افریقہ بارے جو آپ نہیں جانتے

افریقہ بارے جو آپ نہیں جانتے

اسپیشل فیچر

تحریر : وردہ بلوچ


٭ رقبے کے لحاظ سے افریقہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا براعظم ہے۔ یہ خشکی کا 22 فیصد اور کل سطح زمین کا چھ فیصد بنتا ہے۔ ٭ افریقہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا براعظم ہے۔ دنیا کی 16 فیصد آبادی اس میں رہتی ہے۔ سب سے زیادہ آبادی براعظم ایشیا میں ہے، جس میں دنیا کے تقریباً 59 انسان بستے ہیں۔ ٭ دنیا کا سب سے غریب اور پسماندہ براعظم افریقہ ہے۔ ٭ اس براعظم کی نصف آبادی کی عمر 25 سال سے کم ہے۔ ٭ افریقہ میں اڑھائی کروڑ سے زائد افراد کو ایچ آئی وی ہے۔ ٭ دنیا میں ملیریا کے 90 فیصد کیسز افریقہ میں ہوتے ہیں۔ ٭ دنیا کی نسب افریقہ میں جنگلات کا کٹاؤ دگنا ہے۔ ٭ افریقہ میں پرندوں کی کل انواع کا 25 فیصد رہتا ہے۔ ٭ ایک ہزار سے زائد زبانیں اس براعظم میں بولی جاتی ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق افریقہ میں کل دو ہزار کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ٭ سارے افریقہ 1881ء سے 1914ء کے دوران نوآبادی بنایا گیا، سوائے ایتھوپیا اور لائبیریا کے۔ یہ دور ’’Scramble for Africa‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ نو سامراجیت کا عہد تھا۔ ٭ افریقہ میں 54 خودمختار ملک ہیں جو کسی دوسرے براعظم سے زیادہ ہیں۔ ٭ دنیا میں تازہ پانی کی دوسری سب سے بڑی جھیل افریقہ میں ہے۔ اس کا نام جھیل وکٹوریا ہے۔ ٭ افریقی ملک مصر میں سالانہ سب سے زیادہ سیاح جاتے ہیں۔ سال بھر میں ایک کروڑ کے قریب سیاح اس کا دورہ کرتے ہیں۔ ٭ دنیا کے تیز ترین پانچ جانوروں میں سے چار کا تعلق افریقہ سے ہے: چیتا، وائلڈبیسٹ، شیر اور تھامسنز غزال۔ یہ تمام جانور 50 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ تیز بھاگ سکتے ہیں۔ چیتے کی رفتار 70 میل فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔ ٭ چارلس ڈارون نے سب سے پہلے خیال پیش کیا کہ جدید انسان سب سے پہلے افریقہ میں رہتا تھا، لیکن مغربی دنیا میں سیاہ فاموں کے بارے میں تعصب کی وجہ سے اسے بہت سے لوگوں نے تسلیم نہ کیا۔ ٭ افریقی ملک ایتھوپیا میں 32لاکھ برس قدیم ایک انسان کی باقیات مل چکی ہیں۔ اس کا نام ’’لوسی‘‘ رکھا گیا۔ ٭ زیادہ تر ماہرین لسانیات کا ماننا ہے کہ لفظ ’’افریقہ‘‘، ’’افری‘‘ سے اخذ ہوا ہے۔ یہ شمالی افریقہ میں قرطاجیہ کے قریب تیسری صدی قبل مسیح میں رہنے والے لوگوں کو کہا جاتا تھا۔ اس میں ’’قہ؍ca‘‘ کا اضافہ رومی ہے جس کا مطلب ’’ملک‘‘ یا ’’زمین‘‘ ہے۔ ٭ افریقہ کا سب سے بڑا مذہب اسلام ہے اور اس کے بعد عیسائیت ہے۔ افریقہ کی 85 فیصد آبادی کا تعلق ان دو مذاہب سے ہے۔ ٭ افریقہ کا مہلک ترین جانور ’’ہپو‘‘ ہے۔ ٭ دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان دوسری جنگِ کانگو (1998-2003ئ) میں ہوا جس میں 54 لاکھ افراد مارے گئے۔ ٭ ریاست ہائے متحدہ امریکا، چین، انڈیا، نیوزی لینڈ، ارجنٹائن اور یورپ افریقہ میں سما سکتے ہیں۔ ٭ دنیا میں نکالا گیا نصف سونا افریقی ملک جنوبی افریقہ سے نکلا۔ ٭ صحارا سب سے بڑا گرم صحرا ہے۔ یہ امریکا سے بڑا ہے۔ ٭ قدیم مصری شہر کنعان دنیا کا پہلا منصوبہ بند شہر تھا۔ ٭ دنیا کا سب سے بڑا رینگنے والا جانور (رپٹائل) نیل کا مگرمچھ افریقہ میں رہتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں  امیر خسرو

