دنیا کا سب سےبڑا جنگل ’’ایمیزون‘‘، اس میں آج بھی 400 سے زائد قبائل آباد ہیں

دنیا کا سب سےبڑا جنگل ’’ایمیزون‘‘، اس میں آج بھی 400 سے زائد قبائل آباد ہیں

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

ماہرین ارضیات کے مطابق انسانی ارتقاء کا عمل لاکھوں برسوں پر محیط ہے ۔اس دوران آبادی بڑھتی گئی اور جنگل سکڑتے چلے گئے ۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ اب تو جنگلات میں کمی تشویش ناک ہو چکی ہے ۔ایمیزون ، جنوبی امریکہ میں واقع دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے ۔یہ یونانی زبان کا لفظ ہے جسکے لفظی معنی ''جنگجو عورت‘‘کے ہیں ۔
جس کے بیچوں بیچ دریائے ایمیزون بہتا ہے جو بہاؤ اور حجم کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اور لمبائی کے لحاظ سے دریائے نیل کے بعد دنیا کا دوسرابڑا دریا ہے۔اس جنگل کا رقبہ 55 لاکھ مربع کلو میٹر ہے جو براعظم جنوبی امریکہ کے20 فیصد رقبے کو گھیرے ہوئے ہے ۔ اس کا رقبہ آسٹریلیاکے برابر ہے ، 7 ممالک اس جنگل میں سما سکتے ہیں ۔یہ جنگل9 ممالک تک پھیلا ہوا ہے ۔اس جنگل کا 60 فیصد حصہ برازیل میں واقع ہے۔دیگر ممالک میں کولمبیا ، پیرو، وینز ویلا ، ایکواڈر، بولیویا ، گیانا، سرینام اور فرانسیسی گیانا شامل ہیں۔
دنیا کا عظیم دوا خانہ : عام طور پر جنگلوں کی دو اقسام ہوتی ہیں، بارانی یا برساتی اور دوسرا کاشت کردہ جنگل ۔ حیات کی بقاء کیلئے جنگل کسی نعمت سے کم نہیں اسی لئے جنگلات کو ''زمین کے پھیپھڑے ز ‘‘بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جنگلات آکسیجن کا سب سے مؤثر ذریعہ ہیں ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی 28فیصد آکسیجن برساتی جنگلوں کی مرہون منت ہے ۔ 40 سے 75 فیصد تک حیات برساتی جنگلات میں رہتی ہے ۔ منطقہ حارہ کے برساتی جنگلات ''زمین کا زیور‘‘ اور دنیاکا''عظیم ترین دواخانہ‘ کہلاتے ہیں کیونکہ قدرتی ادویات بڑی تعداد میں یہاں کی جڑی بوٹیوں کی مرہون منت ہیں ۔جنگلات ہماری روزمرہ ضروریات کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی مضبوط کرتے ہیں ۔یہ جنگلات ہی ہیں جو بہت سارے انسانوں (اور جانوروں ) کو گوشت مہیا کرتے ہیں ۔جنگلات سے حاصل کی گئی لکڑی ایندھن کے ساتھ ساتھ فرنیچر کاغذ ، اور تعمیراتی صنعتوں کیلئے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔
جنگل کا کم سے کم رقبہ :عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں جنگلات کا رقبہ اس کے کل رقبے کے کم از کم 25 فیصد کے برابر ہونا ضروری ہے ۔جبکہ روس میں اس کے رقبے کے تناسب سے20 فیصد ،برازیل کے 12 فیصد اور کینیڈا کے9 فیصد حصے پر جنگلات پھیلے ہوئے ہیں ۔یہ تینوں ممالک دنیا میں بالتر تیب پہلے ، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آتے ہیں ۔بدقسمتی سے پاکستان کے کل رقبے کے صرف 4 فیصد حصے پر جنگلات قائم ہیں ۔
