ورزش کے 5انمول فائدے

ورزش کے 5انمول فائدے

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد ریاض


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

ورزش کرنے کے فوائد کا شمار کرنا مشکل ہے۔ ورزش سے ہمارے جسم میں متعدد مثبت تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ اس سے ہم چاک و چوبند رہتے ہیں اور بیماریاں ہم سے دور رہتی ہیں۔
جسمانی و ذہنی صحت کا خاصا دارومدار ورزش پر ہے۔ خوش گوار زندگی گزارنے کی خاطر انسان کا صحت مند ہونا لازمی ہے مگر صحت و تندرستی ورزش کے بغیر قائم رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ورزش جسمانی و ذہنی دونوں طرح کی ہوتی ہے۔ ذہنی ورزش بھی انسان کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ جسمانی کیونکہ جس طرح ایک بے کار آدمی جسمانی طور پر نکما اور کاہل بن جاتا ہے اسی طرح اگر ذہن کو استعمال نہ کیا جائے تو وہ بھی ناکارہ ہونے لگتا ہے۔ 
ورزش انسان کو کاہلی سے نکالنے میں بڑی مدد دیتی ہے۔ اس سے انسانی جسم توانا اور مضبوط ہوتا ہے۔ جو لوگ ورزش نہیں کرتے وہ جلدی تھک جاتے ہیں، ان کے جسم کا گوشت یعنی ان کے پٹھے نرم پڑ جاتے ہیں۔ وہ جلد اعصابی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا پیٹ اکثر بڑھ جاتا ہے۔ تھوڑی سی مشقت سے سانس پھولنے لگتا ہے اور کھانا صحیح طرح سے ہضم نہیں ہوتا۔
کھیل بھی ورزش کا کام دیتے ہیں۔ ان سے جسمانی اور ذہنی دونوں ورزشیں ہوتی ہیں۔ فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، باسکٹ بال وغیرہ سب مفید ہوتے ہیں لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو جم جائیں یا ازخود ورزش کریں۔ ورزش کو زندگی کے معمول کا حصہ ہونا چاہیے۔ تھوڑے عرصے کے لیے ورزش کرنا اور پھر اسے چھوڑ دینا کسی طور مناسب نہیں۔ اس سے ورزش سے حاصل ہونے والے فوائد ضائع ہو جاتے ہیں۔ 
ورزش سے معدہ اور جگر کا عمل درست ہوتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ روزانہ ورزش کیا کریں کیونکہ ہماری صحت اور تندرستی کا انحصار اسی پر ہے۔ لہٰذا ورزش سے غفلت نہیں برتنی چاہئے ورنہ ہم کاہل اور سست ہوکر رہ جائیں گے۔ 
جو لوگ باقاعدہ طور پر ورزش کرتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ چست اور صحت مند رہتے ہیں۔ ورزش کرنے سے فرد اپنے اندر خوشی محسوس کرتا ہے۔ روزانہ ورزش کرنے سے ذہنی سکون ملتا ہے۔ ورزش کرنے سے وزن کم کرنے یا اسے مناسب رکھنے میں مدد ملتی ہے اور جسم چاک و چوبند اور خوبصورت نظر آنے لگتا ہے۔ ورزش ہڈیوں اور پٹھوں دونوں کے لیے بہت مفید ہے۔ ورزش سے پٹھوں کے خدوخال نمایاں اور پُرکشش ہو جاتے ہیں۔ آپ اپنے اندر توانائی محسوس کرتے ہیں۔ نقصان دہ اور مہلک بیماریوں سے بچاؤ ہوتا ہے، یہاں تک کہ بیماریوں سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ 
ورزش سے رنگ روپ بھی نکھرتا ہے۔ اس سے جلد کی صحت اچھی ہوتی ہے اور انسان ہشاش بشاش نظر آتا ہے۔ چہرہ خوبصورت اور نمایاں نظر آنے لگتا ہے۔ علاوہ ازیں دماغی اور ذہنی صحت و یادداشت بہتر ہو جاتی ہے۔ آپ کی نیند بہتر اور آرام دہ ہو جاتی ہے۔ آپ کے جسم میں درد کم کر دیتی ہے۔
آئیے ورزش کے چند اہم فوائد کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
توانائی کا حصول
