پاکستان میں آموں کی مشہور اقسام یہ آم بیرون ممالک بھی بہت پسند کئے جاتے ہیں
اسپیشل فیچر
آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ مرزا اسد اللہ غالب نے کہا تھا ''آم ہوں اور بہت سے ہوں‘‘۔ اور پھر یہ محاورہ آج بھی زبان زدِ عام ہے‘‘ آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘۔
آم وہ پھل ہے جس کا تمام پاکستانی سارا سال انتظار کرتے ہیں۔ موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی آموں کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے۔ چونکہ پاکستان سب سے زیادہ آم پیدا کرنے والوں ممالک میں سے ایک ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہاں پیدا ہونے والے آموں کی اُن اقسام کا ذکر کیا جائے جو سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔ پاکستانی آم ساری دنیا کو برآمد کئے جاتے ہیں۔ یورپی ممالک میں یہ بہت پسند کئے جاتے ہیں اور پھلوں کی ہر دکان کے باہر یہ لکھا ہوتا ہے کہ پاکستانی آم دستیاب ہیں۔
آموں کو کاٹ کر بھی کھایا جاتا ہے اور چوس کر بھی۔ ان کا اچار بھی بنایا جاتا ہے اور مربہ بھی بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ برسات کے موسم میں آموں کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور اس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ آم کی لسّی بھی تیار کی جاتی ہے۔ ذیل میں ہم آموں کی سب سے زیادہ مشہور اقسام کے بارے میں اپنے قارئین کو بتا رہے ہیں۔
لنگڑا
لنگڑا آم جب پک جاتا ہے تو اس کا رنگ سبز ہوتا ہے۔ اس آم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے پہلے ورانسی میں کاشت کیا گیا تھا ورانسی کو آج کل بنارس کہا جاتا ہے جو شمالی بھارت میں واقع ہے۔ کوئی اس حقیقت سے باخبر نہیں کہ آخر آم کی اس قسم کو لنگڑا آم کیوں کہا جاتا ہے لیکن کئی مقامی قصے کہانیوں کے مطابق اس آم کے درخت کا مالک خود لنگڑا تھا اس لئے اس آم کا نام بھی لنگڑا آم رکھ دیا گیا۔ وہ خصوصیت جو لنگڑا آم کو دوسرے آموں سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ پک جانے کے بعد بھی اپنا سبز رنگ برقرار رکھتا ہے جبکہ دوسرے آموں کا رنگ زرد اور سرخی مائل ہو جاتا ہے۔ لنگڑا آم میں ریشہ نہیں ہوتا اور جب یہ پک جاتا ہے تو اس کی خوشبو بڑی زبردست ہوتی ہے۔ اس کا چھلکا نازک ہوتا ہے اور یہ آم ایک میڈیم سائز فروٹ کے طور پر دستیاب ہوتا ہے۔
یہ پھل عام طور پر جولائی کے وسط سے اگست تک مارکیٹوں میں آتا ہے اور یہ بہت میٹھا ہوتا ہے اور پھر اس کا ذائقہ ترش بھی ہو جاتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آم کتنا پکا ہوا ہے۔
چونسہ
چونسہ آم تمام دنیا کو برآمد کیا جاتا ہے۔ یہ آم بنیادی طور پر رحیم یار خان اور ملتان میں کاشت کیا گیا۔ لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ اس آم کو یہ نام شیر شاہ سوری نے دیا جب اُس نے مغل بادشاہ ہمایوں کو چوسہ کے مقام پر شکست دی۔ چوسہ بھارتی ریاست بہار کا ایک ضلع ہے۔ یہ آم شیر شاہ سوری کو بہت پسند تھا۔ چونسہ کو دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے کیونکہ یہ غیر معمولی طور پر میٹھا اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔ اس کا جوس بھی بہت لطف دیتا ہے اور یہ آسانی سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس آم کی خوشبو کا بھی جواب نہیں۔ اس میں ریشہ کم سے کم ہوتا ہے۔ اس کے پکنے کا موسم جون سے اگست تک ہوتا ہے۔ یہ ستمبر کے آخر تک لوگوں کے استعمال میں رہتا ہے اور یہ وہ وقت ہے جب آم کی کوئی قسم مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتی۔
