’’جونا گڑھ فیملی‘‘ کی 2 ریاستیں اور ان کا انجام
اسپیشل فیچر
گزشتہ دنوں نواب آف جوناگڑھ نواب محمد جہانگیر خان جی کی ایک پریس کانفرنس نے اقوام عالم کے سامنے کئی سوالات رکھے ہیں، جن میں اہم ترین سوال یہی ہے کہ ''کیا کوئی ملک دو عالمی معاملات کو دو متضاد طریقوں سے حل کر سکتا ہے یا نہیں ؟‘‘ ۔
نواب جہانگیر خان جی نے کہا کہ انڈیا نے ایک طریقہ کار مقبوضہ کشمیر میں اختیارکیا۔ جب مہا راجہ ہری سنگھ کے کہنے پر مقبوضہ کشمیر کو انڈیا میں ضم کرلیاگیا۔جبکہ جوناگڑھ کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا تھا جسے انڈیا نے مسترد کر دیا۔ انڈین حکمرانوں نے یہ دلیل دی کہ جونا گڑھ کی 80 فیصد آبادی ہندو ہے، مسلمان نواب ہندوئوں کی قسمت کا فیصلہ کیسے کرسکتا ہے ؟۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان نواب ہندوئوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتا تو ہندو راجہ مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کیسے کرسکتا ہے؟
انڈینزکہتے ہیں کہ انڈیا ہمیشہ سے تھا اور یہ تمام ریاستیں انڈیا کا ہی حصہ تھیں لہٰذاوہ کسی تقسیم کے حامی ہیں نہ نواب آف جونا گڑھ کو مانتے ہیں۔اس میں کتنی صداقت ہے اور کتنا جھوٹ ؟ سچ کی تلاش کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزکیا لکھ چکے ہیں، کیونکہ نفرت ، آگ اور خون کے ابلتے ہوئے یہ دریاان کے ہی بنائے ہوئے تو ہیں!
1895ء میں انڈین سٹیٹس کے حوالے سے جربا چندرا چکرورتی(Jadba Chandra Chakrabarti) کی تحقیقی کتاب کا ٹائٹل ہے، ''The Native States Of India‘‘۔ 2016ء میں یہ کتاب دوبارہ شائع ہوئی ، ہندو مصنف رقم طراز ہے ،
'' انگلش گیزیٹئرز اور مذکورہ کتاب کی اشاعت کا مقصد ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی ''Native States‘‘ اور ان کے قیام پربحث کرنا ہے، ہم کوئی نئی معلومات نہیں لکھ رہے بلکہ رقبہ جات، افواج، کرنسی اور محل و وقوع کے بارے میں دستیاب مواد کو یکجا کرر ہے ہیں۔ انڈین براعظم کسی بھی دور میں ایک ملک کے طور پر قائم نہیں رہا۔ہم نے وید کے زمانے کی تاریخ بھی الٹ پلٹ کرکے دیکھ لی، متحدہ ملک ہونے کا کوئی سراغ نہیں ملا ۔ محمودغزنوی دور سے انڈین راستوں میں اتحاد قائم ہوتانظر آ رہا ہے ورنہ ہر دور میں الگ الگ حکمرانی کے شواہد ملے ہیں۔ہمیں مہا بھارتا میں کوروس (Kurus) اور پنداواس (Pandavas) کے مابین جنگ و جدل کے قصے میں تو پڑھنے کو ملے لیکن انڈیا ایک ملک تھا، اس بارے میں ایک لفظ نہ مل سکا۔ وسیع و عریض انڈیامیں آزاد ریاستوں کے چیفس (راجوں ، مہاراجوں یا نوابوں) کی الگ حاکمیت قائم تھی۔یہ بھی ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ آریائی قوم کے پہلے جتھے کی آمد سے لے کر 11ویں صدی میں مسلمان فاتح قطب الدین ایبک کے دلی میں ا پنا تخت شاہی قائم کرنے تک انڈیا کے کسی ایک حصے پر بھی بیرونی قوم کی حاکمیت قائم نہ تھی۔قطب الدین دور میں ہندو پہلی مرتبہ بیرونی فاتح کی رعایا بنے۔ بعد ازاں 1206ء سے 1707ء تک مغلوں، پٹھانوں اور افغانوں نے انڈیا پر حکومت کی۔ اگرچہ غیر انڈین مذہب سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے 500برس تک انڈیا پر حکمرانی کی۔'ہندو، مسلمانوں اتحاد‘ کے باوجود جنگجو راجپوتوں نے اپنی ریاستیں قائم رکھیں‘‘۔
مصنف لکھتا ہے کہ '' سینکڑوں ریاستوں میں سے 50 بڑی جبکہ دیگر چھوٹی تھیں۔ نظام آف حیدر آبادکے محصولات 4کروڑ اور کاٹھیا واڑکی ایک ریاست کے محصولات 500روپے تھے تمام ' نیٹیو سٹیٹس ‘ کا رقبہ 6 لاکھ مربع میل اور آبادی5کروڑ تھی۔ 5252 بندوقیں، 9390 توپخانے کے فوجی، 64172گھڑ سوار اور 241062پیادہ سپاہی تھے ‘‘۔