جسم جلد تھکاوٹ محسوس کرنے لگے تو روزمرہ کی زندگی متاثر ہونے لگتی ہے۔ کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا اور کام کے بغیر گزار کرناا مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات تھکاوٹ اور سستی اتنی چھا جاتی ہے کہ گھر کے کام اور باہر جا کر خریداری کرنے کو جی نہیں کرتا۔ اس کا اثر ذہن پر بھی پڑتا ہے۔ تھکا ہوا جسم ذہنی مشقت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اسے توجہ مرکوز کرنے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔ تھکاوٹ اور جسمانی توانائی میں کمی کے اسباب کئی ہو سکتے ہیں لیکن اس کا ایک بڑا سبب ورزش نہ کرنا اور آرام دہ طرززندگی اختیار کرنا ہے۔ اگر روزانہ یا ہفتے میں پانچ دن ورزش کی جائے تو جسم توانا ہونے لگتا ہے جس کے ساتھ کام کرنے کو جی بھی کرنے لگتا ہے۔ ورزش کرنے سے توانائی میں روزافزوں اضافہ ہوتا ہوتا ہے۔ اس سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور جسم میں لچک پیدا ہوتی ہے۔ انسان تروتازہ محسوس کرتا ہے اور دل کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ 
ذہنی تناؤ میں کمی
ذہنی تناؤ دور جدید کی تیز رفتار زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ تناؤ کی حالت میں ورزش کا فیصلہ کرنا اور اسے انجام دینا آسان نہیں ہوتا لیکن ورزش ہی سے آپ تناؤ میں کمی لا سکتے ہیں۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ورزش ذہنی تناؤ اور تشویش کو کم کرتی ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ورزش کے اثرات نفسیاتی امراض میں استعمال ہونے والی بعض ادویات کے مساوی ہیں۔ اس طرح منفی خیالات اور چڑچڑے پن سے چھٹکارہ ملتا ہے اور زندگی میں مسرت اور شادمانی لوٹ آتی ہے۔ دوسروں سے رابطہ قائم کرنے سے فرد ہچکچاتا نہیں اور تعلقات میں ماحول خوش گوار اور دوستانہ رہتا ہے۔ 
امراض سے دوری
موٹر سائیکل ہو یا کار، ان چیزوں کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پڑی رہیں تو خراب اور آلودہ ہو جاتی ہیں۔ انسانی جسم بھی ایک پیچیدہ مشین کی مانند ہے اور اگر اسے سرگرم نہ رکھا جائے تو اس میں بھی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس سے جسمانی اجزا کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ جسم کمزور ہو یا قوت مدافعت کم ہو تو بیماریاں گھیرنے لگتی ہیں۔ سست طرززندگی سے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح بڑھ جاتی ہے، جس سے شریانیں اور دل متاثر ہوتے ہیں۔ دل کا دورہ پڑ سکتا ہے یا فالج کا حملہ ہو سکتا ہے۔ موٹاپا کئی امراض کو حملہ آور ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ جوڑوں کا درد، ذیابیطس وغیرہ کا خطرہ ورزش نہ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔ 
نیند میں بہتری
کہتے ہیں نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے، بظاہر اس دعوے پر یقین کرنا مشکل ہے لیکن اس کہاوت سے نیند کی اہمیت کا پتا بہرحال چلتا ہے۔ نیند انسان کی ضرورت ہے اور اچھی نیند سے انسان دن بھر مستعد رہتا ہے اور اس کے کام کا معیار بھی بڑھ جاتا ہے۔ اچھی اور معیاری نیند کا ایک نسخہ ورزش ہے۔ ورزش کرنے والوں کو ایسا نہ کرنے والوں کی نسبت بہتر نیند آتی ہے۔ 
ذہنی استعداد میں اضافہ
جسم اور ذہن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ہمارے خیالات اور تصورات کی تشکیل کا تعلق جسمانی تجربات سے بھی ہوتا ہے۔ بھوک اور قحط سے گزرنے والوں کے خیالات اور ہمیشہ سیر رہنے والا کے خیالات میں فرق ہوتا ہے۔ جسمانی صحت کا ذہنی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے۔ عموماً توانا اور متحرک دماغ صحت مند جسم سے منسلک ہوتا ہے اور ایسے جسم کے لیے ورزش ضروری ہے۔ ورزش یاسیت سے بھی نجات دلانے میں معاون ہوتی ہے۔ یہ جسمانی کے ساتھ ذہنی استعداد کو بڑھاتی ہے۔ ورزش کرنے والے افراد میں دماغی امراض کا خدشہ بہت کم ہوتا ہے۔ ورزش پُرمسرت رہنے کا امکان بڑھاتی ہے۔ جسمانی کے ساتھ ذہنی ورزشیں بھی کرنی چاہئیں۔ مراقبے کو ہم ذہنی ورزش کہہ سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں: مسعود اختر ہر فن مولااداکار

