ہم 43فیصد کام عادتاََ کیوں کرتے ہیں؟
حال ہی میں انسانی عادات پر شائع ہونے والی ایک بڑی تحقیق میں حیرت انگیز باتیں ہمارے سامنے آئی ہیں ۔ ماہر نفسیات نے عادات پر جاری کردہ تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ '' مجموعی طور پرہر انسان دن بھر میں 43فیصد کام بلا ضرورت یاعادتاََ کرتا ہے‘‘۔ ماہرنے انکشاف کیا ہے کہ ''انسانی دماغ دن بھر میں لاکھوں فیصلے کرتا ہے،علی الصبح نیندسے بیداری کے بعد سے دماغ اپنے طور پر کام کرتا رہتا ہے۔ پلک جھپکنے کے دوران بھی کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو رہا ہوتا ہے۔کتنے بجے بستر سے نکلنا ہے ، فوری طور پریا دو چار منٹ کی تاخیر سے ، کب چائے پینی ہے ، ابھی یا کچھ ٹھہر کے، ماں کو آواز دینی ہے یا بہن کو یا پھر کسی اور کو۔ پہلے بیڈ ٹی لینی ہے یا واش روم کی صفائی کی بات کرنی ہے ۔ان سب باتوں کے بارے میں ہر فرد کی کچھ عادات پختہ ہوجاتی ہیں جن سے پیچھا چھڑانا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ عادت ہے کون سی۔ مثلاََ....چائے کی طلب نہیں ہے لیکن یہ عادت کا حصہ بن چکی ہے، بستر سے تو خود ہی نکلنا ہے لیکن کسی کو آواز دے کر خوامخواہ کوئی نہ کوئی بات کرنا عادت کا حصہ ہے ،کیا کریں آواز تو دیناپڑے گی۔ہم کیسے چلتے ہیں بات کیسے کرتے ہیں،کھڑے ہوتے وقت خوامخواہ کسی کرسی ،میز یا سیڑھی کا سہارا لیتے ہیں یا نہیں ....یہ اور ایسی بے شمار حرکات ہماری عادات کا حصہ ہیں جو ہمارا دماغ سرانجام دیتا رہتا ہے‘‘۔
ایک طبی جریدے میں مصنف اپنے مضمون ''Studies Shows 1 Brain Hack Can Stop Addiction Cold‘‘ میں لکھتا ہے کہ
'' اور جب ہم اپنی حرکات پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دھیان ''قوت ارادی ‘‘ (Will Power)پر مرکوز ہو جاتا ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ اپنی قوت ارادی کی مدد سے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں ،بڑی سے بڑی ذہنی مشکل پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔اسی قوت ارادی کی مدد سے ہم پورے جسم میں ہلچل پیدا کر سکتے ہیں ، یہ سب ہمارا خیال ہے۔ مگر یہ قوت ارادی کیاہے؟جسے ہم اس قدر مانتے ہیں۔ایک محقق خود سے سوال کرتا ہے ..'' کیا قوت ارادی کوئی ایسی چیز ہے کہ اگر ہم شربت کا ایک گلاس پینا چاہتے ہیں لیکن دوسرے کی طلب ہے تو دوسرے گلاس کو ہاتھ میں لینے کے باوجود واپس میز پرواپس رکھ دیتے ہیں ، یااگر بلا کا سگریٹ نوش ڈبی پر یہ پڑھ لیتا ہے کہ ''سگریٹ نوشی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے‘‘وہ اس سے بچنے سے پہلے سگریٹ سلگاتے ہی سوچتا ہے کہ ''میں سیگریٹ کبھی نہیں پیئوں گا‘‘ اور سلگتا ہواسگریٹ ایش بورڈ میں مسل دیتا ہے ‘کیا ایسا قوت ارادی کا مظہر ہے؟۔
