عرس، میلے اور ہماراعلاقائی کلچر
اسپیشل فیچر
ہر سال بیساکھ کا مہینہ آتے ہی جنوبی پنجاب کے اکثر اضلاع میں خصوصاً سرائیکی بیلٹ) کے درجنوں دیہاتوں، قصبوں اور شہروں میں بیساکھی کے میلوں کا قدیمی روایتی کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ تقریباً اس پورے مہینے میں مختلف علاقوں میں میلوں کی بہار رہتی ہے ایک روایت کے مطابق بیساکھی سکھوں کا مذہبی تہوار مانا جاتا تھا۔ جسے سکھ برادری ہندوستان و پاکستان میں بڑے جوش و خروش اور منظم انداز میں مناتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تہوار کو ہندوستان کے علاوہ پاکستان میں بھی خاص طور پر دیہاتوں میں رہنے والے زمیندار، کسان مزدور اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے بھرپور انداز میں مناتے ہیں۔ اس طرح بیساکھی کے قدیمی، تاریخی اور روایتی کھیل ہماری ثقافت کاحصہ بن چکے ہیں۔ بیساکھ تصوف اور ثقافت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اولیاء کرام، بزرگان دین اور صوفیا ء کے عرس کی تقریبات اور میلے بھی اسی مہینے میں منائے جاتے ہیں، اس موقع پر مذہبی رسومات و عبادات کے علاوہ بعض درباروں پر صوفیاء کی یاد میں قدیمی، روایتی میلوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
میلوں میں شاعری، موسیقی دلچسپی کی رنگ برنگ محفلیں، کھیل کود مثلاً کبڈی، پہلوان، گینی، نشانہ بازی اور گھوڑا سواری جیسی صحت افزاء سرگرمیاں قدر مشترک ہوتی ہیں، جو کہ ہمارے قدیمی روایتی اور ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتی ہیں۔ میلے سماجی اکٹھ ہوتے ہیں جن میں بلا رنگ و نسل، ذات پات، مذہب میں امتیاز، امیر و غریب میں تقسیم کئے بغیر ہر شخص ہوتا ہے جو میلے میں کھل کر اپنے فن کا مظاہرہ کرکے پوری شان و شوکت، عزت واحترام اور اعزاز و انعام سے نوازا جاتا ہے۔ ملتان میں شیرشاہ، مظفر گڑھ میں شہر سلطان، بہاولپور، اوچ شریف، یزمان میں چنن پیر، جتوئی، ڈیرہ غازی خان میںحضرت سخی سرورؒ، کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ شاہ سلیمانؒ، کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ و حضرت سلطان باہوؒ اور علی پور میں محب فقیرؒ کے عرس کے موقع پر ہونیوالے میلوں کا شمار ملک کے مشہور و معروف میلوں میں ہوتا ہے۔ چولستان میں بھی ہر سال یادگار میلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ جہاں پر مقامی کلچر، رسم و رواج اور قدیمی ثقافتی سرگرمیاں خاصی دلچسپ ہوتی ہیں۔
دھرتی ماں کی میٹھی اور سب سے پیاری زبان سرائیکی میں خواجہ غلام فریدؒ، بابا بلھے شاہؒ، حضرت پیر مہر علی شاہؒ اور حضرت سلطان باہوؒ، پیر وارث شاہؒ کے کلام و شاعری کو مقامی اور ملک کے نامور فنکار منفرانداز میں پیش کرکے اعلیٰ ذوق اور خوش مزاج لوگوں سے داد تحسین حاصل کرتے ہیں۔ موسیقی اور شاعری کی دلپذیر محفلیں میلے کے حسن و امتیاز میں مزید نکھار پیداکرتی ہیں۔ میلے کے دنوں میں مقامی لوگ دوسرے شہروں سے اپنے دوست احباب اور رشتے داروں کو خاص طور پر مدعو کرکے میلے کی خوشیوں میں شریک ہوکر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بعض لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں وافر مقدار میں مٹھائیاں بھیجتے ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف قسم کے تحفہ و تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ میلے کے دوران گائوں میں رہنے والے لوگ فالودہ بنانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء بھی ان دنوں میں ایک دوسرے کو دینا خاندانی روایت بن چکی ہے۔ میلے میں لوگوں کا ٹولیوں کی شکل میں اور گروپس کی صورت میں میلے میں شرکت کرنے سے میلے کی رونق کو مزید دوبالا کرتا ہے۔ میلے میں خاطر تواضع کے دوران اگر مخالفین کا آمنا سامنا ہوجائے تو انہیں بھی صلح کرکے کھانے پینے کے عمل میں شریک ہونے کیلئے قائل کیا جاتا ہے یہ وہ قابل رشک اور مثبت عمل ہے جس کیلئے دونوں فریقین دادکے مستحق ہیں۔ میلے کی رونق اس وقت بے ذوق لگنے لگتی ہے جب کسی کے ساتھ گزرے دن اور بچھڑے ہوئے دوست احباب، سنگی بیلی یاد آنے لگتے ہیں۔ بچھڑنے والوں کی ایک ایک بات ایک ایک ادا اور قربت کا ایک ایک پل یاد آتا ہے تو دل میں ان کی محبت اور ان کی وفائوں کی بے مثال اور لازوال کہانیوں کی بھرمار شروع ہو جاتی ہے۔ جس سے آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ میلے جہاں خوشیوں کا سماں پیدا کرتے ہیں وہاں انسان کو احتسابی عمل سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کتنے ہمارے دوست احباب ایسے ہیں جن کو ہم نے اپنی مصروفیات اور حالات کی سنگینی کے باعث چھوڑا اور کتنے ہمارے پیارے ایسے ہیں جو ہمیں چھوڑ کر زندگی کے میلوں سے رخ موڑ کر اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ بچھڑنے والوں کی جدائی کا زخم ہرگز بھرنے والا نہیں لیکن دکھوں، مشکلات اورصدمات سے دلبرداشتہ ہونا بھی نظام قدرت سے بغاوت کرنے کے مترادف ہے۔ قانون قدرت کو تسلیم کرنے سے ہی انسانیت کی بقاء ممکن ہو سکتی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میلے اور عرس مطابقت رکھتے ہیں۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ عرس ،میلوں کی تقریبات اور ان کے اوقات کار الگ سے ہونے چاہئیں۔ اس کی تبلیغی و اصلاحی اور دینی تقریبات میں لوگوں کے اصلاح و احوال، تزکیہ نفس، قوت برداشت، علم عمل اور عبادات کو قائم کرنے کیلئے باعمل اور جید علماء اور اکابرین کے مذاکرے ہوں تاکہ لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آئے۔ اولیاء کرام کی تعلیمات و اخلاقیات و طرز زندگی اور فلسفہ و محبت کی اصل روح کو بیان کرکے عالمی امن اور بھائی چارے کو فروغ دیا جا سکے۔ اللہ والے کی نگاہ نظر کیمیاء سے کم نہیں ہوتی جسے دیکھ کر سینکڑوں حکمرانوں نے اپنے تخت چھوڑے۔ ایک فقیر کی غلام کو تسلیم کرکے ایک جھونپڑی کو ساری زندگی کیلئے اپنا مسکن بنائے رکھا جو قلبی سکون، جسمانی راحت انہیں تنکوں کی جھونپڑی میں نصیب ہوئی وہ شاہی محلات کے عیش و آرام اور قصر سلطانی کی آرائش و زیبائش سے کبھی محسوس نہ ہوئی۔
آخر میںچند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ میلے کی تقریبات ملی یکجہتی اور امن و آشتی کے مقصد کیلئے استعمال کی جائیں۔کھانے پینے کی اشیاء میں کوالٹی کنٹرول نظام کو مؤثر بنا کر ملاوٹ سے پاک چیزیں تیار کی جائیں میلے کا اجتماع جو کہ ایک سماجی اکٹھ ہے جس میں ہر طبقے کے لوگ بلاتفریق شامل ہوتے ہیں۔ اس موقع پر سول سوسائٹی کی تنظیموں، سرکاری اداروں، تاجروں اور منتخب نمائندوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امن و امان کو قائم رکھنے، بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کو ممکن بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں تاکہ کھلاڑیوں، ہنر مندوں، فنکاروں اور پہلوئوں کی حوصلہ افزائی ہو اور ہمارا ثقافتی ورثہ اورمقامی کلچر مزید فروغ پا سکے۔
(قلم کا مزدور سے اقتباس)