انگریزوں کی ایک رپورٹ کے مطابق، انڈیا 562 ریاستوں پر مشتمل تھا۔کاٹھیا واڑ میں اسلامی دور میں بھی راجپوتوں اور مسلمانوں کی متعدد ریاستوں نے الگ تشخص برقرا رکھا تھا جبکہ انگریزوں کی آمد کے بعد وہ خراج دے کر کچھ حد تک آزادی برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔
ان میں جونا گڑھ ایک طاقتور ریاست تھی لیکن اس کی طاقت اتنی بھی زیادہ نہ تھی۔
تاریخٰ طور پر دیکھا جائے تو کاٹھیا واڑ کے علاقے میں 1472ء تک '' چورا ساما سلطنت ‘‘ (Chudasama Dynasty) بھی قائم تھی ۔ 1473ء میں احمد آباد کے سلطان محمد بیڑا (Bedha) نے اس ریاست کو فتح کر لیا۔ شہنشاہ اکبر کے دور میں یہ علاقہ ''صوبہ آف احمد آباد‘‘ میں شامل گیا، اوروہاں کا نظام حکومت دربار دہلی سے شاہی فرمان کے ذریعے چلایا جانے لگا۔ 1735ء میں جب مغل بادشاہت کا ستارہ غروب ہورہا تھا، صوبہ احمد آباد کے ایک فوجی افسر محمد مہابت خان خانجی (عرف شیر خان بابی) نے مغل گورنر کو برطرف کر کے جونا گڑھ کانظم و نسق سنبھال لیا۔ سیاسی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوناگڑھ کے دوسرے نواب نے اپنے چھوٹے بیٹے کو 1740میں ''بنت وا‘‘ (Bantwa) کے نام سے ایک الگ 'ریاست‘ بنوا دی تھی۔کاٹھیا واڑ کی سورتھ ڈسٹرکٹ (Sorath District) میں واقع اس ریاست کا رقبہ 221مربع میل اور آبادی 38536 نفوس تھی۔محصولاتی آمدنی 4.50 لاکھ روپے جبکہ کپاس اور گنا خاص پیدوار تھیں۔ کھڈیوں کی بہتات تھی۔فوج محض 171جوانوں پر مشتمل تھی لہٰذا آزادی برقرا رکھنے کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی کو 29640روپے خراج دینے میں عافیت جانی۔ 1807ء میں ہونے والے معاہدے کے مطابق مذکورہ ریاست کا تحفظ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذمہ تھا۔
3337مربع میل پر محیط جونا گڑھ کلیدی حیثیت کی حامل ریاست تھی۔جنوب اور جنوب مغرب میں بحیرہ ہند اور دیگر تینوں اطراف سے انڈیا میں گھری ہوئی تھی۔ اس ریاست کا کراچی سے فاصلہ 500کلومیٹر اور 1941ء کی مردم شمار کے مطابق آبادی 670719 نفوس تھی۔جونا گڑھ اور بنت وا ریاست کے حکمران خاندان کا ٹائٹل ''بابی ‘‘ (Babi) یا (Babai)تھا۔ انہوں نے رعایا کی حفاظت کے لئے قلعے بنائے ،جن کی باقیات آج بھی انڈین محکمہ آثار قدیمہ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔
1947ء میں نواب آف جونا گڑھ نے بھی پاکستان سے الحاق کی خواہش کا ظہار کیا تھا جس کی تکمیل کے لئے 1947ء کے آغاز میں دیوان آف جونا گڑھ (وزیر اعظم) عبدالقادر محمد حسین نے کراچی کے رہنما سر شاہنواز بھٹو کو جونا گڑھ بلا لیا۔ نواب نے پاکستان میں شمولیت کی جانب پہلا قدم اٹھاتے ہوئے انہیں 'سٹیٹ کونسل آف منسٹرز‘ میں شامل کرنے کے بعد دیوان (وزیر اعظم )کے عہدے پر تعینات کر دیا۔ مئی 1947ء میں عبدالقادر محمد حسین نے لندن کی راہ لی۔ نواب آف جونا گڑھ نے انڈیا کی جانب سے بھیجا گیا ''انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘‘ سائن کرنے سے انکار کرتے ہوئے 13 ستمبر 1947ء کو پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا ۔ بعدازاں جونا گڑھ میں انڈیا نے ہندوئوں کو بغاوت پر اکسایا اور مقبوضہ کشمیر جیسا رویہ اختیار کرتے ہوئے قبضہ کر لیا۔ یوں نواب آف جونا گڑھ فیملی کی دونوں ریاستیں ہڑپ کر لی گئیں۔