عالمِ اسلام میں خطاطی کی تعلیم
اسپیشل فیچر
بعض لوگ تعلیم کے معنی محض پڑھنے اور پڑھانے کا عمل لیتے ہیں لیکن تعلیم وسیع تر مفہوم میں نہ صرف سیکھنا سکھانا ہے، بلکہ اس کے ثقافتی اثرات جاننا بہت ضروری ہے اور کسی بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے تقریر کے علاوہ تحریر ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس لیے فن خطاطی کی تعلیم مسلمانوں میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔
عالم اسلام سے بہت پہلے بھی تختیوں کا رواج تھا۔ یہ تختیاں مٹی کی بنائی جاتی تھیں۔ لاہور میوزیم کی گندھارا گیلری میں پہلی اور دوسری صدی عیسوی سے متعلق گندھارا آرٹ کے نمونوں میں مہاتما بدھ کو سکول میں لکڑی کی تختی پر لکھنے کی مشق کرتے دکھایا گیا ہے۔ پشاور میوزیم کی گندھارا گیلری میں ایک منقش سل پر گوتم بدھ کو باقاعدہ ایسی ہی لکڑی کی تختی اٹھائے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
سائنس ہو کہ آرٹس، علم جفر ہو یا علم اشکال، جغرافیہ ہو یا آثار قدیمہ، کسی بھی علم کا حصول شاید خطاطی کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر کوئی مسودہ خوبصورت الفاظ کے قالب میں ڈھل کر ہمارے سامنے نہ آئے تب تک علم کا حصول ممکن نہیں اور اگر کسی علم میں دینی اور مذہبی پہلو بھی ہو تو اس کا سیکھنا اور سکھانا عبادت کی حدوں کو چھونے لگتا ہے۔ جہاں مسلم خطاطوں نے مساجد، مزاروں اور درس گاہوں کو قرآنی خطاطی سے سجا کر آموزگان خطاطی کو مختلف مکاتب مہیا کیے وہاں پہلی صدی ہجری، چھٹی صدی عیسوی سے ہی مسلمانوں کا اسلام کے ساتھ لگاؤ اور خطاطی کے ساتھ محبت کا ثبوت یہ بھی ہے کہ آج ہر مسلم گھرانے میں کسی نہ کسی خطاط کا لکھا ہوا مطبوعہ یا غیر مطبوعہ قرآن کریم موجود ہے، جس کی ہر طرز حیران کن ہے۔
اسلامی خطاطی ساتویں صدی عیسوی کے وسط میں اور ہجرت کے 30 سال بعد شروع ہو گئی۔ اس دور میں حضرت علیؓ خطاط تھے۔ اس طرح تمام مسلم خطاطین کا روحانی رشتہ ان سے ہے۔
کوفہ میں ابوالقاسم بلخی 723ء کے مدرسہ میں کاتبوں کی تعداد تین ہزار بتائی جاتی ہے۔ ایک عوامی نصاب ابن التوام سے منسوب ہے جس کے مطابق بچوں کے معاملے میں اپنا فرض ادا کرنے کے بارے والدین کو لازم ہے کہ وہ انہیں تیراکی، ریاضی اور کتابت سکھائیں۔ مسلمانوں کے قائم کردہ ابتدائی مدرسوں میں نہ صرف اچھے کاتب سامنے آئے بلکہ انہی کاتبوں اور خطاطوں کی وجہ سے بہت بڑے کتب خانے وجود میں آئے۔ ہر بڑے کتب خانے میں سیکڑوں کی تعداد میں کاتب موجود رہتے جو نہ صرف کتابوں میں اضافے کا سبب بنتے بلکہ ان کے بہت سے شاگرد انہی کتب خانوں سے تحصیل علم کرتے۔ مسلم فن خطاطی کی نمو میں اسلامی جذبہ کار فرما ہے۔ اسلام میں تعلیم کا مقصد ہے خدا کو جاننا اور اس کی تعریف کرنا، دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس کی تعریف کرنا۔
کاغذ کی ایجاد سے مسلمانوں نے 750ء میں اس فن کو اور بھی وسعت دی۔ اس طرح خطاطی کے ذریعے تعلیم کو مزید پھیلایا گیا اور دوسری صدی ہجری اور آٹھویں صدی عیسوی میں خطاطی مسلم دنیا میں عام ہو گئی اور اس کے مختلف سکول وجود میں آئے۔ پہلی صدی ہجری کی تحریریں گو جمالیاتی اعتبار سے اتنی خوبصورت نہیں لیکن موجودہ رسم الخطوط کی بنیاد تھیں۔ مختلف ممالک میں تمام بڑے خطاطوں کے پاس ہمہ وقت کافی شاگرد جمع رہتے جو ان کے کام کو آگے بڑھاتے۔ ابن خلدون کے مطابق ''مصری خطاطوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جہاں ان کے خط بے حد پاکیزہ ہوتے ہیں وہاں بعض اساتذہ خوش نویسی بھی سکھاتے ہیں اور ہر حرف کی مخصوص وضع کے قوانین و ضوابط بتاتے ہیں اور خود اپنے شاگردوں کو بنا بنا کر دکھاتے ہیں۔ جس سے اس علم کی قدرومنزلت کا پتہ چلتا ہے۔ قاہرہ میں بعض اساتذہ لوگوں کو خوش نویسی کے اصول و قوانین سکھاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہترین کاتب ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے اور یہ فن وہ علمی قوانین و اصول کے ذریعے حاصل کرتے ہیں اس لیے انہیں بہترین خوش نویسی آ جاتی ہے۔‘‘
