کانسی دور کے جنگجو !
اسپیشل فیچر
ہم اس زمانے کا ذکر کر رہے ہیں جب بقول ساحر لدھیانوی
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے
کے مصداق انسان واقعی تہذیبی ترقی اور انسانی اقدار سے ناواقف تھا،زندہ رہنے میں مدد دینے والی چند معمولی اشیاء کے حصول کی خاطر جنگیں لڑتا رہا، بے رحمانہ انداز میں خون کی ندیاں بہاتا رہا لیکن پھر بھی کہلاتا تو انسان ہی تھا۔وہ ایک دوسرے کے خون کی پیاسی نسلیں کئی برس تک ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتی تھیں۔یہ ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے تھے جس میں فن حرب میں مہارت حاصل نہ کرنے والے کی ضرورت نہ تھی۔اس دورکی ان باشندوں کو ''جنگی نسل ‘‘ قرا ردیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ''مارشل فنون ‘‘ کو ترقی دینے میں ان کے کردار کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔انہوں نے ہی منظم مارشل ثقافت کی تشکیل میں مدد دی اور معاشرے کو خالصتاََ فوجی طرز پر استوار کیا۔ایک دوسرے کے خون سے ہولی کھیلنے کے لئے اعلیٰ ہتھیاروں کے ڈھیر تھے ۔لکڑی، پتھراور کانسی سے بنے ہوئے ہتھیار ان کے جنگی ذخیرے میں شامل تھے۔ مخالف کو موقع پر ہی ڈھیر کرنے کے لئے پتھروں اورلکڑی کوتراش خراش کر تیز دھار بناتے تھے، بالکل بلیڈ کی مانند۔ان کے تیار کردہ تیز ہتھیار کئی سو برس تک استعمال ہوئے۔
یہ باشندے اس قدر وحشی تھے کہ اپنے مرنے والوں کی آخری رسومات کے وقت بھی ''ہتھیاروں‘‘ کی نمائش رسماََ کی جاتی تھی۔ورنہ آخری رسومات نامکمل رہتی تھیں۔یہی نہیں ، ہتھیار ان کے خزانے کا اہم حصہ ہوتے تھے ۔ جوہانس ملر (Johannes Müller) کی تحقیق کے مطابق 1500قبل از مسیح میں ان کی آبادی 1.3 کروڑ سے1.4کروڑ تک ہو سکتی ہے۔نئی زمینوں پر کاشت کاری کے ساتھ ساتھ یہ باشندے ڈنمارک سے اٹلی تک پھیل گئے تھے۔
3ہزار برس زمانہ کانسی میں لڑی جانے والی جنگیں اس حوالے سے خاص شہرت کی حامل تھیں۔خاص طور پرشمالی جرمنی میں دریائے ٹولینسی (Tollense)کے ساحلوں پر آباد ہزار ہا جنگجوئوں کو کوئی کام نہ تھا آپس میں الجھنے کے سوا۔امن و امان نام کی شے ان کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتی تھی۔حال ہی میں جرمنی کی اس دلدلی دریائی مٹی میں ملنے والے 3ہزاربرس پرانے ڈھانچے انہی باشندوں کے ہیں محققین کے مطابق ' ' یہ ہڈیاں اپنے تجارتی راستوں اور اشیاء کی حفاظت میں مارے جانے والے جنگجوئوں کی ہیں۔ماہرین ان کی نسل کا پتہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہڈیوں کی بہت زیادہ تعداد کے پیش نظر وہ یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہاں تاریخ کی ایک بڑی جنگ لڑی گئی تھی۔ انہوں نے ایک او ردلچسپ راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگجو دودھ کے ہرگز شوقین نہ تھے، ہڈیوں میں دودھ میں پائے جانے والے کیمیکلز کی مقدار نہایت ہی کم ہونے کے باعث ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگجو ''دودھ پیتے بچے نہ تھے‘‘!
کیونکہ ان کی ہڈیوں میں دودھ میں پائے جانے والے کیمیکلز کی کمی تھی یا پھر ان کا جسم دودھ کو ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، دونوں میں سے کوئی ایک بات تو تھی۔
14ڈھانچوں پر تجربات کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ مرکزی یورپ کی نسل سے تعلق رکھتے تھے ،یہ علاقے اب جرمنی ، پولینڈ اور چیک ری پبلک کہلاتے ہیں۔چونکہ تمام ڈھانچوں کا تعلق ایک ہی نسل سے ہے، لہٰذا سائنسدان حیران ہیں کہ ایک ہی جگہ سے تعلق رکھنے کے باوجود یہ لوگ آپس میں اس قدر دست و گریباں کیوں رہتے تھے۔ کیوں؟ سائنس دانوں کو نہیں معلوم۔ (Johannes Gutenberg University of Mainz) کے محقق جوشین برگر(Joachim Burger) نے مایوسی کے عالم میں کہا کہ '' ہمیں بہت امید تھی کہ ہم ان کی حریف نسل یا لوگ بھی ڈھونڈ لیں گے،ان سے مختلف پس منظر رکھنے والے گروپ کے باشندے، لیکن افسوس کہ ناکامی ہوئی۔اس ناکامی نے ہمیں بے حد بور کیا‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ '' مزید تعجب خیز بات یہ ہے ان جنگوئوں کے 14میں سے 2 ڈھانچے عورتوں کے ہیں یعنی اس زمانے میں خواتین بھی فوج کا حصہ ہوا کرتی تھیں؟اس سے تو تحقیق پیچیدہ رخ اختیار کر گئی ہے، مزید کچھ نہیں کہہ سکتے ‘‘۔
حال ہی میں جریدے ''سیل بائیولوجی‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کا حیران کن پہلو یہی ہے کہ کسی ایک کے ہڈی میں بھی دودھ کے ذریعے ہونے والاجینیاتی تغیئر نہیں پایا گیا ۔جبکہ دودھ میں شکر کا جزو یورپی باشندوں میں عام پایا جاتا ہے۔حالانکہ جرمنی میں 500قبل از مسیح سے 1000میں بھی ہڈیوں میں یہ جز پایا گیاتھا۔لگ بھگ 2ہزار برس قبل یعنی کوئی ایک سو نسلوں میں اس کا سراغ نہیں ملا۔برگر کا کہنا ہے کہ ''یورپ میں 8ہزار برس قبل کاشت کاری کا آغاز ہوا۔ان میں بھی دودھ کی شکر کی کمی تھی۔زرعی ترقی اورکھیتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ نسل بڑھتی چلی گئی۔حالانکہ پتھر کے زمانے میں بھی یورپی باشندوں میں دودھ میں پائی جانے والی شکراور پنیر ی کمی ہرگز نہ تھی، وہ دہی بنانا بھی جانتے تھے۔ اور یہ لوگ دودھ کی شکر کو ہضم بھی کر سکتے تھے۔بعد میں کیا ہوا ،ہم نہیں جانتے‘‘۔
دریائے ٹولینسی کے ساحلی علاقوں میں ملنے والے ڈھانچے 6ہزار برس پرانے بھی ہیں، لیکن یہ باشندے ان علاقوں سے پہنچے تھے جو اب روس اور یوکرائن کا حصہ ہیں۔