چاولوں کا جہاں!
اسپیشل فیچر
پاکستان میں چاولوں سے مختلف طرح کے کھانے بنائے جاتے ہیں، جن میں بریانی، دال چاول اور پلاؤ انتہائی مقبول ہیں۔ بیماروں اور بوڑھوں کو کھچڑی بہت پسند آتی ہے۔ آئیے چاول سے متعلق دلچسپ حقائق جانتے ہیں۔
٭ اگر کسی برتن سے پکے ہوئے چاول چپک کر سوکھ جائیں اور انہیں ہٹانا پڑے تو بہت مشکل ہوتی ہے۔ پندرہویں سے سولہویں صدی میں مِنگ شاہی خاندان کے دورِاقتدار میں جب دیوارِ چین کی تعمیر ہو رہی تھی تو چاول اور کیلشیم کاربونیٹ کو ملا کر دیوار کے پتھروں کو جوڑنے والا مسالہ بنایا جاتا تھا۔
٭ مناسب مقام اور طریقے سے ذخیرہ کرنے پر بغیر پکے سفید چاول (وائٹ رائس)10 سے 30 برس تک تازہ اور کھانے کے قابل رہتے ہیں۔ دوسری طرف بغیر پکے ہوئے بھورے چاول (براؤن رائس) تین سے چھ ماہ ہی ٹھیک رہتے ہیں کیونکہ اس کی بیرونی تہ خراب ہو جاتی ہے۔
٭ دنیا کے تمام براعظموں میں چاول اگایا جاتا ہے، سوائے انٹارکٹیکا کے۔
ایک امریکی سالانہ اوسطاً 9 کلوگرام چاول کھاتا ہیں۔ ایشیا کے بعض علاقوں میں یہ تناسب 136 کلوگرام ہے جبکہ متحدہ عرب امارات میں تقریباً 204 کلوگرام ہے۔
٭ کھایا جانے والا ہر طرح کا چاول پہلے ''بھورا چاول (براؤن رائس) ہوتا ہے۔ یہ ''ہول گرین‘‘ ہوتا ہے اور اس کی بیرونی تہ یا بھوسی اور تخم سلامت ہوتے ہیں۔ انہیں ہٹا کر سفید چاول حاصل کیے جاتے ہیں۔
٭ بیرونی تہ ہٹانے کے علاوہ پُرکشش بنانے کے لیے چاول کو پالش بھی کیا جاتا ہے۔
٭ براؤن اوروائٹ رائس، دونوں میں آرسینک کی تھوڑی سی مقدار ہوتی ہے۔ زیادہ مقدار میں آرسینک زہریلا ہوتا ہے۔
٭ سفید چاولوں میں بعض غذائی اجزا مصنوعی طور پر بھی شامل کیے جاتے ہیں، جیسا کہ کیلشیم اور فولاد۔
٭ براؤن رائس میں وائٹ رائس کی نسبت زیادہ پروٹین، مفید چکنائی، کاربوہائیڈریٹس اور ریشہ ہوتا ہے۔
٭ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان پانچ ہزار برسوں سے چاول کاشت کر رہا ہے۔
٭ دنیا میں مجموعی طور پر براؤن رائس سے زیادہ وائٹ رائس کھایا جاتا ہے۔ البتہ مغرب میں براؤن رائس زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
٭ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی چاول باقاعدگی سے کھاتی ہے اور یہ ان کی روزمرہ غذا کا حصہ ہے۔ پاکستان میں یہ حیثیت گندم کو حاصل ہے۔
٭ براؤن رائس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، جن میں سرخ، جامنی اور سیاہ شامل ہیں۔
٭ چاول کی کاشت گندم یا مکئی کی نسبت زیادہ محنت طلب ہے۔ چاولوں کے بیجوں کو الگ مقام پر اگایا جاتا ہے، جب پودا نکل آتا ہے تو اسے پانی سے تر کھیتوں میں لگا دیا جا تا ہے۔
٭ براؤن رائس سمیت دیگر ہول گرینز دل کے امراض کا خطرہ گھٹاتے ہیں۔
٭ چاول میں چکنائی ہوتی ہی نہیں اور پروٹین کی بہت تھوڑی مقدار ہوتی ہے۔ چاولوں میں زیادہ کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں۔
٭ نئے شادی شدہ جوڑوں پر چاول پھینکنے کی روایت رومی سلطنت کے زمانے سے ہے جہاں اسے زرخیزی اور خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
٭ چاول میں پایا جانے والا نشاستہ گَٹ (آنتوں) کے مفید بیکٹیریا کو تقویت دیتا ہے۔
٭ سفید چاول وٹامن اور منرل کا اچھا ذریعہ نہیں۔
٭ سفید چاول کا زیادہ استعمال بلڈشوگر کی سطح پر برا اثر ڈالتا ہے، اس لیے ذیابیطس کے مریضوں کو کم چاول کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
٭ دنیا میں زیادہ تر چاول مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا، چین اور برصغیر میں کاشت کیا جاتا ہے۔
٭ ایشیا سے باہر برازیل اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں چاول کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔
٭ چاول کی فصل کی ابتدا ایشیا سے ہوئی لیکن اس امر پر اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ابتدا کس ایشیائی مقام سے ہوئی۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدا جنوبی ایشیا سے ہوئی۔