شہر لگتا ہے بیابان مجھے ۔۔۔۔کہیں ملتا نہیں انسان مجھے انسانیت ڈھونڈنے والا شاعر…یوسف ظفر میرا جی کیساتھ’’ حلقۂ ارباب ذوق ‘‘کی بنیاد ڈالی ، صحافت کے شعبے سے بھی وابستہ رہے
شاعری کی دنیا میں یوسف ظفر کے نام کا سکہ آج بھی چلتا ہے ، وہ منفرد مقام کیساتھ ساتھ اپنا علیٰحدہ حلقہ بھی رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ اس دنیا سے جانے سے پہلے مستقبل کے اہلِ ذوق کیلئے ''حلقۂ ارباب ذوق ‘‘کی بنیاد ڈال گئے تا کہ اہلِ ذوق متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم سے علم و ادب کی خدمت کرتے رہیں اور سیاسی ومعاشرتی نشیب و فراز پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں ۔ اردو زبان کے اس ممتاز شاعر نے یکم دسمبر 1914ء کو مری میں جنم لیا،یوسف ظفر قلمی نام جبکہ اصل نام شیخ محمد یوسف تھا ، 23جولائی1929ء کا دن یوسف ظفر صاحب کی زندگی میں انتہائی صدمے کا دن ثابت ہوا، اس دن کو شائد ہی وہ کبھی بھلا سکے ہوں کیونکہ اسی روز ان کے والد شیخ غلام رسول انتقال کا ہوا اور اسی روز انکی بڑی ہمشیرہ والد کی رحلت کا صدمہ برداشت نہ کرپائیں بے ہوش ہوئیں اور پھر خالق حقیقی سے جا ملیں یعنی 23جولائی 1929ء کو یوسف ظفر صاحب کے گھر سے دو جنازے اٹھے شائد اسی لمحے کیلئے انہوں نے یہ شعر کہا تھا کہ
پانی کو آگ کہہ کے مکر جانا چاہئے
پلکوں پہ اشک بن کے ٹھہر جانا چاہئے
اور پھر ان کا ایک اورشعر انکے جذبات کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ
شہر لگتا ہے بیابان مجھے
کہیں ملتا نہیں انسان مجھے
والد اور بڑی بہن کی اچانک وفات یوسف صاحب کیلئے غم کا پہاڑ ثابت ہوئی ، والد کے انتقال سے صرف 15سال کی عمر میں گھر کی ذمہ داری انکے ناتواں کندھوں پر آ پڑی اور بڑی بہن سے جدائی کا صدمہ انہیں اندر ہی اندر کھاتا رہا۔ انتہائی نامساعد حالات میں زندگی بسر کرنیوالے یوسف ظفرمصائب اور مشکلات کے سائے تلے جدوجہد میں مصروف رہے ، زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن اور کچھ کر دکھانے کی دھن تھی ۔ اپنے اردگرد کے حالات پر بھی گہرے نظر رکھتے تھے ، حساس طبیعت کے مالک تھے ، کسی کو کرب میں مبتلا دیکھتے تو اند ر ہی اندر کڑھتے رہتے لیکن بے بسی کو اپنے پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ دوسروں کے درد کو اپنا سمجھنے والے یوسف ظفر کا کلام بطور مثال یہاں پیش خدمت ہے کہ
میں ترا نقش قدم ہوں اے دوست
اپنے انداز سے پہچان مجھے
میں تجھے جان سمجھ بیٹھا ہوں
اپنے سائے کی طرح جان مجھے
تو کہاں ہے کہ ترے پردے میں
لیے پھرتا ہے ترا دھیان مجھے
تیری خوشبو کو صبا لائی تھی
کر گئی اور پریشان مجھے
سر و سامان دو عالم ہوں میں
کیوں کہو بے سر و سامان مجھے
میری ہستی ترا افسانہ تھی
موت نے دے دیا عنوان مجھے
دل کی دھڑکن پہ گماں ہوتا ہے
ڈھونڈھتا ہے کوئی ہر آن مجھے
میں بھی آئینہ ہوں تیرا لیکن
تو نے دیکھا کبھی حیران مجھے
ان کی نسبت کا کرشمہ ہے ظفر
کہتے ہیں یوسف کنعان مجھے
