4ممالک ...جوہمارے ایک شہر میں سما جائیں!

4ممالک ...جوہمارے ایک شہر میں سما جائیں!

اسپیشل فیچر

تحریر : سلمان بخش


''ملک‘‘ .....یہ لفظ ذہن میں آتے ہی کسی ایسی جگہ کا تصور ابھرتا ہے جس میں کئی شہراوربے شمار قصبات ہوں گے۔ دیہات ،پولیس ، تعلیم، صحت عامہ کے ادارے اور وسیع صنعتی ڈھانچہ بھی قائم ہو گا ۔ لاکھوں یا کروڑوں کی آبادی ہو گی۔ مخصوص کلچر ان کی پہچان ہو گا لیکن یہ سب کچھ ہونا کسی بھی ملک کے لئے لازمی تو نہیں،ایسے ممالک بھی ہیں جن کی آبادی چند سو سے یا چند ہزار سے زیادہ نہیں ۔زیادہ تر چھوٹے ممالک ٹروپیکل خطے میں قائم ہیں ، وہیں بنتے بگڑتے رہے۔ یورپ کی شہری ریاستوں سے لے کر دور دراز کے جزائر پر مشتمل خطے بھی ملک کی تشریح پر پورے اترتے ہیں۔ویٹی کن سٹی، مناکو اور نائورو (Nauro) ،توولو (Tavalu)، سان مارینو، لیچ ٹنسائن (Leichtenstein) ، مارشل آئی لینڈز، سینٹ کٹس اینڈ نیوس، مالدیپ اور مالٹا بھی شامل ہیں ۔ ان سب ممالک کی آبادی مل کر بھی لاہور سے کم ہے ۔
ویٹی کن سٹی :آبادی 801نفوس
نائورو: آبادی10824 نفوس
توالو : آبادی 11792نفوس
پائولو:آبادی 18ہزارنفوس
سینٹ مارینو : آبادی 34ہزارنفوس
مناکو: آبادی 39ہزارنفوس
ویٹی کن سٹی
اٹلی کے عین مرکز میں قائم دنیا کے سب سے چھوٹا ملک ''ویٹی کن سٹی‘‘ کی خصوصیت رومن کیتھلک چرچ کا صدردفتر مقام ہونا ہے 1 مربع میل سے کم ،49ہیکٹرز پر قائم ویٹی کن سٹی کی آبادی 801نفوس ہے۔تاہم اس کا اپنا بینکاری نظام، پوسٹل سسٹم ،ریڈیو سٹیشن اور اپنی کرنسی ''ویٹی کن یورو‘‘ہے۔ یورپ میں یہ کرنسی چلتی ہے، اسے سٹی سٹیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے ''سربراہ ‘‘ پوپ ہیں جو دنیا بھر میں رومن کیتھولک چرچ کا نظام چلا رہے ہیں ۔ سیکیورٹی اس لئے بڑا مسئلہ ہے کہ پوپ بچوں اور خواتین سمیت لوگوں سے ہر صورت ملنا چاہتے ہیں، سیکیورٹی کسی کو بھی ان سے ملنے سے نہیں روک سکتی اس لئے چوکس رہنا پڑتا ہے کہ کہیں اس عظیم رہنما کو کچھ ہو نہ جائے۔
اس شہری ریاست کی بنیاد چوتھی صدی عیسوی میں سینٹ پیٹرز کے مقبرے کے ساتھ چرچ کی تعمیر سے رکھ دی گئی تھی۔چرچ کی اہمیت کے باعث یہ علاقہ چوتھی صدی میں بڑا تجارتی اور مذہبی مرکز بن چکا تھا ۔ 1309ء میں پپل کورٹ کی فرانس منتقلی بھی اس کی مذہبی اہمیت کو کم نہ کر سکی۔1377ء میں مزید گرجا گھروں کی تعمیر سے ویٹی کن سٹی کی مذہبی اہمیت بڑھنے لگی، 1929ء ''معاہدہ لیٹران‘‘ (Lateran Pacts) کے ساتھ اسے الگ ملک کا درجہ مل گیا، قدیم شاہی محلات بھی ورثے میں مل گئے ۔کالیگولہ کے شاہی باغات کی الگ ہی شان ہے۔
مناکو
بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ 1 مربع میل (202ہیکٹرز) پر واقع مناکو کی ایک تہائی آبادی ارب پتی ہیں۔یعنی 1 مربع میل میں 12261ارب پتی رہتے ہیں، یہاں جائیداد خریدنا ٹیکس چوروں کے بھی بس میں نہیں۔1 مربع فٹ 2859ڈالرز سے کم میں نہیں ملے گا۔البتہ اوسط درجے کے مکانات 50 لاکھ ڈالرز میں مل سکتے ہیں۔ اسکی وجہ شہرت جوئے خانے بھی ہیں دنیا بھر کے امراء سال بھر میں جو کچھ کماتے ہیں ، ایک دن میں لٹانے کے لئے مناکو کا رخ کرتے ہیں۔ کیسینوز میں روپیہ لٹانے کے بعد دل بہلانے کوسمندری سفر تو بنتا ہے۔ یہ ملک ٹیکس چوروں کی جنت کے نام سے بھی مشہور (یا بدنام) ہے۔ یہ ملک کئی مرتبہ لوٹا گیا، کئی مرتبہ بربادی کا سامنا کرنے کے بعد آج پھر ایک جدید ریاست کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔
یہاں کے قدیم باشندے ''لگورز‘‘ (Ligures) کہلاتے ہیں جن کی باقیات ''سینٹ مارٹن گارڈنز‘‘ کے غاروں میں بھی دریافت ہوئی ہیں۔جنگلی جانوروں اور موسم کی شدت کے خلاف ''راک آف مناکو ‘‘ ان کی اچھی پناہ گاہ تھی۔
''مناکو‘‘کا یہ نام کیسے پڑا ؟اس کی کئی توجیحات بیان کی جاتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں ''مونیکوس ‘‘ نامی چٹان لگورین قبائلی کا مرکز ہوا کرتی تھی ۔مونکوس بگڑ کر مناکو بن گیا۔یونانی اس سے اختلاف کرتے ہیں وہ نام کی وجہ اپنے کلچر میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ راوی ہیں کہ مناکو کے قدیم باشندے ہیرو ''ہراکلس ‘ مونوکوس ‘‘ کے پجاری تھے، ان مؤرخین کا کہنا ہے کہ ''ہراکلس ‘‘ ہرکولیس کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔
نائورو
بحرالکاہل کے جنوب مغرب اور خط استواء سے 25میل جنوب میں ایک اور ننھا سا ملک ''نائورو‘‘ واقع ہے۔شمال مشرق میں جزائر سالومن واقع ہیں۔اس کا کوئی مرکزی دارالحکومت نہیں تاہم سرکاری دفاتر یارن (Yaren) میں قائم ہیں۔ 12مربع میل رقبے پر قائم اس ملک کی آبادی 11 ہزار ہے 18 ویں صدی میں غیر ملکی مشنریز نے 80 فیصد مقامی آبادی کو عیسائیت کا پیروکار بنا دیا تھا۔یہاں کا درجہ حرارت 80فارن ہائٹ سے اوپر خال خال ہی جاتا ہے۔ سمندری ہوائیں آب و ہوا کو معتدل اور پرکیف رکھتی ہیں۔ سال بھر میں ہونے والی تقریباََ 80انچ بارشیں حسن میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔یہی بارشی پانی چھتوں پر بنائے گئے خصوصی ٹینکوں میں جمع کر لیا جاتا ہے ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اشیائے خور و نوش کی فیکٹریاں قائم ہیں نہ پانی صاف کرنے کا انتظام ہے، پینے کا صاف پانی تک آسٹریلیا سے درآمد کیا جاتا ہے ۔ نائورو کا اپنا صنعتی ڈھانچہ قدرے کمزور ہے۔ فاسفیٹ کی کانوں کی بہتات ہے ، خام مال سستا اور فوری دستیاب ہونے کے باعث برطانیہ ، نیوزی لینڈاور آسٹریا نے کئی اقسام کی فیکٹریاں نائورو میں لگا رکھی ہیں۔
1968ء میں آزادی کے بعد آئین سازی کر لی گئی تھی، صدارتی اور پارلیمانی نظام ہائے حکومتوں کو ملا کر نیا نظام قائم کیا گیا ہے۔ پارلیمینٹ 3 برس کیلئے منتخب کی جاتی ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی برطرفی کا سبب بن سکتی ہے۔ صدر پارلیمینٹ اور حکومت کاسربراہ ہوتا ہے۔
توالو(Tuvalu)
بحرالکاہل ویسٹ سنٹرل میں قائم اس ملک کا رقبہ 420مربع میل ہے۔یکم اکتوبر 1978ء کو برطانیہ سے آزاد ہونیوالے ملک توالوکے معنی ہیں ''آٹھ اکٹھے‘‘ ۔8 جزائر پر مشتمل اس ملک کو ''ڈوبتا ہوا ملک‘‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ بعض دوسرے خطوں کی طرح توالو کا شمال مغربی اور جنوب مشرقی حصہ سمندر میں ڈوب رہا ہے۔ سائنس دانوں نے کہاہے کہ اگر اگلے 50 سے 100 برس کے اندر اندر اس ملک کا وجود مٹ جائے تو انہیں حیرت نہ ہو گی ۔درجہ حرارت بڑھنے سے زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
ہیٹ ویو کے خطرات!