یادرفتگاں: مسعود اختر ہر فن مولااداکار

مسعود اختر پاکستان شوبز انڈسٹری کے ایک ورسٹائل اداکار تھے۔ انہوں نے ریڈیو، تھیٹر، فلموں اور ڈراموں میں اپنی اداکاری سے پرستاروں کو متاثر کیا۔انہیں ہر فن مولااداکار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، کیونکہ انہیں جو کردار بھی دیا گیا اسے انہوں نے نہایت عمدگی کے ساتھ نبھایا۔ مسعود اختر 5 ستمبر 1940ء کو ساہیوال میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کرنے کے بعد ملٹری کالج مری میں داخل ہوئے۔ بعدازاں ایم اے او کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ گریجویشن کے بعد ایک بینک میں ملازمت کر کے اپنے کریئر کا آغاز کیا جبکہ ملازمت کے ساتھ ساتھ بیچلر آف لاز کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے اپنا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہوئے اور اپنے فنکارانہ کریئر کا آغاز ریڈیو سے کیا، وہاں برجستہ جملوں کی ادائیگی سے تھیٹر پر اداکاری کی راہ ہموار ہوئی۔ تھیٹر پر ان کے فن کو نکھارنے میں نذیر ضیغم نے نمایاں کردار ادا کیا۔ مسعود اختر کا شمار الحمرا آرٹس کونسل میں سٹیج ڈرامہ شروع کرنے والے بانیوں میں ہوتا ہے۔ ان کے مقبول سٹیج ڈراموں میں سے ایک ''پیسہ بولتا ہے‘‘ جو 1970 کی دہائی میں الحمرا میں پیش کیا گیا تھا اور اس سے انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔انہوں نے 1960ء کی دہائی میں تھیٹر پر قدم رکھا اور مرتے دم تک تھیٹر کی دنیا سے وابستہ رہے۔ لاہور کے الحمرا آرٹ سینٹر سے ان کی طویل وابستگی تھی اور وہ ہر شام الحمرا کیفے میں باقاعدہ ایک خصوصی نشست رکھتے تھے۔ مسعود اختر سٹیج ڈراموں میں ذو معنی جملوں اور نازیبا رقص سے نالاں تھے، اور اسی وجہ سے انہوں نے کمرشل تھیٹر سے ناطہ توڑ لیا تھا۔ وہ اس امر کے قائل تھے کہ صاف ستھرے تھیڑ کو پروان چڑھایا جائے اور ایسے ڈرامے پیش کئے جائیں جو ماں کے ساتھ بیٹا، باپ کے ساتھ بیٹی اور بہن کے ساتھ بھائی بیٹھ کر دیکھ سکیں۔ 1968ء میں ہدایتکار و پروڈیوسر شباب کیرانوی نے انہیں فلم انڈسٹری میں متعارف کرایا۔ شباب کیرانوی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کو بے شمار نئے چہرے دیے۔ انہوں نے جن فنکاروں کو متعارف کرایا ان میں عنایت حسین بھٹی، کمال، احمد رشدی، نغمہ، شیریں، ننھا، علی اعجاز، ندیم (مغربی پاکستان میں پہلی فلم سنگدل) ظفر شباب، صاعقہ، زرقا، مسعود اختر، نذر شباب، آسیہ ، غلام محی الدین اور انجمن شامل ہیں۔ 1970ء میں مسعود اختر کی ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ''آنسو‘‘، اس کی ہدایات ایس اے بخاری نے دی تھیں اور اس کی دیگر کاسٹ میں فردوس، ندیم، زاہد خان اور سلمیٰ ممتاز کے علاوہ ایک نیا چہرہ بھی شامل تھا جس کا نام تھا شاہد۔ فلم ''سنگدل‘‘ میں بھی ان کی اداکاری کو سراہا گیا۔ انہوں نے لگ بھگ 135 فلموں میں کام کیا۔ جن میں 78 اردو، 51 پنجابی، تین ڈبل ورژن اور دو پشتو فلمیں شامل ہیں۔ نمایاں ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں ولن کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ٹیلی وژن کے سیکڑوں ڈرامے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ مسعود اختر نے اداکاری کے علاوہ ٹی وی ڈراموں اور تھیٹر پروڈکشنز میں بھی قسمت آزمائی کی۔ انہیں ان کی شاندار اداکاری پرمتعدد ایوارڈز ملے، حکومت پاکستان نے انہیں 2005ء میں ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا۔ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ ان کے اکلوتے بیٹے علی رضا کا انتقال ان کی وفات سے چند ماہ قبل (27 ستمبر 2021ء کو) ہوا تھا۔ بیٹے کے غم نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ زائد العمری اور پھیپھڑوں کے کینسر سمیت مختلف طبی پیچیدگیوں کے باعث جب وہ ہسپتال میں زیر علاج تھے تو اپنی عیادت کیلئے آنے والوں سے بیٹے کی مغفرت کی دعا کی درخواست کرتے۔ 5مارچ2022ء کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ مقبول فلمیں ''میرا نام ہے محبت‘‘ (1975ء) ''شبانہ‘‘ (1976ء) ''وعدے کی زنجیر‘‘ (1979ء) ''چھوٹے نواب‘‘ (1980ء) ''امانت‘‘ (1981ء) ''انسانیت کے دشمن‘‘ (1990ء) ''وطن کے رکھوالے‘‘ (1991ء) ''میڈم رانی‘‘ (1995ء)، ''موسیٰ خان‘‘ (2001ء)، ''دوسری ماں‘‘، ''آنسو‘‘، ''درد‘‘، ''بھروسا‘‘ ''تیری صورت میری آنکھیں‘‘، ''انتخاب‘‘، ''جاپانی گڈی‘‘، ''گھرانہ‘‘، ''نکی جئی ہاں‘‘  

