میڈم نور جہاں کی غزل گائیکی انہوں نے اس میدان میں بھی اپنے آپ کو منوایا
اسپیشل فیچر
میڈم نور جہاں ایک حیرت انگیز گلوکارہ تھیں۔ ایک دور تھا جب متحدہ ہندوستان میں اُن کی اداکاری اور گلوکاری کا طوطی بولتا تھا۔ اُن کی خیرہ کن صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف تھا۔ وہ ایک ورسٹائل گلوکارہ تھیں۔ انہوں اردو اور پنجابی کے لازوال گیت گائے، کلاسیکل گیت بھی گائے، ہیر بھی گائی، علامہ اقبال کا کلام بھی گایا لیکن انہوں نے جو غزلیں گائیں اس کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے ہم اس مضمون میں اپنے قارئین کو یہ بتائیں گے کہ میڈم نور جہاں نے غزل گائیکی میں بھی ایک الگ مقام حاصل کیا۔
ویسے تو پاکستان میں جن اور خواتین نے غزل گائیکی میں اپنے آپ کو منوایا ان میں اقبال بانو اور فریدہ خانم کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ نسیم بیگم نے بھی کچھ اثر آفریں غزلیں گائیں۔ ان سب نے غزل کو بہت عمدہ طریقے سے گایا اور ان کی بہت تحسین کی گئی لیکن میڈم نور جہاں کی غزل گائیکی کا انداز سب سے جدا ہے ان کی گائی ہوئی چند غزلوں کو فلموں میں بھی شامل کیا گیا جنہیں بے حد پسند کیا گیا۔
پاکستانی فلم ''غالب‘‘ میں میڈم نور جہاں کی گائی ہوئی ایک غزل کو لافانی حیثیت حاصل ہے۔ مرزا غالب کی اس غزل کا مطلع ملاحظہ کیجئے۔
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
اس فلم کی موسیقی تصدق حسین نے مرتب کی تھی۔ اس کے علاوہ نور جہاں نے جو غزلیں گائیں اُن کا بھی کوئی جواب نہیں، ان غزلوں کا ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے۔
دِل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
یہ غزل گانے کیلئے میڈم نور جہاں کا ساتھ سلیم رضا نے دیا تھا۔
اس کے بعد میڈم نور جہاں نے مرزا غالب کی یہ غزل جس انداز میں گائی اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس غزل کا مطلع ہے
درد ہو دل میں تو دوا کیجیے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجیے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب؟
توبہ توبہ خدا خدا کیجیے
اب ذرا ناصر کاظمی کی یہ مشہور غزل ملاحظہ فرمائیں جسے میڈم نور جہاں نے اپنی لاثانی آواز کا لباس پہنایا
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
انور کمال پاشا کی فلم ''انارکلی‘‘ میں میڈم نورجہاں نے سیف الدین سیف کی یہ غزل جس درد بھرے انداز میں گائی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔
جلتے ہیں ارمان مرا دل روتا ہے
قسمت کا دستور نرالا ہوتا ہے
فلم ''ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ میں فضل کریم فضلی کی یہ غزل بھی میڈم نور جہاں نے کمال مہارت سے گائی
ہو تمنا اور کیا جان تمنا آپ ہیں
کیا کروں گی لے کے دنیا میری دنیا آپ ہیں
ایس سلیمان کی فلم ''باجی‘‘ میں میڈم نور جہاں نے احمد راہی کی یہ شاندار غزل گائی
دل کے افسانے نگاہوں سے زباں تک پہنچے
بات چلی نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
اس کی موسیقی سلیم اقبال نے مرتب کی تھی۔ سلیم اقبال دو بھائی تھے اور بڑے ذہین موسیقار تھے۔ انہوں نے ''کرتار سنگھ‘‘ اور ''شیخ چلی‘‘ کی موسیقی بھی دی اور بڑا نام کمایا۔
علی سفیان آفاقی نے یوں تو کئی فلمیں بنائیں لیکن ان کی ایک فلم ''آبرو‘‘ اس لحاظ سے منفرد مقام رکھتی ہے کہ اس کے نغمات بہت شاندار تھے۔ اس میں تسلیم فاضلی کی ایک غزل کو میڈم نور جہاں نے اس دلکش انداز میں گایا کہ دل سے بے اختیار واہ نکلتی ہے۔ اس غزل کا مطلع ملاحظہ کریں
بن ترے رات تو کیا ہم سے کٹے دن بھی نہیں
دل تجھے بھول سکے بات یہ ممکن بھی نہیں
اس غزل کا ایک اور لاجواب شعر ملاحظہ کیجیے
تو مسیحا ہے تو پھر درد کا درماں کر دے
گریہ مشکل ہے تو پھر زخم مرے گنِ بھی نہیں
اس فلم کا سنگیت ناشاد نے دیا تھا اور کیا زبردست سنگیت تھا۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ میڈم نور جہاں جیسی ورسٹائل گلوکارہ صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے کوئی میدان خالی نہیں چھوڑا۔ ہندوستان میں ثریا کے بعد سب سے اچھی غزلیں آشا بھونسلے نے گائیں۔ غزل اردو شاعری کی ایسی صنف ہے جسے ہر گلوکار یا گلوکارہ نہیں گا سکتی۔ میڈم نور جہاں نے اردو شاعری کی اس صنف کو گانے میں بھی وہ مہارت دکھائی جس کی جتنی توصیف کی جائے کم ہے۔