نقل کے نقصانات
اسپیشل فیچر
نقل مارنے سے فوری فائدے تو ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں دائمی نقصان ہوتا ہے۔ قابلیت اور مہارت کا فقدان نقل ہی کی دین ہے۔ ہمیں اکثر یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کروڑوں روپے کے خرچ سے تعمیر شدہ پل افتتاح سے قبل زمین بوس ہوگیا۔نیم حکیم کے معالجہ سے سینکڑوں افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ہلاکت خیز سانحہ کیلئے غیر تربیت یافتہ عملہ ذمہ دار قرار پاتا ہے۔ مختلف میدان ہائے حیات میں نیم پختہ کاری اور مہارتوں کے فقدان سے اس طرح کے واقعات کے نتیجہ میں انسانی جانوں اور قیمتی وسائل کا زیاں اور بربادی ہوتی ہے۔نقل کے باعث یا اہلیت کی حقیقی جانچ کے بغیر ڈگریوں کا دیا جانا اس صورت حال کو پیدا کرتا ہے کہ سب سے زیادہ گریجویٹس رکھنے والے تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت صلاحیت اور اہلیت کی کسوٹی پر نہیں اترتی۔ ان کی میدان عمل کی کارکردگی ڈگریوں سے فروتر ہوتی ہے۔ نجی کمپنیاں صرف انتہائی ذہین امید وار کو ترجیح دیتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ہمارے ان مندرجہ بالا افراد کو دائمی نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوپاتا۔ ہمارے یہ طالب علم نقل کی بیساکھیوں سے زیادہ لمبی دوڑ، دوڑ نہیں پاتے۔ جس طرح کسی عدد کے بائیں جانب کئی گنا صفر لگانے سے اس کی قیمت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے اسی طرح نقل کے ذریعے کئی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اس کی کوئی اہمیت اور قدر نہیں ہوتی ہے ۔ نقل سے ہم ممتحن کو بیوقوف بناسکتے ہیں اساتذہ کو بیوقوف بناسکتے ہیں لیکن اپنے آپ کو بیوقوف نہیں بنانا چاہیے کیونکہ نقل کرکے امتحان میں پاس (کامیاب ) ہوسکتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ناکامیاب رہیںگے ۔اسکول کے وہ طلباء جو صحیح معنوں میں علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں محنت صرف کرتے ہیں۔ ٹیوٹر کی مدد کے بغیر وہ قابل بن کر ابھرتے ہیں مگر جو طلباء نقل نویسی یا وسیلہ بازی میں اپنی محنت کا استعمال کرتے ہیں بھلے ہی انھیں سند اور ڈگری پر فرسٹ کلاس ڈکلیئر کردیا جائے وہ آئندہ زندگی میں غلط سمتوں میں ہی اپنی توانائی صرف کریں گے۔جو کرتے ہیں نقلوہ رہ جاتے ہیں بے عقل ہمارے قومی دشمن سہولت فراہم کرکے نقل نویسی کا زہر دانستہ طور پر گھول رہے ہیں تاکہ قوم اندر سے کھوکھلی ہوجائے، کیا یہ کوئی سازش تو نہیں ہے کہ قوم کو نقل میں مبتلا کرکے ان کی تعلیمی ترقی کو پسماندگی میں تبدیل کردیا جائے؟ بعض اوقات جن کی ذمہ داری نقل کو روکنا ہے وہ اسے پروان چڑھاتے ہیں، اپنی ہی قوم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ دوسرے لوگ نقل کررہے ہیں وہ لوگ آگے بڑھ جائیں گے اور ہمارے بچے پیچھے رہ جائیں گے۔ حالانکہ نقل سے کوئی آگے نہیں بڑھتا ۔ شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچوں کو میٹھا زہر دے رہے ہیں۔ یاد رکھئے زہر میٹھا ہی صحیح پر زہر ہوتا ہے اور وہ اپنا کام جانتا ہے۔ امتحان میں نقل کوئی معمولی جرم ہی نہیں بلکہ اس کی تباہ کاریوں کی زد سارے سماج پر پڑتی ہے۔ہم میں سے کوئی پسند نہیں کرے گا کہ ہمارے اپنے عزیز اور چہیتے کی جان محض اس لئے چلی جائے کہ ڈاکٹر کے پاس سند تھی لیکن قابلیت نہیں؛ ہمارا مقدمہ ایسے وکیل کے حوالے ہو جو دوران جرح اپنی ڈگریوں کی لاج نہ رکھ سکے، ہماری اولاد کا مستقبل سنوارنے والے اساتذہ تدریس کا حق ادا کرنے کے اہل نہ ہوں۔آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کو اس لعنت سے نجات دلائی جائے، معاشرے میں اس برائی کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، تعلیمی اداروں کے منتظمین، صدر مدرسین، پرنسپلز ، اساتذہ اور سر پرست حضرات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کی صحت مند خطوط پر تربیت کریں اور دانشوروں سے گزارش ہے کہ طلباء نقل کیوں کرتے ہیں اس کے اسباب جانیں اور تدارک کی ہر ممکن کوشش کریں۔مزاج بدلو نقل کاکچھ تو سوچو کل کا