ایک اچھے خطاط کے لیے قوت مشاہدہ ازحد ضروری ہے، اسی قوت مشاہدہ سے حروف کے قالب کو اپنے دماغ میں اتار کر ویسا ہی بنانے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ ان حروف کا نقشہ اس کے دماغ میں ہے۔ اسلام سے قبل بھی مختلف ملکوں اور شہروں میں خطاطی سکھانے کے مراکز قائم تھے مگر اسلام کے بعد خطاطی کی تعلیم کے لیے مدرسوں، خانقاہوں میں اس کے سکھانے کا رواج ہوا۔
عربوں میں سب سے پہلے جس شخص نے اس فن کو پیشے کے طور پر اپنایا وہ وادی القریٰ کا باشندہ تھا جس نے علاقے میں لوگوں کو قرأت اور کتابت کی تعلیم دینی شروع کی۔
اسلام کی فتوحات کے ساتھ ساتھ فن خطاطی نے بھی ترقی کی منازل طے کیں۔ ہارون الرشید کے زمانے میں بیت الحکمہ میں علان الشعوی الواقدی، محمد بن سعید، عیسائی طبیب حنین بن اسحاق، آزرق محمد بن الحسن بن دینا الحافظ عبدالوہاب اور (''الجہشیاری‘‘ کے کاتب امام شافعی کے بھائی) احمد بن عبدوسی موجود تھے۔
خطاطی سکھانے کا کام ترکی، عراق، مصر، اندلس، برصغیر پاک و ہند اور ایران میں بڑے عروج پر رہا اور یہاں خطاط اجرت پر کام کرتے تھے۔ شیخ زین الدین شعبان بن داؤد و الاماری نے سب سے پہلے خطاطوں کے لیے اجازہ یا سند کا رواج ڈالا۔ شعبان کے ہم عصر عراقی خطاطوں میں محمود الثنائی، صالح آفندی سلامی (موصل) فضل اللہ آفندی اور محمد سعید النوری قابل ذکر ہیں۔
ایک اچھے طالب علم کی قوت مشاہدہ اتنی ہونی چاہیے کہ وہ خوبصورتی اور بدصورتی کو ممیز کر سکے۔ ابن خلدون ایسی خطاطی کے سخت خلاف ہے جو ایک خاص مقصد یا معنی پیش کرتی ہو وہ اسی خط کو ترجیح دیتا ہے جو اسلام کے قریبی دور میں تھا۔ ابن خلدون نے یہ نہیں بتایا کہ اس فن کو کیسے سیکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے کتاب آداب املا و الاستملا جو عبدالکریم ابن محمد السمعیانی نے مرتب کی، سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ یہ کتاب خاص طور پر اس لحاظ سے اہم ہے کہ ایک تو یہ بارہویں صدی عیسوی میں لکھی گئی۔ سمعیانی کی وفات کے وقت فن خطاطی عالم اسلام میں بام عروج پر تھا۔ اس کی کتاب کا ناصحانہ انداز اس کی دوسری خوبی ہے۔ مصنف اس میں اپنے آپ کو ایک طالب علم ظاہر کرتا ہے۔ یوں آموزگان خطاطی اس ناصحانہ انداز السمعیانی کا نقطہ نظر آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔ کاغذ، قلم، سیاہی کے انتخاب کے بارے نصیحت کے بعد وہ اچھے خطاط کی خوبیاں بتاتا ہے۔ حروف کے بارے میں اس کی رائے ہے کہ وہ جلی ہونے چاہئیں نہ کہ خفی۔ السمعیانی کے مطابق اچھا خطاط وہ ہے جس کا لکھا ہوا واضح اور صاف ہو اور پڑھا جا سکے۔ السمعیانی نے ہر حرف کے بارے میں ہدایات اشکال کی مدد سے دی ہیں حتیٰ کہ اس نے نقاط کی اہمیت کے بارے میں بھی بتایا ہے۔
ابن بطوطہ نے جو حالات قلم بند کیے ہیں ان کے مطابق کتابت کا استاد الگ اور قرأت کا استاد الگ ہوتا تھا۔ کتابت کا استاد طلبا کو شاعری اور دوسری چیزوں سے تعلیم میں مدد دیتا تھا۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ قرآن اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کتابت نہیں سکھائی جاتی، اس کا ایک مخصوص معیار ہے اور جس طرح دوسرے فنون سکھائے جاتے ہیں اسی طرح قرأت اور کتابت کی تعلیم کے لیے خاص استاد ہوتے ہیں۔