ہم تو ایمیزون کے 10فیصد حصے سے واقف ہیں : درحقیقت یہ کرہء ارض پر قدرت کا ایک عظیم شاہکار اور عجوبہ بھی ہے ۔اس کا ایک ثبوت تو یہ بھی ہے کہ جدید سائنسی دور میں بھی ابھی تک اسے مکمل طور پر دریافت نہیں کیا جا سکا۔ بقول ماہرین حیاتیات ''اس جنگل کا دس فیصد حصہ ہی دریافت کیا جا سکاہے‘‘ ۔ یہ جنگل کم اور ایک ''الگ دنیا‘‘زیادہ ہے جس میں حشرات الارض ، چرند ، پرند اور جانور پناہ لئے ہوئے ہیں ۔کیا جنگل کی یہ عظمت کا مظہر نہیں کہ ہمہ وقت کروڑوں جانداروں کی خوراک ، پانی اور جڑی بوٹیوں کے ذریعے دوا بھی مہیاکرتا ہے ۔ ماہرین حیاتیات کے مطابق یہ جنگل حشرات الارض کی 25لاکھ اقسام لاکھوں نباتات، پرندوں اور ممالیہ کی دوہزار اقسام کا گھر ہے ۔تحقیق کے مطابق اب تک 40ہزار پودوں ،تین ہزار مچھلیوں ،13 سو کے لگ بھگ پرندوں ، چار سو ستائیس ممالیہ اور جل تھیلی کے ساتھ ساتھ 380 کے قریب رینگنے والے جانوروں کی اقسام دریافت کی جا سکی ہیں ۔بعض ماہرین نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ دریافت شدہ جانوروں ، حشرات الارض اور چرند پرند کی40 فیصد سے زائد اقسام کا تعلق ایمیزون سے ہے ۔ ایمیزون میں 60 فیصد جاندار ایسے ہیں جن کی ابھی تک صحیح شناخت ہی نہیں ہو سکی۔یہاں کی مکڑیاں اتنی بڑی اور طاقت ور ہیں کہ پرندوں تک کو دبوچ لیتی ہیں ۔اسکے علاوہ یہاں ایسے زہریلے حشرات الارض بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی انسان کو کاٹ لیں تو چند سیکنڈ کے اندراندر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔ 30 ہزار اقسام کے پھل اس عظیم جنگل میں پائے جاتے ہیں ۔
سیاح چار سال جنگل میں بھٹکتا رہا!:اس جنگل کی وسعت اور گھنے پن کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آپ ایمیزون میں ہوں اور بارش برسنے لگے تو بارہ منٹ تک بارش کا پانی آپ تک نہیں پہنچ پائے گا ۔ گھنے درختوں کی وجہ سے کئی حصوں میں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی ، دن میں بھی رات کا گمان ہوتا ہے ۔ 2013ء میں ایک کینیڈین سیاح اس جنگل میں راستہ بھٹک جانے کے باعث چار سال بعد اپنے گھر واپس پہنچاتھا ۔
معیشت کا اہم ستون :ایمیزون جنگل براعظم جنوبی امریکہ کی معیشت کا اہم ستون تصور کیا جاتا ہے ۔ خطہ ایمیزون سے بہت سی اشیاء دنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہیں جن میں سرفہرست مویشیوں کا گوشت ، کھالیں ، لکڑی، سویا ، تیل و گیس ، معدنیات اور قیمتی جڑی بوٹیاں شامل ہیں ۔ ماہرین معاشیات کے مطابق پورے براعظم کے جی ڈی پی کا 70 فیصد حصہ ایمیزون کے یہ جنگلات مہیا کرتے ہیں ۔اور کثیر تعداد کی برآمدات کے باعث اس خطے کی فی کس آمدن میں خاطر خواہ اضافہ انہی جنگلات کے سبب بتایا جاتا ہے ۔
ایمیزون جنگل خطرات کی زد میں :ہمارے آرام و آسائش میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن ایمیزون کے جنگلوں میں صدیوں سے آباد قبائل ابھی تک پرانے رسم ورواج کو گلے لگائے ہوئے ہیں جن کا جدید دور سے کوئی رابطہ نہیں ہے، ایک اندازے کے مطابق یہاں چار سو سے زائد جنگلی قبائل آباد ہیں جنکی آبادی کا تخمینہ 45لاکھ لگایا جاتا ہے ۔یہ لوگ اکیسویں صدی میں بھی جنگلی انداز میں زندگی گزار رہے ہیں ۔دوسری طرف مشینی دور شروع ہونے کے باعث دنیا کے اس سب سے بڑے جنگل کا رقبہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ہائیپر لوپ ٹیکنالوجی