رمضان کے پکوان

رمضان کے پکوان

چائنیز سموسہ اجزاء:چکن بون لیس آدھا کلو،آلو چار عدد،انڈے پانچ عدد (ابلے ہوئے)،نمک اور کالی مرچ حسب ذائقہ،سموسے کی پٹیاںحسب ضرورت،تیل ڈیپ فرائی کے لئے۔ترکیب:ایک دیگچی میں آلو اور چکن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر ڈال دیں۔ ساتھ ہی نمک اور کالی مرچ شامل کر دیں اور دودھ ڈال کر اتنی دیر پکائیں کہ وہ خشک ہو جائے جبکہ آلو اور چکن گل جائے۔ اب اس آمیزے کو اچھی طرح ملا لیں اور انڈوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ڈالیں اور اچھی طرح مکس کریں۔ یہ آمیزہ سموسہ پٹی پر رکھیں اور سموسے بنا لیں۔ ایک کڑاہی میں تیل گرم کر یں اور سموسے ڈال کر گولڈن برائون ہونے تک تل لیں۔ انہیں املی یا پو دینے اور دہی کی چٹنی کے ساتھ پیش کر یں۔ ملکی لیموئنیڈاجزاء: لیموں کا رس آدھی پیالی، سوفٹ ڈرنک ایک چھوٹی بوتل، دودھ دو پیالی، چینی چار کھانے کے چمچ، فریش کریم آدھی پیالی، کُٹی ہوئی برف حسب پسند۔ترکیب: دودھ سوفٹ ڈرنک اور فریش کریم کو علیحدہ علیحدہ پیالوں میں رکھ کر یخ ٹھنڈا کر لیں۔ بلینڈر میں پہلے چینی اور لیموں کا رس ڈال کر بلینڈ کر لیں پھر اس میں سوفٹ ڈرنک ڈال کر بلینڈر کو ایک سے دو منٹ چلائیں۔ آخر میں اس میں دودھ ، فریش کریم اور کٹی ہوئی برف ڈال کر بلینڈ کر لیں۔ 