یادرفتگاں امیر خسرو

امیر خسرو کا اصل نام ابوا لحسن اور یمین الدین محمود لقب تھا مگر انہیں شہر ت تخلص سے ملی۔ امیر ان کا موروثی خطاب تھا اور پیدائش 1253ء کی ہے ۔ خسرو خو د ترک ہندوستانی کہلانا پسند کرتے تھے جبکہ ان کہ مرشد نظام دین اولیاء نے انہیں '' طوطی ِ ہند‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ان کے والد امیر سیف الدین ایک ترک سردار تھے ۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور شمالی ہند کے پٹیالی قصبے (آگرہ ) میں جا بسے۔ ان کی والدہ ایک نو مسلم راجپوت گھرانے سے تھیں۔ وہ 8برس کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان دہلی منتقل ہوگیا ۔ وہ برصغیر میں مسلم عہد حکومت کے ابتدائی ادوارکے عینی شاہد بھی ہیں ۔انہوں نے دہلی سلطنت کے خاندان ِ غلامہ خلجی اور تغلق کے آٹھ بادشاہوں کا نہ صرف زمانہ دیکھا بلکہ اس زمانے کی سیاسی سماجی اور ثقافتی زندگی میں بھرپور کردار بھی اد ا کیا۔ اگرچہ خسرو کا آبائی پیشہ سپہ گری تھا مگر وہ صوفی کے علاوہ ایک بلند پایا ادیب،شاعر ، نثر نگار، موسیقار اورمتعدد زبانوں کے ماہر تھے۔ انہوں نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر وہ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے۔ان کی تصانیف کی تعداد 92ہے جو فارسی اور اُردو زبان کی پہلی شکل ہندوی (فارسی، ترکی، کھڑی بولی، برج بھاشہ، اودھی کا مرکب) میں لکھی گئی ہیں۔ ان میں''تحفہ الصغروو سطالحیات ، غرۃ الکمال ، بقیہ نقیہ ، قصہ چہار درویش، نہایتہ کمال، بشت بہشت، قرآن السعدین، مطلع الانوار ، مفتاح الفتوح ،مثنوی، ذوالرانی ، خضر خان ، نہ سپہر ، تغلق نامہ ، خمسہ نظامی ، اعجاز خسروی ، خزائن الفتوح ، افضل الفوائد، لیلیٰ مجنوں، خالق باری، ضواہر خسروی، آئینہ سکندری، ملاالانور اور شیریں خسرو‘‘ و غیرہ کافی مشہور ہیں۔خسرو کو اُردو زبان کا موجد بھی کہا جاتا ہے، جسے انہوں نے ''ہندوی‘‘ نام دیا تھا جو بعد میں ہندی ، پھر ریختہ ، اور اردو معلی کے بعد اردو کہلائی ۔اسی طرح دنیا میں اردو کا پہلا شعر بھی خسروسے منسوب کیا جاتا ہے ۔ ان سے اور بھی کئی ایجادات منسوب ہیں جن میں قوالی، موسیقی، کے راگ اور آلات وغیرہ شامل ہیں۔ وہ موسیقی کے دلدادہ تھے، ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کا انہیں ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم ساز، طبلہ اور ستار پر ''تیسرہ تار چڑھانا‘‘ انہی کی ایجاد ہے۔ انہوں نے اکثرراگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی ( ایمن ، کلیان ) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی اختراع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تان سین اور بے جو باورا نے فن ِ موسیقی میں جو دوامی شہرت پائی وہ خسرو کے فن کی بدولت ہے۔ اسی طرح کے ماضی کے بے شمار فنکاروں جیسے امرائو جان ادا ، ملکہ جان گوہر جان اور شہناز وغیرہ کو ''کلام ِ خسرو‘‘ کی بدولت شہرت ملی۔ علمی و ادبی لحاظ سے خسرو کی عظمت بہت زیادہ ہے ۔ انہوں نے ہمسہ نظامی کی طرز پر ہمسہ لکھا اور تصوف و اخلاقیات کے موضوع پر اپنی پہلی کوشش ''مطلع النوار‘‘ پیش کی۔ مثنوی شیری، خسرولیلیٰ مجنوں لکھی۔ اسی دوران ان کی والدہ اور چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا۔ مثنوی میں درد و قرب کی کیفیت لانے کی ضرورت نہیں پڑی خودبخود آ گئی۔ سلطان علائو الدین خلجی کے دور کو 12 سال تک دیکھنے اور پر کھنے کے بعد خسرو نے''خزائن الفتوح‘‘تصنیف کی جو ان کا پہلا نثری کارنامہ تھا ۔ انہوں نے اس کتاب میں اپنے عہد کی تاریخ پیش کی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مرشد نظام الدین اولیاء کے ملفوظا ت کو جمع کر کے ''افضل الفواد‘‘ کے نام سے مر تب کیا۔ انہوں نے علائو الدین خلجی کے بیٹے خضر خان کی داستان ِ عشق بھی نظم کی ۔ خسرو کو شاعری کے حوالے سے اپنی زندگی ہی میں شہرت مل گئی تھی۔ انہوں نے بیشتر کتابیں اپنی زندگی ہی میں ترتیب دیں ۔ وہ نظام الدین اولیاء کے بڑے چہیتے مرید تھے اور انہیں بھی اپنے مرشد سے انتہائی عقیدت تھی ۔ دوسرے مرید بھی مرشد کی توجہ کیلئے اکثر خسرو ہی کو وسیلہ بناتے تھے۔ ایک طرف آپ کا تعلق درباروں سے تھا اور دوسری طرف نظام الدین اولیاء کی خانقاہ سے۔ اپنے پیر و مرشد کی جدائی میں امیر خسرو کا دل صرف شاعری ہی سے نہیں بلکہ زندگی سے بھی اُچاٹ ہوگیا تھا ۔ آخر کار دل کی اس بے قراراری کو قرار آہی گیا اور محض چھ مہینوں بعد خسرونے بھی 28ستمبر 1325ء کو اس جہان ِ فانی کو خیرباد کہا اور اپنے مرشد کے قدموں میں دفن ہوئے ۔ تب تک وہ اپنا آخری دیوان ''نہایت الکمال‘‘ مکمل کر چکے تھے۔ 13ویں صدی کا یہ عوامی شاعر برصغیر ہندو پاک کی ادبی و ثقافتی تاریخ کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہے، جن کا فن و کلام آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔   

