بارود پر الفریڈ نوبیل کے تجربات
اسپیشل فیچر
نوبیل انعام کا نام الفریڈ نوبیل کے نام پر رکھا گیا، اتنا تو ہم جانتے ہیں لیکن شاید کم ہی لوگوں کو معلوم ہو کہ نوبیل نے بارود پر تحقیق کی، تجربات کیے اور اسے بہتر بنایا۔ نوبیل انعام کا بانی الفریڈ نوبیل سویڈن میں پیدا ہوا لیکن اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دوسرے ممالک میں گزارا۔ اس نے متعدد ایجادات کیں۔ ان میں ایک ڈائنامائٹ ہے۔ الفریڈ نوبیل نے اپنی زمینوں اور ایجادات سے بہت دولت کمائی۔ اس کے مرنے کے بعد اس دولت کو نوبیل انعامات کے لیے مخصوص کیا گیا جن میں امن کا نوبیل انعام بھی شامل ہے۔ امن کی جانب راغب ہونے سے قبل نوبیل بارود پر تجربات کرتا رہا۔ آئیے اس کی زندگی کے اس پہلو کے چند واقعات کا جائرہ لیں۔
پانچ سو سال پہلے ایجاد ہونے والے بارود سے زیادہ طاقتور نعم البدل کی تلاش نے الفریڈ نوبیل کو بے چین کر رکھا تھا۔ وہ طرح طرح کے تجربات کرتا اور بار بار کرتا مگر خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل رہا تھا ۔ اگرچہ ایمانیونل نوبیل نے اسی بارود سے ایک آمیزہ تیار کیا تھا جس کو وہ بارودی سرنگیں بنانے میں استعمال کرتا تھا لیکن وہ صرف جنگ میں کام آتی تھیں جبکہ الفریڈ نوبیل کی دلی خواہش تھی کہ موجودہ بارود سے جس میں بہت دھواں ہوتا تھا اور جو زیادہ طاقتور بھی نہ تھا، بہتر بارود ایجاد کیا جائے جو نہ صرف کان کنی کے کام آئے بلکہ اس کو بندوقوں اور توپوں میں بھی استعمال کیا جاسکے ۔
1875ء میں الفریڈ نوبیل نے بارودکی خوبیوں اور خرابیوں کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے کہا ''کہ اس پرانے سفوف میں مختلف النوع خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اس کو طرح طرح سے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کان کنی میں صرف دھماکہ پیدا کرتا ہے جب کہ بندوق کی نالی میں دھماکے کی بجائے حرکت پیدا کرتا ہے۔ کسی بند خول میں یہ دونوں کام کرتا ہے۔ فلیتے اور آتش بازی میں دھماکے کے بغیر آہستہ آہستہ جلتا ہے ۔ ان مختلف صورتوں میں اس کا زور فلیتے میں ایک اونس فی مربع انچ سے (خول میں پھٹتے وقت ) 85 ہزار پاؤند فی مربع انچ تک ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس میں بہت سے نقائص ہیں اور سائنس نئی ایجاد اور دریافت سے اس کی اہمیت کو کم کرتی جا رہی ہے۔‘‘
1880ء کی دہائی میں یورپ کی بہت سی حکومتیں کسی ایسے بارود کی تلاش میں تھیں جس میں دھواں کم ہو یا بالکل نہ ہو تاکہ اس کو فوجی اور جنگی ضروریات کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ اس لئے بہت سے کیمیا گر اس مسئلے کے کسی حل کی تلاش میں سرگرداں تھے مگر کسی کو کامیابی نصیب نہ ہو سکی تھی۔