سوء ادب:وفادارکتا

سوء ادب:وفادارکتا

ایک شخص کتا خریدنے کے لیے کتوں کی ایک دوکان پر گیا اور ایک کتا پسند کیا ۔کتا اگرچہ کافی مہنگا تھا، اس نے دوکاندار سے سوال کیا ،''یہ مہنگا کتا میں نے پسند تو کر لیا ہے لیکن کیا یہ وفادار بھی ہے ؟‘‘جس پر دوکاندار بولا : ''وفاداری کا آپ کیا پوچھتے ہیں، اس کو پندرہ بیس مرتبہ فروخت کر چکا ہوں لیکن یہ ہر بار میرے پاس آجاتا ہے‘‘۔٭٭٭موہوم کی مہک یہ ہمارے بہت ہی پیارے دوست اور بہت ہی عمدہ نظم گو ابرار احمد مرحوم کا مجموعہ کلام ہے جسے سانجھ پبلکیشنز لاہور نے شائع کیا ہے انتساب محمد خالد کے نام ہے۔پسِ سرورق شاعر کی تصویر شائع کی گئی ہے۔ اندرونِ سرورق اقبال فہیم جوزی کی یہ تحریر ہے :''ہم کئی ہزار سال سے کائنات کو مسخر کرنے کے فکری ہیجان میں مبتلا ہو کر یہ حقیقت فراموش کر چکے ہیں کہ ہم کائنات کے علاوہ کوئی وجود دیگر نہیں بلکہ کائنات کا حصہ ہیں ایک ایسی کائنات جو عدم سے وجود میں آئی۔ یہی معدومیت ایک ایسی کشش ہے جس کی بنا پر کائنات خود کو مسلسل تخلیق کر رہی ہے۔ ابرار احمد کی شاعری ہمیں اسی معدومیت کا احساس دلاتی ہے۔ یہ ہمیں کائنات میں دوبارہ ضم ہونے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے کائنات ابرار احمد کی یکتا اور منفرد اسلوب کی شاعری میں دھڑک رہی ہے۔ اس کی شاعری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم نے سماجی حقیقت نگاری کا روپ اختیار کر کے اپنے دماغ کے خلیوں کو غیض و غضب کی لپٹوں سے تابناک تو کیا لیکن اس کے دام یوں چکائے کہ بھگت کبیر کے گریہ ، میر کی کو ملتا اور بلھے شاہ کے جذب کو فراموش کر دیا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جوں جوں ادب کی وسعت ، کائنات کی بسیط تنہائیوں کی طرح پھیلتی چلی جائے گی ابرار احمد کی شاعری کا جادو قارئین کے تخلیقی عمل میں نئے نئے رنگ ، نئے نئے زاویے اور نئے نئے گلزار پیدا کرتا چلا جائے گا۔ گیٹ اپ عمدہ ٹائٹل دیدہ زیب نظموں کی کْل تعداد 72 ، قیمت 450 روپے ۔اور اب آخر میں اسی مجموعہ میں شامل یہ نظم ...کسی انتظار کی جانب ازل سے چلتے رہے ہیں مگر کھڑے ہیں وہیں دیارِ دیدہ و دل میں وہی دھندلکا ہے اسی زمیں پہ قدم ، سرپہ آسماں ہے وہی کہیں پہ دور کہیں ہم کو جاکے ملنا تھا کسی خیال سے ، اک خوابِ خوش نما کی طرف نکلتے جانا تھا ٹوٹے ہوئے خمار کے ساتھ نہ جانے کیا تھا جسے ڈھونڈنے نکلا تھا رہِ وجود میں اڑتے ہوئے غبار کے ساتھ رہے اسیرِ دروبامِ زندگی ہر دم وہی جو خستہ تھے معمولِ روز و شب کی طرح بس ایک چاک پہ ہم گھومتے ، اْدھڑتے رہے سواب خرام کریں راہِ معذرت پہ کہیں تھکن سے بیٹھ رہیں کنجِ عافیت میں کہیں کہیں سے توڑ دیں دیوارِ ایستادہ کو جدھر کو جانہیں پائے ، اْدھر نکل جائیں جو منتظر تھا ہمارا ، جو راہ تکتا تھا جو ہم پہ وا نہیں ہوتا ، جو ہم پہ کھلتا نہیں جو ہم پہ کھلتا نہیں ، اس حصار کی جانب کسی طلب کو ، کسی انتظار کی جانب !آج کا قطعفکر کر تعمیرِ دل کی وہ یہیں آجائے گا بن گیا جس دن مکاں خود ہی مکیں آجائے گا  

حکایت سعدیؒ : موت کا وقت

حکایت سعدیؒ : موت کا وقت

ایک شخص جو ننگے سر اور ننگے پاؤں تھا اور جس کے پاس سواری کا کوئی جانور بھی نہ تھا، حجاز جانے والے ایک قافلے کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ وہ اپنی دھن میں کہتا جاتا تھا کہ نہ میں اونٹ پر سوار ہوں اور نہ اونٹ کی طرح بوجھ میری پشت پر لدا ہوا ہے۔ نہ کسی ملک کا بادشاہ ہوں اور نہ کسی بادشاہ کا غلام، نہ مجھے کوئی غم ستاتا ہے نہ فکر۔ آرام اور آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوں۔ایک شتر سوار نے اسے دیکھا تو کہا، اے شخص تو اس حالت میں ہمارے ساتھ کہاں جا رہا ہے؟ تیرے بھلے کی کہتا ہوں لوٹ جا راستے کی سختیاں تجھے ہلاک کر دیں گی۔ اس شخص نے شتر سوار کی بات پر کچھ توجہ نہ دی اور برابر سفر کرتا رہا۔ جب قافلہ ایک مقام پر پہنچا تو اچانک اس شتر سوار کو معمولی سی تکلیف ہوئی اور وہ مرگیا۔ اس کی موت کی خبر مشہور ہوئی تو وہی بے نوا مسافر اس کی میت کے سرہانے آیا اور کہا، ہم تو اس سختی میں زندہ ہیں لیکن تو ہر طرح کی آسائش میں رہتے ہوئے مرگیا۔حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ جن لوگوں کو سختیاں برداشت کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ خوش و خرم رہتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں لاڈ کے پلے ہوئے فکروں اور غموں میں بھی گھرے رہتے ہیں۔اس حکایت میں یہ سبق بھی ہے کہ دنیاوی اسباب کی بنا پر کوئی رائے قائم کر لینا مناسب بات نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حفاظت کا معقول سامان رکھنے والا تباہ ہو جاتا ہے اور بے نوا محفوظ رہتا ہے۔ اس حکایت سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے اور اس کے آنے کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ بعض اوقات حالات و واقعات سے اس امر کا عندیہ نہیں ملتا کہ موت قریب ہے، پھر یکایک کچھ ایسا ہوتا ہے کہ زندگی کا سفر اختتام کو جا پہنچتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ہر وقت موت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔  