ہائیپر لوپ ٹیکنالوجی

ذرائع ابلاغ انسانی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔زمانہ قدیم میں نقل و حرکت بہت سست تھی اسی وجہ سے ترقی کی منازل بھی سستی روی کا شکار رہی۔ جوں جوں آمدورفت میں تیزی آئی گئی اور لوگ مہینوں کا سفر دنوں میں ، دنوں میں طے ہونے والا فاصلہ گھنٹوں میں اور گھنٹوں کاسفر منٹوں میں طے کرنے لگے تو فاصلے سمٹنے لگے ، دنیا ایک گلوبل ویلیج بن کر رہ گئی۔سات سمندر کی باتیں کتابوں کے و رقوں تک سمٹ گیا۔ برینڈز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دنیا کے پہنائووں کو ایک کلچر میں سمیٹ کر رکھ دیا۔ٹیکنالوجی میں جدت نے جہاںفاصلوں کوتوپہلے سمیٹ دیا مگر اب ہائپر لوپ کے ذرائع ابلاغ میں انقلاب برپا کرنے کے لئے تیار ہے۔ہائپر لوپ ٹیکنالوجی آنے والے وقتو ں میں انسانی زندگی پر حیران کن اثرات مرتب کرے گی۔2013ء میں ایلون مسک نے ہائپرلوپ ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجی کا تصور پیش کیا تھا۔ یہ ایک ایسی تیز رفتار نظام ہے جو مسافروں یا سامان کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک تقریباً 1200 کلومیٹر فی گھنٹہ (تقریباً 760 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے منتقل کر سکتا ہے۔یہ روایتی ریل گاڑیوں، ہوائی جہازوں اور حتیٰ کہ تیز رفتار بلٹ ٹرینوں سے بھی کئی گنا تیز ہے۔ ہائپر لوپ کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ایک کم دباؤ والی ٹیوب کے اندر کیپسول نما گاڑیوں (پوڈز) کو بجلی یا مقناطیسی قوت سے چلایا جائے، جہاں ہوا کا دباؤ اور رگڑ (friction) انتہائی کم ہو۔جہاں پر ہائپر لوپ کو دنیا کا تیز ترین سفری سہولت سمجھا جا رہا ہے اورکچھ ممالک میں اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تیاریاں بھی شروع ہوچکی ہیں۔ تیز ترین سفری سہولت میں کچھ چیلجز بھی درپیش ہیں۔ہائپر لوپ ٹیکنالوجی میں چیلنجز جدید ٹرانسپورٹیشن سسٹم ''ہائپر لوپ‘‘ کو وسیع پیمانے پر قابل عمل بنانے کیلئے کئی چیلنجز اور سائنسی مسائل کا سامنا ہے۔اس ٹیکنالوجی کو درپیش چند مسائل درج ذیل ہیں۔ایک لمبی ٹیوب میں کم دباؤ کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔ اگر ٹیوب میں کوئی رساؤ (leak) ہو جائے تو پورا نظام متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے جدید پمپنگ سسٹم اور مضبوط مواد کی ضرورت ہے۔تیز رفتار سے حرکت کرتے ہوئے کیپسول اور ٹیوب کے درمیان حرارت پیدا ہو سکتی ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے کولنگ سسٹم ضروری ہیں۔ اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو مسافروں کو کم دباؤ والی ٹیوب سے باہر نکالنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے لیے ہنگامی نظام تیار کرنا پڑے گا۔ اس ٹیکنالوجی کو بنانے کیلئے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے، کیونکہ اس میں جدید مواد، مقناطیس اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے۔ہائپر لوپ کے کامیاب ہونے سے دنیا بھر میں سفر کا وقت ڈرامائی طور پر کم ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، لاہور سے کراچی کا سفر جو اب 12 سے 15 گھنٹے لیتا ہے، ہائپر لوپ سے صرف ایک گھنٹے میں ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف وقت بچے گا بلکہ معاشی سرگرمیاں بھی بڑھیں گی۔ سائنسی تحقیق کے اعتبار سے، ہائپر لوپ نئے مواد، مقناطیسی نظاموں اور توانائی کے استعمال کے طریقوں کو ترقی دے سکتا ہے جو دیگر شعبوں میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ہائپر لوپ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو طبیعیات کے بنیادی اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے مستقبل کی نقل و حمل کو تبدیل کر سکتی ہے۔ کم دباؤ والی ٹیوب، مقناطیسی لیویٹیشن اور لکیری انڈکشن موٹر جیسے سائنسی عناصر اسے ممکن بناتے ہیں۔ اگرچہ اس کے سامنے کئی چیلنجز ہیں، لیکن اس کی کامیابی سے انسانیت کو تیز، سستا اور ماحول دوست سفر میسر ہو سکتا ہے۔ یہ ایلون مسک کا ایک انقلابی تصور ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے امتزاج سے حقیقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔توانائی اور ماحولیاتی فوائدہائپر لوپ کو سائنسی طور پر پائیدار بنانے کیلئے اسے شمسی توانائی (Solar Power) یا دیگر قابل تجدید ذرائع سے چلانے کا منصوبہ ہے۔ ٹیوب کے اوپر شمسی پینلز لگائے جا سکتے ہیں جو دن کے وقت توانائی پیدا کریں گے اور یہ توانائی بیٹریوں میں محفوظ کی جا سکتی ہے۔ چونکہ ہائپر لوپ میں رگڑ اور ہوا کی مزاحمت کم ہوتی ہے، اسے چلانے کیلئے روایتی ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں بہت کم توانائی درکار ہوتی ہے۔ماحولیاتی اعتبار سے یہ ٹیکنالوجی کاربن کے اخراج (Carbon Emissions)کو کم کر سکتی ہے کیونکہ یہ ایندھن جلانے کے بجائے بجلی پر چلتی ہے۔ اگر بجلی قابل تجدید ذرائع سے آئے تو یہ صفر اخراج (Zero Emission)نظام بن سکتا ہے۔اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں ہائپرلوپ ٹیکالوجی سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے بھارت ، سعودی عرب، متحدہ امارات، چائنہ ،اٹلی اور کنیڈاکی حکومتیں اس ہائپر لوپ ٹیکنالوجی کو اپنے ملکوں کی عوام کو سفری سہولت کیلئے شروع کرنے کیلئے مختلف کمپنیوں سے معاہدے کرچکے ہیں اور کئی جگہوں پر اس کیلئے کام کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔

گھوڑے اور بھی ہیں

گھوڑے اور بھی ہیں

گھوڑا اس کرۂ ارض کے قدیم ترین جانوروں میں سے ایک ہے۔ماہرین کا قیاس ہے کہ گھوڑوں کا ارتقائی عمل لگ بھگ پانچ کروڑ سال پہلے عمل میں آچکا تھا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے سب سے پہلی نسل کے گھوڑوں کا سائز ایک عام سائز کے بکرے کے برابر ہوا کرتا تھا۔ زمانۂ قدیم میں چونکہ جانور پالنے کا رواج ابھی شروع نہیں ہوا تھا اس لئے گھوڑوں کا شمار بھی عام طور پر جنگلی جانوروں میں ہوتا تھا۔ سب سے پہلے گھوڑے گھر پر پالنے کا رواج 4000قبل مسیح کے آس پاس ہوا تھا۔گھوڑا صدیوں سے ایک اہم جانور اس لئے بھی چلا آ رہا ہے کہ یہ ایک تیز رفتار اور پر وقار سواری کے ساتھ ساتھ ایک عرصہ تک جنگوں کا اہم جزو ہوا کرتا تھا۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جنگ جیتنے کا بہت حد تک دارومدار گھوڑوں پر ہوا کرتا تھا۔ پونی گھوڑےاگرچہ اس کرۂ ارض پر گھوڑوں کی انگنت اقسام پائی جاتی ہیں لیکن جو قسم ابتدائی گھوڑوں کے قریب ترین ہے وہ ''پونی گھوڑوں‘‘ کی ہے۔انہیں عرف عام میں چھوٹا گھوڑا بھی کہا جاتا ہے۔ گھوڑوں کی پیمائش ''ہاتھوں‘‘ کے حساب سے کی جاتی ہے، اس گھوڑے کا سائز تقریباً 14.2 ہاتھ یا 58 انچ اونچا ہوتا ہے جبکہ پونی کا اوسط سائز 8 ہاتھ یعنی تقریباً 32 انچ ہوتا ہے۔پونی ، عام گھوڑوں سے سائز میں تو چھوٹے ہوتے ہیں، ان کے جسم پر بال عام گھوڑوں کی نسبت زیادہ گھنے ہوتے ہیں ، خاص طور پر گردن اور دم پر۔البتہ ان کی ٹانگیں چھوٹی، منہ چوڑے، گردن موٹی، پیشانی کشادہ ہوتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان کا جسم عام گھوڑے کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سب خشکی کے گھوڑے ہیں۔ خشکی کے علاوہ اس کرہ پر کچھ اور اقسام کے گھوڑے بھی پائے جاتے ہیں جن میں ایک ''دریائی گھوڑے‘‘ جبکہ دوسری قسم '' سمندری گھوڑوں‘‘ کی ہے۔ دریائی گھوڑے اس روئے زمین پر ہاتھی کے بعد بالحاظ جسامت دریائی گھوڑا سب سے بڑا اور دیو ہیکل جانور ہے۔ بھینسے سے مشابہت رکھنے والے اس جانور کو ماہرین ہاتھی اور گینڈے کے قبیل سے جوڑتے ہیں۔گھاس کھانے والا یہ ممالیہ جانور اس روئے زمین کے قدیم ترین جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دریائی گھوڑوں کے اجداد اس روئے زمین پر پانچ کروڑ سال پہلے بھی موجود تھے۔دریائی گھوڑے کا جسم گول مٹول،چار بڑے بڑے نوکیلے دانت ، لمبی چوڑی تھوتھنی، جسم پر چھوٹے چھوٹے بال اور ستون نما چھوٹی اور بھاری بھر کم ٹانگوں والا یہ جانور Hippopotamidae نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ جست تو نہیں لگا سکتا مگر انتہائی ڈھلوان دریائی کناروں پر یہ باآسانی چڑھ سکتا ہے۔دریائی گھوڑے کے نتھنے ، آنکھیں اور کان ، کھوپڑی کے اوپر والے حصے میں ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پانی میں چھپنے کے باوجود بھی یہ اپنا ناک ،کان اور نتھنا پانی سے باہر نکال سکتا ہے۔دریائی گھوڑوں کی اوسط عمر 40 سے 50 سال ہوتی ہے۔ جبکہ ان کا اوسط وزن 1500 کلو گرام کے لگ بھگ ہوتا ہے۔سمندر عجیب و غریب اور حیرت انگیز جانداروں کی اتنی بڑی دنیا ہے جس کا شمار ممکن ہی نہیں۔ایسی ہی ایک سمندری مخلوق جس کی شباہت بہت حد تک گھوڑے سے ملتی ہے ،اسے ''سمندری گھوڑے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا سر ٹٹو ( Pong) کی شکل کا ہوتا ہے ، اس کا جسم ٹھوس پلیٹوں اور نوک دار کانٹوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ اس کی دم سانپ کی مانند ہوتی ہے ۔ بعض علاقوں میں اسے گھڑ مچھلی کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ماہرین اس کا تعلق مچھلی کے خاندان سے بتاتے ہیں۔اس کی 32 سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔اس کا عمومی قد تو ایک فٹ سے بھی چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کی ایک قسم کا قد ایک انچ سے بھی کم ہوتا ہے۔اس کا تعلق چونکہ مچھلی کے قبیل سے ہے اور پانی کے اندر ہی رہتا ہے اس لئے دریائی گھوڑے کے برعکس یہ خشکی پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کی خوراک چھوٹے سمندری جھینگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

