلب کیا ہے؟ہر سال 3 مارچ کو دنیا بھر میں کان اور سماعت کا عالمی دن (world Hearing Day)منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد سماعت کی صحت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا، سماعت کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنا، اور سماعت سے محروم افراد کی مدد کے لیے عملی اقدامات کو فروغ دینا ہے۔ پس منظر: عالمی ادارہ صحت (WHO) نے 2007ء میں اس دن کو منانے کا آغاز کیا تاکہ دنیا بھر میں لوگوں کو سماعت کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں شعور دیا جا سکے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دن اہم موقع بن گیا ہے جس میں حکومتیں، ماہرین صحت، سماجی تنظیمیں اور عوام مل کر سماعت کے مسائل سے نمٹنے کیلئے آگے بڑھتے ہیں۔سماعت کی اہمیت: سماعت انسان کے پانچ بنیادی حواس میں سے ایک ہے، جو ہمیں دنیا کے ساتھ جڑنے، بات چیت کرنے اور زندگی کے اہم تجربات کو محسوس کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ایک صحت مند سماعت انسان کی سیکھنے، کام کرنے اور روزمرہ زندگی میں کامیابی کیلئے نہایت ضروری ہے۔ اگر سماعت متاثر ہو جائے تو زندگی کے کئی پہلو بھی متاثر ہوتے ہیں، جن میں تعلیم، روزگار، اور سماجی تعلقات شامل ہیں۔سماعتی مسائل کی وجوہات: سماعت کے مسائل کئی وجوہات کی بنا پر پیدا ہو سکتے ہیں، جن میں درج ذیل عوامل شامل ہیں:شور کی آلودگی: اونچی آوازوں میں زیادہ وقت گزارنا۔ موسیقی، مشینری، یا ٹریفک کا شور، سماعت کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔جینیاتی عوامل: کچھ لوگوں میں پیدائشی طور پر سماعت کے مسائل ہو سکتے ہیں۔کان کی بیماریاں: انفیکشن، الرجی یا موم (wax) کی زیادتی سماعت پر اثر ڈال سکتی ہے۔ادویات کا منفی اثر: کچھ دوائیں سماعت کو متاثر کر سکتی ہیں، جنہیں ototoxic دوائیں کہا جاتا ہے۔عمر بڑھنے کے اثرات: بڑھتی عمر کے ساتھ سماعت کی کمزوری ایک عام مسئلہ ہے۔ احتیاطی تدابیر: سماعت کو محفوظ رکھنے کیلئے درج ذیل احتیاطی تدابیر اپنائی جا سکتی ہیں:(1) شور والی جگہوں پر کم وقت گزاریں یا کانوں کو ڈھانپنے کیلئے حفاظتی آلات (ear plugs) استعمال کریں۔(2) زیادہ اونچی آواز میں ہیڈ فون استعمال کرنے سے گریز کریں۔(3)کانوں کی صفائی کیلئے کوٹن بڈز (Cotton buds) کا غیر ضروری استعمال نہ کریں۔(4)کسی بھی غیر معمولی علامت، جیسے کان میں درد یا آواز کا کم سنائی دینا، کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔(5)بچوں کی پیدائش کے بعد سماعت کا ابتدائی معائنہ ضرور کرائیں۔کان اور سماعت کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی سماعت کا خیال رکھنا چاہیے اور ان افراد کی مدد کرنی چاہیے جو سماعت کے مسائل کا شکار ہیں۔ اگر بروقت اقدامات کیے جائیں تو ان مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔

رمضان کے پکوان:چنا چاٹ

رمضان کے پکوان:چنا چاٹ

اُبلے ہوئے چنوں اور چٹ پٹے مزے دار مسالوں کا بہترین امتزاج جس میں ہری اور املی کی چٹخارے دار چٹنی مل کر مزہ دوبالا کردیتی ہیں۔ ساتھ میں کڑک اور خستہ پاپڑی کی آمیزش اسے اور بھی زیادہ مزے دار بناتی ہے۔ اس دن میں کسی وقت بھی کھایا جاسکتا ہے۔ اجزاء:چنے اُبلے ہوئے ایک کپ،ٹماٹر کٹے ہوئے ایک عدد، آلو اُبلے ہوئے ایک کپ،بند گوبھی کٹی ہوئی ایک کپ،لال مرچ کُٹی ہوئی ایک کھانے کا چمچ،چاٹ مسالا ایک کھانے کا چمچ،ہری مرچیں باریک کٹی ہوئی ایک سے دو عدد،نمک حسب ذائقہ،ہرا دھنیا کٹا ہواایک چوتھائی گٹھی،زیرے کا رائتہ ایک کپ،ہری چٹنی تین کھانے کے چمچ،املی کی چٹنی تین کھانے کے چمچترکیب: ایک پیالے میں اُبلے ہوئے چنے، ٹماٹر، اُبلے ہوئے آلو، بند گوبھی، کْٹی ہوئی لال مرچ، چاٹ مسالا، ہری مرچیں، نمک، دھنیا اور زیرے کا رائتہ ڈالیں۔ان چیزوں کو اچھی طرح ملائیں تاکہ تمام اجزا یکجان ہو جائیں۔ اب اس میں ہری چٹنی اور املی کی چٹنی ملائیں اور اچھی طرح مکس کریں۔چٹ پٹی مزے دار چنا چاٹ تیار ہے۔ اسٹرابری ہنی سموتھیآج کل اسٹرابری کا موسم ہے اور یہ مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ خوش رنگ اور خوش ذائقہ اسموتھی اسٹرابری رمضان المبارک کیلئے ایک بہترین ڈرنک ہے۔ اگر آپ غذائیت سے بھرپور کسی صحت مند غذا کے خواہشمند ہیں تو یہ مشروب خاص آپ کیلئے ہی ہے۔اجزاء : اسٹرابری ایک کپ، لیمن جوس آدھا کپ، سوڈا واٹر آدھا کپ، کریم آدھا کپ، شہد ایک کھانے کا چمچ، برف حسب ضرورت ترکیب : بلینڈر میں تازہ اسٹرابری، لیمن جوس اور سوڈا واٹر ڈال کر اس وقت تک گرائنڈ کریں جب تک وہ اچھی طرح یکجاں نہ ہو جائیں۔ پھر اس میں کریم اور شہد (حسب ذائقہ) شامل کریں۔٭٭٭٭ 

حکایت سعدیؒ :خدمت خلق

حکایت سعدیؒ :خدمت خلق

ایک نیک شخص حج کے سفر پر اس طرح روانہ ہوا کہ ہر قدم پر دو رکعت نفل پڑھتا۔ اس کے ذوق شوق کا یہ عالم تھا کہ راستے کے کانٹے بھی اسے پھول معلوم ہوتے اور ہر تکلیف راحت پہنچاتی۔وہ اسی ذوق و شوق کے ساتھ سفر کر رہا تھا کہ ایک مقام پر اس کے دل میں خیال آیا، جس انداز سے میں حج کا سفر کر رہا ہوں آج تک کسی نے نہ کیا ہوگا۔ یہ خیال اس کے دل میں انسان کے ازلی دشمن شیطان نے ڈالا تھا۔ اگر وہ فوراً ہی سنبھل نہ جاتا اور توبہ استغفار نہ کرتا تو ہلاک ہو جاتا۔ وہ تو یوں کہو کہ اللہ پاک نے اس پر فضل کیا اس کے کانوں میں غیب سے آواز آئی کہ اے نیک بندے! بے شک تو نے میری عبادت تو کی لیکن یہ خیال نہ کر کہ تو ہماری بار گاہ میں کوئی خاص تحفہ لے کر آ رہا ہے۔ تجھے معلوم ہونا چاہئے کسی دکھی دل کو خوش کرنا ہر منزل پر ایک ہزار رکعتیں ادا کرنے سے افضل ہے۔ حضرت شیخ سعدی رحمہ اللہ علیہ نے اس حکایت میں یہ بات واضح کی ہے کہ قولی عبادت کے مقابلے میں عملی عبادت کا درجہ بہر حال زیادہ ہے اور عملی عبادت میں سب سے بڑھ کر خدمت خلق ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