لندن سنٹرل مسجد

لندن سنٹرل مسجد

مساجد تو اللہ کا گھر ہیں ان کی تعمیر میں حصہ لینا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور وہ شخص خوش قسمت ہے جسے اللہ کا قرب حاصل ہو جائے مساجد تو اہل اسلام کے قلعے ہیں۔ہر ایک شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی گھر کی تعمیر خوبصورت انداز میں کرے، اس کا ڈیزائن جاذب نظر اور پرکشش ہو۔ بالکل اسی طرح مسلمانوں کا یہ شعار رہا ہے کہ وہ اللہ کے گھر کی تعمیر ڈیزائن کی خوبصورتی اور طرز تعمیر میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور یہی کیفیت ان کے جذبہ ایمانی کی عکاس ہوتی ہے۔ اگر ایمان مضبوط ہو تو امت مسلمہ کی بنیادیں بھی مضبوط ہوتی ہیں۔برطانیہ کے بڑے شہر لندن کے مسلمانوں نے بھی ایک مسجد کی کمی کو شدت سے محسوس کیا۔ شہر میں ایک مسجد کی تعمیر ان کا ایک دیرینہ خواب تھا اس خواب کی تعبیر پانے کے لئے کمیونٹی کے زعماء نے شب و روز کوششیں شروع کر دیں۔ آخر ایک دن ان کی کوششیں رنگ لے آئیں اور شہر میں ایک مرکزی مسجد کی صورت میں ان کو عبادت الٰہی کی جگہ نصیب ہوئی۔4جون 1937ء کو شہزادہ اعظم جاہ نے جو ریاست حیدر آباد(دکن) کے آخری حاکم میر عثمان علی خاں کے بڑے صاحبزادے تھے، نے لندن میں مسجد کی تعمیر کیلئے ہدیہ دیا اور مسجد کمیٹی کی بنیاد رکھی۔1939ء میں لندن کی مشہور مسلم شخصیات اور نمائندگان نے ایک مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں لارڈ لائیڈ جو برٹش کونسل کے چیئرمین تھے، سے بات چیت کی۔ لارڈ لائیڈ نے مسجد کمیٹی سے معلومات لیں اور بعد ازاں مدد کرنے کا وعدہ کیا۔1940ء میں لارڈ لائیڈ نو آبادیات کا سیکرٹری بن گیا۔ اس نے برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کو مسلمانوں کیلئے مسجد تعمیر کے متعلق تجویز بھیجی جس میں واضح کہا کہ یورپ کے کسی بھی دارالحکومت سے زیادہ مسلمان لندن میں رہائش پذیر ہیں لیکن ان مسلمانوں کے پاس عبادت کرنے کیلئے کوئی مرکزی جگہ موجود نہیں۔ حکومت برطانیہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مسجد اور ایک کمیونٹی سنٹر تعمیر کرنے سے جہاں برطانوی مسلمانوں میں برطانوی حکومت سے احساس وفاداری پیدا ہوگا وہیں مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک پر بھی اس کا ایک مثبت اثر پڑے گا۔اتفاق سے انہی دنوں شاہ مصر فاروق الاوّل نے قاہرہ میں عیسائیوں کو ایک چرچ بنانے کیلئے وسیع قطعہ اراضی تحفہ میں دیا۔ جواباً جارج ششم نے بھی برطانیہ کے مسلمانوں کو مسجد اور کمیونٹی سنٹر کیلئے ایک قطعہ اراضی تحفہ میں دیا اور ساتھ ایک لاکھ پائونڈ مسجد اور کمیونٹی سنٹر کی تعمیر کیلئے منظور کئے۔ لندن میں مقیم مسلمانوں نے مسجد کمیٹی سے مشورہ کے بعد حکومت برطانیہ کا یہ تحفہ بسر و چشم شکریہ کے ساتھ قبول کیا اور اس پراجیکٹ کا نام ''اسلامک کلچرل سنٹر و مرکزی جامع مسجد‘‘ رکھ دیا گیا۔اس اسلامک کلچر سنٹر کا افتتاح نومبر 1944ء میں ہر میجسٹی شاہ جارج ششم نے کیا۔ یہ مسجد لندن کے مشہور ریجنٹ پارک کے کنارے قائم ہے۔ مسجد کی تعمیر سے قبل 1969ء میں ماہر تعمیرات سے شایان شان ڈیزائن تیار کرنے کی دعوت دی گئی، جس کے نتیجہ میں مسجد کمیٹی کو ایک سو سے زائد مقررہ تاریخ تک ڈیزائن پیش کئے گئے۔ بالآخر ایک انگریز آرکیٹیکٹ سرفریڈرک گبرڈ کا تیار کردہ ڈیزائن منتخب کیا گیا۔ مسجد کی عمارت دو حصوں پر مشتمل ہے ایک مرکزی حصہ میں نمازیوں کیلئے ہال ہے جس میں 5400نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں، جبکہ گیلری میں خواتین کیلئے جگہ مخصوص کی گئی ہے۔ کمپلیکس کے دوسرے حصہ میں داخلی دروازہ، لائبریری، ریڈنگ روم، کانفرنس روم اور انتظامیہ کے دفاتر ہیں۔ بک شاپ کے علاوہ ایک شاپ میں تسبیح، ٹوپیاں اور جائے نماز بھی دستیاب ہیں۔ کیفے ٹیریا ،پکچر گیلری اور وضو خانہ بھی موجود ہے۔ مسجد کا کل رقبہ 203ایکڑ ہے۔ مسجد کے واحد مینار کی اونچائی 141 فٹ اور گنبد کا قطر82فٹ ہے۔ گنبد بیت المقدس کے قبتہ الصخراہ کے مشابہ ہے۔ ہال کے درمیان گنبد کے نیچے خوبصورت فانونس آویزاں ہے، لائبریری میں 25000کتب موجود ہیں۔ قرآن پاک کے تیس زبانوں میں تراجم بھی دستیاب ہیں۔مسجد کی تعمیر 1947ء میں شروع ہوئی۔ سعودی عرب کے فرمانبروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز السعود نے مسجد کی تعمیر کیلئے 20لاکھ پائونڈ عطیہ دیا۔ اس طرح متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ زائد بن سلطان النہیان نے خطیر رقم کا عطیہ دیا۔ سلطنت عمان کے سلطان قابوس کے علاوہ قطر اور کویت کے حکمرانوں نے بھی دل کھول کر کار خیر میں حصہ ڈالا۔ مسجد کی تعمیر جولائی 1977ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور اس کی تعمیر پر 65لاکھ پائونڈ خرچ ہوئے۔اس اسلامک سنٹر کے پہلے ڈائریکٹر راجہ آف محمود آباد امیر احمد خاں تھے جنہوں نے تعلیمی اور انتظامی حصہ کی تعمیر کیلئے خطیر رقم عطیہ کی۔ اس حصہ کی تعمیر میں سعودی عرب کے شاہ فہد بن عبدالعزیز نے بھی بطور خاص عطیہ دیا۔ یہ حصہ 1994ء میں مکمل ہوا۔اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت برطانیہ میں تقریباً2000مساجد ہیں جن میں 1500مساجد صرف لندن شہر میں ہیں۔ یہ برطانیہ میں مقیم 45لاکھ مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہیں، جبکہ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 7فیصد ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

