مغل فنِ مصوری کی ابتدا
اسپیشل فیچر
مغل فن مصوری نے کئی تاریخی مراحل طے کیے اور کئی خاندانوں کے ہاتھوں ترقی کے مدارج تک پہنچی۔ منگولوں سے اگر اس کی روایت چلی تو تیموریوں نے اسے اپنے خون سے سینچا اور ایران کے صفوی بادشاہوں نے اس کی ناز برداری کی۔
پرسی براؤن کی یہ بات بھی حق بجانب ہے کہ چودھویں صدی عیسوی سے لے کر سولھویں صدی عیسوی تک ایرانی مصوری تزئین کاری تک ہی محدود رہی کیونکہ درباروں میں کتابوں کو تزئین کیے جانے کا عام رواج تھا۔ ہرات اور بخارا 1375ء سے لے کر 1500ء تک بالخصوص اس کام کے مرکز بنے رہے۔
اس سے پہلے بھی اگر ماضی کو ٹٹولیں تو وہاں بھی ایرانی مصوری کی ایک شگفتہ روایت ملے گی اور مصوری کے یہ خوش گوار عناصر عباسی خاندان کی آغوش میں پلے اور بڑھے۔ مقریزیؔ کی کتاب ''خطاط‘‘ کئی پہلوؤں سے بہت اہم ہے کیونکہ اس کتاب کے ذریعے یہ بھی انکشاف ہوا کہ خلیفہ المنتصر کو فن مصوری سے بڑی گہری دلچسپی رہی۔ ابن عزیز بغدادی اور القصر مصری اس زمانے کے دو مشہور مصور گزرے ہیں۔
مغلوں کے یہاں تزئین کاری کا جو خاصا رواج ملتا ہے، وہ صرف اسی لیے تھا کہ یہ چیزیں ان کی روایت میں داخل ہو چکی تھیں اور پھر عباسی خاندان کے حکمرانوں نے اسے خاصا رواج بھی تو دیا تھا۔ 1258ء میں جس وقت بغداد پر منگولوں نے حملہ کیا اور یہ سرسبز و شاداب شہر مسمار ہو گیا تو اس میں بہت سی نادر تصاویر بھی ضائع ہو گئیں اور اس بربادی سے جو محفوظ رہ گئیں، ان کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ کتابوں کو تزئین کیے جانے میں کتنا انہماک دکھایا جاتا تھا اور ساتھ ہی کتنی محنت صرف کی جاتی تھی۔ کلیلہ و دمنہ اور حریری کا مقامہ دونوں کے مصور نسخے ملے ہیں جن میں حریری کی کتاب کو مصور کرنے والا یحییٰ ابن محمود واسطی تھا۔
منگولوں کے پے بہ پے حملوں سے علوم و فنون کی ترویج میں بڑی رکاوٹ پڑی۔ سیاسی انتشار نے لوگوں کے سکون کو درہم برہم کر دیا لیکن جلد ہی ان کی تلواریں ''بزم‘‘ کی آغوش میں آ گئیں۔ اس قوم میں اگر ایک طرف جلالِ حکومت تھا تو دوسری طرف احساس جمال بھی تھا۔ درباروں میں مختلف علوم کے جاننے والے اور فنون پر دسترس رکھنے والے جمع ہوئے اور پھر سمرقند و بخارا ماہرین فن سے لبریز نظر آنے لگا۔ تیرھویں صدی کے اواخر میں مصوری کی تجدید شروع ہوئی۔ نتیجے کے طور پر 1320ء میں شاہنامہ مصور کیا گیا، اس میں رنگ بڑے متناسب ڈھنگ سے استعمال کیے گئے اور مصور کے قلم نے موقع و محل کا خاص لحاظ رکھا ہے۔ رشید الدین کی جامع التواریخ بھی اسی زمانے میں مصور ہوئی۔ اس کو مصور بنانے میں چینی مصوروں سے بھی مدد لی گئی۔ خیال رہے کہ ہلاکو اپنے دارالسلطنت کو سجانے کے لیے 50 چینی مصوروں کو لایا تھا اور چینی مصور ہمیشہ سے گل بوٹے بنانے میں بہت مہارت رکھتے تھے۔
