کوروناوائرس: 5ماہ میں سائنسدان کتنا سمجھ پائے؟

کوروناوائرس: 5ماہ میں سائنسدان کتنا سمجھ پائے؟

اسپیشل فیچر

تحریر : رابن میکی


کورونا وائرس کی مختلف اقسام طویل عرصے سے بنی نوع انسان کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ متعدد اقسام کے بارے میں علم ہے کہ ان سے عام زکام ہو جاتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں دو اقسام نے مہلک وباؤں کو جنم دیا: سویئر اکیوٹ ریسپی ریٹری سنڈروم (سارس) اور مڈل ایسٹ ریسپی ریٹری سنڈروم (میرس)۔ مگر کووڈ19- کی وباء پھیلانے والے کورونا وائرس نے عالمی سطح پر جو تباہی مچائی ہے، اس کے مقابلے میں اول الذکر وباؤں کا اثر خفیف تھا۔ وباء کے چند ہی ماہ میں اس نے درجنوں ممالک کو لاک ڈاؤن پر مجبور کیا اور ایک لاکھ سے زائد جانیں لے لیں۔ یہ مرض ابھی تک بڑھ رہا ہے۔ 
لیپڈز کہلانے والے چکنے کیمیکلز میں ملفوف ایک میٹر کے 80 اربویں حصے جتنی چھوٹی اس میخ دار گیند کی کارکردگی غیرمعمولی ہے۔ انتہائی نچلے درجے کے اس قاتل نے انسانیت کو زیر کر دیا ہے۔ 
دوسری جانب کووڈ19- کا سبب بننے والے وائرس ''سارس کوو 2‘‘ کے بارے میں ہمارا علم بھی غیرمعمولی ہے۔ 5 ماہ قبل سائنس اس جرثومے سے واقف نہیں تھی۔ آج اس پر تحقیقات کی وسعت بے مثال ہے۔ ویکسین کے منصوبے پھل پھول رہے ہیں، اینٹی وائرل ادویات کی آزمائشیں ہو رہی ہیں اور تشخیص کے نئے ٹیسٹ سامنے آ رہے ہیں۔ 
اس لیے سیدھے سے سوالات ہیں؛ گزشتہ 5 ماہ میں ہم نے کیا سیکھا اور اس علم کو ہم وباء کے خاتمے کے لیے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں؟ 
یہ کہاں سے آیا اور اس نے انسان کو سب سے پہلے کیسے انفیکٹ کیا؟ 
''سارس کوو 2‘‘ کے بارے میں کم و بیش یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی بنیاد چمگادڑوں میں پڑی، جن کے بارے میں محققین نے دریافت کیا ہے کہ ارتقا کے نتیجے میں ان میں مختلف وائرس کے خلاف قوت مدافعت کا تند ردعمل ہوتا ہے۔ اس نے وائرس کو تیزی سے اپنی نقول بنانے کی جانب راغب کیا تاکہ یہ چمگادڑوں کے نظام مدافعت میں سے راستہ بنا سکے۔ نتیجتاً چمگادڑیں تیزی سے نمو پانے والے اور منتقل ہونے والے مختلف وائرس کی آماجگاہ بن گئیں۔ جب چمگادڑوں کے وائرس دوسرے میملز میں جاتے ہیں جن کے مدافعتی نظام کا ردعمل تیز رفتار نہیں ہوتا تو یہ نئے میزبان میں جلد پھیل جاتے ہیں۔ زیادہ تر شواہد بتاتے ہیں کہ ''سارس کوو 2‘‘ کا انسانوں میں داخلہ کسی وسیلے، جیسا کہ پینگولین، سے ہوا۔ 
سڈنی یونیورسٹی کے ماہر وبائیات پروفیسر ایڈورڈ ہولمز کہتے ہیں ''یہ وائرس غالباً چمگادڑ سے کسی دوسرے جانور میں داخل ہوا اور وہ جانور شاید انسان کے قریب تھا، غالباً کسی منڈی میں تھا۔‘‘ ان کے مطابق ''اگر جنگلی جانور نے چمگادڑ سے وائرس لیا ہے اور اس سے ہمارا واسطہ پڑا ہے، تو خاصا امکان ہے کہ یہ اس جانور کے قریب جانے والے انسان میں پھیل جائے۔ اس کے بعد وہ فرد گھر گیا ہوگا اور اس نے کس دوسرے کو متاثر کیا ہو گا جس کے بعد وباء پھیل گئی ہو گی۔‘‘
''سارس کوو 2‘‘ متاثرہ فرد کی کھانسی یا چھینک سے نکلنے والے مائع کے قطروں یا چھینٹوں سے منتقل ہوتا ہے۔ 
وائرس کیسے پھیلتا ہے اور لوگوں
کو کیسے متاثر کرتا ہے؟ 
وائرس کے ذرات دوسرا سانس کے ساتھ اندر لے جاتا ہے اور گلے اور نرخرے کے بیرونی خلیوں سے ان کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ ان خلیوں کی بیرونی سطح پر ان آخذوں (ریسپٹرز) کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو اے سی ای 2 آخذے کہلاتے ہیں۔ (آخذے خلیوں کے اندر کیمیکلز کے داخلے اور خلیوں کے درمیان اطلاعات کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔) ماہر وبائیات اور نوٹنگم یونیورسٹی کے پروفیسر جوناتھن بال کے مطابق ''اس وائرس کی سطح پر ایک پروٹین ہے جو آخذے کو عمدگی سے کھولتی ہے اور یہ اپنا آر این اے خلیے میں سرکا دیتا ہے۔‘‘ 
