سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی اسلامی خدمات
اسپیشل فیچر
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ جہد مسلسل اور ایک وژن کا نام ہے۔انہوں نے مخلوق خداکو اپنی طرف نہیں بلکہ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی طرف بلایا ہے۔ ان کی زندگی کا مطالعہ کریں توایک ہی درس ملتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے پیغام سے آپ سب سے پہلے اپنے دل کو منور کریں۔ اور پھر سارے جہان میں اس نور کو پھیلادیں۔ مولانا مودودیؒ نے بے پناہ علمی کام کیا اور قریباََ ہر اہم موضوع پر دلائل و براہین سے ثابت کیا کہ انسانیت کی رہنمائی کتاب اللہ اور سنت رسولﷺمیں ہے ۔ انہوں نے معیشت اور سیاست پر بھی بات کی اور سماجیات پر بھی کتب تحریر کیں۔ سودکی ممانعت اور پردے کی افادیت پر ان کی کتابیں ایک علمی خزانہ ہیں ۔ سید مودودیؒ نے اپنی اس فکر کو پھیلانے اور دیے سے دیا جلانے کے لیے جماعت اسلامی کی صورت میں ایک منظم جماعت قائم کی۔ دنیا میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ ایک آدمی مفکر ،مدبر اور مفسر بھی ہو، دانشور اور فلسفی ہو، محدث اور ادیب ہواوراس نے کوئی سیاسی جماعت بھی بنائی ہو۔ لیکن دنیا بھر میں شاید سید ابوالاعلیٰ موددی ؒہی وہ واحدشخصیت ہیں، جنھوں نے جماعت اسلامی کی شکل میں ایک سیاسی تحریک کو اٹھایا۔ اس سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں انہیں جیل بھی جانا پڑا،بہت سارے لوگ جیل میں جاتے ہیں لیکن قید کے ایام کو انسانیت کی راہنمائی اور بھلائی کا ذریعہ بنا نا شاید سید مولانا مودودیؒ کی قسمت میں لکھاتھا کہ وہ جیل میں گئے تو وہاں انہوں نے تفہیم القرآن جیسی شہرہ آفاق تفسیر لکھ کر نئی نسل کو ایک ایسا تحفہ د یاجس کی نظیر کم ہی ملے گی۔ تفہیم القرآن نے بلاشبہ لاکھوں نوجوانوں کو کفر و الحاد کے پھیلائے ہوئے جال سے بچا کر مومنانہ زندگی کا خوگر بنا دیا۔مولانا مودودیؒ نے سب سے زیادہ ہمارے زمانے کو متاثر کیا،خصوصاً نوجوانوں اور طلبہ کوانہوں نے اپنے لٹریچر کے ذریعہ بے حدمتاثر کیا۔ان کااصل ہدف بھی نئی نسل کی رہنمائی اور انہیں زمانے کی چکا چوند سے بچانااور اسلام کو اپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بنا کر ایک جہد مسلسل کیلئے تیا ر کرنا تھا وہ نوجوانوں کو دین کے خادم بنانا چاہتے تھے ۔ میرے خیال میں مولانا مودودیؒ کی صلاحیتیں اس زمانے میں اللہ رب العزت کا خصوصی انعام اور احسان تھیں۔سید مودودیؒ نے خود کو20 صدی کے ایک مصلح، مبلغ اور داعی کے طور پر منوایا، اپنی تعلیمات کو آنے والے ہر زمانے کیلئے روشنی کا ذریعہ بنایا، سید مودودیؒ حضرت شاہ ولی اللہؒ ، حضرت مجدد الف ثانیؒ، شاہ عبدالقادر جیلانی ، حضرت علی ہجویریؒ کاہی تسلسل ہیں،ہر زمانے میں ایسے لوگ موجود رہنا چاہئیں جو لوگوں کی صحیح رہنمائی کرنے کا فریضہ سرانجام دیں، ہمارے زمانے میں مولانا مودودیؒ سے خیر کا یہ کام لیا گیاہے۔
مولانا مودودیؒ اس لحاظ سے کامیاب ٹھہرے کہ وہ ایک نظریاتی شخصیت اور اسلام کے ایک کامیاب مبلغ اور داعی تھے۔کامیاب مبلغ وہی ہوتا ہے جو اپنی تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو اپنے موقف پرقائل کرتا اوراپنے نظریہ کو غالب کرتا ہے، اگرچہ سید مودودیؒ نے خود کبھی حکومت کی نہ سرکاری ایوانوں میں گئے، لیکن ان کی کوششوں سے دین کو بحیثیت ایک نظام زندگی سیاست، معیشت اور تعلیم سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں داخل کردیا ،انہوں نے عقلی دلائل سے ثابت کیا کہ زندگی کے تمام مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے،آج ساری دنیا میں اس فکر کو غلبہ حاصل ہورہا ہے، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ ممالک جن میں اسلام کا نام لینا مشکل تھا، اب وہاں کی نئی نسل کے ہاتھوں میں قرآن نظر آتا ہے اورجگہ جگہ مساجد ہیں جن میں نوجوان بہت زیادہ تعداد میں اللہ کے حضور سربسجودنظرآتے ہیں۔