تمام تر مشکلات کو روندتے اور بچپن کی محرومیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یوسف ظفر صاحب نے 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اس امتحان میں کامیابی ان کیلئے بہت اہمیت رکھتی تھی کیونکہ عملی زندگی میں یہ کامیابی ان کیلئے پہلے پائیدان کی حیثیت رکھتی تھی اور یوسف ظفر اس پائیدان سے آگے کا سفر تیزی سے طے کرنا چاہتے تھے ، کچھ کرنا اور بننا چاہتے تھے ، محنت اور لگن کا سفر جاری رہا اور اب تو کامیابیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا ۔ ہمت نہ ہارنے کا فیصلہ تو وہ بچپن سے ہی کر چکے تھے پھر کیا تھا ایک ایک کر کے ہر کامیابی ان کا مقدر بنی اور اب زندگی ان کیلئے محرومی کا باب نہیں ایک کھلی کتاب تھی جس پر انہوں نے اپنی ادبی خدمات کی وہ تاریخ رقم کی کہ جسے ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھا اور پڑھا جائے گا ۔ اپنے بارے میں انکا اپنا شعر ملاحظہ کیجئے
ان کی محفل میں ظفر لوگ مجھے چاہتے ہیں
وہ جو کل کہتے تھے دیوانہ بھی سودائی بھی
یوسف ظفر شاعر ہونے کیساتھ ساتھ ایک اچھے صحافی،ڈرامہ نگار اور ادیب بھی تھے اپنے حال میں مست رہنے والے آدمی تھے ، زندگی کے نشیب و فراز کو بھلایا نہیں بلکہ انہیں ایک سبق کے طور پر یاد رکھا ، انکی شاعری میں ہمیں جو جذبات ، کرب اور معاشرتی ناہمواریوں کا احساس ملتا ہے یہ سب اُسی سبق کا حصہ تھا 1939ء میں میرا جی کے ساتھ حلقہ'' ارباب ذوق‘‘ کی بنیاد ڈالی اور قیام پاکستان کے بعد مشہور ادبی جریدے ''ہمایوں‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے اور اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے تک ترقی پائی۔
باتوں سے سوا ہوتی ہے کچھ وحشت دل اور
احباب پریشاں ہیں مرے طرز عمل سے
یوسف ظفر صاحب کے تخلیقی سفر سے آگہی کیلئے اردو شعر و ادب کے عہد بہ عہد ارتقاء کیلئے ان مرکزی تحریکات و رجحانات کو مدنظر رکھنا ہو گا جن سے اردو شعر و ادب کو مسلسل توانائی حاصل ہوتی رہی ، ایسی تحریکوں میں دو تو خاص طور پر اہم ہیں یعنی ترقی پسند تحریک اور تحریک حلقۂ ارباب ذوق۔ 20ویں صدی کی ابتدا ء سے ہی سیاسی، معاشرتی اور ادبی منظرنامہ بھی بدل رہا تھا۔ اس صدی کی چوتھی دہائی، ہندوستانی معاشرے میں انتشار اور افرا تفری لے کر وارد ہوئی، حالات کچھ اور سمت، کچھ اور موڑ اور رنگ اختیار کرتے جا رہے تھے۔ شعر و ادب کا ایسے معاملات میں اپنا کردار رہا ہے لہٰذا ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں نے اس زمانے میں بھی آواز بلند کی۔ یورپ کے روشن خیال اور ترقی پسند حلقوں میں فاشزم کیخلاف رد عمل ہوا۔ ہٹلر نے کئی شاعروں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو یا تو قتل کرا دیا یا جلا وطن۔ اس پس منظر میں ترقی پسند تحریک اُبھری اور شعر و ادب نئے امکانات اور ممکنات کی طرف راجع ہو گیا۔شعراء اور ادباء ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیل گئے، مشہور ہوئے اور ان سے لوگ محبت بھی کرنے لگے۔ ترقی پسندی کے تحت کسان، مزدور، دبے کچلے، مظلوم اور پرولتاری طبقات موضوعات بنے۔ اشرافیہ ادب کو بھی ایک دھچکا لگا اور محسوس ہوا کہ اب شعر و ادب زندگی کے ان مطالبات سے زیادہ قریب تر ہے جن سے روز ہی واسطہ پڑتا ہے۔ ایسی گراں باری نے نئے امکانات کی طرف رُخ کرنے کی سبیل پیدا کی۔ اور پھر حلقۂ ارباب ذوق کا قیام 1939ء میں عمل میں آیا۔ ابتدا ء میں کئی سال تک ترقی پسندوں اور حلقۂ ارباب ذوق والوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ بلکہ کئی برسوں تک ترقی پسند ادیب اور شاعر، حلقے کے جلسوں میں شریک ہوتے رہے۔ حلقۂ ارباب ذوق اور ترقی پسند مصنّفین میں ایک بنیادی اختلاف یہ تھا کہ حلقے کے ارباب ''ادب برائے ادب‘‘ کے علمبردار تھے اور ترقی پسند مصنّفین ''ادب برائے زندگی‘‘ کے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اختلاف کا دائرہ بڑھتا گیا۔
9اپریل 1939ء کو ایک معمولی سی انجمن کی داغ بیل ڈالی گئی تھی جس کا کام افسانے سننا اور سنانا تھا، پھر ان پر تفصیلی گفتگو کرنی تھی اور لوگوں کو آشنا بھی کرنا تھا۔ ابتداء میں اس کا نام ''بزم داستاں گویاں‘‘ رکھا گیا۔ اس کا پہلا جلسہ 29 اپریل 1939ء کو لاہور میں حفیظ ہوشیار پوری کی زیر صدارت ہوا ۔ اس موقع پہ نسیم حجازی نے اپنا طبع زاد افسانہ ''تلافی‘‘ سنایا ۔ شیر محمد اختر، تابش صدیقی، عبدالغنی، محمد سعید، محمد فاضل صاحبان شریک جلسہ تھے۔ اس بزم کی ہر اتوار کو کسی نہ کسی رکن کے گھر پر نشستیں ہوتیں۔ شروع میں یہ انجمن افسانے سننے سنانے پر بس کرتی رہی، بعد میں جب قیوم نظر، میرا جی، یوسف ظفر اور ن م راشد جیسے شعراء اس میں شامل ہوئے تو اس کے اغراض و مقاصد میں بھی توسیع ہوئی۔ اب صرف افسانہ نہیں بلکہ ناول کا کوئی باب، کوئی مضمون یا پھر نظمیں، غزلیں سننے سنانے کا سلسلہ بھی قائم ہوا۔ فن پاروں اورمضامین پر کھلی فضا ء میں سیر حاصل تنقیدی گفتگو ہوتی اور سامعین ان مباحث سے استفادہ کرتے۔ حفیظ ہوشیار پوری کی تحریک پر اس کے نام میں بھی تبدیلی لائی گئی۔ ان کی تجویز پر ''بزم داستاں گویاں‘‘ کا نام تبدیل کر کے ''حلقۂ ارباب ذوق‘‘ رکھا گیا۔ اب حلقے کے ارباب تخلیقی جہات کے نئے امکانات سے لوگوں کو آشنا کرنے لگے۔ اس حلقے میں ن م راشد، میرا جی، یوسف ظفر، قیوم نظر، مختار صدیقی، ضیاء جالندھری، غلام مصطفیٰ صوفی تبسم، تصدق حسین خالد، محمد دین تاثیر، حفیظ ہوشیار پوری، مخمور جالندھری، صفدر میر، الطاف گوہر وغیرہ جیسے ممتاز لوگوں کی شرکت نے اسے تقویت دی۔ اس کے ارتقائی سفر میں اختر شیرانی، اوپندر ناتھ اشک، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، سلام مچھلی شہری، شاد عارفی، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، کنہیا لال کپور، ظہیر کاشمیری، ہنس راج رہبر، رام بابو سکسینہ جیسے لوگ بھی شامل رہے۔ ''حلقۂ ارباب ذوق‘‘ کے قیام تک لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی کوئی شاخ نہیں تھی۔ لہٰذا ترقی پسند احباب حلقے کی نشستوں میں بے دریغ شامل ہوتے تھے۔ جہاں ترقی پسندوں کا زور تھا وہاں ارباب ذوق کے لوگ ان کے جلسوں میں شریک رہتے ۔
یہ تھا یوسف ظفرصاحب کا ادبی سفر اور ان کی حلقۂ ارباب ذوق کیلئے خدمات جن کو ہم نے مختصراً بیان کرنے کی کوشش کی ، ان کی سوانح عمری ''یوسف ظفر کی بات‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے جبکہ ان کے شعری مجموعوں میں ''نوائے ساز‘ عشق پیماں‘ حریم وطن‘ صدا بہ صحرا‘ زہرخند ‘‘اور'' زنداں‘‘ کے نام شامل ہیں۔ ان کی شاعری کی کلیات بھی شائع ہوچکی ہے،ان کی نثری تصنیف ''یہودیت ‘‘بھی اپنے موضوع پر لکھی گئی ایک بڑی وقیع تصنیف ہے۔ 7 مارچ 1972ء کو یہ کہنہ مشق شاعر ، صحافی اور ادیب اس دنیا سے رخصت ہوا اور انہیں راولپنڈی میں سپردِ خاک کیا گیا ۔