اس آر این اے کے ایک مرتبہ داخل ہونے پر خلیے کی نقول بنانے کی مشینری وائرس کی کئی نقلیں تیار کرتی ہے۔ یہ خلیے میں پھٹ پڑتی ہیں اور انفیکشن پھیل جاتی ہے۔ جسم کے نظامِ مدافعت سے جنم لینے والی اینٹی باڈیز (ضدِ جراثیم) آخر کار وائرس کو نشانہ بناتی ہیں اور زیادہ تر کیسوں میں اس کی نمو روک دیتی ہیں۔ 
بال کا کہنا ہے کہ ''کووڈ19- کی انفیکشن عموماً خفیف ہوتی ہے اور وائرس کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ انہیں انفیکشن ہو گئی ہے، اس لیے وہ کام، گھر اور بازار میں آنا جانا جاری رکھ کر دوسروں کو انفیکٹ کرتے رہتے ہیں۔‘‘ 
اس کے مقابلے میں ''سارس‘‘ کا مرض، جو ایک اور قسم کے کورونا وائرس سے ہوتا ہے، مریض کو کہیں زیادہ بیمار کر دیتا ہے، اس کے 10 مریضوں میں سے ایک مر جاتا ہے۔ زیادہ تر کیسوں میں اس کے مریضوں کو ہسپتال داخل کرنا پڑتا ہے جس سے دوسروں میں انفیکشن کا عمل رک جاتا ہے کیونکہ منتقلی کی زنجیر میں رخنہ پڑ جاتا ہے۔ کووڈ19- کی شدت اگر کم ہو تو ایسا نہیں ہوتا ہے۔ 
وائرس سے بعض اوقات موت
کیوں واقع ہو جاتی ہے؟ 
کبھی کبھار وائرس سے شدید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ تب ہوتا ہے جب وائرس نظامِ تنفس کے نچلے حصے کی طرف بڑھتا ہے اور پھیپھڑوں کو انفیکٹ کرتا ہے، جن کے خلیوں میں اے سی ای 2 آخذے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بہت سے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں اور پھیپھڑوں میں ٹوٹے پھوٹے خلیوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ ایسا ہونے پر مریض کو خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
چند کیسوں میں اس سے بھی برا ہوتا ہے اور نظامِ مدافعت حد سے زیادہ کام کرنے لگتا ہے، وہ خلیوں کو پھیپھڑوں کی جانب راغب کرتا ہے تاکہ وہ وائرس پر حملہ آور ہوں۔ نتیجتاً سوزش پیدا ہوتی ہے۔ یہ عمل قابو سے باہر ہو سکتا ہے، مدافعتی خلیوں کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے اور سوزش شدید ہو جاتی ہے۔ اسے ''سائٹوکائین سٹارم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ (یونانی میں ''سائٹو‘‘ کا مطلب خلیہ اور ''کینو‘‘ کا حرکت ہے۔) اس سے بعض مرتبہ مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ 
یہ واضح نہیں کہ کیوں چند مریضوں میں ''سائٹوکائین سٹارم‘‘ آتے ہیں جبکہ اکثریت میں نہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ بعض مریضوں میں اے سی ای 2 آخذوں کی قسم ایسی ہوتی ہے جن پر کورونا وائرس زیادہ آسانی سے مداخلت کر لیتا ہے، جبکہ اکثریت میں ایسا نہیں ہوتا۔ 
اگر ایک بار انفیکشن ہو جائے تو
کیا ہم عمر بھر محفوظ رہیں گے؟ 
کووڈ19- کی انفیکشن کے بعد بحال ہونے والے مریضوں کا جائزہ لینے والے ڈاکٹروں نے ان کے خون میں اس مرض کو بے اثر کرنے والی اینٹی باڈیز کی سطح کو خاصا بلند پایا ہے۔ یہ اینٹی باڈیز نظامِ مدافعت بناتا ہے۔ یہ مخصوص مقامات پر حملہ آور وائرس پر ایک تہہ جما دیتی ہیں جس سے ان کی خلیوں میں داخل ہونے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ 
امپیریل کالج لندن کے ماہر وبائیات مائیک سکنر کہتے ہیں ''یہ واضح ہے کہ کووڈ19- میں مبتلا افراد میں مدافعتی عمل بہتر ہو جاتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز آئندہ انفیکشنز کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہیں، لیکن خیال رہے کہ اس تحفظ کے تا حیات رہنے کی امید نہیں۔‘‘ 
