خطاطی کا پہلا دور

خطاطی کا پہلا دور

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر محمد اقبال بھٹہ


سلطان محمود غزنوی کے زمانہ میں عروس البلاد لاہور ایک اہم فوجی اور سیاسی مرکز تھا، غزنی کی علمی و ادبی محفلوں میں لاہور برابر شریک رہا۔ اس عہد میں ایک فوجی جرنیل ساروغ کے زیرانتظام لاہور میں باقاعدہ دفتر دیوانی قائم ہوا اور یہاں پر باقاعدہ کاغذ، قلم دوات میسر آنے لگا۔ اس سے قبل یہاں کاغذ کی کمی تھی۔ اس فوجی جرنیل نے دریائے اٹک سے لاہور تک باقاعدہ اسلامی تعلیم اور خطاطی کے مدرسے قائم کئے۔ بہت سی ہندی کتابوں کے فارسی تراجم ہوئے۔ اس دور میں کوفی سے ثلث کا سفر شروع ہو چکا تھا، جس کے نتیجہ میں ایک مکمل عمارتی خط وجود میں آیا جسے کوفی آمیز ثلث کا نام دیا گیا۔ یہ خط 1200ء سے 1500ء تک اپنی کسی نہ کسی شکل میں رائج رہا۔ عوفی نے ’’لباب اللباب‘‘ میں سید الکتاب جمال الدین لاہوری کو ابن مقلہ کی طرز کا مقلد لکھا ہے۔ نجیب الدین ابوبکر الترمذی اور سید جمال الدین لاہوری اس دور کے اعلیٰ خطاط تھے، ان ہر دو کاتبوں کے بیشتر شاگرد ہوئے۔ اسی دور میں لاہور ہی میں ابو حامد نامی کاتب نے ’’کشف المحجوب‘‘ کی کتابت کی جو غالباً اسلامی حکومت کے بعد لاہور میں تیار ہونے والا پہلا مخطوطہ ہے۔ سلطان ابراہیم غزنوی خود ایک اعلیٰ خطاط تھا۔ اس نے خطاطی کی عملاً سرپرستی کی اور اپنے ہاتھ سے قرآن پاک کتابت کر کے مدینہ اور مکہ مکرمہ بھیجے۔ غزنوی دور کی معارف پروری اور علم نوازی کی کئی داستانیں زبان زدعام تھیں، غزنی تو علم و فضل کا منبع تھا ہی لیکن اسی سلطنت کا دوسرا صوبہ اور پنجاب کا صدر مقام ہونے کے سبب لاہور بھی علما اور فضلا کا مسکن بن گیا۔ ابراہیم غزنوی کا ایک وزیر ابو نصر فارسی جو ادبی دلچسپیوں کی وجہ سے ادیب مشہور تھا، علم و فضل کا مربی تھا، اس نے لاہور میں ایک خانقاہ قائم کی جو اہل علم و ہنر اور خطاطوں کی جائے پناہ تھی۔ یہ سلسلہ سلطان ابراہیم غزنوی سے چل کر بابر تک یعنی سولہویں صدی تک چلتا ہے اور پھر بہت سے نامور خطاطین نے اس سرزمین پر خطاطی کی خدمت انجام دی۔ اسی زمانہ میں بے شمار مسلم خاندان دوسرے ممالک سے تلاش معاش یا تبلیغی مقاصد کے لیے لاہور آ کر آباد ہونے لگے۔ یہاں کے حکام کے درباروں میں علما اور اہل فنون کی کثیر تعداد نظر آنے لگی۔ پنجاب 1100ء تک غزنوی سلطنت کے ماتحت رہا۔ غزنوی خاندان کے آخری تین حکمرانوں نے لاہور کو صدر مقام قرار دے کر یہیں اقامت اختیار کر لی۔ اس دور میں جہاں دوسرے علما، صلحا اور بزرگان دین لاہور آئے، وہاں خطاطین اور دیگر علوم و فنون کے ماہرین کی جماعتیں یہاں آ کر آباد ہوئیں۔ خانقاہ ابو نصر فارسی میں اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم و فنون کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ اس مدرسے کے ساتھ ایک عالی شان لائبریری بھی تھی، یہاں بیش بہا کتابیں تیار ہوئیں۔ ابراہیم غزنوی کی وفات کے بعد علاؤالدولہ مسعود تخت نشین ہوا تو اس نے اپنے فرزند مشیر زاد کو پنجاب کا حاکم اور ابونصر فارسی کو نائب حاکم اور سپہ سالار مقرر کیا۔ غزنوی خاندان کے زوال کے بعد محمد غوری نے لاہور کی حکومت حاصل کی تو قطب الدین ایبک کو فتوحات ہند کا وائسرائے مقرر کیا۔ اس کے دور میں لاہور علم و فنون میں اس قدر ترقی کر چکا تھا کہ ایبک دور میں جب فخر مدبر نے اپنی کتاب ’’شجرہ انساب‘‘ 12 سالہ محنت اور ایک ہزار کتب کے مطالعے سے لاہور میں تالیف کر کے قطب الدین ایبک کو پیش کی تو ایبک نے حکم دیا کہ اس کتاب کا ایک نسخہ خاص اہتمام سے شاہی کتب خانہ کے لیے تیار کرایا جائے۔ یہ واقعہ جہاں ایبک کی علم پروری کی روشن دلیل ہے وہاں یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس زمانہ میں لاہور میں اس قدر کتب خانے موجود تھے جہاں فخر مدبر کو اپنے مطلب کی ایک ہزار کتابیں میسر آ گئیں اور ظاہر ہے کہ اتنی لائبریریوں کے لیے مخطوطات تیار کرنے کا کارخانہ یہاں موجود ہو گا۔ اس کارخانے میں صد ہا خوش نویس مخطوطات تیار کرتے ہوں گے۔ التمش (دورحکمرانی 1210؍1236ء) علما و فضلا کا قدردان اور مربی تھا بلکہ خود بھی ایک عالم فاضل اور بابغہ روزگار خطاط تھا۔ اس کے دور میں نہ صرف خطاطی کی شاہانہ سرپرستی کی گئی بلکہ اس کا بیٹا ناصر الدین محمود قرآن پاک کی کتابت کے ذریعے اپنی روزی مہیا کرتا تھا۔ غیاث الدین بلبن بھی علوم و فنون کا مربی ثابت ہوا۔ اس کا بیٹا شہزادہ محمد سلطان اور اس کے مصاحب امیر خسرو بھی اچھے خطاط تھے۔ یہ دونوں لاہور کے قریب دریائے راوی کے کنارے منگولوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ منگولوں نے شہزادہ محمد کو شہید کر دیا۔ اس دور میں لاہور اور دہلی میں اعلیٰ خطاطی کی روایات کو فروغ حاصل ہوا۔ التمش نے دو مدرسے مغزیہ اور ناصریہ قائم کئے جن میں عربی فارسی قرآنی تعلیمات کے ساتھ ساتھ خطاطی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ سلطان کی تقلید میں اس کے صوبائی گورنر بختیار خلجی نے رنگ پورہ بہار میں اس قسم کا ایک مدرسہ قائم کیا۔ برصغیر میں یہ روایت جاری رہی۔ گولکنڈہ میں سلطان محمد قطب شاہ ترویج علوم میں عالی مرتبہ رکھتا تھا، اس نے حیدرآباد کے وسط میں چار مینار کی عمارت اور مسجد تعمیر کی، یہ ایک بہت عظیم الشان مدرسہ تھا اور اس میں مصلحین و متعلمین رہتے تھے۔ اس کے علاوہ سلطان نے اور بھی بہت سے مدرسے اور علوم و فنون کے مراکز قائم کئے۔ ایک مدرسہ حیدرآباد کے مضافات میں بھی تعمیر کیا۔ ان بڑے مدارس کے علاوہ جنوبی ہند میں بے شمار ابتدائی مکاتب بھی موجود تھے جو استادوں کے مکانوں میں قائم ہوتے تھے۔ ان مکتبوں میں شاگرد آلتی پالتی مار کر بنچ یا چٹائی پر بیٹھتے تھے اور سرکنڈے یا واسطین کے قلم سے کاغذ پر لکھتے تھے۔ کاغذ زیادہ تر چین سے درآمد کیا جاتا تھا لیکن وہ یورپی کاغذ کے مقابلے میں اچھا نہ ہوتا، یورپ کا کاغذ صاف اور پتلا تھا۔ شہاب الدین غوری کے زمانے میں ایبک نے علم و فن کی سرپرستی کی اور یہاں پر مدارس قائم کئے۔ اس کے نتیجے میں ایک عمارتی خط کوفی آمیز ثلث وجود میں آیا۔ یہ 1200ء سے 1500ء تک عمارتی خطاطی کے طور پر رائج رہا، جس کی مثال دہلی میں مسجد قوت الاسلام، التمش کا مزار اور اجمیر میں مسجد اڑھائی دن کا جھونپڑا ہے۔ ایران، عراق اور مصر میں بھی یہی خط رائج تھا۔ التمش محمد تغلق ناصرالدین محمود وغیرہ نہ صرف خود اعلیٰ خطاط تھے بلکہ خطاطوں کے سرپرست بھی رہے۔ سلاطین کے دور کے بعد مغلیہ دور میں بھی نہ صرف معیاری کتابوں کی کتابت کا سلسلہ جاری رہا بلکہ بہت سے خطاطین لاہور میں بس گئے۔بابر سے قبل ہندوستان میں مفت تعلیم کا رواج تھا۔ طلبہ سے کسی قسم کی فیس یا اجرت نہیں لی جاتی تھی اور انہیں ابتدائی تعلیم خاص اہتمام سے دی جاتی۔ چنانچہ کوئی گاؤں ایسا نہ تھا جہاں مسجد نہ ہو اور ہر مسجد کے ساتھ مکتب ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی مکتب اور مدرسے تھے اور مسجد کا امام عموماً امامت کے علاوہ کتابت اور حکمت کرتا تھا۔ بڑے شہروں میں سرکاری سرپرستی میں مکاتب قائم تھے جن سے ہزاروں کی تعداد میں طلبا مستفید ہوتے۔ مساجد اور صوفیائے کرام کی خانقاہیں ملک بھر میں قائم تھیں، جہاں عبادت اور ریاضت کے ساتھ ساتھ خطاطی اور کتب سازی پر بھی توجہ دی جاتی رہی، جہاں صوفیا کے ملفوظات بڑے اہتمام سے کتابت کئے جاتے تھے۔ اس مقصد کے لیے مصارف کے طور پر بادشاہ اور امرا جاگیریں اور تعلیمی وظائف جاری کرتے۔ بابر جب ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اس کے ہمراہ وسط ایشیا بالخصوص ہرات کے فضلا، نقاش اور خطاط بھی آئے جن کی وجہ سے لاہور میں نستعلیق کا آغاز ہوا۔ ان خطاطین میں ملا زاہد اور خود بابر قابل ذکر ہیں۔ بابر اور ہمایوں کے عہد میں شیخ محمد منجو اور ملا سرخ کے زیر سایہ بہت سے خطاط لاہور میں کتابوں کی تیاری کا کام کرتے رہے، جن کی سرپرستی اور توجہ سے فن کتابت اور کتب خانوں کی ترویج میں جن شہروں اور علاقوں کا دخل رہا ان میں لاہور سرفہرست تھا۔ یہاں بڑے بڑے علما فضلا اور ماہرین فن پیدا ہوئے۔ مولانا شہاب الدین ہروی بابر کے عہد کے مشہور خطاط لاہور سے دہلی گئے اور حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مزار کے بعض کتبات لکھے۔ ہمایوں ہر وقت اپنے ہمراہ اپنا کتب خانہ رکھتا، اس کے کتب خانے میں نادر کتابیں ایرانی اثرات کے تحت تیار کی گئیں جو معروف خطاطین کی خطاطی اور عظیم مصوروں کے فن کا ثبوت ہیں جو آج دنیا کے عجائب گھروں کی زینت ہیں۔ ہمایوں کے زمانے میں یہاں مولانا شہاب الدین کے بیٹے کمال ابن شہاب اعلیٰ درجہ کے خطاط تھے جن کی ثلث طرز میں خطاطی کا ایک نمونہ لاہور عجائب گھر کی مخطوطات گیلری کی زینت ہے۔ اس کے علاوہ میر منصور استرآبادی اور اس کا بیٹا مولانا قاسم، مرزا احمد حسین، میرزا حسین، خواجہ محمد مومن، مولانا شمس الدین کاشانی وابستہ رہے۔ شیر شاہ سوری اور اس کے جانشین اسلام شاہ سوری کے دور میں خطاطی کا عروج برقرار رہا۔ بہر حال مغلوں کی سرپرستی میں یہ فن لاہور سے ہوتا ہوا دہلی پہنچا۔ انہوں نے اس فن کی ترقی کے لیے بہت زیادہ اقدامات کئے۔ اکثر مغل حکمران یا تو خود خطاط تھے یا انہوں نے ماہرین فن کو مراتب پر فائز کیا اور اساتذہ کے فن پاروں کو شاہی لائبریریوں کی زینت بنایا۔ آرائش عمارات کے لیے اس عہد میں خطاطی جس پیمانے پر استعمال ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دھات، روغنی برتنوں، روغنی ٹائیلوں اور لکڑی وغیرہ کی بنی ہوئی اشیا کے ظاہری حسن کو خطاطی کے مختلف نمونوں سے آراستہ کیا گیا۔ اگرچہ اکبری دور میں پریس وجود میں آ چکا تھا اور اس ابتدائی دور کی چند مطبوعات اکبر کے سامنے پیش کی گئیں لیکن یہاں مغلوں کی روایتی نزاکت آڑے آئی اور یہ رد کر دی گئیں۔ دیکھا جائے تو اکبر کا فن خطاطی، نقاشی، چھوٹی تصاویر (مینی ایچر پینٹنگ)، جلد سازی، قلمسازی، کاغذ سازی پر یہ احسان تھا، اس پابندی کی وجہ سے کاتبوں کی کثیر جماعتیں ہر وقت موجود رہیں جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کتابوں کی نقول مہیا کرتیں۔ اس عہد میں عنایت اللہ اور خواجہ شریف کے تحت بہت سے کاتب مخطوطات تیار کرتے۔ اکبری دور میں لاہور میں مدرسہ ہائے خطاطی قائم تھے۔ برٹش میوزیم لندن میں ایک مخطوطہ رسالہ در تاریخ خوشنویساں موجود ہے جس میں اکبر اعظم سے لے کر اکبر ثانی کے خوشنویسوں کا ذکر زمانی اعتبار سے کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق نستعلیق نویسوں میں محمد حسین کشمیری زریں قلم، میر خلیل اللہ شاہ بادشاہ قلم، جعفر علی مقید، مولانا خواجہ محمود، عبدالمجید شیریں قلم، ملا سید سمرقندی، میر فتح اللہ شیرازی، خنجر بیگ چغتائی، خان عالم، اشرف خان میر منشی، مظفر خان، عبداللہ مشکیں قلم، میر صالح، میر مومن، عبدالرحیم خانخاناں، میرزا عزیز اور میرزا داراب، خواجہ سلطان علی، زین الدین کوکہ، ملا عبدالقادر، رائے منوہر، محمد شریف راجہ ٹوڈرمل، مرزا، عزیز کوکلتاش، محمد یوسف کابلی حسین بن احمد چشتی میر معصوم قندھاری،حکیم رکنا، مولانا علی احمد نشانی، میر دوری اور عبدالرحیم عنبرین قلم جیسے خطاطوں کے نام مذکورہ ہیں۔ اکبر کے قیام لاہور کے دوران خطاط محمد حسین کشمیری زریں قلم دربار سے منسلک تھا، اس لیے لاہور میں موجود رہا۔ یہاں پر اس نے بہت سے شاگرد چھوڑے۔ کتبہ ہرن مینار شیخوپورہ محمد حسین نے ہی لکھا تھا۔ اکبر نے شاہی کاتبوں کی نگرانی میں اپنے کارخانہ جات شاہی میں ایک خاص شعبے کا اضافہ کیا جس میں کتاب سازی کے متعلق تمام جملہ فنون سکھائے جاتے تھے۔ اس کارخانہ میں 100 سے زائد مصور تھے اور بے شمار نقاش جو خطاطوں کے ساتھ مل کر مخطوطات تیار کرتے، نتیجہ کے طور پر 1641ء تک کتب خانہ شاہی میں 24 ہزار نسخے محفوظ ہو چکے تھے۔ محمد حسین کشمیری نے مخطوطہ ’’بہارستان جامی‘‘ لاہور میں کتابت کیا جسے بہت سے مصوروں نے مصور کیا۔ اس کے علاوہ ’’دیوان انوری‘‘ مصور لاہور ہی میں تیار ہوا۔ جس کی نزاکت اور رعنائی لاہور میں خطاطی کی اعلیٰ روایات کی شہادت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