شاہ رخ کے دور حکومت میں فن مصوری کو بڑی ترقی ہوئی۔ اس کے دربار کو غیاث الدین خلیل آرائش کیا کرتا تھا۔ خلیل کی بنائی ہوئی تصویریں جب شہنشاہ جہانگیر کو دکھلائی گئیں تو اسے شک ہوا کہ بہزاد نے ضرور کچھ دنوں تک غیاث الدین خلیل کی شاگردی کی ہے کیونکہ جو نوک قلم بہزاد کے یہاں ملتا ہے وہ خلیل کا ہی حصہ تھا۔ اس دور کی خاصیت یہ ہے کہ اس دور میں مثنوی اور عشقیہ و رزمیہ داستانیں ہی مصور ہوئیں۔ مثلاً خمسۂ نظامی، بوستانِ سعدی وغیرہ وغیرہ۔ حاشیہ آرائی، مختلف رنگوں کا استعمال، پس منظر میں سمندر اور حدنظر میں افق وغیرہ دکھلانا اس دور کی خصوصیات میں سے ہیں۔
شاہ رخ کے بعد اس کا لڑکا تخت نشین ہوا، جو فن مصوری کا بہت دلدادہ تھا۔ مصوروں کی جماعت کے امام مولانا جعفر اس عہد کی قیادت کر رہے تھے۔
سلطان حسین مرزا کا نام ہرات کی مصوری کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔ سلطان حسین مرزا بڑا ذی علم اور شعروادب کا دلدادہ تھا۔ میر علی شیرنوائی اس کا وزیراعظم تھا جو خود شاعر اور ادب پرست تھا۔ حسین مرزا کے دربار میں ایک طرف شاعروں میں جامیؔ تھے، مؤرخوں میں میر خوند تھے تو دوسری طرف مصوروں میں کمال الدین بہزاد بھی تھا۔ سارے آبنائے روزگار ایک جگہ اکٹھا تھے۔ بہزاد کے فن پر رائے دیتے ہوئے پرسی براؤن لکھتا ہے:
''مغرب کے لیے ریفائل کی جو اہمیت ہے، وہی مشرق کے لیے بہزاد کی۔‘‘ بہزاد نے اپنے فن کو زندہ رکھنے کے لیے بڑے لائق شاگرد پیدا کیے، جیسے سلطان محمد، مظفر علی، میر سید علی اور آغا میرات وغیرہ۔ زندگی کے ہنگاموں میں کیا کچھ ہو جاتا ہے۔ بہزاد کے سرپرست نے جیسے ہی آنکھ بند کی، اسے دوسروں کی سرپرستی پر قناعت کرنا پڑی۔ لاچار ہو کر اس نے شاہ اسمٰعیل صفوی کے دربار میں پناہ لی۔ یہاں کی زندگی میں تصوف کی رنگارنگی تھی۔ پہلے تو بہزاد کو ماحول سازگار نہیں آیا لیکن بعد میں اس نے اس ماحول سے بھی نباہ کیا اور اپنے فن کی وہ جولانیاں دکھائیں کہ شاید ہی کسی نے دکھائی ہوں۔
بہزاد نے عموماً اپنی تصویروں میں سبز اور سرخ رنگ کا استعمال کیا ہے۔
عمر شیخ کے انتقال کے بعد بابر کو زندگی سے بڑی جدوجہد کرنی پڑی۔ انجام کار وہ برصغیر آیا اور مغل سلطنت کی بنیادی ڈالی۔ بابر فنون لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ مصوری اور فلسفے سے اسے بڑی دلچسپی رہی اور اسی لیے جزئیاتِ فن پر اسے بڑا عبور حاصل رہا۔ تزک میں اس نے بہزاد کے قلم کی بڑی تعریف کی لیکن ساتھ ہی ساتھ اس پر تنقیدی نگاہ بھی ڈالی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شبیہ سازی میں بہزاد کا جواب نہیں لیکن ریش دار شبیہ میں اس کو مہارت حاصل ہے، بے ریش میں نہیں، اگر ایسی شبیہ اسے بنانا پڑی جس میں ریش نہیں تو اس نے ہمیشہ ٹھوڑی لمبی بنائی ہے۔ یہ اس کی قلم کا نقص ہے۔
بہزاد کے علاوہ شاہ ظفر کی بھی اس نے تعریف کی ہے۔ زلف کی آرائش و باقاعدگی مظفر کی شبیہ سازی کا خاص حصہ ہے۔ بابر نے اس کے متعلق اپنی رائے دی ہے۔