اس سوال کا جواب سننے کے لئے ہمیں سائیکاٹرسٹ اورماہر ایڈکشن جڈسن بریور (Judson Brewer) کی تحقیق پڑھنا پڑے گی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''قوت ارادی بہت ہی گمراہ تصور ہے، اگرچہ یہ ہماری سوچ کا حصہ بن چکی ہے،لیکن اس کی جامع نیورو سائنٹیفک بنیاد نہیں مل سکی، نیورو سائنس کے مطابق قوت ارادی کا کوئی وجود نہیں ہے، اعصابی سائنس کے ماہرین بھی اس کی موجودگی کو ثابت نہیں کر سکے‘‘۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوت ارادی کسے کہتے ہیں؟دراصل کسی بھی کام کو نہ کرنے کے لئے جب ہم خود پر قابو پاتے ہیں تو اسے عمومی طور پر قوت ارادی کہا جاتا ہے۔جیسا کہ غصے یا کسی خواہش یا جذبے پر قابو پانایالڑائی سے بچنا ۔پی ایچ ڈی ڈاکٹرکیلے میکوگونیکل (Kelly Macgonigal) اپنی کتاب ''دی ول پاور انسٹنکٹ‘‘ (The willpower Instinct) میں لکھتے ہیں کہ ''کسی بھی جذبے یا خواہش پر قابو پانے کے لئے دماغ اور جسم کی مشترکہ کوشش کو ول پاور کہا جاتا ہے‘‘۔ان کے مطابق کوئی کام کرنے یا نہ کرنے سے متعلق اندرونی کش مکش کو قوت ارادی کہا جاتا ہے۔
بریور برائون یونیورسٹی کے شعبہ ''سکول آف میڈیسن‘‘ کے ڈائریکٹرکے علاوہ ڈیجیٹل ہیلتھ سروس مہیا کرنے والے اداروں کے اسی شعبے کے سربراہ بھی ہیں۔انہوں نے اپنی مارچ میں شائع ہونے والی کتاب ''اینگزائیٹی کے راز فاش‘‘ (Unwinding Anxiety) میں اس کے کئی پہلوئوں پر نئے زاویے سے روشنی ڈالی ہے۔بقول بریور''ضبط نفس ‘‘ (سیلف کنٹرول )ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ‘‘۔ بریور کی نظر میں''کسی عادت سے بچنے کا''ضبط نفسی‘‘ سے برا طریقہ ہو ہی نہیں سکتا‘‘ یعنی سیلف کنٹرول اچھی چیز نہیں ہے اس سے دماغ میں منفی کیفیت جنم لے سکتی ہے۔وہ کہتے ہیں ''جسے ہم قوت ارادی کہتے ہیں وہ دراصل کسی بھی کام کے فائدے یا نقصان جاننے کا عمل ہے۔ دماغ ہر عمل کے فائدے اور نقصانات پر لمحہ بھر میں غور کرنے کے بعدا س کو چننے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے‘‘۔
ان کے مطابق ''یہ نظام پیدائشی (Built-in) اور قدیم (Primitive) ہوتا ہے۔ دماغ زیادہ فائدے والے کام کوترجیح دیتا ہے‘‘۔یوں آپ خود بھی فائدے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی بھی عادت کو بدل سکتے ہیں۔آپ خود بھی جائزہ لے سکتے ہیں کہ اگر کوئی بہت زیادہ خوش خوراک یا چین سموکر ہے،یا اسے ہر وقت وسوسوں میں مبتلا رہنے کی عادت ہے ،خوامخواہ پریشان رہتا ہے،تو وہ اپنی عادت کے فائدے پر غور کرنے کے بعد ہی اس سے بچ سکتا ہے۔ متواترفائدے کا سوچ کر، کوئی بھی عمل دہرانے سے بری یا نقصاندہ عادت سے بچاجا سکتا ہے ۔اس میں قوت ارادی کہاں سے آگئی!
ماہرین کہتے ہیں''عادت متعدی (Contagious) نوعیت کی ہے، کہ کسی بھی کام کو جب آپ کرتے ہیں تو مزید کرنے کو جی چاہتا ہے۔پھر یہی عادت میں ڈھل جاتی ہے۔اسی طرح کسی بھی کام کو نہ کرنے کی عادت بھی بنائی جا سکتی ہے۔کسی بھی کام کو دہرانے سے اس کا ردعمل بھی خودکار ہو جاتا ہے۔ اور اگر آپ کسی بھی عادت کو بدلنا چاہتے ہیں تو ''انعام ‘‘(Reward Value) کو بڑھا دیجئے یعنی خود کو بتایئے کہ ''فلاں کام نہ کرنے سے مجھے پہلے ''اتنا‘‘ فائدہ ہونا تھا اب ''اتنا اضافی‘‘ فائدہ ہو گا‘‘، اسے ''ریوارڈ ویلیو کو اپ ڈیٹ کرنا‘‘بھی کہتے ہیں۔ریوارڈ سسٹم کے باعث ہم اکثر کام عادتاََ کرتے ہیں۔کوئی کام نہ کرنے کے فائدے سوچ کر ہم اپنی عادت کو بدل بھی سکتے ہیں۔