حالیہ سائنسی تحقیق نے عوامی صحت سے متعلق ایک نہایت تشویشناک پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق شوگر فری مصنوعات میں استعمال ہونے والا مصنوعی میٹھا نہ صرف دل بلکہ دماغ کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ برسوں سے وزن کم رکھنے اور شوگر کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی یہ مٹھاس اب طبی ماہرین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ اس نئی تحقیق نے اس تاثر کو چیلنج کیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس مکمل طور پر محفوظ ہے، اور یوں صارفین کیلئے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا سہولت اور ذائقے کی خاطر صحت کو خطرے میں ڈالنا دانش مندی ہے؟۔نئی تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس سے تیار کردہ کاربونیٹڈ مشروبات کا باقاعدہ استعمال دل اور دماغ کو نقصان پہنچنے کے خطرات میں اضافہ کر سکتا ہے۔''ایسپرٹیم‘‘(Aspartame) جو ڈائٹ مشروبات و دیگر کھانے والی اشیاء میں پایا جاتا ہے، طویل عرصے سے کینسر، بلند فشارِ خون اور فالج جیسے امراض کے خدشات سے منسلک سمجھا جاتا رہا ہے۔اب ہسپانوی محققین کا کہنا ہے کہ اس مادے کی زیادہ مقدار نہ صرف دماغ بلکہ دل کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسپرٹیم کی زیادہ مقدار دل کے مرض ''کارڈک ہائپر ٹرافی‘‘ کے خطرے میں تقریباً 20 فیصد اضافے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں دل کے پٹھے موٹے ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں میں تیز رفتاری سے کمی بھی دیکھی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ جانوروں میں جسمانی چربی تقریباً پانچویں حصے تک کم ہو گئی۔جریدے بایومیڈیسن اینڈ فارماکو تھیراپی میں شائع ہونے والی تحقیق میں سان سیباسٹیان کے سنٹر فار کوآپریٹو ریسرچ اِن بایومیٹیریلز سے وابستہ محققین نے حکام پر زور دیا کہ ایسپرٹیم کے موجودہ استعمال سے متعلق رہنما اصولوں پر نظر ثانی کی جائے۔محققین کے مطابق: ''ایسپرٹیم واقعی چوہوں میں چربی کے ذخائر کو 20 فیصد تک کم کرتا ہے، مگر اس کی قیمت دل کے ہلکے بڑھاؤ اور ذہنی کارکردگی میں کمی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔اگرچہ یہ مصنوعی مٹھاس چوہوں میں وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ دل میں مرضیاتی تبدیلیاں اور ممکنہ طور پر دماغ پر منفی اثرات بھی سامنے آتے ہیں‘‘۔''یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ منظور شدہ مقدار میں بھی ایسپرٹیم اہم اعضا کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے، لہٰذا انسانوں کے لیے اس کے محفوظ استعمال کی حد پر ازسرِنو غور کرنا مناسب ہوگا۔‘‘تحقیق کے دوران چوہوں کو جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 7 ملی گرام ایسپرٹیم کی خوراک دی گئی۔ یہ خوراک ہر دو ہفتے بعد مسلسل تین دن تک دی جاتی رہی۔اس کے مقابلے میں عالمی ادارہ صحت (WHO)، یورپی میڈیسن ایجنسی اور امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق انسانوں کیلئے یومیہ محفوظ حد جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 50 ملی گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ایک سال پر محیط مشاہدے کے دوران ایسپرٹیم استعمال کرنے والے چوہوں میں دل کی پمپنگ صلاحیت میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ بائیں وینٹریکل میں یہ کمی 26 فیصد جبکہ دائیں وینٹریکل میں 20 فیصد ریکارڈ کی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ دل کے دائیں اور بائیں وینٹریکلز کو جدا کرنے والی موٹی عضلاتی دیوار (سیپٹل کَروَیچر) میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی۔ مطالعے کے مطابق چوہوں میں ''اعصابی و رویّاتی تبدیلیوں‘‘ کے آثار اور ''دماغ میں ممکنہ مرضیاتی تبدیلیاں‘‘ بھی دیکھی گئیں۔ تاہم سائنس دانوں نے تحقیق کی چند حدود کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مطالعے کا دورانیہ محدود تھا اور اس حوالے سے طویل المدتی تحقیق کی ضرورت ہے۔دوسری جانب انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) نے نتائج کی تشریح میں احتیاط برتنے پر زور دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ان نتائج کو براہِ راست انسانوں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) کے ڈائریکٹر جنرل لاوراں اوجرنے ڈیلی میل کو بتایا: ''انسان اور چوہوں کے درمیان اہم جسمانی فرق، جیسے کہ میٹابولزم، عمر کا دورانیہ، دل کی ساخت اور دماغ میں توانائی کا استعمال، اس تحقیق کے نتائج کی مطابقت کو محدود کرتے ہیں۔خاص طور پر، چوہوں میں جسمانی وزن اور چربی میں کمی انسانی کلینیکل ٹرائلز کے شواہد سے مطابقت نہیں رکھتی، جو ظاہر کرتے ہیں کہ ایسپرٹیم اور دیگر کم یا صفر کیلوری سویٹنرز بذاتِ خود جسمانی وزن پر اثر انداز نہیں ہوتے۔یہ زیادہ تر وزن کے انتظام میں مدد کر سکتے ہیں کیونکہ یہ شوگر کی مقدار کم کرتے ہیں اور یوں مجموعی توانائی کی مقدار میں کمی لاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''دل اور عصبی رویّے میں ہونے والی تبدیلیاں بھی عمر رسیدہ چوہوں میں دیکھی گئی، جس سے یہ علیحدہ کرنا مشکل ہے کہ یہ اثرات ایسپرٹیم کی وجہ سے ہیں یا عمر رسیدگی کی معمولی علامات ہیں۔ایسپرٹیم پر بے شمار سائنسی تحقیقات ہو چکی ہیں اور اسے عالمی فوڈ سیفٹی حکام نے محفوظ قرار دے کر منظوری دی ہے۔ اس سے قبل بھی مصنوعی مٹھاس اور کینسر کے تعلقات کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ یہ خدشات 2023ء میں شدت اختیار کر گئے جب عالمی ادارہ صحت (WHO) نے ایسپرٹیم کو انسانوں کیلئے ممکنہ طور پر سرطان پیدا کرنے والا قرار دیا تھا۔

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

براڈبینڈ بلیک اسپاٹ میں پھنسے ایک لاکھ 30ہزار گھرانے آن لائن دنیا سے محرومبرطانیہ کے ہزاروں گھرانے آج بھی انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی رفتار بعض افریقی ممالک جیسے لیبیا، کیمرون اور نمیبیا سے بھی کم ہے۔ تحقیق کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار برطانوی گھروں کو ''براڈبینڈ بلیک اسپاٹ‘‘ کا سامنا ہے، جہاں آن لائن تعلیم، کام اور تفریح کے مواقع محدود ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل عدم مساوات ملکی ترقی اور روزمرہ زندگی پر منفی اثر ڈال رہی ہے، اور یہ صورتحال شہری و دیہی علاقوں کے درمیان تکنیکی تقسیم کو مزید بڑھا رہی ہے۔برطانیہ میں ہر شخص کو قانونی حق حاصل ہے کہ اسے کم از کم 10 ایم بی پی ایس (میگابِٹس فی سیکنڈ) کی ڈاؤن لوڈ اسپیڈ ملے ، جو عام طور پر ٹی وی پروگرامز کو آن لائن دیکھنے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے۔اس حد سے کم رفتار پر ویڈیو مواد بار بار رُکے گا، جبکہ زیادہ تصاویر والے ویب صفحات لوڈ ہونے میں زیادہ وقت لیں گے۔ تاہم انگلینڈ کے ایسے علاقوں کی ڈیلی میل کی تجزیاتی رپورٹ، جنہیں براڈبینڈ کے ''بلیک اسپاٹس‘‘ قرار دیا گیا ہے، ظاہر کرتی ہے کہ ویسٹ ڈیون کے 9 فیصد گھروں کو فکسڈ لائن کنکشن کے ذریعے یہ اسپیڈ مل ہی نہیں سکتی۔گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق، اوسط ڈاؤن لوڈ اسپیڈ لیبیا میں 10.7 ایم بی پی ایس، کیمرون میں 11.9 ایم بی پی ایس اور نمیبیا میں 15.6 ایم بی پی ایس ریکارڈ کی گئی۔ جنگ سے تباہ حال ملک شام (3.4 ایم بی پی ایس) سپیڈ ٹیسٹ کے مطابق دنیا میں سب سے آخر میں رہا۔ سنگاپور نے سب سے زیادہ 400.68 ایم بی پی ایس کی رفتار کے ساتھ پہلا مقام حاصل کیا۔ برطانیہ میں انٹرنیٹ اسپیڈ کی اوسط 147.4 ایم بی پی ایس رہی۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب بھی 72 ہزار رہائشی مقامات ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی رفتار 5 میگا بِٹس فی سیکنڈ (Mbps) تک بھی دستیاب نہیں ہے۔ ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (universal service obligation) (USO) کے تحت، جسے 2020ء میں نافذ کیا گیا، صارفین کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ مناسب براڈبینڈ کنکشن کا مطالبہ کر سکیں، بشرطیکہ اس کیلئے درکار ممکنہ کام کی لاگت 3,400 پاؤنڈ سے زیادہ نہ ہو۔ اس معیار کے مطابق مناسب براڈبینڈ کی تعریف یہ ہے: ''ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 10 Mbps جبکہ اپ لوڈ اسپیڈ 1 Mbps ہو‘‘۔ہاؤس آف کامنز لائبریری کے مطابق، یہ رفتار صارفین کو یہ سہولت دیتی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں فلمیں اسٹریمنگ کر سکیں، ویڈیو کالز کر سکیں اور ویب براؤزنگ کر سکیں۔ اس رفتار کے ساتھ، ایک گھنٹے کی ہائی ڈیفینیشن (HD) ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنے میں تقریباً 13 منٹ لگتے ہیں۔جب اوفکام کے اعداد و شمار کا تجزیہ مقامی انتظامیہ کی سطح پر کیا گیا تو ویسٹ ڈیون کے بعد ٹوریج (Torridge) کا نمبر آیا، جہاں 8.5 فیصد گھروں کو 10 Mbps کی رفتار دستیاب نہیں تھی۔ٹاپ فائیو میں شامل دیگر علاقے یہ تھے:مِڈ ڈیون... 6.2فیصد ایسٹ لنڈزی (لنکن شائر) ... 4فیصد ویسٹ لنڈزی (لنکن شائر)... 4فیصددوسری جانب، 39 کونسلز ایسے بھی تھے جہاں کسی بھی مقام پر انٹرنیٹ کی رفتار ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (USO) کی مقررہ حد سے کم نہیں تھی۔اوفکام کے اعداد و شمار کے مطابق براڈبینڈ سہولیات کو مزید چھوٹے علاقوں میں بھی پرکھا جا سکتا ہے، جنہیں ''مڈل سپر آئوٹ پٹ ایریاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے محلوں پر مشتمل ہوتے ہیں جہاں اوسطاً 10ہزار افراد رہتے ہیں۔ ملک کا سب سے خراب علاقہ Lympne اور Palmarsh پایا گیا، جہاں 51 میں سے 47 گھروں یعنی 92.2فیصد کو 10 Mbps ڈاؤن لوڈ اسپیڈ تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ماہرین کے مطابق انگلینڈ کے براڈبینڈ مسائل کی جڑ 1992ء میں مارگریٹ تھیچر کی حکومت کے دور میں ایک منصوبہ جاتی غلطی تھی۔

کالج کے لڑکے

کالج کے لڑکے

یوں تو ان کی کاشت ہر موسم، ہر آب و ہوا اور ہر ملک میں کی جاتی ہے۔ لیکن آپ جانئے ہر ملک کی روایات الگ الگ ہوتی ہیں اور اسی میں شان ہے۔ ہمارے ملک کی شان چونکہ سب سے الگ ہے لہٰذا دنیا بھر میں لڑکوں کی کاشت کے اعتبار سے ہمارا ملک سب سے زرخیز واقع ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں نے بنجر مقامات پر بھی ان کی کاشت کرکے ملک کو زرخیز و مالامال کردیا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے ''زیادہ غلّہ اگاؤ‘‘ کی تحریک کو جب سے ''زیادہ لڑکے پڑھاؤ‘‘ میں سمویا گیا ہے تب سے یونیورسٹیاں لڑکوں سے کھچاکھچ بھرنے لگی ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم ''حوالی طلبا‘‘ کی ہے جو اسی نام سے مشہور بھی ہے، خود ان طلبا کے بارے میں اب تک یہ طے نہیں کہ واقعی ان کا وجود ہے بھی یا صرف 'حوالے کی کتابوں‘ کی طرح حوالے ہی حوالے ہیں۔ ان طلبا کو یونیورسٹی کے ناخدا، لارڈ، منکر نکیر اور کراماً کاتبین بھی کہا جاسکتا ہے۔یونیورسٹی میں ہونے والے کھیل تماشے، مشاعرے، قوالی، پکے گانے، ہلے پھلکے پروگرام، جلسے، جلوس وغیرہ کے یہ سولہ آنے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے نام سے یونیورسٹی بھر واقف ہوتی ہے۔ آس پاس کے موچی ان کے نام لے کر اپنی دکانیں سڑکوں کے کنارے جماتے ہیں۔ بات بات میں ان کی تصاویر اور بیانات اخبارات، ہینڈبلس اور لیف لیٹس میں اچھلتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ خود نظر نہیں آتے گوکہ ان کا ذکر ہوتا ہے۔ تمام انتظامی امورمیں ان کا خاص و عام ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ تخت رہے یا تختہ کے قائل ہوتے ہیں۔ مگر کچھ دشمنوں کا شک ہے کہ یہ لوگ فاترالعقل اور بوہیمین ہوتے ہیں جبکہ ہمارا شک ہے کہ بات کچھ اور ہے اور جو شاید خود ہم بھی نہیں جانتے ورنہ آپ سے کیا پردہ تھا۔ان طلبا کی پہچان یہ ہے کہ یہ آپ کو ہر وقت چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ مگر ان کے چلنے کے راستے مقرر ہیں۔ اگر آپ کو ان کی تلاش آنکھ بند کرکے کرنا مقصود ہے تو ہماری رائے میں آپ کامن روم کے سامنے چلے جائیے۔ یہی ایک پرفضا مقام ہے جہاں یہ لوگ موقع پاتے ہی تبدیل آب وہ ہوا کی غرض سے پہنچ جاتے ہیں۔ ویسے یہ شام کو حضرت گنج میں ہوا خوری کرتے نظر آئیں گے جہاں یہ میل روز، ایروز، کوالٹی اور اسی طرح کے انگریزی ہوٹلوں میں نقرئی قہقہوں سے اپنے کھوکھلے قہقہے ملاتے ہوں گے۔ اگر آپ کو ان کی تمیز کرنا مقصود ہے تو آپ اپنی آنکھیں کھول کر ان کو بجائے تلاش کرنے کے ٹٹولئے یہ کہیں نہ کہیں زور زور سے کسی اہم مسئلے پر کسی نیم ریٹائرڈ قسم کے بزرگ سے بحث کرتے ہوں گے۔ ان کے پیچھے بہت سے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوگا۔ خاص بات یہ ہوگی کہ سب ان کا نام جانتے ہوں گے اور عام بات یہ ہوگی کہ یہ خود کسی کا نام نہ جانتے ہوں گے۔ یہ آپ کو کسی نہ کسی لیڈر یا پروفیسر وغیرہ کو کسی ہونے والی میٹنگ کی صدارت کیلئے اکساتے ہوئے ملیں گے۔ ہر تقریب میں آپ بہ آسانی ان کو صدر کے دائیں بائیں دیکھ سکتے ہیں۔تمام مقابلے غالباً انہی طلباء کیلئے کروائے جاتے ہیں۔ امتحانات میں فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس شاید انہی نے جاری کروایا تھا۔ غرض یہ کہ وہ محفل محفل نہ ہوگی جہاں یہ پالا نہ مارلے جائیں۔ ہر لکھا پڑھی کے کام میں ان کا نام سب سے اوپر ہوگا یا سب سے نیچے مگر ہوگا ضرور۔ یہ تھوڑا سا فرق جو فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس میں پیدا ہوجاتا ہے، وہ ان طلبا کی ستم ظریفی نہیں بلکہ خیالات کا ٹکراؤ ہے کیونکہ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ٹاپ اوپر سے یعنی ٹاپ سے کیا جائے اور کچھ کا خیال ہے کہ ٹاپ نیچے سے یعنی باٹم سے کیا جائے۔ ان کا اعتقاد اسی بات پر ہے کہ ناک ناک ہی ہوتی ہے خواہ اِدھر سے پکڑ لو یا ادھر سے۔ باقی جو کسر ٹاپ کرنے میں رہ جاتی ہے وہ یہ طلبا، ٹیپ ٹاپ سے پوری کرلیتے ہیں۔ ان کے ٹیپ ٹاپ کرنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ''اعلیٰ خیالات سادہ زندگی‘‘ جبکہ بقیہ طلبا کا قول ہے کہ نہیں نہیں ''اعلیٰ زندگی اور سادہ خیالات‘‘ ہونا چاہیے۔ مگر پروفیسر اوٹ پٹانگ کا خیال ہے کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ خیالات اور زندگی میں کس کو اعلیٰ اور کس کو سادہ ہونا چاہیے۔طلباء کا دوسرا گروہ پہلے والے گروہ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی زندگی اعلیٰ پسند کرتاہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ان کے جوتوں میں جو شیشے سے زیادہ چمک دار ہوتے ہیں بہ آسانی اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نہایت اعلیٰ قسم کے سوٹ پہنے ہوتے ہیں جو ٹاٹ، چمڑے یا کینویس وغیرہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں کے بارے میں ہم آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ کو ان کے منہ پر کریم، پاؤڈر اور اسنو ملے گا مگر چہرہ نہیں ملے گا۔ مگر ہاں اگر آپ نہار منہ صبح سویرے ان کا منہ دیکھنا گوارا کریں تو ممکن ہے ان کے چہرے کا درشن ہوجائے۔ان طلبا کے بات چیت کے طریقے ان کے کھانے پینے کے طریقوں سے مختلف ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات نہیں کریں گے بلکہ کھاجائیں گے۔ جب کسی مسئلہ پر بات چیت ہوگی تو ایسا ظاہر کریں گے کہ بس ان کے جانے کی دیر ہے۔ گئے نہیں کہ مسئلہ حل ہوا۔ حالانکہ ان سے مسئلہ حل ہونا ایک دوسرا مسئلہ ہوگا مگر چونکہ ان کو بات چیت کرنے اور خطاب کرنے کی لت ہوتی ہے اس وجہ سے ہمیشہ صرف بڑے بڑے مسائل کوہاتھ لگاتے ہیں اور بات کرنے میں برابر ہاتھ پیر ہلانے، گھونسا دکھانے، گردن ہلانے، کندھے اچکانے اور منھ چڑھانے سے بھی نہیں چوکتے۔

حکایت سعدیؒ:وقت کی نزاکت

حکایت سعدیؒ:وقت کی نزاکت

کسی مالدار بخیل کا بیٹا بہت سخت بیمار ہو گیا۔ دوا دارو کرنے کے باوجود بھی بخار کا زور نہ اترا تو کسی نیک دل شخص نے اسے مشورہ دیا کہ قرآن مجید ختم کراؤ یا بکرے کا صدقہ دو۔یہ سن کر مالدار بخیل سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا کہ قرآن مجید ختم کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ منڈی دور ہے اور آنے جانے میں بہت وقت ضائع ہو گا۔اس کی یہ بات سن کر نیک آدمی نے کہا ''قرآن مجید ختم کرنا اس لیے پسند آیا کہ قرآن اس کی نوک زبان پر ہے اور روپیہ اس کی جان میں اٹکا ہوا ہے۔حاصل کلام: بخیل وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھنے کی بجائے ہمیشہ دولت کو دیکھتا ہے۔ خواہ دولت نہ خرچ کر کے نقصان ہی اٹھانا پڑے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!ساقی: ہر فن مولااداکار (1986-1925ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!ساقی: ہر فن مولااداکار (1986-1925ء)

٭...ساقی 2 اپریل 1925ء کو عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام عبدالطیف بلوچ تھا۔٭... وہ پاکستان کے واحد اداکار تھے جنہوں نے اپنے کریئر کا آغاز ہالی وڈ کی فلم ''بھوانی جنکشن‘‘ سے کیا۔٭... 1955ء میں وہ لاہور میں ایک فلمی پروڈکشن یونٹ کے ساتھ بطور اسسٹنٹ وابستہ ہوئے۔ ٭...پاکستان میں ان کی پہلی فلم ''التجا‘‘ تھی جو 1955ء میں ریلیز ہوئی۔٭... 1958ء میں ''لکھ پتی‘‘ میں نگہت سلطانہ کے ساتھ ہیرو آئے۔ پھر اس کے بعد ''سسی پنوں‘‘ اور ''بمبئے والا‘‘ میں کام کیا۔٭... 1959ء میں ان کی فلم ''ناگن‘‘ ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے سپیرے کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور ساقی کی اداکاری کوبے حد سراہا گیا۔٭... 1960ء میں ''رات کے راہی‘‘ اور پھر 1965ء میں ''ہزار داستان‘‘ میں بھی انہوں نے چونکا دینے والی اداکاری کی۔٭... ان کی یادگار فلم ''لاکھوں میں ایک‘‘ 1967ء میں ریلیز ہوئی۔ ہدایتکار رضامیر کی اس فلم کو پاکستان کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔٭...ساقی نے500 سے زیادہ اردو، پنجابی، سندھی اور پشتو زبان کی فلموں میں کام کیا۔٭... ساقی گیارہ زبانیں جانتے تھے اور ان جیسی صلاحیتوں کا حامل کوئی اور دوسرا اداکار پاکستانی فلمی صنعت کو نہیں ملا۔ ٭...ساقی نے کریکٹر ایکٹر اور ولن کے کرداروں میں بھی پذیرائی حاصل کی۔٭... انہوں نے ''پاپی‘‘ اور'' ہم لوگ‘‘ کے نام سے ذاتی فلمیں بھی بنائیں لیکن یہ باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکیں۔ ٭...ان کی مشہور فلموں میں ''الہ دین کا بیٹا، تاج اور تلوار، بارہ بجے ، میں نے کیا جرم کیا، عورت ایک کہانی، شہید، موسیقار، زرقا، ایک منزل دو راہیں، بیٹی، شطرنج، نہلے پہ دہلا، ایک دل دو دیوانے، وہ کون تھی، نغمہ صحرا، نصیب اپنا اپنا، یوسف خان شیربانو اور میرا گھر میری جنت‘‘ شامل ہیں۔ ٭...پشتو فلموں کی ناموراداکارہ یاسمین خان سے انہوں نے شادی کی ۔٭...22 دسمبر 1986ء کو یہ شاندار اداکار اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ تھے۔ بطور اداکار اور بطور انسان وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ساقی کی اہم فلمیں و کردارشہید1962ء:گونگے کا کردارلاکھوں میں ایک1967ء:پٹھان ٹرک ڈرائیورزرقا1969ء:عرب بدو کا کردارگھرانہ1973ء:وفادار گھریلو ملازمناگن1959ء:سپیرے کا کردار 