اوماہا کے فساداتاوماہا میں نسلی فسادات 28ستمبر1919ء کو شروع ہوئے۔ان فسادات کے نتیجے میں ایک سیاہ فام شہری ول براؤن کو قتل کردیا گیا جبکہ بہت سے سفید فام اس میں زخمی ہوئے، شہر کے مئیر ایڈورڈ پارسنز سمتھ کو پھانسی دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ اوماہا پولیس ڈیپارٹمنٹ کے بہت سے افسران اور شہری شدید زخمی ہوئے۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے سفید فاموں کی بہت بڑی تعداد نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی اور اومایا کے مرکز میں واقع ڈگلس کاؤنٹی کورٹ ہاؤس کو آگ لگا دی۔ ان فسادات نے 1919ء کے ریڈ سمر کے دوران ریاستہائے متحدہ امریکہ کے بڑے صنعتی شہروں میں 20سے زیادہ نسلی فسادات کو ہوا دی۔ انڈونیشیا میں زلزلہ28 ستمبر 2018ء کو انڈونیشیا کے جزیرہ نما مناہاسا میں ایک بہت بڑا زلزلہ آیا، جس کا مرکز ڈونگالا ریجنسی، وسطی سولاویسی میں واقع تھا۔ اس زلزلے کی شدت 7.5 ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کا مرکز صوبائی دارالحکومت پالو سے 70 کلومیٹر دور واقع تھا۔ زلزلے کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کے جھٹکے ملائیشیا کے تواؤ میں بھی محسوس کئے گئے ۔مرکزی زلزلے سے قبل بھی کچھ جھٹکے محسوس کئے گئے جس کی شدت6.1ریکارڈ کی گئی۔مرکزی زلزلے کے بعد، قریبی آبنائے مکاسر کے لیے سونامی کا الرٹ جاری کر دیا گیا۔ ایک مقامی سونامی بھی آیا جس کے راستے میں ساحل پرموجود مکانات اور عمارتیں تباہ ہوگئیں۔ شام میں بغاوت 28 ستمبر 1961ء کو شام میں بغاوت کا آغاز ہوا۔یہ شامی فوج کے ناراض افسران کی بغاوت تھی جس کے نتیجے میں ایک آزاد شامی جمہوریہ کا آغاز ہوا۔اس بغاوت کے بعد شامی افواج کے پاس تمام اختیارات موجود تھے لیکن شامی فوج نے براہ راست حکومت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اورسابقہ شامی جمہوریہ کی روایتی سیاسی جماعتوں کے سیاست دانوں کوحکومت بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔بحال ہونے والی حکومت شامی جمہوریہ کا سلسلہ تھا لیکن عرب قوم پرستوں کے اثرو رسوخ کی وجہ سے اس کا نیا نام شامی عرب جمہوریہ رکھا گیا۔بحال شدہ حکومت افراتفری کا شکار تھی کیونکہ اندرونی فوجی بغاوت نے حکومت کی بہت سے پالیسیوں کو متاثر کیا تھا۔ جنوبی آسٹریلیا کا بلیک آؤٹ28ستمبر2016ء کو جنوبی آسٹریلیا کو اچانک بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑا،یہ بجلی کی ایک وسیع بندش تھی جو طوفان کی وجہ سے بجلی کی ترسیل کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں پیش آئی تھی۔ اس بندش سے تقریباً8لاکھ50ہزار افراد متاثر ہوئے۔کنگارو جزیرہ اس بلیک آؤٹ سے متاثر نہیں ہوا کیونکہ یہاں موجود پاور سٹیشن جزیرہ کی سپلائی کے لئے تعمیر کیاگیا تھا تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کی صورت میںبجلی کی ترسیل متاثر نہ ہو سکے۔ 