بیشتر ماہرین وبائیات کا خیال ہے کہ کووڈ19- کے خلاف مدافعت ایک یا دو سال رہے گی۔ سکنر کے مطابق ''انسانوں کو انفیکٹ کرنے والے دوسری اقسام کے کورونا وائرس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ اگر زیادہ تر آبادی اس وائرس کا شکار ہو جائے تو بھی اس کے وباء بننے کا امکان موجود رہے گا، یعنی ہم اس مرض کی انفیکشن میں کسی مخصوص عرصے میں اضافے کا مشاہدہ کریں گے۔ کووڈ19- پر ہمیں ثابت قدمی کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ 
المختصر، وائرس ایک عرصہ تک ہمارے ساتھ رہے گا۔ لیکن کیا وائرس کی زہریلی تاثیر میں کمی آئے گی؟ بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ کم مہلک ہو جائے گا۔ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ تغیر پیدا کر کے مزید مہلک ہو جائے گا۔ سکنر کو ایسا نہیں لگتا۔ ان کے مطابق ''ہمیں اس وباء کو وائرس کے تناظر میں دیکھنا چاہیے، یہ دنیا بھر میں بہت اچھے طریقے سے پھیل رہا ہے، یہ اپنا کام ٹھیک سے کر رہا ہے۔ اسے تغیر سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘‘
سکنر کا کہنا ہے کہ بالآخر مؤثر ویکسین کی تیاری اور وسیع تقسیم ہمیں کووڈ19- کے خطرے سے آزاد کرے گی۔ 
کیا ہمیں ویکسین ملے گی؟ 
چند روز قبل جریدہ ''نیچر‘‘ میں شائع ہونے والی اطلاع کے مطابق دنیا بھر میں ویکسین کے 78 منصوبے شروع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 37 کی ابتدا ہونے والی ہے۔ جاری منصوبوں میں درجہ اول پر پہنچنے والوں میں ایک ویکسین پروگرام آکسفورڈ یونیورسٹی کا، دوامریکی بائیو ٹیکنالوجی کارپوریشن اور تین چینی سائنس دانوں کے ہیں۔ 
اس شاندار ردعمل سے امید پیدا ہوتی ہے کہ کووڈ19- کی ویکسین خاصے کم وقت میں تیار ہو جائے گی۔ البتہ ویکسین کو محفوظ اور مؤثر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہزاروں افراد کو ویکسین یا کوئی بے ضرر مواد (پلیسیبو) دیاجاتا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اول الذکر قدرتی طور پر ہونے والی وائرس کی انفیکشن روکنے کے لیے کتنی مؤثر ہے۔ یہ یقینا طویل عمل ہوتا ہے۔ 
اسی لیے چند سائنس دانوں نے اس عمل کو تیز کرنے کا راستہ تجویز کیا ہے، یہ کہ ویکسین کی تاثیر دیکھنے کے لیے رضاکاروں کو جان بوجھ کر وائرس میں مبتلا کیا جائے۔ رٹجرز یونیورسٹی میں حیاتی اخلاقیات کے پروفیسر نیر ایام کا کہنا ہے ''یہ راستہ خطرے سے خالی نہیں لیکن اس سے مجوزہ ویکسین کی آزمائش کئی ماہ جلد مکمل ہونے کی امید ہے۔‘‘ 
ان کا زور اس بات پر ہے کہ ''رضا کار نوجوان ہوں اور صحت مند بھی ہوں، ان کی صحت کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا رہے اور انہیں انتہائی نگہداشت اور دستیاب ادویات تک رسائی حاصل ہو۔‘‘ اس کا ثمر ایک ایسی ویکسین کی صورت میں ملے گا جس سے کروڑوں افراد کی زندگیاں بچ جائیں گی کیونکہ یہ کہیں زیادہ کم وقت میں تیار ہو گی اور آزمائش کے معیار کے مطابق تینوں درجوں سے گزر چکی ہو گی۔ 
لیکن جان بوجھ کر لوگوں کو وائرس میں مبتلا کرنا، بالخصوص ان رضاکاروں کو جو تجرباتی ویکسین کی آزمائش میں شامل ہوں، متنازعہ ہے۔ برسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈم فِن کہتے ہی کہ ''اس بارے میں اچھی طرح غور کرنا چاہیے۔ نوجوان اس موقع پر آزمائش کے لیے شاید فوراً تیار ہو جائیں لیکن یہ وہ وائرس ہے جو نوجوانوں کو بھی مار دیتا ہے۔ ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ کیوں۔ البتہ درجہ سوم کی آزمائش کا مرحلہ ابھی نہیں آیا، اس لیے ہمارے پاس اس بارے میں سوچنے کا وقت ہے۔‘‘ 
(ترجمہ: رضوان عطا) بشکریہ '' دی گارڈین‘‘