انور رٹول
یہ آم پنجاب میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ اس آم کو ایک صاحب انورالحق نے اتردیش (بھارت) میں ضلع باغپت کے ایک گاؤں رٹول میں کاشت کیا۔ انور رٹول پاکستانی پنجاب میں بکثرت پایا جاتا ہے اور یہ میٹھا بھی ہوتا ہے اور خوشبودار بھی۔ اس کے علاوہ اس میں ریشہ بھی نہیں ہوتا۔ چونکہ اس کی طلب بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے یہ مارکیٹوں میں تھوڑے عرصہ کے لئے نظر آتا ہے۔ یہ پہلے مئی سے جون تک دستیاب ہوتا ہے جب اس کا چھلکا موٹا ہوتا ہے لیکن ناقابل یقین حد تک میٹھا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کا موسم جولائی سے اگست تک ہوتا ہے لیکن یہ اُس وقت اتنا میٹھا نہیں ہوتا۔
سندھڑی
سندھڑی آم تجارتی مقاصد کے لئے بہترین ہیں۔ آموں کی یہ قسم سندھ میں ہوتی ہے اور جس قصبے میں یہ پایا جاتا ہے اس کا نام بھی سندھڑی ہے جو ضلع میرپور خاص میں ہے۔ اس کا سائز بڑا ہوتا ہے اور اس کا چھلکا زرد ہوتا ہے۔ ریشہ کم ہوتا ہے اور یہ انتہائی خوشبودار ہوتا ہے۔ یہ بیضوی شکل کا ہوتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ایک زمانے میں پنجاب میں کہا جاتا تھا ''لیا توں امب سندھری، بھانویں تینوں دینی پوے جندڑی‘‘۔ یعنی سندھڑی آم لے کر آؤ چاہے تمہیں جان ہی کیوں نہ دینی پڑے‘‘
ان آموں کی زیادہ تر قسموں کو ملک شیک اور آئس کریم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سیزن کے شروع میں یہ آم نوکدار بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ آم آسانی سے خراب نہیں ہوتا۔ سندھ کی مارکیٹوں میں یہ آم آسانی سے مل جاتا ہے۔
دوسہری
یہ آم دوسرے آموں کی نسبت چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کی تاریخ کے بارے میں جاننا ہو تو 18ویں صدی کے نواب آف لکھنؤ کے باغات کے بارے میں آگہی حاصل کرنا ہوگی۔ یہ آم نہایت خوشبودار اور رس سے بھرا ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ اس کا گُودا بہت لذیذ ہوتا ہے۔ چونکہ یہ دوسرے آموں کی نسبت سائز میں چھوٹا ہوتا ہے اس لئے آپ اسے زیادہ سے زیادہ کھانا چاہتے ہیں۔ محض ایک یا دو آموں سے بات نہیں بنتی۔ اس آم سے لطف ا ندوز ہونے کیلئے انتظار کرنا چاہیے کہ اس کا ذائقہ (Flavour) کب اپنے عروج پر آتا ہے اور اس کیلئے جولائی کے پہلے دو ہفتے نہایت مناسب ہیں۔
مذکورہ بالا آموں کی تمام اقسام کے علاوہ جو دیگر آم پاکستان میں کھائے جاتے ہیں ان میں سرولی، فجری، الماس، میلڈا، گلاب خان، سنیرا، لال بادشاہ، توتا پوری اور الفنسو شامل ہیں یہ آم بھی پورے پاکستان میں دستیاب ہیں اور بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو اپنے گھر کے پچھواڑے میں آم کا درخت لگا سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک کی آب و ہوا ایسی ہے کہ آپ اپنے گھر یا باغ میں چند درخت لگا سکتے ہیں۔ آپ اپنے باغ کے پھلوں سے موسم گرما کیلئے تازہ جوس تیار کر سکتے ہیں جس میں آم کا جوس بھی شامل ہے جس سے مینگو آئس کریم بھی تیار کی جا سکتی ہے۔