آج کا دن

آج کا دن

ایئر بریک کی ایجاد1872ء میں آج کے روزامریکی انجینئر جارج واشنگٹن نے ائیر بریک کو پیٹنٹ کروایا۔اس میں ہوا کو کمپریس کر کے شامل کیا جاتا ہے تاکہ بریک کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔ آج بھی جدید گاڑیوں اور ٹرینوں میں اس بریک سسٹم کا استعمال کیا جاتا ہے۔سپین میں خانہ جنگی5مارچ 1936ء کو سپین میں خانہ جنگی کا آغازہواجو 1939ء تک جاری رہی۔اس خانہ جنگی میں ری پبلکن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔جنگ کے خاتمے پر سپین میں آمریت نافذ کر دی گئی۔ ری پبلکن نے جنگ کے دوران حکومتی انتظامات کا ساتھ دیا تھا۔ایڈولف ہٹلر کی حکومت5مارچ 1933ء کو ہونے والے ریخسٹاگ کے انتخابات میں ایڈولف ہٹلر کی نازی پارٹی نے 43.9فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ الیکشن میں کامیابی کے بعدنازی پارٹی نے حکومت قائم کی اور اس کے فوراً بعد ایڈولف ہٹلر نے ایک ایکٹ پاس کروایا جس کی وجہ سے ملک میں آمریت قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی۔جنگ میں ہوائی غباروں کا استعمال1912ء میں5مارچ کو اطالوی فوج نے ترکی کے خلاف جنگ میں ہوائی غباروں کا استعمال کیا۔ ان غباروں کا استعمال ایک خاص مقصد کیلئے کیا گیا تھا تاکہ دشمن کے علاقے میں ہونے والی نقل و حرکت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ ہوائی غباروں کو رات کے اندھیرے میں استعمال کیا جاتا تھا تاکہ ان کو آسانی سے دیکھا نہ جا سکے۔یہ ہوائی غبارے جہاز جیسے ہی دکھائی دیتے تھے لیکن وزن میں بہت ہلکے تھے اور انہیں اڑانے کیلئے گیس کا استعمال کیا جاتا تھا۔