دولت عثمانیہ امن معاہدہ دولت عثمانیہ سے معاہدہ امن کیلئے 3 مارچ 1878ء کو استنبول میں اجلاس ہوا ،جس کی رو سے رومانیہ، مونٹی نیگرو اور سربیا نے آزادی حاصل کی۔ اس جنگ کے ہرجانے کے طور پر قارس، ارداخان، باتوم اور مشرقی بایزید کے علاقے روس کو دے دیئے گئے۔سعودی عرب میں تیل کی دریافت3مارچ 1938 ء کو سعودی عرب میں تیل دریافت ہوا۔ امریکہ نے دمام کے کنویں نمبر 7 سے تجارتی مقدار میں تیل نکالا۔1923ء میں ابن سعود نے نیوزی لینڈ کی کمپنی سے تیل کی تلاش کا معاہدہ کیا تھاجبکہ تیل نکالنے میں کامیابی 1938ء میں امریکی کمپنی کو حاصل ہوئی۔خطرناک فضائی حادثہ ترکش ایئر لائنز کی ''پرواز 981‘‘3 مارچ 1974ء کو پیرس کے قریب گر کر تباہ ہو گئی۔ اس میں سوار تمام 335 مسافر اور عملے کے 11 افراد ہلاک ہو گئے۔سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ2009ء میںآج کے روز لاہورکے لبرٹی چوک میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ جس میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کے چھ ارکان زخمی اور5 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔

عمان کی خوبصوت مساجد

عمان کی خوبصوت مساجد

عمان اردن کا دارالحکومت ہے۔ اس کی آبادی12لاکھ ہے۔ بائبل میں اسے عمون کہا گیا ہے۔ یونانی دور میں یہ یونانیوں کے دس بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا اور اسے فلاڈلفیا کہا جاتا تھا۔ یہ ڈیلفی سے موسوم تھا جو کہ یونان میں اپالو دیوتا سے منسوب مندر تھا۔ بعد میں عمان انباط عرب کی سلطنت کا اہم شہر ٹھہرا۔31ق م میں اس پر رومیوں نے قبضہ کر لیا۔ آخر کار 14ھ، 635ء میں مسلمانوں نے اسے فتح کر لیا۔ یہاں رومی ایمفی تھیٹر کے آثار ہیں۔ یہ اردن کا ثقافتی، تجارتی اور صنعتی مرکز ہے یہاں پارچہ بافی اور اغذیہ کے کارخانے ہیں۔قاقوت جموی معجم البلدان میں لکھتا ہے ''عمان ارض بلقاء کا ایک قصبہ ہے۔ ترمذی میں اس کا ذکر ''من عدن الیٰ اعمان البلقاء‘‘ کے الفاظ میں آیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ عمان ہی وقیانوس( رومی بادشاہ) کا شہر ہے اور اس کے قریب الکہف (اصحاب کہف کا غار) اور الرقیم اہل ملک میں مصروف ہیں۔ عمان میں اوریاء نبی کی قبر قصرِ جالوت پہاڑی پر ہے۔ یہیں سلیمان علیہ السلام کی مسجد و ملعب ہے‘‘۔(معجم البلدان 151/4)ابودرویش مسجدابو درویش مسجد عمان میں جبلِ اشرافیہ پر تعمیر کی گئی ہے۔ جبل اشرافیہ عمان کی سات خوبصورت پہاڑیوں میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد 1961ء میں تعمیر ہوئی اور اس کا کل رقبہ 26911مربع فٹ ہے۔ مسجد کے چھ چھوٹے گنبد اور ایک بڑا گنبد ہے۔ اس مسجد کے واحد مینار کی بلندی 118 فٹ ہے۔ مسجد کی تعمیر میں سفید اور سیاہ پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا ڈیزائن اس مسجد کی زمین کے مالک مصطفی حسن نے خود تیار کیا جو کہ خود ایک ماہر ڈیزائن تھے۔ ابو درویش مصطفی حسن کی کنیت تھی اور اسی نام سے یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ اس مسجد میں 7ہزار سے زیادہ نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔مصطفی حسن ابو درویش قفقاز میں پیدا ہوئے، ان کو شروع ہی سے شامی طرز تعمیر سے بہت دلچسپی تھی۔ عمان شہر کے جبل اشرافیہ پر پہلے سے کوئی مسجد نہیں تھی۔ لہٰذا انہوں نے یہاں ایک مسجد کا ڈیزائن تیار کرکے تعمیر شروع کر دی۔ ابو درویش نے اس کے تمام تعمیری اخراجات خود برداشت کئے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں 2500 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد کے برابر ایک لائبریری اور ایک مدرسہ بھی بنایا گیا ہے۔ لائبریری میں اسلامی اور دینی کتب کی تعداد 3ہزارسے زیادہ ہے۔ ساتھ ہی اسلامی میوزیم بھی موجود ہے۔ اس مسجد کا شمار دنیا کی چوٹی کی دس خوبصورت مساجد میں کیا جاتا ہے۔1978ء سے ابو درویش مسجد سے ایک مشترکہ اذان دی جاتی ہے جو ایک ریڈیو سسٹم کے تحت شہر کی تمام 42مساجد میں بیک وقت نشر کی جاتی ہے۔ اس اذان کے پہلے مؤذن ابو اسفار ہیں۔ اس مسجد کے انتظامی امور کی ذمہ داری ایک کمیٹی کے سپرد ہے جو محکمہ انصاف کے سربراہ کی نگرانی میں کام کرتی ہے۔ غیر مسلموں کا اسکے اندر داخلہ ممنوع ہے۔شاہ حسین بن طلال مسجدیہ اردن کے دارالحکومت عمان کی سب سے بڑی اور بہت خوبصورت مسجد ہے۔ اس کی تعمیر 2003ء میں شروع کی گئی اور تکمیل کے بعد مسجد کا افتتاح شاہ عبداللہ نے 11اپریل 2006ء بمطابق بارہ ربیع الاول 1427ھ کو کیا۔ شاہ عبداللہ نے یہ مسجد اپنے والد شاہ حسین کی یاد میں تعمیر کروائی۔ اس مسجد کو ملک کی قومی مسجد کا درجہ حاصل ہے۔ اس مسجد سے جمعے کا خطبہ براہ راست سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوتا ہے۔ یہ چار میناروں والی مسجد جو اسلامی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے، بنو امیہ کے طرز تعمیر کی عکاس ہے۔ اس کی محراب ایک نہایت قیمتی کمیاب لکڑی سے تیار کی گئی جس کا استعمال گزشتہ تین صدیوں سے متروک ہو چکا تھا۔ مسجد میں 5500 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے جبکہ 500خواتین بھی علیحدہ نماز ادا کر سکتی ہیں۔ مسجد سے ملحقہ دفتر، لائبریری اور لیکچر ہال ہیں۔ نیز ایک میوزیم ہے جس میں آنحضرت ﷺ سے منسوب چند اشیاء کے علاوہ خط بھی موجود ہے جو آپ ﷺ نے باز نطینی سلطنت کے قیصر ہر قل کو اسلام کے ابتدائی دنوں میں تحریر کروا کر بھیجا تھا۔ جس میں آپ ﷺ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔اس مسجد کا ڈیزائن ایک مصرف ماہر تعمیرات ڈاکٹر خالد اعظم نے تیار کیا تھا بلا شبہ یہ مسجد مشرقی وسطیٰ کی ایک نہایت خوبصورت مسجد ہے۔

