دورِقدیم کی مصوری
اسپیشل فیچر
مصوری کا تعلق فنون لطیفہ سے ہے اور اس فن میں خطوط، اشکال اور رنگوں کے ذریعہ کاغذ یا کینوس جیسی سطح پر صورت گری کی جاتی ہے۔
زمانہ قبل از تاریخ
اس فن کے اولین نقوش حجری دور کے غاروں میں ملے ہیں۔ غاری نقاشی کے ان نمونوں کی دریافت پچھلے سو سال ہی کی بات ہے۔ یہ غار زیادہ تر سپین اور فرانس کے علاقوں میں واقع ہیں جن میں زمانہ قبل از تاریخ کے انسان اندازاً چھ ہزار قبل مسیح سے ایک ہزار قبل مسیح تک رہا کرتے تھے۔ یہ تصویریں زیادہ تر جانوروں اور ان کے شکار کے مناظر کی ہیں۔ ابتدائی دور کا مصور خاکستری، سرخ اور پیلا رنگ، کالک کے ساتھ استعمال کیا کرتا تھا۔ کالک اسے ان چراغوں سے حاصل ہوجاتی تھی جو غاروں میں روشنی کے لیے جلائے جاتے تھے۔ ان تصویروں میں نیلا اور سبز رنگ شاذونادر ہی استعمال کیا گیا ہے کیونکہ ان رنگوں کی تیاری کا کام مشکل تھا۔ اس کے علاوہ ان رنگوں کے استعمال کے مواقع بھی بہت کم تھے کیونکہ تصویریں زیادہ تر صرف آدمیوں اور جانوروں کی بنائی جاتی تھیں اور پس منظر میں نہ درخت ہوتے تھے اور نہ آسمان۔
زمانہ ما قبل تاریخ کی مصوری کئی ارتقائی مدارج سے گزری ہے۔ ابتدا میں خطوط کی مدد سے صرف سپاٹ خاکے بنائے جاتے تھے۔ بعد میں خطوط کے پیچ و خم کو کہیں ہلکا اور کہیں گہرا کر کے تصویر کو ٹھوس شکل دینے کی کوشش کی گئی لیکن ان مصوروں کے اولین نقوش بھی بڑے جاندار اور حقیقت پسندانہ معلوم ہوتے ہیں۔ جانور مختلف حالتوں دکھائے گئے ہیں۔ کسی تصویر میں وہ سستا رہے ہیں تو کسی میں کھڑے ہیں یا دوڑ رہے ہیں یا پھر تیر کا نشانہ بن کر دم توڑ رہے ہیں۔ ان تمام تصویروں میں مصور اپنے مقصد کے اظہار میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
مصری مصوری
زمانہ تاریخ کے اولین دور کی نقاشی کے نمونے مصر میں ملتے ہیں۔ اس سرزمین پر مصوری کی تاریخ کا آغاز تین ہزار قبل مسیح سے ہوا جب مینس نامی بادشاہ نے وادیٔ نیل کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں سے اپنا لوہا منوا کر ایک عظیم الشان سلطنت قائم کی۔ اہل مصر کا اعتقاد تھا کہ حیات کا سلسلہ موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے حکمرانوں، امیروں اور رئیسوں کی لاشیں مقبروں میں محفوظ کر دیتے تھے۔ ان مقبروں کے داخلی راستے کی دیواروں کے اندر کمروں، شاہی محلات، مندروں کی دیواروں اور ستونوں کے جو آثار دریافت ہوئے ہیں ان پر روزمرہ زندگی کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ ان تصویروں میں کہیں ماہی گیری، شکار اور فصل کاٹنے کے مناظر دکھائے گئے ہیں تو کہیں مصری کاریگر، دست کاری میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مصریوں کے کھانے پینے، ناچ رنگ اور کھیل کود کے منظر بھی ان تصویروں میں پیش کیے گئے ہیں۔ مصری مصوری کو زندگی کے ہر موضوع سے دلچسپی تھی چنانچہ کسی ایک تصویر میں لوگ سنگ تراشی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں تو ایک دوسری تصویر میں وہ بال کٹوانے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
مصری مصوروں کی بنائی ہوئی انسانی تصویروں میں چہروں کے خدوخال سے کوئی انفرادی رنگ نہیں جھلکتا اور نہ حرکت و جنبش کا احساس ہوتا ہے۔ اعضا کے تناسب اور آہنگ کے آگے چہروں کا اتار چڑھاؤ اور ان کی داخلی کیفیت ماند پڑ جاتی ہے۔ ان سے کسی کاہن کا مقطع پن اور سنجیدگی ٹپکنے لگتی ہے لیکن اس کے برعکس نسوانی تصویریں زیادہ لوچدار، بھرپور اور جیتی جاگتی معلوم ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ جانوروں کی تصویریں بھی اصل سے زیادہ قریب ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی تشکیل میں مصور نے اپنے مشاہدات کا اظہار زیادہ آزادی سے کیا ہے۔ مصری مصوروں کا شمار ان اولین حسن کاروں میں کیا جاتا ہے جو صنف نازک کی رعنائی اور لوچ کو اجاگر کرنے میںکامیاب رہے ہیں۔ ان مصوروں نے رنگوں کے استعمال میں بڑی سنجیدگی اور اعتدال پسندی سے کام لیا ہے۔ وہ سرخ یا ہلکا بادامی رنگ اور اس کے علاوہ ہلکا سبز اور نیلا رنگ استعمال کرتے تھے۔ مصری مصوری کے عہد طفولیت میں قائم شدہ روایت کے مطابق وہ مرد کی تصویر کے لیے سرخ رنگ استعمال کرتے تھے اور عورت کی تصویر زرد رنگ سے آراستہ کرتے تھے۔
مینوانی یا قدیم کریٹ مصوری
جزیرہ کریٹ میں تخمیناً دو ہزار قبل مسیح سے 14 سو قبل مسیح تک مینوانی تہذیب رائج تھی۔ یہاں نقاشی غالباً ابتدا میں مٹی کے ظروف پر کی جاتی ہو گی۔ لیکن اس کے بہترین نمونے کریٹ کے بعض محلات کی دیواروں پر نظر آتے ہیں۔ ان تصویروں کے تصورات (امیجری) روزمرہ کی زندگی، جیسے رقص اور سانڈوں کی لڑائی کے مناظر کے علاوہ فطری مناظر جیسے رنگ برنگی مچھلیاں، اڑن مچھلیاں اور پھلواریاں سے لیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ روایتی طرز کے ڈیزائن بھی پیش کیے گئے ہیں۔ یہ تصویریں بڑی جاندار اور حقیقت پسندانہ ہیں۔ کریٹ کے محلوں کی دیواروں کے رنگا رنگ نقش و نگار مقبروں کے مُردوں کے لیے نہیں بلکہ زندوں کے ذوق کی پذیرائی کے لیے بنائے گئے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ کریٹ کی مصوری نے مصری طرز سے فیض حاصل کیا ہے۔ مصر کے مصوروں کی طرح یہاں کے مصور بھی یک رخی تصویر (profile) بناتے تھے اور بدقسمتی سے ان یک رخی تصویروں میں ایک بازو سے کندھے کی بناوٹ پیش کرنا دشوار تھا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اعضا بے جوڑ معلوم ہوتے ہیں۔ کریٹ کی مصوری کے نمونوں میں مصری تصویروں کی طرح مرد کے لیے گہرے اور عورت کے لیے نسبتاً ہلکے رنگ استعمال کیے گئے۔ لیکن اس سلسلہ میں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ کریٹ کی تصویریں ابتدائی مصری آرٹ کے نمونوں کے مقابلے میں زیادہ پُرکشش اور بے تکلف معلوم ہوتی ہیں۔ کریٹ کی مصوری زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے تخیل سے بہرہ ور ہے۔
چینی مصوری
چین کے حکام کا دانشور طبقہ اور دولت مند خوش ذوق شہری، فن خطاطی کے بڑے قدردان تھے۔ دوسرا مقبول اور معتبر فن لطیف نقاشی تھا۔ چینی حسن کاری کے مکمل ترین مظہر وہ بے شمار مرغول (scroll) ہیں جو دیوار پر آویزاں کیے جاتے ہیں اور اوپر سے نیچے پڑھے جاتے ہیں۔ طویل افقی دستی مرغول کا بھی خطاطی کے بہترین نمونوںمیں شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے البموں کے کاغذی یا ریشمی صفحوں یا پنکھوں پر نقاشی کی گئی ہے۔ چینی مصوری کے ابتدائی دور کی تاریخ کا پتا ہمیں صرف بالواسطہ طور پر چینی ادبیات اور تزئینی فنون کے ذریعے ملتا ہے۔
ہان (Han) دور (206 قبل مسیح تا 220ء)کے مقبروں کی دیواروں کی آرائش یا تو پتھروں کی تختیوں پر کندہ کی ہوئی تصویروں سے کی جاتی تھی یا پھر اس کے لیے رنگین یا سانچے میں ڈھلی ہوئی اینٹیں استعمال ہوتی تھیں اور ان پر بہت ہی رواں خطوط میں روزمرہ زندگی کے مناظر، قومی سورماؤں کی تصویریں، شکار کے منظر، میلے، جلوس وغیرہ دکھائے جاتے تھے۔ کمال یہ ہے کہ تمام تصویریں ایک دوسرے سے متعلق اور مربوط معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں بحیثیت مجموعی ایک تسلسل پایا جاتا ہے، حالانکہ ان کے مابین دور دور تک کوئی نقش نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود وہ ایک دوسرے سے پیوست، مربوط اور ہم آہنگ معلوم ہوتی ہیں۔ یہ خصوصیت بعد کی چینی نقاشی کا ایک مستقل جزو بن گئی۔ ابتدائی دور کا ایک مصور کو کائی چی (Ku Kai Chih) جو برش اور قلم دونوں سے تصویریں بناتا تھا، اس طرح کی نقاشی میں بڑی شہرت رکھتا تھا۔ اس کی تخلیقات کی اب ہمیں صرف نقلیں ہی ملتی ہیں جن میں سے بعض بہت اچھی ہیں۔