ملائیشیا کی خوبصورت مساجد

ملائیشیا کی خوبصورت مساجد

ملائیشیا جنوب مشرقی ایشیا میں جزیرہ نما ملایا کے بڑے حصے اور جزیرہ بورنیو میں واقع صباح ( شمالی یورنیو) اور سراوک پر مشتمل ہے اس کا دارالحکومت کوالالمپور ہے۔ ملائیشیا کا رقبہ 329737مربع کلو میٹر ہے اور آبادی تقریباً3کروڑ کے قریب ہے۔ملائیشیا میں اسلام ساتویں صدی ہجری، تیرھویں صدی عیسوی میں مسلم تاجروں کے ذریعے وارد ہوا۔ 802ھ،1400ء میں ملاکا کے راجہ تیماسک کے اسلام قبول کرنے سے اس کی تمام رعایا مسلمان ہو گئی۔اس وقت ملائیشیا کی 65 فیصد آبادی مسلمان ہے جبکہ باقی مسیحی ، بدھ اور ہندو وغیرہ ہیں۔ ملائیشیا کی چار ریاستوں میں 500 سے زیادہ دینی مدارس ہیں۔ یہ مدارس کتاتیب کہلاتے ہیں ان میں پانچ چھ ہزار سے زیادہ لڑکے اور لڑکیاں قرآن کی تعلیم پاتے ہیں۔ ملائیشیا کی مختلف کئی مساجد ہیں۔یہاں ہم پانچ مختلف مساجد قابل ذکر ہیں۔سلطان صلاح الدین عبدالعزیز مسجدسلطان صلاح الدین عبدالعزیز مسجد ملائیشیا کے صوبے سیلانگور کے دارالحکومت شاہ عالم میں تعمیر کی گئی ہے۔ یہ مسجد ملک کی سب سے بڑی اور جنوب مشرقی ایشیا میں دوسری بڑی مسجد ہے۔ اس کا منفرد پہلو اس کا بہت بڑا نیلے اور سفید رنگ کی دھاریوں والا گنبد ہے۔ مسجد کے چار مینار ہیں جو کہ چاروں کونوں پر کھڑے ہیں۔ یہ مسجد اتنی بڑی ہے کہ اس میں چوبیس ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔سلطان صلاح الدین عبدالعزیز نے جب 1974ء میں شاہ عالم شہر کو سیلانگور کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تو ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کرنے کا عزم بھی کیا۔ اس مسجد کی تعمیر 1982ء میں شروع ہوئی اور تکمیل کے بعد 11مارچ 1988ء کو اس کا افتتاح عمل میں آیا یہ مسجد اپنے نیلے رنگ کے گنبد کی وجہ سے بلیو ماسک( نیلی مسجد) بھی کہلاتی ہے۔ اس مسجد کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ دنیا کے عبادت خانوں میں اس مسجد کا گنبد سب سے بڑا ہے جس کا قطر168 فٹ ہے اور مسجدکے فرش سے اس کی بلندی 350فٹ ہے۔ مسجد کے چار مینار ہیں اور ہر مینار کی بلندی 460فٹ ہے۔ یہ مسجد پہلے اپنے بلند میناروں کی وجہ سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ اگست1993ء میں شاہ حسن ثانی کی مسجد کے مینار 680 فٹ کی بلندی پر پہنچ گئے تاہم مسجد سلطان صلاح الدین عبدالعزیز اب بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہے کہ اس مسجد کا واحد مینار نہیں بلکہ '' چار مینار‘‘460فٹ بلند ہیں۔شاہ سلطان عبدالعزیز کی مسجد کا ڈیزائن علاقائی اور جدید فن تعمیر کا حسین امتزاج لئے ہوئے ہے۔ یہ اتنی بڑی اور بلند مسجد ہے کہ کوالالمپور سے بھی نظر آتی ہے جو مشرق کی طرف 25کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ مسجد کے اندرونی ہال اور گنبد کے اندرخوبصورتی سے قرآنی آیات تحریر کی گئی ہیں۔مسجد کی کھڑکیوں میں Stainedشیشہ لگایا گیا ہے تاکہ دن کی روشنی مسجد کے اندر آتی رہے۔ مسجد کا مرکزی ہال دو منزلوں کے اوپر بنایا گیا ہے جو مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ اور خوبصورت قالینوں سے آراستہ ہے۔ مسجد کے اوپر والی گیلری خواتین کیلئے مخصوص ہے۔ پہلی منزل میں انتظامیہ کے دفاتر، استقبالیہ ، کانفرنس روم، لائبریری اور کلاس رومز ہیں واقعی یہ مسجد ڈیزائن کی انفرادیت اور خوبصورتی میں اونچا مقام رکھتی ہے۔عبودیہ مسجد پیراکعبودیہ مسجد، پیراک صوبے کے حکمران خاندان کی بنائی ہوئی ہے۔ کوالا کنگ سار میں واقع یہ مسجد اپنے خوبصورتی سنہری گنبدوں اور مینار کی وجہ سے بہت شہرت رکھتی ہے۔ دنیا کی بیس چوٹی کی خوبصورت مساجد میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس کا ڈیزائن آرتھربینسن ہبیک نے تیار کیا تھا۔ یہ ایک حکومتی آرکیٹیک تھا جس نے آئی پوہ اور ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کے ریلوے سٹیشن کے نقشے بھی تیار کئے تھے۔ عبودیہ مسجد کے ڈیزائن میں سنہری گنبد نمایاں ہیں۔