یادرفتگاں:رہنمائوں کے رہنما بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان

یادرفتگاں:رہنمائوں کے رہنما بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان

جمہوریت کیلئے نوابزادہ نصر اللہ خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ان چند سیاست دانوں میں سے ہیں جو حقیقی معنوں میں کسی بھی دور میں نہ بکے اور نہ جھکے۔ 1951ء کے بعد ملک میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے نوابزادہ نصراللہ خان کا ان کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ضرور رہا۔انہیں سب سے زیادہ شہرت ایوب خان کے دور میں اس وقت ملی جب انہوں نے جمہوریت کی بحالی کیلئے قربانیاں دیں اور ان پر بغاوت کا مقدمہ بنا۔ اس وقت جب دوسرے سیاستدان ہمت ہار بیٹھے تھے یہ مردِ قلندر میدان عمل میں ڈٹا رہا اور ایوب خان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرے۔ یہی صورتحال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی رہی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے مستقل مزاجی سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک جاری رکھی۔ قائد جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال بِیت چکے ہیں اور ان کی برسی کل منائی جائے گی۔نوابزادہ نصر اللہ خان13 نومبر 1916ء کو مظفرگڑھ کے قصبے خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نوابزادہ سیف اللہ خان دفعہ 30 کے مجسٹریٹ تھے۔ نصراللہ خان ابھی چھ برس ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ انہوں نے ایچیسن کالج لاہورسے ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں گریجوئشن کیلئے داخلہ لیا لیکن شادی کے باعث انہیں کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔وہ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ سیاست انہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے شروع کی۔وہ اس جماعت میں اس طرح رچ بس گئے کہ قیام پاکستان سے قبل 27 یا 28 سال کی عمر میں ہی وہ اس کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ 1950ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعدازاں اختلافات کی بنا پر مسلم لیگ سے استعفی دے دیا اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر عوامی لیگ قائم کی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان 1962ء میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور انہوں نے 1962ء میں ہی حزب اختلاف کا اتحاد ''نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘ تشکیل دے دیا۔ 1964ء میں متحدہ حزب اختلاف( سی او پی) کے نام سے ایک تیسرا بڑا سیاسی اتحاد معرض وجود میںآیا۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا یہ دوسرا بڑا اتحاد تھا جس کے قیام کا موقع ایوب خان نے صدارتی انتخاب کا اعلان کر کے فراہم کیا تھا۔ تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول کونسل مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی اور عوامی لیگ نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ ابتدا میں سی او پی کے رہنما ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار کھڑا کرنے کے معاملے میں اختلافات کا شکار ہو گئے تا ہم فاطمہ جنا ح کے نام پر کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے محترمہ فاطمہ جنا ح سے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی۔ پہلے انہوں نے انکار کیا مگر بعد ازاں انہوں نے آمادگی ظاہر کر دی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے فاطمہ جنا ح کی صدارتی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا ۔ سی او پی کو قوی یقین تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح الیکشن جیت جائیں گی۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ کو شکست ہوگی۔ نواب زادہ نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف 1967ء میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ''پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ تشکیل دیا۔ انہوں نے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کو اپنی سیاسی زندگی میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ،کئی مرتبہ جیلوں میں گئے اور متعدد بار نظر بند رہے۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء کے دوران اپنے آبائی گھر خان گڑھ میں نظر بند ہونے کے باوجود ملکی سیاسی صورتحال پر پوری طرح نظر رکھے رہتے۔ وہ وقتاً فوقتاً قلبی واردات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرکے نظم کی صورت میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنے 50 سالہ پرانے رفیق عبدالرشید قریشی ایڈووکیٹ کے نام بھجوا دیتے، جو اس کی نقول مختلف اخبارات کو جاری کر دیتے ۔ جنرل ضیاالحق کے عہد مارشل لاء میں جس نظم کے چرچے ہوئے اور ملک بھر میں اس کی فوٹو کاپیاں تقسیم کی گئیں وہ یہ ہے۔کتنے بے درد ہیں کہ صر صر کو صبا کہتے ہیںکیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیںجبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیںمیری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے خامشی کو بھی اک طرز نوا کہتے ہیںکشتگانِ وجور کو بھی دیکھ تو لیںاہل ِدانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیںکل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی آج بھی پیش بتاں نامِ خدا کہتے ہیں یوں تو محفل سے تیری اٹھ گئے سب دل والےایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا ، کہتے ہیں یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہےچارہ گر موت کو تکمیل شفا کہتے ہیں بزمِ زنداں میں ہوا شور سلاسل برپادہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیںآندھیاں میرے نشیمن کو اُڑانے اٹھیں میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا ، کہتے ہیںان کے ہاتھوں پر اگر خون کے چھینٹے دیکھیں مصلحت کش اِسے رنگ ِحنا کہتے ہیںمیری فریاد کو اس عہدِ ہوس میں ناصر ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں نوابز ادہ نصر اللہ خان نے 1988ء اور 1993ء کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش18 سیاسی اتحاد بنائے، جن میں پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی ،این ڈی اے ،اے آر ڈی ،اے پی سی اور دیگر سیاسی اتحاد شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے اے آر ڈی کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جس میں بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کو ایک فورم پر جمع کیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان پیرانہ سالی اور علا لتوں کے دور سے گزر رہے تھے اس کے باوجود انتقال سے کچھ دن پہلے انہوں نے بیرون ملک دورہ کیا۔بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو وطن واپس آنے کی ترغیب دی۔ اس سفر میں انہیں عمرہ اداکرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان مسلح افواج کے سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ کسی بھی آئینی کردار کے خلاف تھے۔ ان کی جمہوریت کے فروغ کیلئے خدمات قابل تحسین ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی بحالی جمہوریت کیلئے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ا نہیں ''بحالی جمہوریت کا ہیرو ‘‘ قرار دے۔26اور27 ستمبر2003ء کی درمیانی رات وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔انہیں ان کے آبائی قبرستان خان گڑھ میں سپرد خاک کیا گیا۔اس وقت ملک میں جو سیاسی افرا تفری پھیلی ہوئی ہے،ان حالات میں اگر وہ زندہ ہوتے تو ملک میں سیاسی امن و امان قائم کرنے کیلئے ضرور اپنا کردار ادا کرتے۔ 