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
جمیل الدین عالی قابل ستائش انسان

جمیل الدین عالی قابل ستائش انسان

پاکستانی شعر و ادب کی دنیا میں جن شخصیات نے اپنی انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں، اُن میں جمیل الدین عالی بھی شامل ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ جہاں اُنہوں نے کئی مقبول اور یاد گار ملی نغمے اور گیت لکھے تو دوسری طرف اُْنہوں نے دوہے جیسی مترنم اور نغمگی سے بھرپور مگر نظر انداز کی گئی صنف کو اپنی تخلیقی قوت کے سبب ایک نئی زندگی دی۔ یہی نہیں جمیل الدین عالی پاکستانی شعرو ادب میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے کے ساتھ علمی اور تعمیری میدانوں میں بھی کئی اہم کارناموں کے باعث قابلِ ستائش ہیں۔ اردو کے حوالے سے بھی جمیل الدین عالی کی خدمات بہت ہیں۔ انہوں نے ہر دور میں اردو کے نفاذ کا بیڑا اٹھائے رکھا۔جمیل الدین عالی صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک پورے عہد کا نام ہے۔ اس پورے عہد میں ان کی شخصیت کے انگنت رنگ بکھرے ہوئے ہیں اور ہر رنگ میں ان کی شخصیت درجہ کمال کو چھوتی نظر آتی ہے۔ ملی نغمے لکھے تو لازوال، مصرعے ایسے کہ زبان زدعام ہو گئے۔ اردو زبان کے نجات دہندہ ہونے کا شرف ملاتو بہت سے ایسے کام کر گئے جو ناممکن دکھائی دیتے تھے۔ مولوی عبدالحق بابائے اردو کی وفات کے بعد 1962ء میں انجمن ترقی اردو کے اعزازی سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا اور پھر انجمن کی ترقی کیلئے صحیح معنوں میں کام کیا۔ انگریزی زبان کی کشش اور یلغار کے سامنے اردو کی اہمیت اور ضرورت کو قائم رکھنا اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیش نظر اردو زبان کی نئی اصطلاحیں رائج کرنا‘ اور اردو زبان کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا کوئی آسان ٹاسک نہ تھا، مگر جمیل الدین عالی نے شب و روز ایک کر کے اردو زبان کی ترقی کیلئے کام کیا اور انجمن ترقی ادب کراچی کے ساتھ پچاس برس کی رفاقت نہایت محبت سے نبھائی۔ اس دور میں کم و بیش ساڑھے تین سو کتب ایسی شائع کروائیں جو اردو لسانیات کے حوالے سے ایک سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ آج اگر عدالتی حکم نامے کے مطابق پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ بھی اردو کو مل چکا ہے تو اس کے پیچھے عالی جی جیسے دیوانوں کی اردو زبان سے محبت اور محنت شامل ہے جنہوں نے ہر دور میں اردو زبان کو رائج کرنے کا بیڑا اٹھائے رکھا۔ ایسا ہی ایک اور قابل قدر کارنامہ عالی جی نے یہ سرانجام دیا کہ اردو کالج کراچی سے وابستہ ہوئے تو اسے وفاقی اردو یونیورسٹی تک پہنچایا یعنی ''جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے‘‘ کے مصداق عالی جی نے جو بھی کام کرنے کی ذمہ داری لی،اسے احسن طریقے سے نبھایا اور اسے دوسروں کیلئے مثال بنا دیا۔ان کی شخصیت کا ایک اور روپ کالم نگار کا ہے۔ مقامی اخبار میں پچاس برس تک اپنا کالم ''نقار خانے میں‘‘ لکھتے رہے۔ کالم نگاری میں بھی ان کا اپنا ہی انداز سامنے آیا۔ اُن کے کالموں میں علمی اور ادبی موضوعات کے ساتھ سماجی، تہذیبی اورسیاسی مسائل کی رنگ آمیزی بھی شامل رہی۔ ایک ہی کالم میں کئی موضوعات پر یوں لکھتے جیسے سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے باتیں کر رہے ہوں۔ کالم نگاری سے ہٹ کر عالی جی نے جو نثر لکھی وہ ادبی شہ پارے ہیں مگر اخبار کے کالم میں انہوں نے سادہ اور بے تکلف سا انداز تحریر اپنایا۔ جمیل الدین عالی کا ذکر ہو اور دوہے کی بات نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ اردو میں جدید دوہے کے بانی بھی عالی جی ہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عالی جی کو ہر میدان میں اپنا جھنڈا گاڑنے کا کچھ ایسا چسکا تھا کہ انہوں نے اردو شاعری میں بھی وہ صنف چنی جو شعراء کی نظر میں کم کم تھی اور یوں پارٹیشن کے بعد پاکستان میں دوہے کی روایت کے بانی عالی جی ہی بنے اور آج بھی جمیل الدین عالی اور اردو دوہے کا ذکر لازم و ملزوم ہے۔ عالی جی کی زندگی اتنی بھر پور گزری کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی شخص زندگی کے کتنے محاذوں پر جتا رہا اور کہیں بھی اس نے شکست نہیں کھائی۔ جمیل الدین عالی نے ایک طویل، بھرپور اور خوشحال زندگی گزاری۔ جتنا کام، کامیابیاں، پذیرائی اور محبتیں انہوں نے اپنی زندگی میں سمیٹیں، لوگ ان کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ عمر کے آخری چند برسوں میں وہ عارضہ قلب سمیت مختلف امراض کا شکار ہو گئے اور 90 سال جینے کے بعد خالق ِ حقیقی سے جا ملے، تاہم اُن کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تخلیقی کاموں کی گونج اب تک برقرار ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ عالی جس کا فن سخن میں اک انداز نرالا تھا نقد سخن میں ذکر یہ آیا دوہے پڑھنے والا تھا جانے کیوں لوگوں کی نظریں تجھ تک پہنچیں ہم نے تو برسوں بعد غزل کی رو میں اک مضمون نکالا تھا بھٹکے ہوئے عالی سے پوچھو گھر واپس کب آئے گا کب یہ در و دیوار سجیں گے کب یہ چمن لہرائے گا سوکھ چلے وہ غنچے جن سے کیا کیا پھول ابھرنے تھے اب بھی نہ ان کی پیاس بجھی تو گھر جنگل ہو جائے گا حقیقتوں کو فسانہ بنا کے بھول گیا میں تیرے عشق کی ہر چوٹ کھا کے بھول گیا ذرا یہ دورء احساس حسن و عشق تو دیکھ کہ میں تجھے ترے نزدیک آ کے بھول گیا بہت دنوں سے مجھے تیرا انتظار ہے آ جا اور اب تو خاص وہی موسم بہار ہے آ جا کہاں یہ ہوش کہ اسلوب تازہ سے تجھے لکھوں کہ روح تیرے لیے سخت بے قرار ہے آ جا  