رمضان کے پکوان:فلیمبڈ (Flambed)چکن بریسٹ

رمضان کے پکوان:فلیمبڈ (Flambed)چکن بریسٹ

اجزاء :چکن بریسٹ دوعدد،نمک حسب ذائقہ ،ادرک لہسن پسا ہوا ایک کھانے کا چمچ ، کٹی ہوئی لال مرچ ایک کھانے کا چمچ ، اورنج جوس چارکھانے کے چمچ ،سویا سا س دوکھانے کے چمچ ،شہد ایک کھانے کا چمچ ،اولیوآئل دوکھانے کے چمچ ۔تیاری کا وقت :چالیس سے پچاس منٹ پکانے کا وقت :آٹھ سے دس منٹ مقدار:افراد تین سے چار کے لیے ترکیب :چکن بریسٹ کو صاف دھوکردس سے پندرہ منٹ کیلئے فریزرمیں رکھ دیں، پھر تیز چھری کی مددسے اس میں دونوں طرف سے گہرے کٹ لگالیں۔ پھر ان پر نمک، لال مرچ اور ادرک لہسن لگاکر آدھے گھنٹے کیلئے فریج میں رکھ دیں۔ ایک پیالے میں اورنج جوس، سویاساس اور شہد کو اجھی طرح ملاکررکھ لیں۔ فرائنگ پین میں اولیوآئل ڈال کر درمیانی آنچ پر ایک سے دومنٹ گرم کریں پھر چکن بریسٹ ڈال کر آنچ تیز کردیں۔ فرائی کرنے کے دوران جوس کا مکسچر چھڑکتے جائیں، اس وقت تھوڑی سی احتیاط رکھیں کیونکہ تیز آنچ پر جوس چھڑکنے سے شعلہ اوپر آئے گا اور یہ اس کی خاص تکنیک ہے جس کی وجہ سے چکن بریسٹ اندر تک پک جائے گا۔ چکن بریسٹ کی رنگت بدلنے پر اسے چولہے سے اتار لیں۔ باریک کٹے ہوئے پارسلے سے سجا کرگرم گرم پیش کریں۔

آج کا دن

آج کا دن

عراق :کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال1988ء میںآج کے روز عراقی شہر ہالابجا میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ اس حملے میں تقریباً 5ہزار افراد ہلاک اور10ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ حملہ عراق کے شمالی حصے میںکردوں کے خلاف کیا گیا اور اس کا ذمہ دار صدام حسین کے کزن علی حسن کو قرار دیا گیا ۔مائع ایندھن سے چلنے والا راکٹ1926ء میں امریکی سائنسدان و انجینئر روبرٹ گوڈرڈ نے مائع ایندھن سے چلنے والا راکٹ بنایا۔ یہ دنیا کا پہلا راکٹ تھا جسے مائع ایندھن سے چلایا گیا۔روبرٹ اور ان کی ٹیم نے 1926ء سے 1941ء تک 34 راکٹس کا تجربہ کیا اور وہ مطلوبہ رفتار حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ اس تجربے کو سپیس سائنس کا انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔کینسر کی روک تھام کا طریقہ دریافتہاروڈ یونیورسٹی کے سائنسی ماہرین نے انسانی جسم میں موجود کینسر کے خلیوں کو پھیلنے سے روکنے کیلئے جدید طریقہ علاج دریافت کیا۔ اسی ریسرچ کی بنیاد پر آج بھی دنیا بھر میں کینسر کے علاج پر کام ہو رہا ہے۔ اس سے قبل کینسر کے مریض کو وقتی طور پر دوائیوں کے ذریعے آرام تو مہیا کر دیا جاتا تھا لیکن کوئی باضابطہ علاج موجود نہیں تھا۔ آج کے دور میں کیموتھراپی بھی اسی ریسرچ کی جدید شکل ہے۔چائنہ میں بم دھماکے6مارچ2001میںشمالی چائنہ کے صوبہ ہیبی کے دارالحکومت سیچاروانگ میں سیریل بم دھماکے ہوئے۔ اسے چائنہ کے بدترین حادثوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ان دھماکوں کو ''جن روچاؤ دھماکوں‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ یہ سیریل دھماکے کرنے والے شخص کا نام جن روچاؤ تھا۔اس حادثے میں 108افرار ہلاک جبکہ38شدید زخمی ہوئے۔

حکایت سعدیؒ:اصلیت

حکایت سعدیؒ:اصلیت

بیان کیا جاتا ہے کہ ملک عرب میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر محفوظ ٹھکانہ بنا لیا تھا۔ وہ اپنی کمین گاہ میں بیٹھے رہتے اور جیسے ہی کوئی قافلہ ادھر سے گزرتا پہاڑ سے اتر کر اسے لوٹ لیتے۔ خلقِ خدا ان کے ہاتھوں بہت پریشان تھی۔ڈاکوؤں کا یہ ٹھکانہ کچھ ایسا محفوظ تھا کہ انھیں پکڑنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوتی تھی۔ جو بھی ان کی طرف آتا تھا، وہ دور ہی سے دیکھ کر چھپ جاتے تھے۔ جب ان کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو بادشاہ نے ایک ہوشیار جاسوس کو ان کی گرفتاری کے کام پر مقرر کیا۔ یہ جاسوس ایک جگہ چھپ گیا اور جب یہ خطرناک ڈاکو ڈاکا ڈا لنے کے لیے چلے گئے تو اس نے شاہی فوج کو خبر دے دی۔ فوج کے جوان پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر چھپ گئے۔ڈاکو ڈاکا ڈال کر واپس آئے تو لمبی تان کر سوگئے۔ ان میں سے کسی کو بھی یہ گمان نہ تھا کہ ہم موت کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ فوج کے جوانوں کو جب اطمینان ہو گیا کہ ڈاکو سوگئے ہیں تو انھوں نے سب ڈاکوؤں کو مضبوط رسیوں سے جکڑ کر بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا اور بادشاہ نے فوراً ہی حکم سنا دیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے۔ان ڈاکوؤں میں ایک نوجوان بھی تھا جس کی شکل بہت بھولی بھالی تھی۔ بادشاہ کے وزیر نے اس نوجوان کو دیکھا تو اسے اس پر بہت ترس آیا۔ اس نے سوچا، کیا ہی اچھی بات ہو جو اس نوجوان کی جان بچ جائے۔ یہ سوچ کر اس نے بادشاہ سے سفارش کی کہ حضور والا! اس نوجوان پر رحم فرمائیں اور اس کی جان بخشی کر دیں۔ ابھی تو اس نے زندگی کی چند بہاریں ہی دیکھی ہیں۔ اس کی تعلیم و تربیت کا اچھا انتظام کر دیا جائے تو امید ہے یہ ایک اچھا انسان بن جائے گا۔بادشاہ کو اپنے وزیر کی یہ بات پسند نہ آئی۔ اس نے کہا، تعلیم و تربیت سے انسان کی فطرت نہیں بدلا کرتی، یہ ڈاکوؤں کے خطرناک گروہ میں شامل تھا ۔ یہ عقلمندی نہیں کہ انسان آگ بجھائے اور انگار ے کو چھوڑ دے یا سانپ کو مارے اور سپولیے کو زندہ رہنے دے۔وزیر نے بادشاہ کی اس بات کی تائید کی اور کہا، بے شک حضور نے بجا فرمایا۔ لیکن موقع دیکھ کر ایک بار پھر نوجوان کی سفارش کی اور کہا۔ اس نوجوان کی عادتیں واقعی اچھی نہیں۔ لیکن یہ بری عادتیں اس نے برے لوگوں میں رہنے کی وجہ سے اپنائی ہیں۔ اب اچھے لوگوں کے ساتھ رہے گا تو اچھا بن جائے گا۔بادشاہ اپنے وزیر کی یہ بات سن کر خاموش ہو گیا اور وزیر نے ڈاکو نوجوان کو آزاد کر کے اس کی تعلیم و تربیت کا بہت اچھا انتظام کر دیا۔کہتے ہیں، یہ نوجوان کچھ دن تو ٹھیک رہا لیکن پھر اوباش لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا اور ایک دن نیک دل وزیر اور اس کے بیٹوں کو قتل کر کے اور اس کے گھر کا مال متاع لوٹ کر بھاگ گیا اور اسی پہاڑ کی چوٹی کو اپنا مسکن بنا لیا جس پر اس کے ساتھیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔بادشاہ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو اس نے بہت افسوس کیا اور کہا جو برے ہیں، بہترین تربیت سے بھی ان کی اصلاح نہیں ہوتی۔ اچھے سے اچھا کاریگر بھی برے لوہے سے عمدہ تلوار نہیں بنا سکتا۔ حضرت سعدیؒنے اس حکایت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بد اصل سے بھلائی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ جو لوگ اپنی خباثتوں میں پختہ ہو چکے ہیں، انتہائی کوشش اور حسن سلوک سے بھی ان کی اصلاح ممکن نہیں۔