آئس کریم کی کہانی، کتنی پرانی؟

آئس کریم کی کہانی، کتنی پرانی؟

کون ہے جسے آئس کریم کھانا اچھا نہ لگتا ہو۔ گرمیوں کی چلچلاتی شام میں تو اس کے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ آئس کریم کو قدیم زمانے سے ہی لوگ بڑے شوق سے کھاتے آ رہے ہیں۔آئس کریم کی شروعات کہاں سے اور کب ہوئی؟ اس سلسلے میں مختلف آراء ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ اس کی شروعات چارہزارقبل مسیح برفیلے علاقوں سے ہوئی۔ جہاں باہر رکھا ہوا دودھ خود بخود جم جاتا تھا اور لوگ اسے پینے کے بجائے کھایا کرتے تھے۔ شاید دنیا کی سب سے قدیم آئس کریم یہی تھی۔ ایک ہزار سال پہلے چینی تاریخ میں آئس کریم کا ذکر ملتا ہے۔ روم کا شہنشاہ دودھ، شہد اور پھلوں کے جوس کو ایک پیالے میں ملا کر برف کی سلوں کے درمیان رکھوا دیتا اور کچھ گھنٹوں بعد جمی ہوئی آئس کریم سے لطف اٹھاتا تھا۔ تاریخ میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ سکندر اعظم کو بھی جمی ہوئی میٹھی چیزیں کھانے کا شوقین تھا۔ عرب کے حکمرانوں کو بھی ٹھنڈی بالائی بے حد پسند تھی۔ تیرہویں صدی میں جب مارکو پولو چین پہنچا تو اس نے وہاں کے شہنشاہ اور دوسرے رئیس لوگوں کوآئس کریم کھاتے دیکھا، اسے بھی یہ چیز پسند آئی۔ مارکو پولو نے فرانس پہنچنے پر وہاں کے شہنشاہ کوآئس کریم کھلائی۔ صنعتی طور پر برف کا استعمال سب سے پہلے انگریزوں نے کیا۔ 1806ء میں تقریباً125ٹن برف لندن سے ویسٹ انڈیز پہنچائی گئی، جہاں اس وقت تک کسی نے برف کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے باشندوں نے برف خریدی ہی نہیں لیکن آہستہ آہستہ برف عام ہو گئی۔1850ء میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ پچاس ہزار ٹن برف دنیا کی 35 بندرگاہوں میں پہنچنے لگی۔ہندوستان میں مغل بادشاہوں کو بھی آئس کریم کھانے کا بے حد شوق تھا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں آئس کریم( جو اس وقت قلفی کے طور پر تیار کی جاتی تھی) کھانے کے بے حد شوقین تھے۔اکبر بادشاہ کے دور کی مشہور کتاب ''آئین اکبری‘‘ میں ایک واقعہ کا ذکر ہے جو آئس کریم سے متعلق ہے۔ بیان کے مطابق 1586ء میں اکبر بادشاہ کے دور میں لاہور سے تقریباً180کلو میٹر دور کسی برفیلے پہاڑی علاقے سے برف منگوائی جاتی تھی۔ اس برف کو توڑ کر نمک ملانے کے بعد آئس کریم بنانے کا محلول تیار کیا جاتا تھا۔ پھر اس میں دودھ اور میوے ملائے جاتے تھے اور قفلی نامی برتن میں رکھ کر برف میں دبا دیا جاتا تھا۔ قفلی برتن ایک خاص دھات کا بنا ہوا ہوتا تھا اور خاص طور پر اسی کام کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ قفلی بگڑ کر قلفی میں بدل گیا اور تیاری کے طریقے میں بھی تبدیلی آ گئی۔اٹھارویں صدی کے آ خر میں امریکہ کے بازاروں میں آئس کریم کی فروخت شروع ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برف جمی ہوئی ندیوں اور جھیلوں سے کاٹ کر لائی جاتی تھی۔ اس طرح برف کے لانے میں اور اسے محفوظ کرنے میں کافی وقت لگتا تھا۔ اس سے آئس کریم بہت مہنگی پڑتی تھی اور اسے امیر لوگ ہی کھاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک غریب بچہ جیکب پارکس جب آئس کریم نہ کھا سکا تو اس نے برف بنانے کی مشین بنانے کا تہیہ کیا۔ اس نے بڑے ہو کر مسلسل بیس سال تک محنت کرنے کے بعد برف تیار کرنے کی مشین ایجاد کرلی۔ اس مشین میں ایتھر کا استعمال ہوتا تھاجو پانی کے درجہ حرارت کو کم کرتا ہے اور درجہ حرارت کم ہوتے ہوتے پانی برف بن جاتاتھا۔ اس طرح مصنوعی برف کی تیاری نے آئس کریم کی صنعت میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ ہندوستان میں بھی 19ویں صدی کے آخر میں برف بنانے کے کارخانے کھلنے لگے اور اس کی فروخت عام ہونے لگی۔ 2021ء میں لندن کے ادارہ نفسیات کی ایک تحقیق میں سامنے آیا کہ آئس کریم کا صرف ایک چمچ کھانے سے ہمارے دماغ کاوہ حصہ جو فیصلہ سازی میں ہماری مدد کرتا ہے، متحرک ہو جاتا ہے۔دیگر تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ آئس کریم میں موجود پروٹین اور چکنائی ہمارا موڈ بہتر کر دیتے ہیں اور ہمارے جسم میں موجود سیروٹونن (وہ ہارمون جس سے موڈ اچھا ہو جاتا ہے) کی سطح بھی بڑھ جاتی ہے۔معیاری آئس کریم میں پروٹین اور چکنائی کی مقدار ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ آئس کریم بچے ہی نہیں بڑے بھی پسند کرتے ہیں۔ کھانے کی چیزوں میں یہ سب سے زیادہ مشہور چیزوں میں گنی جاتی ہے۔اس کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔بزنس انٹیلی جنس پلیٹ فارم 'سٹیٹسٹا‘ کے مطابق 2024ء میں آئس کریم کی صنعت سے 103.4 ارب ڈالر حاصل ہوئے۔ اس کے مقابلے میں چاکلیٹ کے کاروبار سے آنے والی آمدنی 1.33 ارب ڈالر ہے جبکہ کافی کی صنعت سے 93.46 ارب ڈالرآئے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ آئس کریم کے مختلف ذائقوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور بات اب روایتی ونیلا اور چاکلیٹ آئس کریم سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہے۔ کچھ آئس کریم کے ذائقے مقامی کھانوں کی ثقافت سے بھی مشابہت رکھتے ہیں۔2022 میں جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹائون میں کچن چلانے والے ٹاپیوا گزہا کا سوشل میڈیا پر چرچہ ہوا جب انھوں نے سوکھی نمکین مچھلی کے ذائقے والی آئس کریم بنائی۔سوکھی مچھلی کے ساتھ اس آئس کریم میں مرچوں کا بھی ذائقہ شامل تھا۔ ٹاپیوا گزہا پیشے سے حیاتیات کے ماہر ہیں اورخود کو سائنسی ذہنیت کا 'فوڈی‘ یعنی کھانے کا شوقین کہتے ہیں۔   