موسم سرما کی سوغات

موسم سرما کی سوغات

ستمبر کے آخری ہفتے اور نومبر کے آغاز سے ہوائوں میں خنکی محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ نومبر کے آخر تک موسم سرما اپنی تمام تر جوبن کے ساتھ سرد ہوائوں کے ساتھ ہرطرف ٹھنڈک بکھیرنا شروع کردیتا ہے۔ ایسے میں سردموسم میں ٹھنڈ سے محفوظ رہنے کیلئے موسم کے سرما کے پکوان خاصی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں ۔جن کے استعمال سے ہم اپنے جسم کو سردی سے محفوظ رکھتے ہوئے اس موسم کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرسکیں۔چونکہ پاکستان میں سردیاں زیادہ طویل وقت کیلئے نہیں آتیں لہٰذا لوگ اس خاص موسم کی خاص سوغاتوں کو بنانے اور کھانے کا اہتمام بڑے ذوق وشوق سے کرتے ہیں۔گاجر کا حلوہگاجر کا حلوہ سردیوں کی خاص سوغات ہے اور یہ صحت کیلئے نہایت مفید بھی ہے، اس حلوے کا سب سے اہم جزو گاجر ہے، جو کہ وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن کے اور فائبر سے بھرپور سبزی ہے۔کشمیری چائےدیکھا جائے تو کشمیر میں سردی کا موسم طویل ہوتا ہے اس لیے کشمیر کے لوگ اس چائے کو بہت زیادہ پیتے ہیں۔ پاکستان بھر میں کشمیری چائے بہت مشہور ہے بلکہ یہ شادی بیاہ کے مواقع پر بھی کھانے کے ساتھ رکھی جاتی ہے۔ مچھلیسردی کے موسم میں ذائقے اور افادیت سے بھر پور غذا مچھلی کا استعمال لوگ بہت شوق سے کرتے ہیں۔مچھلی میں وافر مقدار میں سیلینیم پایا جاتا ہے ،یہ جز و مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے میں اہم کردارادا کرتاہے۔مونگ پھلیمونگ پھلی صحت مند چربی، پروٹین اور فائبر کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔اس میں بہت سے وٹامنز پوٹاشیم، فاسفورس اور میگنیشیم پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ مونگ پھلی میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں لیکن یہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں اور ان میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔پائےپائے برصغیر کی بہترین اور سب سے زیادہ پسند کی جانے والی ڈش ہے اس کو پکنے میں کافی دیر لگتی ہے۔اس کا اصل مزہ اس میں شامل کیے گئے پائے کے گودے کا ہوتا ہے اور اسی سے جسم کو طاقت بھی ملتی ہے۔ سوپموسم سرما کا ذکر ہو اور جسم کو گرماہٹ دینے والی غذاؤں کی فہرست میں سوپ کا نام نہ شامل ہو یہ تو ممکن ہی نہیں ہے، یہ جلد ہضم ہونے والی غذا ہے۔سوپ افادیت کے لحاظ سے لاجواب ہے، بلکہ یہ نظامِ ہضم کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے بھی کارآمد ہے۔ ویسے تو مرغی اور بکرے کا سوپ بے حد مفید ہے لیکن سبزیوں سے تیار کردہ سوپ بھی انتہائی لذیذ اور قوت بخش ہوتا ہے  

آج کا دن

آج کا دن

نیوشیپرڈ(New Shepard)نیو شیپرڈ ایک عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کرنے والاخلائی جہاز تھا جسے بلیو اوریجن نے خلائی سیاحتی پروگرام کیلئے تیار کیا تھا۔ بلیو اوریجن ایمیزون کے بانی جیف بیزوس کی ملکیت ہے۔اس جہاز کا نام امریکہ کے پہلے خلاء باز ایلن شیپرڈ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جو امریکی خلائی ادارہ کے مرکری سیون کے خلا بازوں میں سے ایک تھے۔ 23نومبر2015ء کو100.5کلومیٹر انچائی تک پہنچنے کے بعداس نے کامیابی کے ساتھ عمودی لینڈنگ کی۔اس تجرنے کے بعد یہ کامیاب عمودی لینڈنگ کرنے والا پہلا جہاز بن گیا۔ اس کا ٹیسٹ پروگرام2016ء اور2017ء میں جاری رہا۔میگنڈناؤ قتل عاممیگنڈناؤ قتل(Maguindanao) عام جسے امپاٹوان(Ampatuan) قتل عام بھی کہا جاتا ہے ۔اس قتل عام کا نام اس قصبے کے نام سے منسوب کیا گیا جہاں متاثریں کی اجتمائی قبریں موجود ہیں۔یہ خوفناک واقعہ 23نومبر 2009ء کی صبح میگنڈناؤ،فلپائن کے قصبے امپاٹوان میں پیش آیا۔58افراد بلوآن کے نائب میئر اسماعیل منگودادا تو کیلئے امیدواری سرٹیفکیٹ جمع کروانے جا رہے تھے جب انہیں اغوا کر نے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ مارے جانے والے افراد میں منگوداداتو کی بیوی، اس کی دو بہنیں، صحافی، وکلاء، معاونین، اور گاڑی چلانے والے بھی شامل تھے ۔عراق بم دھماکے23نومبر2006ء کو عراق کے صدر سٹی میں ہونے والے دھماکے دراصل کاربموں اور مارٹر حملوں کا ایک سلسلہ تھا ۔صدر شہر کی ایک بستی میں حملے پر چھ کار بم اور دو مارٹر راؤنڈ استعمال کئے گئے۔ان حملوں میں کم از کم 215افراد ہلاک اور تقریباً100زخمی ہوئے۔2003ء میں عراق جنگ کے بعد یہ سب سے مہلک حملوں میں یہ ایک سمجھا جاتا ہے۔حملوں کے بعد عراقی حکومت نے بغداد میں 24گھنٹے کیلئے کرفیو لگا دیا۔عراق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بھی تجارتی اور مسافر پروازوں کیلئے بند کردیا گیا اور بصرہ میں بھی ڈاک اور ہوئی اڈوں کی سروس کو معطل کر دیا گیا۔مصری طیارہ اغوامصر ی ائیر لائن کی پرواز648ایتھنز کے ایلی نیکن انٹرنیشنل ائیرپورٹ کیلئے طے شدہ پرواز تھی۔جہاز قاہرہ انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے اڑان بھرنے کیلئے تیار تھا کہ 23نومبر1985ء کو ایک دہشت گرد تنظیم نے جہاز کو اغوا کر لیا اور جہاز میں موجود تمام سواریوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ مصری فوجیوں کی طرف جہاز کو بازیاب کروانے کیلئے اس پر چھاپہ مارا گیا جس کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیںہوئیں جس کی وجہ سے فلائٹ648کا اغوا ایوی ایشن کی تاریخ کا مہلک ترین حادثہ تصور کیا جاتا ہے۔