ناصر کاظمی :ہجرت اور یاسیت کا شاعر

ناصر کاظمی :ہجرت اور یاسیت کا شاعر

ناصر کاظمی ایک ہفت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں عام طور پر غزل کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ وہ صرف غزل کے ہی شاعر نہیں بلکہ دیگر اصناف سخن پر بھی انہیں دسترس حاصل تھی۔ ان کی غزلیں ان کے عصر کا آئینہ ہیں، تقسیم اور ہجرت کا نوحہ ہیں اور معصوم و مقدس عشقیہ جذبات و خیالات کی ترجمان بھی ہیں۔ ان کی نظمیں جہاں ایک طرف ان کی فن کاری اور زبان دانی کی دلیل ہیں، وہیں ان کے ایک سچے محب وطن ہونے کا ثبوت بھی ہیں۔ ناصر کاظمی کا منظوم ڈرامہ ''سر کی چھایا‘‘ اس میدان میں ان کے ہنر کا لوہا منوانے کیلئے کافی ہے۔ ان کی نعتیں، سلام اور رباعیات ان کے مذہبی عقائد کے ترجمان ہیں اور ان کی فکری بلند پروازی کا بین ثبوت بھی، ناصر نے نثر نگاری میں بھی کمال کر دیا ہے۔ ان کی ترجمہ نگاری انگریزی اور اردو زبان پر ان کی دسترس کو ظاہر کرتی ہے۔ ناصر کاظمی کی کلیات کا مطالعہ کریں اور ان کی تمام تر ادبی خدمات کا جائزہ لیں تو وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔ انہوں نے جس نازک دور میں غزل کے سر پر دست شفقت رکھا وہ انتہائی نازک دور تھا۔ انہوں نے ناصرف غزل کا دفاع کیا بلکہ اس کی آبیاری بھی کی اور نوک پلک بھی سنواری۔ ناصر نے غزل کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ وہ لوگوں کو اپنے دلوں کی آواز معلوم ہوئی۔ ناصر کاظمی کی نظمیں ان کی حب الوطنی کی مرہون منت ہیں۔ ہندوپاک کی 17روزہ جنگ کے دوران انہوں نے اپنے وطن کے تئیں اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے اور اپنے ملک کے محافظوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے روز ایک ترانہ کہا۔ ترانوں کے علاوہ ان کی دیگر نظموں میں بھی حب الوطنی کا عنصر غالب ہے۔ ناصر بھلے ہی کامیاب نظم نگار نہ کہلائے جا سکتے ہوں لیکن ان کی نظموں کا نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ ان کا منظوم ڈرامہ ''سر کی چھایا‘‘ ان کے ایک کامیاب ڈرامہ نگار ہونے کی دلیل ہے۔چوں کہ تقسیم اور ہجرت ناصر کے ادب کا مرکزی خیال ہیں اس لئے ان کے منظوم ڈرامے میں بھی ان عناصر کا کارفرمائی واضح دیکھی جا سکتی ہے۔ ناصر نے بارگاہ نبی آخری الزماںﷺ میں نعتیں بھی کہی ہیںاور حضرت حسینؓ اور ان کے اہل خانہ نیز جملہ اصحاب کی خدمت میں سلام بھی پیش کیا ہے۔ نعت وسلام کے معاملے میں بڑا محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ ناصر کاظمی کی نثر انتہائی عمدہ ہے۔ وہ جتنے بڑے شاعر ہیں اتنے بڑے نثر نگار بھی ہیں۔ ان کی نثر یوں تو خالص ادبی نوعیت کی ہے لیکن تقسیم اور ہجرت کے اثرات یہاں بھی نمایاں ہیں۔ پاکستان کو درپیش مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ وہ اپنے ملک کے داخلی، سیاسی اور خارجی مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔انہوں نے ناصرف اپنے ملک کے مسائل کو اپنی نثر کا موضوع بنایا ہے بلکہ ان مسائل کا حل بھی پیش کیا ہے۔ ان کی نثر میں کہیں خاکہ نگاری کا رنگ ہے، کہیں انشائیہ نگاری کا، کہیں منظر نگاری کا تو کہیں سفر نامے کا۔ ان کی نثر کے مطالعے کے بعد کوئی بھی ان کے ایک باکمال نثر نگار ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔ ناصر کاظمی کی ترجمہ نگاری بھی قابل توجہ ہے۔ ان کے ترجموں سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اردوکے علاوہ انگریزی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ ناصر کاظمی کا اصل نام سید ناصر رضا کاظمی تھا۔وہ 8دسمبر1925ء کو انبالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے انبالہ اور شملہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی، پھر اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔1945ء میں وہ واپس انبالہ چلے گئے، تاہم کچھ عرصہ بعد پھر پاکستان چلے آئے۔ ناصرکاظمی صاحب طرز شاعر ہونے کے ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے مدیر بھی تھے۔ بعد ازاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ ناصر کاظمی نے 1940ء میں شعر کہنے شروع کیے۔ انہوں نے کئی شعری مجموعے تخلیق کئے، جن میں ''برگ نے، دیوان، پہلی بارش، نشاط خواب، کے علاوہ''سُر کی چھایا‘‘ (منظوم ڈراما کتھا)، ''خشک چشمے کے کنارے‘‘(نثر، مضامین، ریڈیو فیچرز، اداریے) اور ''ناصر کاظمی کی ڈائری‘‘ شامل ہیں۔ آخر میں قارئین کیلئے ان کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔ دل دھڑکنے کا سبب یاد آیاوہ تیری یاد تھی اب یاد آیا یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہوترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئی خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیاکس طرح سے کٹے گا کڑی دھوپ کا سفرسر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیںوقت اچھا بھی آئے گا ناصرغم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھینئے کپڑے بدل کر جائوں کہاںاور بال بنائوں کس کیلئےوہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا اب باہر جائوں کس کیلئے دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی دل تو میرا اُداس ہے ناصر شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی دل تو میرا اُداس ہے ناصر شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے