ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باکمال شاعر تھے، علامہ اقبالؒ اُن کے دوست تھے
اسپیشل فیچر
بیسویں صدی میں اردو کے بڑے عظیم شعرا پیدا ہوئے۔ اگر ان کا ذکر کیا جائے تو یہ فہرست بہت طویل ہو جائے گی۔ ایک شاعر ایسے بھی گزرے ہیں جن کو اتنی زیادہ شہرت نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ ان کے مقام اور مرتبے کو درست طور پر شناخت نہیں کیا گیا۔ یہ تھے ڈاکٹر محمد دین تاثیر (ایم ڈی تاثیر)۔ایم ڈی تاثیر 28فروری 1902 کو ضلع امرتسر کے علاقے اجنالہ میں پیدا ہوئے۔ وہ کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد جو ایک کسان تھے اُس وقت انتقال کر گئے جب ایم ڈی تاثیر ابھی کم سن تھے۔ ان کی پرورش لاہور میں ان کے ماموں نظام الدین نے کی۔ ایم ڈی تاثیر بچپن سے ہی علامہ اقبالؒ کے دوست تھے۔ 1933میں ڈاکٹر تاثیر نے ایک ادبی جریدہ ’’کارواں‘‘ کا اجرا کیا۔ ایم اے کرنے کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ملازم ہو گئے۔ اس کے بعد وہ انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کرنے کیلئے کیمرج یونیورسٹی چلے گئے۔ ان کو علامہ اقبالؒ نے سفارشی خط بھی دیا تھا۔وہ 1933میں لندن پہنچے اور پیم بروک یونیورسٹی کیمرج سے ایم لِٹ کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا ’’شروع کے دنوں سے لے کر 1924تک انگریزی ادب میں ہندوستان اور مشرقِ قریب کا حصہ‘‘۔ ان کے ریسرچ سپروائزر آرتھر کوئلر کاؤچ نے یونیورسٹی سینٹ سے کہا تھا کہ وہ تاثیر کو ایم لِٹ کی ڈگری حاصل کرنے سے پہلے پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاثیر صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انگریزی ادب میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والے وہ برصغیر کے پہلے آدمی تھے۔1935 کے آخر میں ایم ڈی تاثیر ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل بن گئے۔ فیض احمد فیض کے ساتھ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ 1941 میں ڈاکٹر تاثیر سری نگر کے پرتاپ کالج کے پرنسپل مقرر کر دیئے گئے۔ 1942 میں وہ امر سنگھ کالج کے بانی پرنسپل بن گئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور اسلامیہ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے۔ اکتوبر 1947 کے پہلے ہفتے میں حکومتِ پاکستان نے انہیں فیض احمد فیض کے ساتھ شیخ عبداللہ کے پاس بھیجا جو اس وقت جموں اور کشمیر نیشنل کانفرنس کے رہنما تھے۔ انہیں اس لئے بھیجا گیا کہ وہ شیخ عبداللہ کو پاکستان میں شامل ہونے کی ترغیب دیں۔ شیخ عبداللہ کو اس وقت مہاراجہ کی حکومت نے قید سے رہا کیا تھا۔ شیخ عبداللہ قائل نہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا تو ان کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو کپور تھلہ کے ساتھ ہوا۔ یعنی وہ یہ سمجھتے تھے کہ مذہبی اقلیتوں کو ہلاک کر دیا جائے گا یا انہیں بھگا دیا جائے گا۔ شیخ عبداللہ کے مطابق ڈاکٹر تاثیر نے انہیں بتایا اگر کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوا پھر انہیں ’’دوسرے راستوں‘‘ پر غور کرنا ہوگا۔1937 میں ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر ایک برطانوی خاتون کرسٹوبل جارج کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ وہ بھی کیمرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر چکی تھیں۔ 1938 میں دونوں کی شادی ہو گئی۔ علامہ اقبالؒ نے خود نکاح نامہ تیار کیا اور اس میں کرسٹو بل جارج کو طلاق کا حق بھی دیا گیا۔ کرسٹو بل نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام بلقیس تاثیر رکھا گیا۔ کرسٹو بل کی بہن ایلس نے فیض احمد فیض سے شادی کی۔ایم ڈی تاثیر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے والد تھے۔ان کی مشہور کتابوں میں ’’آتش کدہ اور مقالاتِ تاثیر‘‘ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ڈاکٹر تاثیر نے رومانوی شاعری کو نئی جہتوں سے روشناس کیا۔ ان کی غزل کا اپنا ایک آہنگ ہے۔ چھوٹی بحر میں انہوں نے کمال کی غزلیں تخلیق کیں۔ ان کی شاعری کا دوسرا اہم وصف سادگی اور سلاست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ان کے نام کی طرح پُرتاثیر ہے جو فوری طور پر قاری کو متاثر کرتی ہے۔ پھر ان کی شاعری میں لطافت بھی ہے۔ سہلِ ممتنع کی شاعری بھی ملتی ہے۔ ذیل میں ہم اپنے قارئین کیلئے ڈاکٹر تاثیر کی غزلوں کے کچھ اشعار پیش کر رہے ہیں۔میری وفائیں یاد کرو گےروؤ گے فریاد کرو گےمجھ کو تو برباد کیا ہےاور کسے برباد کرو گےدشمن تک کو بھول گئے ہومجھ کو تم کیا یاد کرو گےغیر کے خط میں مجھے اُن کے پیام آتے ہیںکوئی مانے یا نہ مانے مرے نام آتے ہیںعافیت کوش مسافر جنہیں منزل سمجھیںعشق کی راہ میں ایسے بھی مقام آتے ہیںہزار ہم سخنی، ہزار ہم نظریمقامِ جنبشِ ابرو نکل ہی آتے ہیںمتاعِ عشق وہ آنسو جو دل میں ڈوب گئےزمیں کا رزق جو آنسو نکل ہی آتے ہیںوہ ملے تو بے تکلف، نہ ملے تو بے ارادہنہ طریقِ آشنائی، نہ رسومِ جام و بادہوہ کچھ اس طرح سے آئے، مجھے اس طرح سے دیکھامیری آرزو سے کم تر، میری تاب سے زیادہداغ سینے پہ جو ہمارے ہیںگل کھلائے ہوئے تمہارے ہیںربط ہے حسن و عشق کا باہمایک دریا کے دو کنارے ہیںکوئی جدت نہیں حسنیوں میںسب نے نقشے ترے اتارے ہیںایم ڈی تاثیر کی بیٹی سلمیٰ محمود نے اپنے والد کی یادداشتیں ’’دی ونگز آف ٹائم‘‘ کے عنوان سے شائع کیں۔ 1953ء میں اس نادرِ روزگار شخص کا لاہور میں انتقال ہو گیا۔