20نومبر بچوں کا عالمی دن

20نومبر بچوں کا عالمی دن

دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، یہ دن اس لئے منایا جاتا ہے کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت، معاشرتی تربیت اور مذہبی تربیت سے متعلق شعور اُجاگر کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے بچے مستقبل میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، ''یونیورسل چلڈرن ڈے ‘‘منانے کا اعلان 1954ء میں اقوامِ متحدہ میں کیا گیا۔اقوام متحدہ نے 1954 ء میں تجویز پیش کی تھی کہ دنیا بھر کے ممالک 20نومبر کو بچوں کی فلاح و بہبود کے طور پر منائیں۔ اس تجویز پر جنرل اسمبلی نے 1959ء کو بچوں کے حقوق کا ڈکلیریشن جاری کیا، جس کے بعد اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 20 نومبر کو بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس قرارداد کو''ڈکلیریشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ‘‘کہا گیا ،جس کا بنیادی مقصد بچوں کی فلاح و بہبود کو اور معاشرہ میں بچوں کے حقوق کو اجاگر کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کی اس تجویز کا دنیا کے تمام ہی ممالک نے خیر مقدم کیا۔بچوں کا عالمی دن منانے کے بے شما ر مقاصد ہیں جن میں بنیادی طور پر بچوں میں تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے علاوہ بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا، بے گھر بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا اوّلین ترجیح ہے۔ ہم ایک مہذب معاشرے میں سانس لے رہے ہیں لیکن بچوں کو اپنے بڑوں کے نارواسلوک، ظلم و زیادتی اور تشدد کا سامنا ہے، آج بھی دنیا بھر میں ہر سال بچوں کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے، جبکہ اس قسم کا سلوک بچوں کی نشوؤنما پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق دنیا کا ہر بچہ اپنی بقا، تحفظ، ترقی اور شمولیت کا حق رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بچوں کے حقوق کیلئے بنائے گئے کنونشن کے مطابق پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کنونشن کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ملک میں بچوں کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں جن میں زندہ رہنے، صحت، تعلیم اور تحفظ کے حقوق شامل ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 80 ملین بچے آبادی کا حصہ ہیں جو بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کا حق رکھتے ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف 20 فیصد شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے ہیں جنہیں تمام سہولیات میسر ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کیا صورتحال ہے اس کے بارے میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کے مطابق اگر صرف صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو ملک میں پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ہر چھ میں سے ایک بچہ انتقال کر جاتا ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبودکا عالمی ادارہ یونیسیف بھی اس دن کو منانے کیلئے اپنابھرپور کردارادا کرتا ہے۔ اس دن بچوں میں بہتری اور بھلائی کیلئے، ان کی ذہنی و جسمانی صحت کیلئے سوچ بچار کی جاتی ہے اور منصوبے تیار کئے جاتے ہیں ملک بھر میں بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیراہتمام سیمینارز،واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔بچوں میں تحفے تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔بچے پھول کی مانند نرم و نازک ہوتے ہیں، ہم سب کو مل کر انہیں مرجھانے سے بچانا ہو گا۔تعلیم صحت کھیل اور خوراک ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ بچوں کو چائلڈ لیبر سے نکال کر تعلیم کی طرف راغب کرنا ہو گا۔ حکومت بچوں سے جبری مشقت کے بارے میں ہنگامی بنیادوں پر کانفرنسز بلا کر بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، ناانصافیوں اور جبری مشقت کے خاتمے کیلئے ضروری اقدامات کرے۔بچوں کے حقوق کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔سب سے پہلے وجہ دور کی جائے وجہ غربت ہے ، جس کی وجہ سے وہ اس عمر میں کام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ آنے والے وقت میں وہ بچہ ایک اچھا اور باشعور شہری بن سکے اور اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرے۔حکومت بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کو یقینی بنانے اور غریب بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرکے ان کے معصوم بچوں کے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے موثر اقدامات کرے۔بچوں کے بنیادی حقوق٭-اچھی زندگی کے حقوق ٭-معاشرے میں پہچان کا حق ٭-معیاری تعلیم کا حق٭-مناسب صحت کی دیکھ بھال کا حق ٭-محفوظ ہونے کا حق پاکستان میں 2کروڑ62لاکھ بچے سکول سے باہرپنجاب 11.73 ملین سندھ 7.63 ملینخیبرپختونخواہ 3.63ملینبلوچستان 3.13 ملین         