ہیٹ ویو کے خطرات!

محکمہ موسمیات کے مطابق فضا میں ہائی پریشر کی موجودگی کی وجہ سے ملک کے بیشتر علاقوں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں 21 مئی سے گرمی کی لہر کی صورتحال بننے کا امکان ہے جو کہ ہفتے کے آخر تک موجود رہے گی۔ 23 سے 27 مئی کے دوران پنجاب اور سندھ میں شدید گرمی کی لہر کا امکان۔ سندھ اور پنجاب میں 21 سے 23 مئی کے دوران دن کا درجہ حرارت معمول سے 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈزیادہ اور 23 سے 27 مئی کے دوران 6 سے 8 ڈگری سینٹی گریڈزیادہ رہنے کا امکان ہے۔ اسلام آباد، خیبرپختونخوا، کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں 21 سے 27 مئی کے دوران دن کا درجہ حرارت معمول سے 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کا امکان ہے۔پاکستان میںمئی اور جون کا مہینہ شدید گرمی کیلئے جانا جاتا ہے لیکن اس بار اس کی شدت پہلے سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے اور ماہرین بھی اس سال معمول سے زیادہ حدت کا عندیہ دے رہے ہیں۔ گرمی کی لہر صرف پاکستان میں نہیں بلکہ ایشیا کے دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں ، جبکہ یورپی ممالک میں بھی درجہ حرارت میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران معمول سے خاصا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔جنوبی ایشیا کی بات کریں تو یہا ں شدید گرمی کی تازہ لہر کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جو انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی درجہ حررات میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ گرمی کی اس تازہ لہر سے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی علاقے زیادہ متاثر ہو رہا ہے اور بھارت ، بنگلہ دیش، میانمار، ویت نام اور کمبوڈیا میں بھی شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ ایشیا کے دیگر ممالک میں جاپان میں بھی گرمی کی شدت دیکھی جا رہی ہے۔ ان ممالک میں حکام نے سنگین حالات کی وارننگ جاری کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے رواں ماہ خبردار کیا تھا کہ بحرالکاہل اور مشرقی ایشیا میں تقریباً 24 کروڑ 30 لاکھ بچے گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں۔ متعدد ایشیائی ممالک میں برسات کے موسم سے پہلے عام طور پر گرم ہی ہوتے ہیں لیکن اس سال درجہ حرارت اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ کئی ممالک میں درجہ حرارت 40 ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔جنوبی ایشیا میں موسم گرما کے باقاعدہ آغاز سے قبل اس طرح کی گرمی ایک حیران کن بات قرار دی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسموں میں شدت آ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق ایشیا بھی عالمی اوسط سے زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔موسموں کی اس شدت کی وجہ سے زراعت بھی متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے ایشیا کے علاوہ دیگر خطوں میں خوراک کی کمی کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ عالمی درجہ حررات میں اضافے سے بڑھنے والی اس گرمی کی وجہ سے فصلوں اور مویشیوں کو تو خطرات لاحق ہیں لیکن ساتھ میں ایسے افراد بھی متاثر ہوں گے جن کا روزگار ان شعبوں سے وابستہ ہے۔ہیٹ ویو کن علاقوں کو متاثر کرسکتی ہے؟ماہرین موسمیات کے مطابق کراچی سمیت ملک کے بڑے شہر ہیٹ ویو کے خطرے سے دوچار ہیں مگر اب موسمیاتی تبدیلی کے نمایاں اثرات کی وجہ سے اس کا دائرہ کار دیگر شہروں ، مثلاً چھوٹے شہروں ، قصبوں اور دیہی علاقوں تک بھی پھیلنے لگا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بار ہیٹ ویو سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کو متاثر کرے گی اور یہ شمالی علاقوں تک پھیل سکتی ہے۔ہیٹ سٹروک کیا ہے، کیسے بچیں؟ہیٹ سٹروک، جسے سن سٹروک بھی کہا جاتا ہے ایک جان لیوا طبی ایمرجنسی ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب جسم اپنے درجہ حرارت کو کنٹرول نہیں کر پاتا۔ یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی شخص زیادہ دیر تک سورج کے سامنے رہتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے جسم کا درجہ حرارت 10 سے 15 منٹ کے اندر تیزی سے 106 ° F (41ڈگری سنٹی گریڈ)یا اس سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ہیٹ سٹروک کو صورت میں ہنگامی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو ہیٹ سٹروک آپ کے دماغ، دل، گردے اور پٹھوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔یہ خدا نخواستہ موت کا سبب بن سکتا ہے۔علاماتہیٹ سٹروک کی علامات درج ذیل ہیں۔انتہائی درجے کا جسمانی درجہ حرارت:جسم کا بنیادی درجہ حرارت 104 F (40 ڈگری) یا اس سے زیادہ، جو کہ تھرمامیٹر سے حاصل کیا جاتا ہے، ہیٹ سٹروک کی اہم علامت ہے۔دماغی حالت یا رویے میں تبدیلی: الجھن، اشتعال انگیزی، بولنے میں دقت، چڑ چڑا پن، دورے اور کوما سب ہیٹ سٹروک کے نتیجے میں ہو سکتے ہیں۔پسینے کے معمول میں تبدیلی: ہیٹ سٹروک میں آپ کی جلد گرم اور خشک محسوس ہوگی تاہم سخت ورزش سے آنے والے ہیٹ سٹروک میں آپ کی جلد خشک یا قدرے نم محسوس کر سکتی ہے۔متلی اور قے: آپ اپنے پیٹ میں تکلیف محسوس کر سکتے ہیں یا الٹی کر سکتے ہیں۔پھٹی ہوئی جلد: آپ کے جسم کا درجہ حرارت بڑھنے سے آپ کی جلد سرخ ہو سکتی ہے۔تیز سانس: آپ کی سانسیں تیز اور بے ترتیب ہو سکتی ہیں۔ دل کی تیز دھڑکن: آپ کی نبض میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ گرمی کا دباؤ آپ کے جسم کو ٹھنڈا کرنے میں آپ کے دل پر بہت زیادہ بوجھ ڈالتا ہے۔سر درد: آپ کا سر چکرا سکتا ہے۔احتیاط لازم ہیٹ ویو کے دنوں میں ہر اُس شخص کیلئے خصوصی احتیاط ضروری ہے جو کھلے آسمان تلے کام کرتا ہے، علاوہ ازیں موٹر سائیکل اور سائیکل سواروں کیلئے بھی احتیاط لازم ہے۔ اس طرح بچے جن کے سکولوں میں گرمی کی شدت کے پیش نظر حکومت نے چھٹیوں کا اعلان کر دیا ہے، کیلئے یقینی بنائیں کہ وہ دھوپ میں ہر گز نہ نکلیں، اسی طرح بوڑھے لوگ ، مریض یا ایسے افراد جن میں قوت برداشت کم ہے ان کیلئے بھی دھوپ میں نکلنا نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔

محلات فیروز شاہی

محلات فیروز شاہی

سلطان فیروز شاہ تغلق نے اپنے عہد میں ایک نیا شہر فیروز آباد کے نام سے آباد کیا۔ اس شہر کیلئے 18 گائوں مثلاً اندر پٹ، سرائے شیخ ملک بار، سرائے شیخ ابوبکر طوسی، کاربن، کیشواڑہ، اندولی، سرائے بلکہ رضیہ، مہرولہ اور سلطان پور وغیرہ کی زمینیں حاصل کی گئیں۔ یہ شہر پانچ کوس تک پھیلا ہوا تھا، اس میں امرا نے بھی اپنے اپنے محل بنوائے، عام لوگوں نے بھی پختہ مکانات تعمیر کرائے، مسجدیں بکثرت بنوائی گئیں، ہر مسجد میں دس دس ہزار نمازی جمع ہو سکتے تھے۔ دہلی اور فیروز آباد کے درمیان پانچ کوس کا فاصلہ تھا لیکن آنے جانے کیلئے سواریاں ہر وقت موجود رہتی تھی، جن کا کرایہ بہت سستا تھا، مثلاً گھوڑے کا کرایہ بارہ جیتل اور ڈولہ کا نیم تنکہ تھا۔اس شہر میں فیروز شاہ نے بہت سے محل بنوائے، ان میں سے محل صحن گلبن، محل چھجہ چوبیںاور محل بار عام بھی شامل ہیں۔ یہ محل درباروں کے انعقاد کے کام کیلئے تھے، زنانہ محل نہ تھے۔ فیروز شاہ کے مختلف کوشکوں کا جو جا بجا ذکر آتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کوشک فیروز آباد کو شک نردی، کوشک مہندواری، کوشک شہر حصار اور کوشک شکار نئے شہر میں بنوائے، ان کے علاوہ اس نے فتح آباد جونپور اور سالورہ میں بھی کوشکوں کی تعمیر کرائی، تعمیرات کا جتنا ذوق اس کو تھا، اس سے پہلے کے سلاطین کو نہ رہا۔ اسی لئے اس نے میر عمارت کا ایک عہدہ مقرر کر رکھا تھا، جس کو امتیازی حیثیت دینے کیلئے چوب زر عطا کیا تھا۔ اسی طرح سنگ تراشوں، چوب تراشوں، بنکروں، آرہ کشوں، چونہ پزوں اور معماروں کے علاحدہ علاحدہ عہدے مقرر تھے۔اوپر جتنے محلات کا ذکر کیا ہے وہ یا تو ختم ہو چکے ہیں یا کھنڈرات کے ڈھیر ہیں۔ اس لئے ان کے اندرونی حصوں کی تفصیل بیان کرنا سعی لاحاصل ہے، پھر بھی یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ محل کسی اونچے مقام یا دریا کے کنارے بنائے جاتے تاکہ یہ بہت ہی ہوا دار ہوں اور ان کا حسن بڑھانے کی خاطر، ان کا عکس دن کی روشنی میں اور رات کو چاندنی میں دریا کے بہتے ہوئے پانی میں پڑتا رہے۔ محل کے اندر چمن اور باغ کے علاوہ مطبخ، شرب خانہ، شمع خانہ، سگ خانہ، آب دارخانہ، فراش خانہ، جام دار خانہ، پوشاک خانہ، غسل خانہ، خواب گاہ اور زنان خانہ وغیرہ ہوتے۔ عام طور سے محل کو آراستہ پیراستہ کرکے بہشت کا نمونہ بنا دیا جاتا۔ دیواروں پر مخمل مشجر اور ریشمی کپڑے کے پردے ہوتے،جن میں جواہرات ٹکے رہتے، اندر نقرئی اور طلائی پچی کاری سے زینت و آرائش کی جاتی اور وہاں اسلحہ، زریں ہتھیار، قندیل، شمع دان، قالین، آفتابے، قلم دان، بساط اور کتابوں کی الماریاں ہوتیں۔ قندیلیں رات کو روشن ہوتیں تو تمام ایوان روشن ہو جاتا۔محل میں گھڑیال ضرور ہوتا، جس سے لوگوں کو ٹھیک وقت معلوم ہوتا رہتا۔ رات کے وقت محل کے ارد گرد سخت پہرہ ہوتا، پہلی گھڑی کے بعد کسی کو محل کے احاطہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی، جب تک سلطان کی اجازت نہ ہوتی۔ ایک خاص عہدہ دار رات کے سانحے قلم بند کرتا رہتا جو وہ صبح کو سلطان کی خدمت میں پیش کرتا۔وقار حرمحرم کی بیگمات کیلئے محل کے علاحدہ علاحدہ سکونتی حصے ہوتے اور ان کی خدمت کیلئے کثیر تعداد میں کنیزیں اور خواجہ سرا ہر وقت حاضر رہتے۔ ان کے رہنے کی جگہ الگ تھلگ ہوتی اور صرف وہی رشتہ دار مرد محل کے اندر آ جا سکتے تھے، جن کو سلطان کی طرف سے اجازت ملتی تھی۔اسلامی پردہ تو یہ تھا کہ عورتیں چہرہ اور ہاتھ کھول کر جلباب یا برقعہ کے ساتھ باہر نکل سکتی تھیں لیکن شاہی عزت و وقار اسی میں سمجھا جاتا کہ بیگمات پر خاص خاص رشتہ داروں کے علاوہ کسی اور مرد کی نظر نہ پڑے، ان ہی کی تقلید میں عام عورتیں بھی گھر کی چار دیواری میں رہنے لگیں۔شوکت کا مظاہرہبیگمات کی تہذیبی شان و شوکت کا اظہار محل کے اندر تقریبات کے موقع پر ہوا کرتا تھا۔ وہ صحنوں میں بڑے بڑے سائبان اور خیمے کھڑے کراتی تھیں۔ اس کے نیچے طرح طرح کے عمدہ فرش بچھواتیں، جن پر دیبامنڈھا ہوتا اور جواہرات بھی ٹنکے رہتے۔ ابن بطوطہ کا بیان ہے کہ محمد تغلق کی تاج پوشی کے موقع پر محل کے اندر جو جشن منایا گیا تو اس کی ماں مخدومہ جہاں ایک سونے کے تخت پر بیٹھی ہوئی تھی اور محل اور امراء کی بیگمات زرق برق پوشاک میں ملبوس اور زیورات سے لدی ہوتی تھیں۔ اس موقع پر اتنی چمک دمک تھی کہ اس کی چکا چوند سے مخدومہ جہاں کی بینائی جاتی رہی اور ہر طرح کے علاج کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا۔ تقریبات کے موقع پر بیگمات جو مراسم ادا کرتی تھیں، اس کا ذکر تقریبات میں آئے گا۔نذرانےمحل کے اندر جو عورت بیگمات سے ملنے کو جاتی تو اس کے ساتھ مختلف قسم کی نوازشیں کی جاتیں، مثلاً ابن بطوطہ کی بیوی محمد تغلق کی ماں سے ملنے کو گئی تو اس کو ایک ہزار روپے سونے کے جڑائو کڑے اور ہار، زردوزی کتان کے کرتے، زردوزی ریشم کا خلعت اور کپڑے کے کئی تھان دیئے گئے، جو عورتیں مہمان بن کر جاتیں وہ بھی اپنے ساتھ طرح طرح کے نذرانے لے جاتیں، ابن بطوطہ کی بیوی نذرانے میں ایک ترکی لونڈی لے گئی تھی۔محل کے عہدہ دار محل کے اندر آنے جانے میں بڑی سختی تھی، محل کا کلید بردار وکیل درکہلاتا، جس پر کوئی معزز درباری ہی مامور کیا جاتا اور اسی کی اجازت سے محل کا دروازہ کھلتا، وہ بیگمات شہزادوں، باورچی خانہ، شراب خانہ وغیرہ کا نگران اعلان ہوتا، بیگمات اور شہزادے اسی کے ذریعہ سے سلطان کی خدمت میں مصروضات پیش کرتے، اسی لئے وہ بڑا بااثر اور بااقتدار عہدہ دار سمجھا جاتا، اس کے ماتحت نائب وکیل در اور بہت سے ملازم ہوتے۔ محل کے مختلف دروازوں پر پہرہ دار ہوتے، پہرہ داروں کے افسر کو پردہ دار کہا جاتا، اس عہدہ پر بھی امرا ہی مامور کئے جاتے، شاہی محل کے دروازہ پر کوئی واقعہ ہو جاتا تومتصدی اس کی بھی تفصیل لکھ لیتے، سلطان رات کے وقت ان تمام اندراجات کو روزانہ پڑھتا۔

آج کا دن

آج کا دن

''Legion of Honour‘‘ کا آغاز1802ء میں 19مئی کو فرانسیسی شہنشاہ اور فوجی کمانڈر نپولین بونا پارٹ نے ''نیشنل آرڈر آف دی لیجن آف آنر‘‘ (National Order of the Legion of Honour)کی بنیاد رکھی۔ اسے ''پہلے رائل آرڈر آف دی لیجن آف آنر‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ یہ فرانسیسی اعزازات میں سب سے بڑااعزازہے، جو فوجی اور سول دونوں کیلئے ہے۔ نپولین بوناپارٹ کے بعد آنے والی تمام فرانسیسی حکومتوں اور نظاموں نے بھی اسے برقرار رکھا ہے۔ دم دار ستارہ ''ہیلی‘‘ کا زمین کے قریب سے گزر19مئی 1910ء کو ہیلی نام کا دم دار ستارہ زمین کے قریب ترین پہنچا۔ یہ دم دار ستارہ آخری بار 1986ء میں زمین کے قریب سے گزرا تھا۔ ماہرین کے مطابق اگلی بار یہ ستارہ2061ء میں دوبارہ نمودار ہو گا۔ یہ دم دار ستارہ تقریباً ہر 76 سال بعد نمودار ہوتا ہے۔ عمومی طور پر دم دار ستارے سورج کے گرد ایک طویل بیضوی مدار میں چکر لگاتے ہیں، یہ مدار بعض اوقات اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ایک چکر کئی صدیوں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔سویز کینال اسرائیلی جہازوں کیلئے بند 1950ء میں آج کے روز مصر نے سویز کینال اسرائیلی جہازوں اور تجارت کیلئے بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔سویز کینال مصر میں ایک مصنوعی سطح سمندر آبی گزرگاہ ہے جو بحیرہ روم کو بحیرہ احمر سے جوڑتی ہے۔ 193 کلومیٹر (120میل) طویل یہ کینال یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک اہم تجارتی راستہ ہے۔خلائی مشن ''مریخ 2‘‘ کی لانچنگسوویت یونین نے 19مئی 1971ء کو اپنا خلائی مشن ''مریخ 2‘‘ کو لانچ کیا۔ یہ ایک بغیر عملے کے خلائی مشن تھا ، جس کے تحت سوویت یونین نے مریخ خلائی گاڑی اور آربیٹرز لانچ کیے۔ ''مریخ 2 ‘‘اور'' مریخ 3 مشنز‘‘ میں ایک جیسے خلائی جہاز شامل تھے، ہر ایک میں ایک آربیٹر اور ایک منسلک لینڈر(خلائی گاڑی) تھا۔ مریخ 2 کا لینڈر سطحِ مریخ تک پہنچنے والی پہلی انسانی ساختہ چیز بنی، اگرچہ لینڈنگ سسٹم ناکام ہو گیا اور لینڈر ضائع ہو گیا۔

مصر میں اہراموں کی تعمیر

مصر میں اہراموں کی تعمیر

مصر کے تین اہرام صحرا میں سینہ تانے اس طرح کھڑے ہیں جیسے تین سنتری کھڑے ہوئے پہرہ دے رہے ہیں۔ وہ یہ فرض گزشتہ تقریباً پونے پانچ ہزار سال سے ادا کر رہے ہیں۔ اتنے طویل عرصہ کے بعد بھی وقت ان کا کچھ نہ بگاڑسکا۔ یہ تینوں آج بھی اسی مضبوطی سے اپنی جگہ پرجمے ہوئے ہیں جیسے اپنی تعمیر کے وقت تھے۔ ان تینوں میں جو اہرام سب سے بڑا ہے۔ اس میں فرعون ''خوفو‘‘ کی ممی محفوظ ہے۔ خوفو کو یونانی زبان میں '' کیو پس‘‘ Cheops))کہا جاتا ہے۔ یہ عظیم اہرام قدیم دنیا کے ان سات عجائبات میں سے ایک ہے جن میں سے چھ وقت کی دستبرد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ عظیم اہرام چونے کے پتھر اورگرینائٹ کے بلاکوںسے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی تعمیر میں کم از کم بیس لاکھ پتھر کے بلاک استعمال ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کا وزن پندرہ ٹن سے بھی زائد ہے۔ اپنی بنیاد سے یہ ہرم تقریباً 147 میٹر یا 480فٹ بلند ہے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ بات بڑی حیران کن معلوم ہو گی کہ اتنے قدیم زمانے میں اس قدر بلندی پرپتھر کے 15ٹن وزنی بلاک کیسے پہنچائے جاتے تھے؟۔یہ اہرام فراعنہ مصرکی تاریخ کے قدیم بادشاہت والے دور میں چوتھے خاندان کے فراعنہ نے تعمیر کرائے تھے۔قدیم بادشاہت کا زمانہ شان و شوکت کی پانچ صدیوں پر محیط ہے۔ اس زمانے کے مصر میں زندگی کے ہر گوشہ میں ترقی ہوئی۔ خصوصاً آرٹ کو تو قابل رشک حد تک فروغ حاصل ہوا۔ مجسمہ سازی اس کمال کو پہنچی کہ بعد کے زمانے اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے۔ اہرام بھی اس زمانے میں فن تعمیر کے لحاظ سے انتہا کو پہنچے۔چوتھے خاندان کے دوسرے حکمران خوفو نے جب 2675ق م میں اپنے عظیم ہرم کی تعمیر کا آغاز کیا تواس کام پر ایک لاکھ سے زائد مزدورلگائے۔ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ ایک ایک لاکھ مزدوروں( غلاموں) کا ایک گروپ تین ماہ کیلئے کام کرتا تھا۔ ہر تین ماہ کے بعد یہ گروپ بدل جاتا۔ یوں دارالحکومت ممفس سے ہرم تک جانے والی شاہراہ کی تعمیر پر دس سال کا عرصہ لگا۔ اس کے بعد ہرم کی تعمیر میں مزید 20 سال لگے۔مصریات کی ایک جدید محقق ومورخ ڈاکٹر مارگریٹ مرے لکھتی ہیں کہ وہ تین مہینے جب معماروں کو اہرام کی تعمیر کے کام پر لگایا جاتا۔ نیل کی طغیاتی کے مہینے ہوتے تھے۔ ان مہینوں میں مصر میں کھیتوں میں زراعت کے تمام کام معطل ہو جاتے اور کاشتکار بے کار بیٹھ جاتے۔ ایسے میں خوفو نے اپنی رعایا کی بھلائی کیلئے عظیم ہرم کی تعمیر کا آغاز کیا جس سے سال کے خراب ترین مہینوں میں ایسا روزگار میسر آتا جو کھیتی باڑی سے بھی زیادہ بار آور تھا۔خوفو کی طرح اس کا جانشین''خافرا‘‘ بھی اپنی تعمیر کردہ عمارات اور اپنے ہی مجسموں کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ یہ امر بھی فرعونوں میں مشترک ہے کہ ان دونوں سے مصر کا مذہبی طبقہ یعنی پروہت بے زار تھے۔ ہیروڈوٹس کو اس کی سیاحت مصر کے دوران پروہتوں نے بتایا کہ ان دونوں فرعونوں کے عہد میں مندروں پر تالے پڑ گئے اور کسی کو دیوتائوں کی پرستش کرنے کی اجازت نہ رہی تھی۔ہیروڈوٹس نے اپنی سیاحت ہی کے دوران خافرا کے اہرام کے دروازے پرمصری زبان میں نصب ایک کتبہ دیکھا تھا جس میں لکھا تھا کہ ہرم کی تعمیر کے دوران معماروں اور مزدوروں کیلئے جو مولیاں، پیاز اور لہسن روزانہ فراہم کیا جاتا تھا اس پر سولہ سوٹیلنٹ (تقریباً اڑھائی لاکھ روپیہ) کا خرچہ اٹھتا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب صرف لہسن پر سولہ سو ٹیلنٹ چاندی کا خرچہ اٹھتا تھا تو تعمیر کے دیگر اخراجات کتنے وسیع ہوں گے۔باقی دو اہراموں کی طرح تیسرا اہرام بھی چوتھے خاندان ہی کے فرعون منکورا (Myceriuns)نے تعمیر کرایا تھا۔ ہیروڈوٹس کے بقول منکورا ایک عدل پسندفرعون تھا۔ اس نے اپنے پیش روئوں کے عہد میں بند ہو جانے والے مندروں کے دروازے کھلوا دیئے اور لوگوں کو دیوتائوں کی پرستش کی اجازت دے دی تھی۔ اس طرح وہ پروہتوں کے دل بھی جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔غزہ کے یہ تینوں اہرام آج بھی ان تینوں فرعونوں کی انمٹ یادگاروں کے طور پر باقی ہیں۔ بظاہر پتھروں کا ڈھیر نظر آنے والے یہ اہرام دراصل اس عہد میں علم ریاضی کی ترقی یافتہ صورت کے بہترین مظاہر ہیں۔ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ صرف بڑے ہرم کے پتھروں سے سارے فرانس کے گرد تین فٹ اونچی اور ایک فٹ چوڑی دیوار تیار کی جا سکتی ہے۔ صرف اس بات سے آپ کو قدیم مصری قوم کی محنت اور عظمت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔کیوپس کا ہرم مکمل طور پر مخروطی شکل کا مثلث نما چہار پہلومینار ہے۔ اس کی کسی سمت میں بھی دروازہ نہیں رکھا گیا ہے۔ اس کی سب سے نچلی منزل ایک مربع چبوترے کی مانند ہے۔ جس کا ہر ضلع 763 فٹ طویل ہے۔ اس چبوترے کی اونچائی 4 فٹ 8 انچ ہے۔ اس چبوترے پر اسی اونچائی کا ایک دوسرا چبوترا تعمیر کیا گیا ہے، جس کی لمبائی چوڑائی پہلے سے کم ہے۔ اس طرح مینار کی چوٹی تک دو سو کے قریب چبوترے مسلسل چلے گئے ہیں۔ ان چبوتروں کے بتدریج گھٹنے سے نیچے سے اوپر تک سیڑھیاں بن گئی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس بڑے اہرام میں پانچ کروڑ مکعب فٹ پتھر لگا ہے ۔820ء تک اس اہرام کی اندرونی کیفیت کسی کو معلوم نہ تھی۔ اس سال خلیفہ مامون الرشید نے مہینوں کی محنت اور بڑا کثیر سرمایہ صرف کرکے اس کو شمال کی سمت سے کھلوایا۔ جب یہ حصہ کھلا تو شگاف کے پاس ہی مامون کو اس قدر زر نقد رکھا ہوا ملا جتنا اس عظیم عمارت کو کھلوانے میں صرف ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ شاید اہرام تعمیر کرنے والے منجموں نے اپنے علم نجوم سے ہزاروں برس پہلے ہی یہ بات معلوم کر لی تھی کہ اسے فلاں سن میں فلاں بادشاہ کھلوائے گا اور اس کا کس قدر زر اس کام پر صرف ہوگا۔ شاید انہیں وہ سمت بھی معلوم تھی جس سمت سے اس اہرام کو کھولا جانا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے پہلے ہی وہ محنتانہ رکھ دیا تھا۔ ایسی ہی ایک روایت علامہ شبلی نعمانی نے اپنے سفر نامے میں رقم کی تھی کہ 593ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیٹے ملک العزیز نے بعض عاقبت اندیشوں کے مشورہ پر اس اہرام کو مسمار کرانا چاہا مگر لاکھوں روپے کے زیاں کے بعد بھی صرف اوپری سطح کو نقصان پہنچ سکا۔ مجبوراً اسے کام بند کروانا پڑا۔

ولیم کیکسٹن

ولیم کیکسٹن

انگریزی زبان دنیا کے تقریباً تمام مہذب ملکوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اسے عام کرنے میں ولیم کیکسٹن کا بڑا حصہ ہے اور اپنے وطن کیلئے یہ اس کی بہت بڑی خدمت ہے۔ وہ ایک موجد ہونے کے علاوہ ایک عالم اور ماہر تعلیم تھا۔ وہ انگلستان کا پہلا طابع کہلاتا ہے لیکن اس سے زیادہ اہم خدمت اس نے یہ انجام دی کہ انگریزی زبان و کلچر کو یورپ کے علاوہ دوسرے براعظموں تک پہنچایا۔ یہی پہلو اس کی زندگی کا سب کیلئے قابل تقلید ہے۔ مادر وطن کی اس سے زیادہ خدمت کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنی زبان اپنی ثقافت اپنی تہذیب اور اپنی روایات کی نہ صرف خود قدر کرے بلکہ انہیں دوسروں کے سامنے اس طرح پیش کرے کہ غیر بھی گرویدہ اور قدر دان بن جائیں۔ولیم کیکسٹن 1423ء میں پیدا ہوا۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں وہ ایک کمپنی میں کام سیکھنے لگا اور 1441ء میں وطن کو خیر باد کہہ کر اس نے یورپ کے دوسرے ملکوں میں کچھ وقت گزارا۔ آدمی نیک چلن اور ایماندار تھا۔ جلد ہی امیر بن گیا اور چند سال بعد اپنے وطن واپس آ گیا۔جلد ہی کیکسٹن کا شمار لندن کے ممتاز تاجروں میں ہونے لگا۔ اس کے علاوہ ایڈورڈ چہارم نے اسے یہ اعزاز بھی بخشا کہ وہ تاجروں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کیا کرے۔ برآمدی تجارت کو ترقی دے اور دوسرے ممالک میں انگلستان کی ساکھ قائم کرے۔ کئی سال تک کیکسٹن یہ خدمات انجام دیتا رہا۔ اسے دربار شاہی کا اعتماد حاصل رہا۔ اس نے ایک فرانسیسی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔اس ترجمے کے سلسلے میں 1472ء میں کیکسٹن کو کتابیں چھاپنے کے فن سے دلچسپی پیدا ہوئی اور دو سال بعد اس نے ایک شخص کی معاونت سے ایک چھاپہ خانہ قائم کیا۔ اسی پریس سے انگریزب زبان کی پہلی کتاب چھپ کر نکلی۔ یہ وہی ترجمہ تھا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔1476ء میں اس نے ایک اور کتاب طبع کی۔ یہ بھی فرانسیسی زبان سے ترجمہ کی گئی تھی۔اس کے بعد کیکسٹن نے محسوس کیا کہ طباعت علم کو عام کرنے کیلئے کتنی ضروری ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنے ہم وطنوں کو بالخصوص اور بنی نوع انسان کی بالعموم کتنی خدمت کر سکتا ہے۔ اس کا یہ جذبہ ایثار پر مبنی تھا، تجارت یا ذاتی فائدے پر نہیں۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اچھی کتابیں چھاپ کر علم اور انسانیت دونوں کی خدمت کرے گا۔رفتہ رفتہ انگلستان کے بہت سے تاجر اور شرفا بھی اس نیک کام میں کیکسٹن کے شریک ہو گئے۔ ان میں ایڈورڈ چہارم اور اس کے بعد تخت انگلستان کے دو وارثوں رچرڈ سوم اور ہنری ہفتم کے نام قابل ذکر ہیں۔ کیکسٹن کا پریس چھوٹا تھا لیکن اس نے اسے ترقی دی۔ شروع میں فرانسیسی زبان کے کچھ ترجمے چھاپے لیکن بعد میں اپنے ملک کے شاعروں کا کلام طبع کیا۔ رفتہ رفتہ اس کے پریس سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ کتابیں چھاپنے کے علاوہ ان کا ترجمہ کرنا، انہیں ترتیب دینا، غلطیاں درست کرنا اور ایسے ہی دوسرے کام بھی اسی کے ذمہ تھے۔کیکسٹن کی خواہش یہ رہی کہ اس کے پریس سے صرف ایسی کتابیں شائع ہوں جو اخلاقی اور سماجی نقطہ نظر سے بہترین ہوں۔ وہ اپنی کوششوں سے اپنی قوم کا معیار بلند کرنا چاہتا تھا اور اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی کتاب نہیں دینا چاہتا تھا جو پستی کی طرف لے جائے۔کیکسٹن کی مقبولیت اور شہرت کی وجہ سے انگلستان کے کچھ دوسرے تاجروں نے بھی طباعت کی طرف توجہ دی۔ آکسفورڈ اور دوسرے شہروں میں چھاپے خانے قائم ہونے لگے۔ ایک اور شخص لیٹو نے لندن میں ایک اچھا پریس کھولا۔ مقابلہ ہو جانے کی وجہ سے کیکسٹن نے فن طباعت کو اور بھی ترقی دی۔ کتابیں زیادہ خوبصورت چھپنے لگیں۔1481ء میں اس نے انگریزی زبان کی وہ پہلی کتاب چھاپی جس میں تصویریں بھی شامل تھیں۔ اس کا نام تھا'' دی مِرَر آف دی ورلڈ‘‘ یعنی آئینہ عالم‘‘ ظاہر ہے ایسی کتاب میں تصویریں ضروری تھیں۔اگر آپ ان ابتدائی کتابوں کو دیکھیں تو آپ کو بے اختیار ہنسی آ جائے گی کسی کتاب پر صفحوں کی تعداد نہیں ہوتی تھی۔ کسی کا املا غلط ہوتا تھا۔ ٹائٹل سرے سے ہوتا ہی نہیں تھا۔ لیکن کیکسٹن ان تکلفات کا قائل نہیں تھا۔ وہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ کتاب میں لکھا گیا ہے وہ اپنی مطبوعات میں پاکیزگی، اخلاقی اقدار سے علمی خوبیوں کا خاص لحاظ رکھتا تھا۔ اسے افسانوں سے بھی لگائو تھا اور وہ قصے کہانیوں کی کتابیں بھی شوق سے چھاپتا تھا۔آپ کو اس شخص کی محنت کا اندازہ اس حقیقت سے ہو سکتا ہے کہ ویسٹ منسٹر میں اس نے جو ایک چھوٹا سا پریس قائم کیا تھا، وہاں سے 80 سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں 21ترجمے تھے جو کیکسٹن نے خود کئے تھے۔ اس نے پرانے زمانے میں بھی اس کی کتابوں کے دو تین ایڈیشن چھپتے تھے، کیونکہ لوگ اس کے ذوق اور انتخاب کو پسند کرتے تھے اور اس کی مطبوعات کو معیاری حیثیت حاصل تھی۔کیکسٹن مرتے دم تک کام کرتا رہا۔ آخر عمر میں بھی اس نے کچھ طویل تراجم کئے اور قوم کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ یہاں ہمیں ان مشینوں سے غرض نہیں جنہیں کیکسٹن نے فن طباعت کو ترقی دینے کی غرض سے ایجاد کیا بلکہ اس کی ان خدمات کا ذکر مقصود ہے جو اس نے اپنی قوم کا اخلاق درست کرنے نیز اسے ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے سلسلے میں انجام دیں۔ وہ بالکل تنہا تھا لیکن اگر ہر شخص اپنے اپنے پیشے میں یہ عظیم مقصد اپنے سامنے رکھے تو خواہ وہ کسی بھی ملک و ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ ایک قومی خدمت انجام دے گا‘‘۔

