خطِ تعلیق کیسے ایجاد ہوا؟
اسپیشل فیچر
لکھا ہوا خوب صورت ہو تو نظررک جاتی ہے اور بار بار دیکھنے کو بھی جی چاہتا ہے۔ خطوط کی کشش اپنی جگہ مگر تحریر ایک ضرورت پوری کرتی ہے۔ جب آواز کو آڈیو کی صورت قید کرنا ممکن نہیں تھا تو کسی ٹھوس شے پر لکھے حروف اس کمی کو پورا کرتے تھے۔تحریر کی مدد سے ابلاغ دور دوراور کئی زمانوں تک ممکن ہوا۔ ابتدائی دور میں انسان نے حرف تخلیق کیے تو وہ بھدے تھے لیکن جمال کی حس اس میں کمال پیدا کرتی گئی۔ مختلف طرح کے رسم الخط وجود میں آئے اور ان میں سے بہت سے مٹ گئے۔ اس عمل میں سیاست، معیشت، عسکریت اور مذہب نے اہم کردار ادا کیا۔ ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی تک مسلمان کرۂ ارض کے ایک وسیع حصے کو زیر کر چکے تھے۔ نتیجتاً نہ صرف اسلام پھیلا بلکہ خطۂ عرب میں بولی اور لکھی جانے والی زبان عربی ان علاقوں میں متعارف ہوئی۔ اس زبان نے مختلف نسلوں اور ثقافتوں کو مربوط بنانے میں معاونت کی۔ مذہبی و علمی کے علاوہ انتظامی زبان ہونے کے باعث اس کی مہارت پانے کی اہمیت دوچند ہو گئی لہٰذا عربی کے حروف تہجی کو رنگ و نسل کے امتیاز سے بالا متنوع خطوں کے مسلمانوں نے اختیار کر لیا۔ عربی خط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھٹی صدی عیسوی میں جزیرہ نما عرب کی سلطنتِ بترا میں ارتقا پذیر ہوا۔ مسیحی دنیا میں رائج ہونے والے لاطینی رسم الخط کے برخلاف عربی دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے اور عربی کے بنیادی 28 حروف تہجی میں بعض کے اوپر، نیچے اور اندر نقطے ڈالے جاتے ہیں۔ اس خط کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میںایک حرف دوسرے سے جڑ کر اپنی شکل بدل لیتا ہے۔ یہ بدلاؤ اسے پیچیدہ کے ساتھ ساتھ پُرکشش بناتا ہے۔ شروع ہی سے عربی رسم الخط میںدو رجحان دیکھنے میں آئے۔ ایک طرف ایسے طرز کی ضرورت تھی جس میں روانی ہو تاکہ تحریر کی رفتار متاثر نہ ہو ۔ دوم وہ خط جو قواعد و ضوابط کی سختی سے پاسداری کرے ۔ مؤخر الذکر میں خطِ کوفی کا نام آتا ہے۔ خطاطوں کے لکھے قرآن مجید کے ابتدائی نمونے اسی خط میں ملتے ہیں۔ بعد ازاں اس کی جگہ نسخ نے لی۔ دوسری طرف ہسپانوی مسلمانوں نے کوفی سے متاثر ایک خط مغربی کو ترقی دی۔آج پاکستان میں ہم خط نستعلیق استعمال کرتے ہیں۔ عمر کے وسط کو پہنچے خواندہ افراد جانتے ہیں کہ اسے تختیوں پر قلم دوات کے ذریعے بڑی محنت سے سکھایا جاتا تھا۔ اس میں قلم صرف آگے نہیں بڑھتا بلکہ حروف کے جڑنے پر اسے کبھی بہت نیچے اور کبھی بہت اوپر لے جانا پڑتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اردو کو اس خط کی لت لگ چکی ہے اور ہماری آنکھیں اس کی عادی بن چکی ہیں۔ اس وقت آپ کی نظر جس روزنامہ پر ہے وہ خط نستعلیق کے ایک انداز ہی میں ہے۔ یہ خط کوفی اور نسخ سے زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ اس میں جب الفاظ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ان کی شکل بہت بدل جاتی ہے۔ اس خط میں بعض اوقات ایک ایک حرف کو دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اس کی شبیہہ سے ہی لفظ پہچانے جاتے ہیں۔ نستعلیق کی طرح تعلیق کا شمار خوبصورت خطوط میں ہوتا ہے لیکن اس کے ارتقا کے پسِ پشت بعض ضرورتیں کارفرما تھیں۔ عربی رسم الخط ایران اور ترکی تو پہنچا لیکن یہاں کی زبانیں مختلف تھیں اور ان میں ایسی آوازیں موجود تھیں جو عربی میں ہیں ہی نہیں۔ یہاں عربی رسم الخط کو عام لوگوں کے استعمال کے لیے ڈھالا… حروف تہجی میں اضافے کی ضرورت کو دوسرے خطوں میں پورا کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عربی سے زیادہ حروف تہجی فارسی میں ہیں اور اس سے بھی زیادہ اردو میں۔ اس کے ساتھ نئے طرز متعارف ہوئے۔ یہی وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں خطہ ایران کے منشیوں یا کاتبوں نے خط تعلیق کی بنیاد رکھ دی اور اسی سے بعدازاں نستعلیق نے جنم لیا۔ تعلیق کے معنی ہیں لٹکانا، چپکانا اور جوڑنا ہیں۔ تعلیق ایک رواں خط ہے جس میں قلم رکتا نہیں۔یہ سرعت سے لکھنے کی ضرورت کو زیادہ آسانی سے پوری کرتا ہے۔ اس میں حرف ہی نہیں دوسرے لفظ بھی جوڑ دیے جاتے ہیں تاکہ قلم کی سیاہی ختم ہونے تک روانی قائم رہے اور دوات میں اسے تب ہی ڈبویا جائے جب لازمی ہو۔ اس میں جن دو خطوں نے مدد کی وہ رقعہ یا رقاع اور توقیع ہیں۔ اس خط کے لکھنے میں سہولت اوررفتار دونوں کا خیال رکھا گیااور یہ زیادہ شکستہ صورت میں بھی موجود ہے۔ یہ دکھنے میں بہت جاذب اور خوبصورت لگتا ہے۔رفتار کی وجہ سے سرکاری مراسلت اسی خط میں ہوتی تھی۔ پس اسے خطِ ترسل بھی کہا گیا ۔ ایک دور میں اس کو مشرقی ممالک میں بہت فروغ حاصل ہوا۔ امرا اور سلاطین اس خط کو بہت پسند کرتے تھے۔ ایران میں ارتقا پذیر ہونے والے اس خط میں غالباً خطے کی قبل از اسلام روایات اور تحریری مہارت کا بھی عمل دخل ہے۔ اس خط کا موجد حسن بن حُسین بتلایا جاتا ہے۔ تاہم موجد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس خط کو ترقی دینے والوں اوراولین اساتذہ میں خواجہ ابوالعال، احمد بن علی شیرازی، منصور بن محمد بھبھانی، سلطان علی مشہدی، درویش عبداللہ منشی، نجم الدین مسعود، شہاب الدین، خواجہ تاج سلیمانی، محمد اسفزاری، ابراہیم استرآبادی، خواجہ اختیار الدین، عبدالحئی منشی استرآبادی اور دیگر شامل ہیں۔ وقت نے اس خط کو کم و بیش متروک کر دیا ہے اور اب یہ صرف خطاطوں کے درمیان رہ گیا ہے لیکن دراصل یہی وہ خط ہے جس نے نستعلیق اور نستعلیق شکستہ کے لیے راہ ہموار کی جو دنیا کے بعض خِطوں میں آج بھی مقبول ہے۔