مصنوعی ذہانت ماحول کیلئے خطرناک؟

مصنوعی ذہانت ماحول کیلئے خطرناک؟

کیا ہم مصنوعی ذہانت کے ماحولیات پر اثرات کو کم کر سکتے ہیں؟یہ وہ سوال ہے جو دنیا بھر کے ماحولیاتی ماہرین کے درمیان زیر بحث ہے۔ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹم بڑے پیمانے پر کاربن خارج کر رہے ہیں اور یہ صورت حال گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ تحقیقی مقالے میں خبردار کیا گیا ہے کہ پیچیدہ ماڈلز کو چلانے اور ان کی تربیت کرنے کیلئے توانائی کی اضافی مانگ ماحولیات پر سنجیدہ نوعیت کے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ سسٹم بہتر ہونے کے ساتھ ان کو مزید کمپیوٹنگ پاور اور چلنے کیلئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اوپن اے آئی کا موجودہ سسٹم ''جی پی ٹی4‘‘ اپنے گزشتہ ماڈل سے 12 گُنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔سسٹمز کی تربیت کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے۔ دراصل اے آئی ٹولز کو چلانے کیلئے تربیت کے عمل سے 960 گُنا زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔محققین کے مطابق ان اخراج کے اثرات وسیع ہو سکتے ہیں۔ اے آئی سے متعلقہ اخراج ممکنہ طور پر اس انڈسٹری کو سالانہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔محققین نے حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ ان اخراج کے پیمائش کے پیمانوں کا تعین کیے جانے کے ساتھ ان کو حد میں رکھنے کیلئے نئے ضوابط یقینی بنائے جائیں۔نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے اس تحقیقی منصوبے کی قیادت ایسوسی ایٹ پروفیسر یوان یائوکر رہی تھیں، انہوں نے مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی نقصان اور فوائد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت (AI) بہت زیادہ توانائی سے چلتی ہے، اور اس توانائی کا بیشتر حصہ فوسل فیول کے جلانے سے حاصل ہوتا ہے، جو کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اندازے کے مطابق 2026 ء تک ڈیٹا سینٹرز، کرپٹو کرنسی اور مصنوعی ذہانت کی وجہ سے بجلی کی کھپت سالانہ عالمی توانائی کے استعمال کا 4فیصد تک پہنچ سکتی ہے، جو تقریباً جاپان جیسے پورے ملک کی استعمال شدہ بجلی کے برابر ہے۔ مصنوعی ذہانت کی توانائی کے استعمال کا ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے؟کے سوال کے جواب میں یوان یائو جو ییل اسکول آف دی انوائرمنٹ میں صنعتی ماحولیات اور پائیدار نظام کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیںکا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کیلئے کمپیوٹنگ سسٹمز کو چلانے کیلئے توانائی( بجلی) کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کی پیداوار آلودگی پیدا کرتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بجلی کی پیداوار میں فوسل فیولز کا غلبہ ہے۔ توانائی کیلئے فوسل فیولز کوجلانے کے ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی میں اضافہ کرتے ہیں۔فوسل فیولز کے جلنے سے وہ آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے جو ہوا اور پانی کو آلودہ کرتی ہے، سانس کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے، اور تیزابی بارش (ایسڈ رین) کا باعث بنتی ہے۔ مزید برآں، فوسل فیولز کو نکالنے اور توانائی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر سے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور ماحولیاتی تنزلی کا سبب بنتا ہے۔ان منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے شمسی اور ہوا جیسی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی اور توانائی کی مؤثر حکمت عملیوں کو اپنانا ضروری ہے۔مصنوعی ذہانت ماحول پر کن طریقوں سے اثر ڈالتی ہےتوانائی کے استعمال کے علاوہ مصنوعی ذہانت کو ہارڈویئر آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ہارڈویئر ز، جیسے سرورز اور ڈیٹا سینٹرز، کی تیاری، نقل و حمل، دیکھ بھال اور تلفی کیلئے اضافی توانائی اور وسیع مواد اور قدرتی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً کوبالٹ، سلیکون، سونا، اور دیگر دھاتیں۔مصنوعی ذہانت کے ہارڈویئر میں استعمال ہونے والی دھاتوں کی کان کنی اور تیاری مٹی کے کٹاؤ اور آلودگی کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید برآں، بہت سی الیکٹرانک اشیاء کو مناسب طریقے سے ری سائیکل نہیں کیا جاتا، جس کے نتیجے میں الیکٹرانک فضلہ پیدا ہوتا ہے جو مزید آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان آلات میں استعمال ہونے والے مواد اگر مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگائے جائیں تو یہ مٹی اور پانی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔مصنوعی ذہانت کے ماحول کیلئے مثبت پہلو مصنوعی ذہانت کے اطلاق سے ماحول کیلئے فائدے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ چند سال ایک تحقیق شائع ہوئی تھی جس میں کیمیائی صنعت میں مصنوعی ذہانت کے فوائد کا جائزہ لیا گیا تھا۔ مصنوعی ذہانت توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے اور توانائی کے استعمال کو کم کر سکتی ہے، اور یہ ماحولیاتی نگرانی اور انتظام میں مدد فراہم کرتی ہے، جیسے گیسز کے اخراج کا سراغ لگانا۔مزید برآں، مصنوعی ذہانت ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کیلئے عمل اور سپلائی چین کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔تحقیقی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کو لائف سائیکل اسیسمنٹ (LCA) میں مدد کیلئے استعمال کیا، جو کسی مصنوعات کی پوری زندگی کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کا ایک معیاری طریقہ ہے۔ مصنوعی ذہانت ہمیں مختلف حیاتیاتی مواد سے بنی مصنوعات کے ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے، جو روایتی طریقوں کے ذریعے بہت وقت طلب عمل ہوتا ہے۔پروگرام ''ایکسپیڈیشنز‘‘ (Expeditions) کیا ہے؟یہ امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کا ایک پروگرام ہے ،جس کا مقصداگلی دہائی میں کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو 45فیصد تک کم کرنے پر توجہ مرکوزکرنا ہے۔ اس کے تین اہم اہداف ہیں۔(1)کمپیوٹنگ آلات کی پوری زندگی کے دوران کاربن کے اخراج کی پیمائش اور رپورٹنگ کیلئے معیاری پروٹوکول تیار کرنا۔ (2)کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو کم کرنے کے طریقے تیار کرنا۔(3)تیزی سے ترقی کرنے والی ایپلی کیشنز، جیسے مصنوعی ذہانت اور ورچوئل رئیلٹی سسٹمز، کے کاربن اخراج کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرنا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ منصوبہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کو کیسے حل کرے گا؟ اس کے جواب میں پروفیسر یوان یائو کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کیلئے شفاف اور مضبوط طریقوں کی ضرورت ہے۔ جب تک ان اثرات کی درست مقدار معلوم نہ ہو، ان چیلنجز کو مؤثر طریقے سے کم یا حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس مسئلے کو شفاف کاربن کاؤنٹنگ ٹولز تیار کرکے حل کیا جا سکتا ہے ۔  