بابر نے چونکہ یہ ذوق وراثتاً پایا تھا اس لیے وہ بھی تیمور کی طرح جلال و جمال کا دلدادہ تھا۔ اگر اس کو بزم کی سہولتیں ملتیں اور وہ رزم کی کلفتوں سے نجات پا لیتا تو وہ بھی شاید اپنے دربار کو سلطان حسین مرزا کا ہی دربار بنا لیتا، جہاں میر علی شیرنوائی، جامی، حاتفی، میر خومذا اور بہزاد جیسے ماہرین فن جمع تھے۔ لیکن زندگی نے اسے مہلت ہی نہ دی اور جب محفلیں سجانے کا وقت آیا تو اس نے صدائے اجل کو لبیک کہا۔
بابر کی وفات کے بعد ہمایوں تخت نشین ہوا۔ وہ بھی اپنے والد کی طرح جمالیات کا دل دادہ تھا۔ 1543ء کا زمانہ ہمایوں کے لیے بڑا صبرآزما وقت تھا۔ قسمت کا مارا ہوا شہنشاہ امر کوٹ کے قلعے میں مقیم تھا۔ ایک دن ناگہانی طور سے ایک خوبصورت سی فاختہ کہیں سے ادھر آنکلی، شہنشاہ نے دوڑ کر کسی نہ کسی طرح اسے پکڑ لیا۔ جوہر آفتابچی، جو دورِ ہمایوں کا مستند مؤرخ گزرا ہے، لکھتا ہے کہ شہنشاہ نے فوراً مصوروں کو بلایا اور اس کی تصویر بنوائی اور اس کے بعد اس پرندے کو آزاد کر دیا۔ شیر شاہ کے باعث اس کو برصغیر چھوڑنا پڑا اور ایران میں پناہ لینی پڑی۔ اس وقت ایران میں شاطہماسپ کے دربار میں بڑے بڑے مصور جمع تھے، جسیے آغا میرک اور مظفر علی وغیرہ، جو اب بھی بہزاد کے نام کو زندہ کیے ہوئے تھے۔ منصور اور اس کا بیٹا میر سید علی بھی بہزاد کے عزیز ترین شاگردوں میں سے تھے۔ ہمایوں نے تبریز میں ان دونوں سے ملاقات کی اور کابل آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ یہ لوگ ہمایوں کے کہنے پر کابل آئے اور داستان امیر حمزہ کو مصور کرنے کا کام ان کے سپرد ہوا، جس پر اس نے خوش ہو کر میر سید علی کو نادرالعصر کا خطاب دیا۔ اور یہیں سے مصوری کے ایک نئے سکول کی ابتدا ہوئی جو بعد میں مغل فن مصوری کے نام سے مشہور ہوا۔
عبدالصمد شیریں قلم بھی مصوروں کی اس جماعت میں شامل ہو گئے۔ برصغیر میں مصوری کی اتنی قدر دیکھ کر ملا دوست نے شاہ طہماسپ کے دربار کو خیرباد کہا اور ہندوستان چلے آئے۔ ملا فخر نے، جو انہیں مصوروں میں سے ایک چوتھی شخصیت تھی، مصوری کے میدان میں بڑی سحر انگیزی دکھائی۔ ڈھاکہ کی ململ طویل عرصہ مشہور رہی اور وہ اس لیے کہ حادثات زمانہ سے وہ برباد نہ ہو سکی۔ لیکن تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ میر سید علی اور عبدالصمد نے بھی مصوری میں ایسے معجزے دکھائے کہ اگر وہ حادثات زمانہ اور انقلاباتِ وقت سے محفوظ رہ جاتے تو لوگوں کو محو حیرت بنائے رہتے۔ ان دونوں مصوروں نے چاول کے دانے پر چوگان بازی کا پورا میدان دکھایا۔ کھیل کو دیکھنے کے لیے چاروں طرف تماشائی موجود ہیں۔ سواروں کی بھی شبیہیں ہیں اور گھوڑوں کی بھی۔
یہ معجزے تو ان کے اپنے ذاتی تھے مگر وہ معجزہ جو بادشاہ ہمایوں کے حکم سے سرزد ہوا، وہ داستان امیر حمزہ کو تزئین کرنے کا کام ہے۔ عبدالصمد شیریں قلم نے دیگر مصوروں کی مدد سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس میں کل ملا کر 1375 تصاویر ہیں۔ ان تصاویر کی جزئیات پر غور سے نظر ڈالنے پر معلوم ہو گا کہ اس میں ایران اور برصغیر دونوں کے طرز استعمال ہوئے ہیں۔