الفریڈ نوبیل نے 8 سال کی محنت اور کوششوں کے بعد سیلو لائیڈ کی مددسے آخر کار کامیابی حاصل کر لی۔ 1887ء میں اس نے نئے بارود کی ایجاد کا اعلان کیا جس میں دھواں نہ ہونے کے برابر تھا ۔ الفریڈ نے نئے بارود کو ''بیلسٹائٹ‘‘ کا نام دیا۔ اس نئے بارود کے اجزائے ترکیبی میں نائٹروگلیسرین اور اس میں آسانی سے حل ہوجانے والے نائٹروسیلولوز کے علاوہ کا فور بھی شامل تھا۔ الفریڈ نوبیل کے بیان کے مطابق یہ آمیزہ جلنے پر بہت زیادہ طاقت پیدا کرتا ہے، راکھ نہیں چھوڑتا اور اس میں دھواں نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس خبر نے فوجی حلقوں ہی میں نہیں بلکہ حکومتی ایوانوں میں بھی خوف پیدا کر دیا کہ ایسی نئی نئی ایجادات کی وجہ سے ان کی اپنی جنگی صلاحیتیں دوسروں کے مقابلے میں کم تر ہو سکتی ہیں، اس لئے بیشتر نے نئے بارود میں خاص دلچسپی لینی شروع کر دی۔
الفریڈ نوبیل نے سب سے پہلے فرانس کی حکومت کو اس نئی ایجاد کے پیٹنٹ کی درخواست دی مگر وہاں کے ارباب اختیار نے یہ درخواست اس لئے رد کر دی کہ ان کے خیال کے مطابق اس جیسی ایک شے فرانسیسی پروفیسر پال ویلا 1885ء میں ایجاد کر چکا تھا جو اس کے سیاسی تعلقات کی بنا پر بحری اور بری افواج کے استعمال میں آچکی تھی۔ اس موقع پر الفریڈ نوبیل نے جل کر کہا تھا کہ ایک طاقتور سفارش رکھنے و الا کم طاقت کا بارود کمزور سفارش رکھنے والے زیادہ طاقتور بارود سے بے شک اچھا ہی نظر آئے گا۔
''بیلسٹائٹ‘‘ کو سب سے پہلے اٹلی کی حکومت نے قبول کیا۔ الفریڈ نوبیل نے اپنے ''اویجلیانا‘‘ کے کارخانے میں اس کی تیاری کے لئے ایک الگ حصہ مقرر کیا اور 1889ء میں 3 سو ٹن بارود فروخت کرنے کا معاہدہ کیا۔ بعد میں اٹلی کی حکومت نے 5 لاکھ لیر ے کے عوض خود ''بیلسٹائٹ‘‘ بنانے کے حقوق الفریڈ نوبیل سے خرید لئے۔
نوبیل نے قیام فرانس کے دوران جب اپنی ایجاد ''بیلسٹائٹ‘‘ کا اعلان کیا تو فرانس کی بارود سازی کی اجارہ داری کے ارباب اختیار جو پروفیسر ویلا کے حاشیہ بردار بھی تھے، اس کے دشمن ہو گئے۔ جہاں نوبیل اپنے نئے بارود کے تجربے کرتا، اس جگہ کے بارے طرح طرح کے قصے گھڑے جاتے جن کا مقصد صرف اور صرف نوبیل کو پریشان رکھنا تھا۔ اس سارے کھیل میں سیاسی افراد بھی شامل ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الفریڈ نوبیل پر جاسوسی اور حکومتی تجرباتی راز کی چوری کے الزامات لگائے گئے۔ اس کو قید کرنے کی دھمکیاں دی گئیں اور تجربہ کرنے، تجربے میں استعمال ہونے والے اسلحے اور ''بیلسٹائٹ‘‘ بنانے کے سارے اجازت نامے منسوخ کر دئیے گئے۔
یہ سارے الزامات بے بنیاد تھے اور سارے سمجھ دار لوگ جانتے تھے کہ اس سارے تماشے کے پس پردہ کیا سیاسی عزائم کارفرما ہیں۔ لہٰذا الفریڈ نوبیل نے بادل نخواستہ اپنا بوریا بستر سمیٹا اور اس شہر کو خیر باد کہا جس کو وہ 18 برسوں سے گھر سمجھتا تھا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ کن مرحلہ تھا جس کے گہرے اثرات الفریڈ نوبیل کی زندگی پر مرتب ہونے تھے ۔