آج کا دن

آج کا دن

لوزان معاہدے کا آغاز20 نومبر1922ء کو ترکی کی خود مختاری پر مبنی لوزان معاہدے کا آغاز سوئس شہر لوزان میں ہوا۔اس کانفرنس میں ترکی کی نمائندگی وزیر خارجہ عصمت ان اونو نے کی۔ جنگ عظیم اوّل کے اتحادیوں اور ترکی کے درمیان طے پایاجانے والا یہ معاہدہ 24 جولائی 1923ء سے نافذ العمل ہوا۔ معاہدے کے تحت یونان، بلغاریہ اور ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور قبرص، عراق اور شام پر ترکی کا دعویٰ ختم کرکے آخر الذکر دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔کونڈسرمحل میں آتشزدگی20 نومبر 1992ء کو ونڈسر محل میں آگ بھڑک اٹھی جو کہ دنیا کا سب سے بڑا آباد قلعہ اور برطانوی بادشاہ کی سرکاری رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ آگ کی وجہ سے قلعہ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ۔اس ناخوشگوار واقعہ کے بعد اس کی مرمت میں کئی سال لگ گئے جس پر36.5ملین پاؤنڈلاگت آئی۔ ایک تخمینے کے مطابق اس آتشزدگی کی وجہ سے کل50ملین پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔ونڈو1.0لانچ کی گئیمائیکروسافٹ کی جانب سے 20نومبر 1985ء کو ''ونڈوز1.0‘‘ کو لانچ کیا گیا۔ یہ مائیکروسافٹ کی جانب سے پرسنل کمپیوٹر کیلئے تیارکردہ پہلا گرافک آپریٹنگ سسٹم تھا۔ امریکہ میں اسے پہلی مرتبہ 1985ء میں مینوفیکچرنگ کیلئے پیش کیا گیا جبکہ یورپی ورژن مئی1986ء میں ریلیز کیا گیا۔ اس ونڈوز میں ملٹی ٹاسکنگ کی سہولت موجود تھی جبکہ ماؤس کا استعمال بھی اسی ونڈوز کے ساتھ متعارف کروایا گیا۔فارمنگٹن کان حادثہفارمنگٹن کان حادثہ 20نومبر1968ء کو پیش آیا۔دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کا اثر تقریباً 19کلومیٹر دور فیئر مونٹ میں بھی محسوس کیا گیا۔ دھماکے کے وقت99کان کن اندر موجود تھے۔21کان کن اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے جبکہ دیگر78 افرادکو کان سے باہر نہیں نکالا جا سکا۔ اس دھماکے کی وجہ کا تعین بھی نہیںکیا جا سکا کہ آخر یہ دھماکہ کیوں ہوا تھا۔ایویو امپیکس فضائی حادثہایویو امپیکس فلائٹ110ایک طے شدہ بین الاقوامی مسافر پرواز تھی۔ یہ 20نومبر 1993ء کو جنیوا سے سکوپجے جاتے ہوئے تباہ ہو گئی۔طیارے میں تقریباً 116افراد سوار تھے۔ جہازاوہرڈ ائیر پورٹ کے قریب برفانی طوفان کی وجہ سے اپنے روٹ سے بھٹک گیا اور کیپٹن طیارے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا جس کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا۔ تحقیقات میں پائلٹ کی لاپرواہی کو حادثے کی وجہ قرار دیا گیا۔