’’اسلامو فوبیا‘‘ ایک عالمی مسئلہ

’’اسلامو فوبیا‘‘ ایک عالمی مسئلہ

وزارت مذہبی امور کا 15 مارچ کو یوم تحفظِ ناموس رسالت ﷺ کے طور پر منانے کا اعلاناسلامو فوبیا ایک سماجی اور سیاسی مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ اصطلاح ان تعصبات، خوف اور نفرت کو بیان کرتی ہے جو بعض افراد یا گروہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف مغربی دنیا میں بلکہ کئی دیگر معاشروں میں بھی موجود ہے اور وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسلامو فوبیا کے اثرات نہ صرف مسلم کمیونٹیز بلکہ مجموعی طور پر عالمی امن اور سماجی ہم آہنگی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔وزارت مذہبی امور نے 15 مارچ کو یوم تحفظِ ناموس رسالت ﷺ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔مراسلے میں پنجاب، سندھ، اسلام آباد، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیکرٹریز مذہبی امور کو توہین مذہب کا مواد روکنے کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے کی سفارشات کی گئی ہیں۔مولانا حنیف جالندھری، علامہ افضل حیدری، مفتی منیب الرحمن، پروفیسر ڈاکٹر ساجد میر اور مولانا عبدالمالک سے بھی لائحہ عمل بنا کر عوام میں آگاہی مہم چلانے کی اپیل کی گئی ہے۔ تاریخی پس منظراسلامو فوبیا سے مراد وہ غیر منطقی خوف، نفرت اور تعصب ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پایا جاتا ہے۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ اس کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں۔ صلیبی جنگوں، نوآبادیاتی نظام اور یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف مختلف بیانیے پروان چڑھے جو آج بھی کئی معاشروں میں نظر آتے ہیں۔ پاکستان نے اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کی اور 15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس سے متعلق قرارداد بھی پیش کی ، پاکستان کی پیش کردہ قرارداد میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر متعارف کروانے کی پیشکش کی گئی۔ اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کا مقصد مسلمانوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر رواداری کو فروغ دینا ہے ، پاکستان کی پیش کردہ قرارداد میں دہشت گردی کو کسی بھی مذہب اور قومیت سے منسوب نہ کرنے پر بھی زور دیا گیا۔15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کی قرارداد کو 55 ممالک کی حمایت کے ساتھ منظور کیا گیا تاہم اسلامو فوبیا سے نمٹنے کی قرارداد کی مخالفت کرنیوالے ممالک میں بھارت سر فہرست تھا جو مسلمانوں کیخلاف انتہاء پسندی، تشدد، ظلم و جبر میں نمایاں تاریخی کردار رکھتا ہے۔اسلامو فوبیا کی وجوہاتاسلامو فوبیا کے پھیلنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں سب سے نمایاں درج ذیل ہیں:٭... میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویر کشی ایک بڑی وجہ ہے۔ ٭...دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات کو اسلام سے جوڑنے کے باعث غیر مسلموں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ ٭...کئی سیاستدان اور جماعتیں اسلامو فوبیا کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ مغربی ممالک میں اسلام مخالف بیانیہ بعض سیاستدانوں کیلئے ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔٭...یورپ اور مسلم دنیا کے درمیان تاریخی تصادم، جیسے کہ صلیبی جنگیں اور سامراجی طاقتوں کے قبضے، بھی اسلامو فوبیا کے فروغ میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔٭... بعض غیر مسلم افراد اسلامی ثقافت اور رسوم و رواج کو اپنے معاشرے کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔٭... بعض انتہا پسند گروہ، جو اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں، اسلامو فوبیا کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ مغربی دنیا میں مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ان گروہوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ اثراتاسلامو فوبیا کے کئی سنگین اثرات ہوتے ہیں، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ مجموعی طور پر عالمی امن و استحکام پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔٭... بہت سے ممالک میں مسلمانوں کو تعصب، امتیازی سلوک اور جسمانی و زبانی حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔٭... اسلامو فوبیا مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان دوریاں پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔٭... بعض ممالک میں مسلمانوں کو نوکریوں، تعلیم اور دیگر مواقع میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے وہ ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔٭... اسلامو فوبیا عالمی سطح پر تنازعات کو جنم دیتا ہے اور ممالک کے درمیان تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔٭... اسلامو فوبیا کے نتیجے میں مسلمان کمیونٹیز میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے، جو ان کی روزمرہ زندگی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اقداماتاسلامو فوبیا کے خاتمے کیلئے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔تعلیم اور آگاہیاسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں حقیقی اور مثبت معلومات فراہم کی جائیں تاکہ غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔میڈیا کی ذمہ داریمیڈیا کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار رپورٹنگ کرے اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے سے گریز کرے۔ میڈیا میں مسلمانوں کے مثبت کردار کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔قانون سازیحکومتوں کو اسلامو فوبیا کے خلاف سخت قوانین بنانے چاہئیں تاکہ کسی بھی قسم کے نفرت انگیز جرائم کو روکا جا سکے۔بین المذاہب مکالمہمختلف مذاہب کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے مکالمے اور ثقافتی تبادلوں کو فروغ دیا جائے تاکہ غلط فہمیوں کو کم کیا جا سکے۔سوشل میڈیا کا مثبت استعمال سوشل میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں درست معلومات کی ترویج کی جائے تاکہ لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کیا جا سکے۔اگرچہ اسلامو فوبیا ایک پیچیدہ اور گہرا مسئلہ ہے، لیکن اگر مناسب اقدامات کیے جائیں تو اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ تعلیم، میڈیا، سیاسی قیادت اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے اس مسئلے کو کم کیا جا سکتا ہے، تاکہ دنیا میں باہمی احترام اور امن کو فروغ دیا جا سکے۔اسلامو فوبیا کے خاتمے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم اپنی سوچ کو وسعت دیں، دوسروں کے نظریات اور عقائد کو سمجھنے کی کوشش کریں اور غلط فہمیوں کو دور کریں تو ایک پرامن اور ہم آہنگ دنیا کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔جینواسائیڈ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں اسلاموفوبیا اب محض امتیازی سلوک نہیں رہا بلکہ باضابطہ ریاستی نظریہ بن چکا ہے اور بی جے پی نے 192 ملین مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبیا کے ذریعے پرتشدد پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