اپنے بھائی رابرٹ سے سویڈن میں ملاقات کے بعد الفریڈ نے اٹلی، اسکاٹ لینڈ اور جرمنی کے کارخانوں کا جائزہ لیا اور پیرس واپس پہنچا۔ اپنی تجربہ گاہ سے ضروری سامان اکٹھا کیا اور اٹلی میں سان ریمو کے مقام پر ایک بڑا سا بنگلہ خرید کر اس کو اپنی قیام گاہ بنا لیا۔ یہ ہجرت 1891ء میں ہوئی۔ الفریڈ کو امید تھی کہ اٹلی کی آب و ہوا اس کے پھیپھڑوں کے لئے مفید ہو گی اور اس کا دائمی نزلہ اور مستقل سرکا درد، جو نائٹروگلیسرین سونگھ سونگھ کر اس کی جان کو آگیا تھا، دور ہوجائے گا۔ سان ریمو کا یہ بنگلہ ساحل سمندر پر واقع تھا جس میں قسم قسم کے پھول، سنگترے کی جھاڑیاں اور پام کے اونچے اونچے درخت لہلہاتے تھے۔ اس بنگلے کا اطالوی نام Mio Nido (میرا گھونسلا) تھا ۔
ایک بار الفریڈ کے جرمنی کے کارخانے کا صدر اس سے ملاقات کے لئے آیا تو بنگلے کا نام دیکھ کر ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ ''گھونسلے میں دو چڑیاں ہونی چاہئیں نہ کہ صرف اکیلی۔‘‘ الفریڈ نے بنگلے کا نام بدل کر Villa Nobel رکھا دیا اور آج تک وہ مکان اسی نام سے موسوم ہے ۔
باوجود اس کے کہ الفریڈ نوبیل کو بہت سفر کرنے پڑے، پیرس میں اس کا وقت بہت صبر آزما مگر تجرباتی معاملات میں کامیاب بھی گزرا۔ اس دوران چھوٹی بڑی سب ملا کر 50 ایجادات ہوئیں۔ یہیں الفریڈ نوبیل کو بہت سے اچھے اور بعض تلخ تجربات بھی ہوئے۔ بڑے مالی فوائد بھی ہوئے، مقدمے بازیاں بھی ہوئیں، اداروں میں غبن بھی ہوئے اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے قائم کردہ اداروں میں حادثات بھی ہوئے ۔ پیرس ہی میں قیام کے دوران الفریڈ کے بڑے بڑے ادارے قائم ہوئے۔ ایک کارخانے پر کام ہوا اور اس کے شریک کار پال باربی نے اس کی پیٹھ پیچھے غیر قانونی حرکات بھی کیں جن کی وجہ سے الفریڈ نوبیل کو بڑے نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔
پیرس میں قیام کے آخری 5 برسوں کے دوران الفریڈ کو اپنی نجی زندگی میں بھی پریشانیوں اور صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ 1889میں الفریڈ کی ماں کا انتقال ہوا جب کہ ایک سال قبل کام کی زیادتی کی وجہ سے اس کا بھائی لڈونگ بھی بیمار ہو کر مر گیا۔ ''بیلسٹائٹ‘‘ کے سلسلے میں فرانس کی حکومت سے تلخیاں ہوئیں ۔ الغرض یہ الفریڈ نوبیل ہی کی ہمت تھی کہ اپنی بیماری اور پریشانیوں کے باوجود وہ جدوجہد کرتا رہا اور آخر کار مجبور ہو کر 58 سال کی عمر میں جب اس نے پیرس کو خیر باد کہا تو وہ ایک سخت پریشان اور تھکا ہوا انسان تھا جسے سکون کی تلاش تھی۔
اگر آرام اور سکون کے زاویے سے دیکھا جائے تو پیرس ہی وہ مقام تھا جس کو الفریڈ اپنا گھر بھی سمجھتا تھا اور یہیں اس نے اپنی زندگی کے شروع کے دن بھی اچھے گزارے تھے۔
پیرس کے فلیٹ کے پردوں اور چلمنوں کے پیچھے دنیا کی نظروں سے اوجھل ایک نوجوان خاتون بھی تھی جس پر الفریڈ مہربان تھا اوراس کو امید تھی کہ وہ اس کی شریک زندگی بنے گی۔ مگر سان ریمو پہنچنے کے ایک سال کے اندر ہی دونوں کے درمیان دوری ہو گئی۔
الفریڈ نوبیل جیسے حساس انسان کے لئے یہ بہت کاری زخم تھا مگر اس نے اس زخم کو کمال مہارت، اپنی بے پناہ دولت، دنیا بھر میں پھیلے کاروبار کے جھمیلوں اور اپنی خاموش گہری تنہائی میں چھپا لیا۔