’’غائب‘‘ ہونے والے ہوائی جہاز
کچھ ہوائی جہاز منظر سے یوں غائب ہوئے کہ ہر ایک کو حیران اور پریشان کر گئے۔ آئیے ان میں سے چند ایک کے بارے میں جانتے ہیں۔امیلیا ایرہارٹ: امیلیا ایرہارٹ پہلی عورت تھیں جنہوں نے بحراوقیانوس کو ہوائی جہاز پر 1928ء میں عبور کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اکیلے امریکا سے برطانیہ تک کا فاصلہ طے کیا۔ یوں انہوں نے ثابت کیا کہ عورتیں بھی ایسے کام کر سکتی ہیں۔ البتہ جولائی 1937ء میں ان کی داستان کا انجام اندوہناک اور پُراسرار ہوا۔ وہ پوری دنیا کا فضائی چکر لگانے کے لیے نکلیں۔ ان کا دو انجنوں پر مشتمل لاک ہِیڈ الیکٹرا ہوائی جہاز اور وہ بحرالکاہل کے وسط میں ’’عالمی خطِ تاریخ‘‘ کے قریب غائب ہو گئے۔ وہ کن حالات کے سبب غائب ہوئیں، اس بارے میں بعدازاں سکالرز نے بہت سے خیالات کا اظہار کیا… ان میں سے ایک یہ تھا کہ وہ کسی بے آباد جزیرہ میں سالوں سے رہ رہی ہیں، تاہم یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکا۔ فلائنگ ٹائیگر فلائٹ 739: 1962ء کے ماہ مارچ کے وسط میں جب جنگِ ویت نام ابتدائی مراحل میں تھی، ریاست ہائے متحدہ امریکا کی آرمی کی فلائنگ ٹائیگر فلائٹ 739 بحرالکاہل میں واقع گہری ترین سمندری کھائی ’’ماریا ٹرنچ‘‘ کے اوپر غائب ہو گئی۔ ہوائی جہاز سے ہونے والے آخری رابطے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد تیل کی ایک امریکی کمپنی کے ٹینکر نے آسمان میں روشنی کے ساتھ دھماکے کا مشاہدہ کرنے کی خبر دی۔ کچھ تفتیش کاروں کے مطابق یہ مذکورہ ہوائی جہاز ہی کا حادثہ تھا۔ ائیر ٹریفک کنٹرول کو جہاز سے کوئی پریشان کن کال موصول نہ ہوئی، جس کی وجہ سے یہ طے کرنا مشکل ہو گیا کہ جہاز میں موجود لوگوں پر کیا بیتی، اور جہاز کے ساتھ ہوا کیا۔ تلاش کا بہت بڑا عمل شروع کیا گیا … اس میں 13 سو افراد، 48 جہاز اور آٹھ بڑی کشتیاں شامل تھیں۔ ان سب نے ایک لاکھ 44 ہزار مربع میل پر مشتمل علاقے کی چھان بین کی… مگر قطعاً ناکام رہے۔ اس دوران امریکا میں افواہیں تیزی سے گردش کرنے لگیں۔ بہت سے خیالات کا اظہار ہونے لگا، جن میں سے ایک یہ تھا کہ امریکی حکومت ہی نے اسے حادثاتی طور پر مار گرایا اور وہ اسے چھپانا چاہتی ہے۔ البتہ اصل سبب تک نہ پہنچا جا سکا، شاید اب کوئی بھی نہ جان سکے کہ دراصل ہوا کیا تھا۔ ’’سٹینڈیک‘‘: برٹش ساؤتھ امریکن ائیرویز کا لنکیسٹرین ہوائی جہاز دو اگست 1947ء کو لاپتہ ہو گیا۔ وہ بیونس آئرس سے سانٹی آگو جا رہا تھا۔ تفتیش کاروں اور ائیر کنٹرول سنٹرز دونوں کو سمجھ نہ آئی، دراصل چلی ائیر فورس کو مخفی پیغام ملا ’’سٹینڈیک‘‘ (STENDEC)۔ خیال کیا گیا کہ پیغام لکھتے وقت ٹائپ کرنے میں غلطی ہوئی۔ البتہ 50 برس بعد 1990ء کی دہائی کے اواخر میں اینڈیز ماؤنٹیز سے اس کا ملبہ نمودار ہونے لگا۔ 2000ء میں ہوائی جہاز کے متعدد مسافروں کے جسموں کے ٹکڑے ملے۔ برفانی گلیشئیر کی وجہ سے وہ محفوظ رہے۔ اس حادثے کے بارے میں بہت سے خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا۔ کبھی کہا گیا کہ خلائی مخلوق نے اغوا کیا ہے، کبھی اسے نازی جاسوسوں کی کارستانی قرار دیا گیا اور کبھی چوری شدہ سونے سے جوڑا گیا۔ ایک وسیع تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ انتہائی سرد و خراب موسم کے سبب جہاز کریش ہوا اور جو خفیہ پیغام دیا گیا وہ شاید دوسری عالمی جنگ کے کوڈ پر مشتمل تھا جس سے مراد تھی “Severe Turbulence Encountered, Now Descending, Emergency Crash-landing.” ۔برمودا ٹرائی اینگل: 1945ء کے ماہ دسمبر کے اوائل میں چند ہوائی جہازوں کا غائب ہونا انتہائی متنازع شکل اختیار کر گیا۔ ایک نہیں چھ جہاز غائب ہو گئے اور ابھی تک ان کا پتا نہیں چلا۔ اس دن موسم معمول کے مطابق تھا۔ پانچ ایونجر تارپیڈو بمبار، جن کے بارے میں ہوا بازی سے متعلق لوگ جانتے ہیں کہ خاصے بڑے ہوتے ہیں، فلوریڈا میں واقع اپنے اڈے سے اڑے۔ وہ بمنگ کی مشق کے لیے برمودا ٹرائی اینگل گئے۔ انہیں اپنے قطب نما میں مسئلہ پیش آیا (وہاں اور چائنیز سِی میں ایسا ہوتا ہے اور متعلقہ لوگ یہ جانتے ہیں)۔ پھر پانچوں جہازوں کا زمینی سٹیشن سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ تاہم زمینی سٹیشن پائلٹوں کے درمیان ہونے والی بات چیت سن رہا تھا، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ سمت اور مقام کے بارے میں ہوش و حواس کے اختلال میں مبتلا (disoriented ) ہو گئے تھے اور سب نے سمندر کا رخ کر لیا۔ کوسٹ گارڈز اور بحریہ کی جانب سے فوراً بہت بڑے پیمانے پر ریسکیو مشن شروع کیا گیا۔ سات لاکھ مربع کلومیٹر کے علاقے کو پانچ دنوں تک چھانا گیا۔ اس دوران 13 مسافروں پر مشتمل ایک اور جہاز لاپتا ہو گیا اور پھر اس کا کچھ پتا نہ چلا۔ ان چھ ہوائی جہازوں کے ملبے کا سراغ نہ ملا، جس کی وجہ سے برمودا ٹرائی اینگل کوانتہائی پراسرار سمجھا جانے لگا۔ گلین ملر، برٹش چینل پر: 1944ء کے ماہ دسمبر کے وسط میںگلین ملر تاریخ میں ’’بگ بینڈ‘ ‘کے قائد کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ انہیں موسیقی کی صنف ’’سوئنگ‘‘ کا موجد مانا جاتا تھا۔ البتہ وہ ایک ہوائی جہاز میں بیٹھے، وہ اڑا اور پھر کبھی نظر نہ آیا۔ پھر ملر امریکی دیومالائی کردار جیسی حیثیت اختیار کر گئے۔ جہاز لندن سے پیرس جا رہا تھا۔ روانگی کے وقت موسم سرد تھا اور دھند چھائی ہوئی تھی۔ بظاہر حادثے کی کوئی دوسری وجہ سمجھ نہیں آتی۔ سرکاری اہلکاروں کے مطابق جہاز انگلش چینل میں کریش کر گیا کیونکہ یا تو پروں پر برف جم گئی ہوگی یا انجن میں گڑبڑ ہو گئی ہو گی۔ البتہ اس طرح کی مبہم بات مضطرب لوگوں کی بے یقینی دور نہ کر سکی۔ اس بارے میں مختلف طرح کے خیالات کا اظہار کیا جانے لگا۔ مطمئن کوئی نہ کر سکا۔ (ترجمہ: رضوان عطا)