یہ نوجوان ہر جگہ اسلامی انقلاب کے علمبردار بنے ہوئے ہیں، اس طرح کسی زمانے میں اسلام کاجو تصور مسجد کے کونے تک محدود تھا اب وہ بازاروں، حکومتی ایوانوں، عدالتوں اوردفاتر میں چلتا پھرتا اورآگے بڑھتا نظر آئے گا۔الحمدللہ! اسلام کے نور کی کرنیں دنیا بھرمیں پھیل رہی ہیں جس سے کفر کا اندھیرا چھٹ رہا ہے، اسلام ہر جگہ پھلتا پھولتا نظر آرہا ہے،بلاشبہ یہ عالمی اسلامی تحریکوں کی بہت بڑی کامیابی ہے جس میں مولانا مودودیؒ ، سیدقطب شہید ؒ اور سید حسن البنا شہید ؒ کی فکر کارفرما ہے ۔
سید مودودی ؒ نے جس عہد میں علمی و فکری جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنے افکار پیش کرنے کے لیے قلمی میدان چنا وہ کٹھن دور تھا۔ ایک طرف مغربی تہذیب کی بالادستی اور جادو سر چڑھ کر بول رہاتھا جس نے مسلمانوں کو سحر زدہ کر رکھاتھا اور شکست خوردگی کی کیفیت سے مسلمان دوچار تھے اور دوسری طرف الحاد ، دہریت ، اباحیت سے دین و ایمان کو خطرات لاحق تھے ۔ ایک ایسے فرد کی ضرورت تھی جو جدیدو قدیم پر نظر رکھتاہو اور پورے اعتماد سے مغربی افکار کا منہ توڑ جواب دے سکے ۔ ایسے میں سید مودودی ؒ کی شخصیت ابھرتی ہے اور امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔
سید مودودی ؒ کی 41ویں برسی پرمیں پاکستانی عوام اور کارکنان جماعت کو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان جس نظریے کی بنیاد پر بنا ہے ، وہ ہے لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ﷺ، پاکستان مدینہ منورہ کے بعددنیا میں دوسری نظریاتی ریاست ہے ،یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑاانعام ہے جواس نے عالم اسلام کو دیاہے ۔ اگر ہم سب مل کر پاکستان کو اُس تصور کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں جو تصور علامہ اقبالؒ، قائداعظم محمد جناحؒ ، مولاناشبیر احمد عثمانی ؒاور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا تھاتو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی اور پاکستان واقعی اپنے مقصد قیام کو پورا کرسکے گا۔ اگر ہم پاکستان کو ایک روشن ،اورمستحکم پاکستان بنالیں جو جہالت، غربت، مہنگائی اور بیروزگاری اور ہر طرح کے استحصال سے پاک ہو، تو ہم وہ پاکستان بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کا خواب علامہ اقبال ؒ نے دیکھا تھا جس کی تعبیرقائد اعظم ؒ نے لکھی تھی اورجس کی تعمیرسید مودودیؒ کرنا چاہتے تھے۔ یہی اسلامی و خوشحال پاکستان کا ایجنڈاہے جو ہم نے قوم کو دیا ہے ۔
آج کے دور میں مولانا مودودی ؒ کی فکر کی روشنی میں امت کے بکھرے شیرازہ کو اکٹھا کرنے کے لیے اتحاد امت ، نظام ریاست میں غلبہ دین کے لیے طاقت کی بجائے دعوت و تبلیغ ، ذہنی و فکری اصلاح اور افکار کی تطہیر کے ذریعے پرامن سیاسی ، جمہوری ، آئینی جدوجہد کے ذریعے قیادت و نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے ۔ عالمی استعماری قوتیں ناکام ہو رہی ہیں ۔ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہورہاہے ، اسلامی تحریکوں پر اگرچہ ابتلاو آزمائش کا دور ہے لیکن یہ امر نوشتۂ دیوار ہے کہ مستقبل کا نظام قرآن وسنت کی تعلیمات اور
مسلمانوں کی بیدار قیادت سے وابستہ ہے ۔ نام نہاد ترقی پسندی اور فلسفہ اشتراکیت ڈوب گیا ،اب سیکولرازم ، روشن خیالی ، مادر پدر فکری آزادی کی بجائے دینی اور نظریاتی بنیادوں پر ان تحریروں اور نگارشات پر بدلتے حالات کی حقیقت کو تسلیم کرلیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو ملی تعمیر کے لیے صحیح رخ پر استعمال کریں ۔