یہ مسجد پیراک کے سلطان ادریس کے دور حکومت میں 1917ء میں تعمیر کی گئی۔ سلطان نے اپنی بیماری کے دوران عہد کیا تھا کہ اگر وہ صحت یاب ہوگا تو ایک خوبصورت مسجد تعمیر کروائے گا۔ لہٰذا یہ مسجد اس کے وعدے کا ایفاء ہے۔ مسجد کی تعمیر کے دوران ایک حادثہ پیش آیا۔ سلطان اور راجہ چولان کے دو ہاتھی لڑ رہے تھے۔ لڑتے لڑتے وہ مسجد کے زیر تعمیر حصہ پر چڑھ دوڑے اور انہوں نے اٹلی سے منگوائی گئی قیمتی خوبصورت ٹائلوں کو تہس نہس کر دیا۔ بعد میں اٹلی سے نئی ٹائلیں منگوائی گئیں۔ مسجد 1917ء کے آخر میں مکمل ہو گئی اور اس وقت اس پر دو لاکھ رنگٹ(ملائشین کرنسی) لاگت آئی۔ سلطان ادریس کے جانشین سلطان عبدالجلیل کرامت اللہ شاہ نے اس کا افتتاح کیا۔ یہ عظیم شاہکار پیراک کے مسلمانوں کے لئے شاہ ادریس کا ایک گراں قدر تحفہ ہے۔پترا جایا مسجد کوالالمپورپترا جایا مسجد ملائیشیا کی نہ صرف سب سے بڑی بلکہ دنیا کی ایک خوبصورت ترین مسجد ہے۔ یہ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کے مضافات میں واقع ہے۔ اس اسلامی شاہکار کی تعمیر 1997ء میں شروع ہوئی اور یہ دو سال بعد 1998ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ یہ مسجد ملائیشیا کے وزیراعظم کے دفتر کے بالکل ساتھ ہے۔ مسجد مصنوعی جھیل پترا جایا کے کنارے تعمیر کی گئی ہے اس کے آٹھ چھوٹے گنبد اور ایک بڑا گنبد ہے۔ مرکزی گنبد کا قطر 165فٹ اور اس کے واحد مینار کی بلندی 377فٹ ہے۔ یہ مسجد جدید اسلامی فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہیے۔ اس کے ڈیزائن میں ایرانی ملائیشیائی اور عرب فن تعمیر کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ اس کی تعمیر پر 25کروڑ ملائیشین ڈالر(8کروڑ امریکی ڈالر)لاگت آئی۔ اس کی تعمیر میں گلابی رنگ کا سنگ خار استعمال کیا گیا ہے جس سے مسجد کی خوبصورتی اور شان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس میں پندرہ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔کرسٹل مسجدکرسٹل مسجد جزیرہ نما ملائیشیا کے شمال مشرقی صوبے ترینگانوکے ایک جزیرے وان مان میں واقع ہے۔یہ مسجد اسلامی ورثہ پارک میں تعمیر کی گئی ہے اور وہاں کے مقامی مسلمانوں کے ذوق و شوق کی عکاس ہے۔ مسجد کی تعمیر 2006ء میں شروع ہوئی اور 2008ء میں مکمل ہوئی اور سلطان زین العابدین نے 8 فروری 2008ء کو ایک پروقار تقریب میں اس کا افتتاح کیا۔ یہ مسجد اسلامی دنیا کا ایک ایسا شاہکار ہے جو فولاد، شیشے اور کرسٹل سے تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد میں1500نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ کرسٹل مسجد کے چار مینار ہیں۔ اس کا رقبہ22800مربع فٹ ہے، دن اور رات کے وقت اس مسجد کے اوپر پڑنے والی روشنیوں سے آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مسجد پانی میں تیر رہی ہے۔ ترینگا نو کوالالمپور سے شمالی مشرق میں 300کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔تنکوزین العابدین مسجدتنکوزین العابدین مسجد ملائیشیا کی ریاست ترنگانو کے شہر پترا جایا میں تعمیر کی گئی ہے۔یہ شہر کے مرکزی حصے میں قصرِ انصاف کے بالمقابل تعمیر کی گئی ہے۔ تعمیراتی کام اپریل 2004ء میں شروع ہوا۔ یہ شاندار مسجد اگست2009ء میں مکمل ہو گئی۔ اس میں 25000نماز ایک ہی وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کا رقبہ پتراجایا مسجد سے دوگنا ہے جو اس سے 202کلو میٹر شمال میں واقع ہے۔مسجد کے مرکزی ہال کے داخلی دروازے میں سورہ اسریٰ کی اسی(80) آیات رقم ہیں۔ محراب والی دیوار جو کہ 43 فٹ اونچی ہے۔اس شیشے کی دیوار پر محراب کے دائیں جانب سورہ بقرہ کی آخری دو آیات اور بائیں جانب سورہ ابراہیم کی آیات تحریر ہیں۔ مسجد کی چھت کے کنارے بالکونی کی صورت میں لاہور کے واپڈا ہائوس کی طرح چاروں صرف40فٹ تک بڑھائے گئے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر پر 208ملین رنگٹ(55ملین ڈالر) خرچ ہوئے۔