آج کا دن

آج کا دن

ایکسریز کا پہلا تجربہ1895ء میں آج کے روز جرمن معالج ولہیم رونجن نے پہلا کامیاب ایکس رے لیا۔ رونجن کی دریافت نے طبی تشخیص میں انقلاب برپا کیا۔ آج، ایکس ریز مشینیں ہڈیوں کے فریکچر، دانتوں کی خرابی اور دیگر بیماریوں کی تشخیص میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کی خدمات سائنس کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کا نام اس دریافت کے ساتھ ہمیشہ کیلئے جڑا ہوا ہے اور ایکس ریز کو اکثر ''رونجن ریز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔سنکیانگ زلزلہ1906ء میں آج کے روز چین کے شہر سنکیانگ میں 7.9 شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کے جھٹکے صبح 8 بجے محسوس کئے گئے۔ اس زلزلے کا مرکز چین کے صوبے سنکیانگ کے ماناس کاؤنٹی میں واقع تھا۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں 280 سے 300 افراد ہلاک ہوئے اور ایک ہزار افراد زخمی ہوئے۔ یہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ خطرناک قدرتی آفات میں سے ایک تھا۔مسلم لیگ کا ''یوم نجات‘‘23 دسمبر 1939ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے ''یوم نجات‘‘ منایا۔یہ ''یومِ نجات‘‘ ایک روزہ جشن تھا جو قائد اعظمؒ کی اپیل پر ہندوستان بھر میں منایا گیا۔ اس کی قیادت مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناحؒ نے کی۔ اس دن کا مقصد حریف کانگریس پارٹی کے تمام اراکین کے صوبائی اور مرکزی دفاتر سے استعفے پر خوشی منانا تھا، جو اس بات پر احتجاجاً دیے گئے تھے کہ انہیں برطانیہ کے ساتھ دوسری جنگ عظیم میں شامل ہونے کے فیصلے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ ''پیپلز آرمی‘‘ کا قیام 1944ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ویتنام کی ''پیپلز آرمی‘‘ کا قیام عمل میں آیا تاکہ انڈوچائنا (موجودہ ویتنام) پر جاپانی قبضے کی مزاحمت کی جا سکے۔ یہ فوج انڈوچائنا (موجودہ ویتنام) میں جاپانی افواج کے خلاف لڑنے کیلئے تشکیل دی گئی۔ اس کا مقصد ویتنام کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنا اور جاپانی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔ اس فوج کا قیام ویتنام کے قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے ویتنام کی خود مختاری کی جنگ میں اہم سنگ میل تھا۔کروز جہاز حادثہ1963ء میں آج کے روز مشہور کروز جہاز لاکونیا پرتگال کے علاقے مادیرا سے تقریباً 290 کلومیٹر شمال میں حادثے کا شکار ہوا۔ یہ جہاز تفریحی سفر کیلئے روانہ ہوا تھا، لیکن اچانک آگ لگنے سے جہاز میں شدید تباہی پھیلی۔ جہاز میں سوار مسافر اور عملہ شدید خطرے میں آ گئے۔ جہاز کے عملے اور قریبی کشتیاں موقع پر پہنچ کر لوگوں کی مدد کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں، مگر حادثے کی شدت بہت زیادہ تھی۔اس المناک واقعے کے نتیجے میں 128 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ آگ کی وجہ سے جہاز کا بڑا حصہ جل کر تباہ ہو گیا۔ حادثے کے بعد بین الاقوامی سطح پر جہازوں میں آگ سے بچاؤ کے اقدامات اور حفاظتی قوانین کو مزید سخت کیا گیا تاکہ مستقبل میں اس طرح کے المیہ سے بچا جا سکے۔