بدھ مت طرز مصوری کو چین میں اولاً چھٹے شاہی خاندانوں کے دور حکمرانی میں فروغ ہوا۔ اس طرز کے نمونے خصوصاً غاروں میں بنے ہوئے معبدوں میں پائے جاتے ہیں۔
تانگ خاندان کے دور (618ء تا 907ء) میں درباری امرا کی دلچسپیوں کی خاطر مصوری میں حرکت اور رنگ آمیزی کو نمایاں اہمیت حاصل ہو گئی تھی اور مصور زیادہ تر پُرتکلف رسمی تقریبوں، کھیلوں اور خواتین کی تصویریں بنانے لگے تھے۔ عمارتوں، سامانِ آرائش، موسیقی کے سازوں، یہاں تک کہ مقبروں کی دیواروں کی تزئین میں بھی یہی اسلوب رائج ہو گیا تھا۔ اس آرٹ کے نمونے، بجز چند نقلوں کے جو بعد کی ہیں، دستیاب نہیں ہیں، لیکن بعد کے مصوروں نے ناپید تانگ تصاویر کی رعنائیوں کو اپنے تصور کے زور سے خود اپنے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
سُنگ خانوادے (960ء تا 1279ء) کا دورحکمرانی چینی فن کاری کا سنہری دور مانا جاتا ہے جس میں نہ صرف مصوری کو بلکہ دوسرے فنون لطیفہ کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ آج کوئی بھی پورے یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا جو عظیم شاہکار سُنگ دور کے مصوروں سے منسوب ہیں ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو واقعی ان ہی کی تخلیق ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر شاہکار اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین میں تصویر کی چابکدست نقل سازی، حسن کارانہ تخلیقات کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے کا ایک جائز اور معتبر ذریعہ سمجھی جاتی رہی ہے۔
سُنگ خانوادے کے دور میں آرٹ کا سب سے بڑا سرپرست شاہی دربار ہی تھا۔ شمالی چین کے بیشتر سربرآوردہ مصور شہنشاہوں کے دربار ہی سے وابستہ تھے۔ ان ہی میں وہ اولین چار عظیم مصور بھی شامل تھے جو ایک ہی قسم کی گہری سیاہی (Austere Black Monchrome) سے تصویر میں روپ بھرتے اور نکھار پیدا کرتے تھے۔ ان میں سب سے بلند مقام لی چنگ کا ہے جس نے اپنی مصوری کا آغاز سنگ دور سے قبل کیا تھا اور جس کی فن کاری کو ایک کرشمہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد فین کوآن (Fan Kuan)، کوزی اور چُو جین ( Chu Jan) کا زمانہ تھا۔ ان مصوروں نے قدرتی مناظر کشی میں خصوصی مہارت اور کمال حاصل کیا تھا۔ یہ مصور جو کائنات پرستی کے مذہب، تاؤ سے متاثر تھے، مظاہر قدرت کی بے پناہ توانائیوں کو اپنی تصویروں سے ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ ان کی تصویریں دیکھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خوف ناک پہاڑیوں کی چٹانیں اپنے پیچ و خم اور نشیب و فراز کے ساتھ سر پر منڈلا رہی ہیں اور گھاٹیاں جن کا منتہا نظر ہی نہیں آتا، خوش نویسانہ اسلوب کے بے شمار خطوط سے ابھر آئی ہیں۔ پھر بھی وہ کسی واضح قالب میں ڈھلتی نظر نہیں آتیں۔ اس ماحول میں انسان کی چھوٹی چھوٹی شکلیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نظری تضاد پیدا کر کے صرف منظر کی بے پایاں وسعتوں کو نمایاں کرنے کی غرض سے بنائی گئی ہیں یا پھر یہ دکھانا مقصود ہے کہ اس وسیع وبسیط کائنات میں انسان کا وجود کس قدر بے مایہ اور حقیر ہے۔ کئی مصوروں نے تاریخی واقعات کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے اور بعض نے جانوروں، پرندوں اور پھولوں کے حسن اور دل کشی کو ظاہر کرنے میں خاص کمال دکھایا ہے۔