آج کا دن

آج کا دن

لانگو پوائنٹ کی لڑائیلانگو پوائنٹ کی جنگ ایلن،امریکی اور کیوبک ملیشیا کے درمیان ہونے والی ایک لڑائی تھی جو 25ستمبر 1775ء کو شروع ہوئی۔امریکی انقلابی جنگ کے اوائل میں ہونے والی اس لڑائی کا مقصد مونٹریال سے برطانوی افواج کا کنٹرول ختم کر کے اس پر قبضہ کرنا تھا۔ایلن جسے احکامات دئیے گئے تھے کہ اپنی تعداد میں اضافہ کرے کیونکہ وہ ایک طویل عرصہ سے مونٹریال پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔جب وہ تقریباً110افراد کے ساتھ دریائے سینٹ لارنس کے جنوبی کنارے پر پہنچا تو اس نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور قبضہ کرنے کی کوشش کی۔میجر جان براؤن، جن کے بارے میں ایلن نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اضافی فورسز فراہم کرنے والے تھے، وہ وہاں نہیں پہنچے۔جیسا منصوبہ بنایا گیا تھااس پر عمل نہیں کیا گیا۔ سیکوئیا نیشنل پارک کا قیامسیکوئیا نیشنل پارک ایک امریکی پارک ہے جو جنوبی سیرا نیواڈا میں وسالیا، کیلیفورنیا کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ پارک 25 ستمبر 1890ء کو 4لاکھ 4ہزار 64 ایکڑ جنگلاتی پہاڑی خطوں کی حفاظت کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ تقریباً 13ہزار فٹ کی عمودی ریلیف کو گھیرے ہوئے یہ پارک ملحقہ ریاستہائے متحدہ میں سب سے اونچے مقام پر واقع ہے۔ ماؤنٹ وٹنی، سطح سمندر سے 14ہزار505 فٹ پر ہے۔ یہ پارک کنگز کینین نیشنل پارک کے جنوب میں ہے اور اس کے ساتھ ملحقہ ہے۔ دونوں پارکوں کا انتظام نیشنل پارک سروس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔یہ پارک اپنے بڑے سیکوئیا کے درختوں کیلئے قابل ذکر ہے، بشمول جنرل شرمین درخت جو حجم کے لحاظ سے زمین کا سب سے بڑا درخت ہے۔ٹرانس اٹلانٹک کا افتتاح ٹرانس اٹلانٹک ایک ٹیلی فون کیبل سسٹم تھا۔ اسے اوبان، اسکاٹ لینڈ اور کلیرن ویل نیو فاؤنڈ لینڈ کے درمیان بچھایا گیا تھا۔اس کا افتتاح 25 ستمبر 1956ء کو ہوا۔ یہ کیبل بیک وقت 35 ٹیلی فون کالز کرنے کے قابل تھی۔ 36 واں چینل 22 ٹیلی گراف لائنوں تک لے جانے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔یہ ٹیکنالوجی مواصلاتی نظام میں انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کیبل سسٹم کی وجہ سے مواصلاتی نظام کے متعلق کئی مشکلات حل ہوئیں ۔پیسیفک ائیر لائن حادثہپیسیفک ساؤتھ ویسٹ فلائٹ نمبر182لاس اینجلس سے سین ڈیاگو کیلئے طے شدہ پرواز تھی۔25ستمبر1978ء کو پرواز سین ڈیاگو کیلیفورنیا کے اوپر ایک نجی طیارے سے ٹکرا گئی۔یہ پیسیفک ساؤتھ ویسٹ ائیر لائن کی تاریخ کا بدترین حادثہ تھا اور کیلیفوردنیا کا سب سے مہلک فضائی حادثہ تھا۔ دونوں طیاروں کا ٹکراؤ سین ڈیاگو کے علاقے نارتھ پارک میں ہوا۔ اس حادثے کے نتیجے میں 135افراد ہلاک ہوئے جبکہ زمین پر موجود 7 لوگ اس کا شکار ہوئے۔ نجی طیارے میں سوار دونوں افراد بھی ہلاک ہوئے جبکہ تقریباً 22گھروں کو شدید نقصان پہنچا۔