آج کا دن

آج کا دن

''عالمی یوم عجائب گھر‘‘18مئی کو دنیا بھر میں ''عالمی یوم عجائب گھر‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کی منظوری اقوام متحدہ نے 1977ء میں ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں دی تھی جس کی سفارش عجائب گھروں کی تنظیم ''انٹرنیشنل کونسل آف میوزیم‘‘ نے کی تھی اور 1978ء سے یہ دن ہر سال باقاعدگی کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے عوام میں تہذیب اور تاریخ کے ساتھ ماضی کو محفوظ رکھنے اور اس کے مسلسل مطالعے کا شعور پیدا کرنا ہے۔وکسبرگ کا محاصرہامریکی خانہ جنگی کے دوران 18 مئی 1863ء میںوکسبرگ کا محاصرہ ایک بڑی فوجی کارروائی تھی۔ ٹینیسی کی فوج نے دریائے مسیسیپی کو عبور کیا اور کنفیڈریٹ آرمی آف مسیسیپی کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ وِکسبرگ دریائے مسیسیپی پر کنفیڈریٹ کا آخری بڑا گڑھ تھا۔اس پر قبضہ کرنے سے شمالی حکمت عملی، ایناکونڈا پلان کا دوسرا حصہ مکمل ہوا۔ چالیس دن کے بعدسامان ختم ہونے پر گیریژن نے ہتھیار ڈال دیے۔تاتاریوں کی جلاوطنیکریمیائی تاتاریوں کی جلا وطنی دراصل ایک ثقافتی نسل کشی تھی جوسوویت پولیس کی طرف سے کی گئی۔ 18مئی 1944ء کو تاتاری بچے، بوڑھوں اور خواتین کو جلاوطن کرنے کیلئے مویشی لے جانے والی ٹرینوں کا استعمال کیا گیا۔تمام لوگوں کو سوویت افواج کی سربراہی میں روانہ کیا گیا۔یہ لوگ ان نسلوں میں سے ایک تھے جو سوویت یونین میں سٹالن آبادی کی منتقلی کی پالیسی میں شامل تھے۔جلاوطنی کے دوران تقریباً دو لاکھ افرادکا قتل عام کیا گیا۔پائلٹ جیکولین کوچران کا ریکارڈ جیکولین کوچران کا شمار امریکی ریسنگ پائلٹس میں ہوتا ہے۔ جیکولین نے متعدد ریکارڈ اپنے نام کئے۔ 18 مئی 1953ء کو آواز کی رفتار کو عبور کرنے والی یہ دنیا کی پہلی خاتون پائلٹ تھیں۔ان کا شمار امریکہ کی ان خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے جنگی حالات میں بھی جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کر رکھی تھی۔جاسوس کو سزائے موتالیاہو بین شاوّل کوہن جسے عرف عام میں ایلی کوہن کہا جاتا ہے، ایک مصری نژاد اسرائیلی جاسوس تھا۔ وہ شام میں 1961ء سے 1965ء تک اپنی جاسوسی کیلئے مشہور تھا۔ جہاں اس نے شام کے سیاسی اور فوجی رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے تھے۔شامی کاؤنٹر انٹیلی جنس نے بالآخر جاسوسی کا پردہ فاش کیا اور کوہن کو اپنے قانون کے مطابق مجرم ٹھہرایا۔ اسے 18مئی 1965ء کو سزائے موت سنائی گئی اور سرعام پھانسی دی گئی۔