دنیا کی پہلی لیڈی ڈاکٹر ...مصری یا برطانوی ؟
گزشتہ دنوں کئی عالمی جرائد میں اس بات کا چرچا رہا کہ دنیا کی پہلی لیڈی ڈاکٹر کون ہے، اس کا تعلق کس ملک سے ہے ؟
کسی نے کہا کہ دنیا کی پہلی خاتون ڈاکٹر میرت پتاہ (Merit Ptah)کا تعلق مصر سے تھا، اس کا زمانہ 1080سے 1500 قبل مسیح کا بتایا جا تا تھا۔کہا جاتا ہے کہ وہ فرعون کی ''چیف فزیشن ‘‘ یعنی ہیڈ طبیب تھی۔ اس کی ممی کے ساتھ اس کے بیٹے نے بطورخاص ''شاہی ڈاکٹر‘‘ کے الفاظ کندہ کرائے تھے۔
اکثر کتابوں اور تحریروں میں اسی کا نام ملتا تھا۔حتیٰ کہ فلکیات کی عالمی تنظیم نے سیارہ زہرہ کے ایک حصے کو بھی اسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ مصر میں ''شہنشاہوں کی وادی‘‘ میں بھی ایک ڈاکٹر کا مجسمہ ملتا ہے جسے اسی کا مجسمہ سمجھا گیا۔لیکن 1938ء میں سب سے پہلے کینیڈین ماہر کیٹ کیمپ بیل نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس نام کی کوئی عورت سرے سے موجود ہی نہ تھی،اور اسے ڈاکٹر قرار دینا تاریخی غلط فہمی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ ساری غلط فہمی سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ سے شروع ہوئی تھی‘‘۔
بعد میں معلوم ہوا کہ اس نام کی ایک عورت 1930 کی دہائی میں امریکہ میں طب کے پیشے سے منسلک رہی ہے۔دیگر تحقیقات نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دنیا کی پہلی خاتون ڈاکٹر وہ عورت ہے جو برطانیہ سے امریکہ گئی اوروہیں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ جب ہم نے امریکہ میں '' جنرل میڈیکل کونسل ‘‘ (ہماری سابقہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی طرز کا ادارہ ) کا ریکارڈ چیک کیا تو اس میں ایلزبیتھ بلیک ویل کا نام نکل آیا۔اکثریت نے اسے ہی پہلی خاتون ڈاکٹر تسلیم کر لیا ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ ایلزبیتھ بلیک ویل (3فروری 1821 ء تا 31مئی 1910ء ) ہی کو اس وقت ڈاکٹر بننے کا خیال آیا جب یہ پیشہ کسی عورت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ وہ امریکہ گئی ،وہاں سے میڈیکل کی اعلیٰ ڈگری لے کر اس پیشے میں داخل ہو گئی ۔
ڈاکٹر بننے کے بعد وہ نہ صرف ''دکھی انسانیت ‘‘کے علاج معالجے میں لگ گئی بلکہ اس نے برطانیہ اور امریکہ میںخواتین کو ڈاکٹر بنانے کی مہم شروع کی۔ جس میں وہ کامیاب رہی۔ان کوششوں سے کئی ممالک میں خواتین نے طب کا پیشہ اپنایا ۔ امریکہ اور برطانیہ ، دونوں ممالک اس ایک عورت کے مرہون منت ہیں۔
ایلزبیتھ کا ڈاکٹر بننا بھی عجیب اتفاق ہے۔ ڈاکٹر بننے کاکوئی ارادہ تھا،والدین کا تعلق غریب خاندان سے تھا اسے بھی پیٹ بھرنے کے لئے عملی زندگی میں قدم رکھنا پڑا، ان دنوں سکول کی ٹیچنگ بہت عام تھی چنانچہ وہ بھی ایک سکول میں استانی لگ گئی۔18ویں صدی میں خواتین کے لئے یہی بہترین ،بلکہ واحد شعبہ سمجھا جاتا تھا۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھاکہ ایک سہیلی بیمار پڑ گئی اب وہ خاتون ڈاکٹر کی تلاش میں ماری ماری پھرنے لگی مگر گائوں تو کیا شہر میں بھی کوئی خاتون ڈاکٹر نہ تھی۔ سہیلی کی ماں مرد ڈاکٹر سے علاج کرانے کے حق میں نہیں تھی۔ان دنوں پردے کا رواج تھا، خواتین مرد ڈاکٹر سے علاج کرانے کی بجائے بیمار رہنا پسند کرتی تھیں۔ ایلزبیتھ کو احساس ہوا کہ اگر کوئی خاتون ڈاکٹر دیکھ بھال کرتی تو شائد بیماری اتنی شدید نہ ہوتی۔ان باتوں نے ایلزبیتھ کا ذہن بری طرح متاثر کیااور اس نے ڈاکٹر بننے کی ٹھان لی۔ وہ سمجھ گئی کہ منزل سکول کی ٹیچنگ نہیں بلکہ میڈیکل کالج ہے۔
لیکن ٹھہرئیے! ابھی اس کے ڈاکٹر بننے کا وقت نہیں آیا۔ وہ درخواست لے کر جس میڈیکل کالج میں بھی گئی اسے ''جواب‘‘ مل گیا۔وہ جہاں جہاں گئی اسے صنفی بنیاد پر دھتکار دیا گیا۔ سبھی نے کہا کہ ''ہم خواتین کو داخلہ نہیں دیتے ‘‘ ۔ وہ بھی ہمت نہ ہاری۔ اسے اپنے عورت ہونے کا احسا س پوری شدت سے ہوا، کیا وہ کم تر ہے؟ کیوں اس کی درخواست مسترد کی گئی؟ایلزبیتھ کے ذہن میں جیسے لاوا پکنے لگا۔ درخواست پر درخواست دیتی رہی۔ بالآخر جنیوا میڈیکل کالج (امریکہ)نے اسے داخلہ دے دیا۔ اس لئے نہیں کہ وہ اہل تھی بلکہ اس لئے کہ جب مرد طالب علموں سے رائے لی گئی تو انہوں نے ایلزبیتھ کو داخلہ دینے کے حق میں ووٹ دے دیئے۔ یوں 1847ء میں اسے داخلہ مل گیا ۔ اس نے ٹائیفائڈ بخار پر اپنا پہلا تھیسس لکھا جو 1849ء میں ''بفلو میڈیکل جرنل‘‘ میں شائع ہوا ۔یہ کسی بھی خاتون کی جانب سے طبی موضوع پر پہلا مضمون تھا۔جس میں اس نے طبی مسائل کے علاوہ خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف بھی آواز بلند کی۔خواتین کی معاشی اور سماجی کم تری پر بھی روشنی ڈالی۔اس ایک مضمون نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اب بس... اور نہیں...ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں داخلے کے قوانین بدلنا پڑیں گے۔جس کے بعدہی اس شعبے میں خواتین کو آگے آنے کا موقع بھی ملا اور شعور بھی بیدار ہوا۔اسی لئے اسے طب کی دنیا میں''نسوانیت کی علم بردار‘‘ بھی کہا جاتا ہے،دوران تعلیم اسے ناروا سلوک بھی برداشت کرنا پڑا، لیکن وہ یہ سب کچھ سہہ گئی اورڈٹی رہی۔بعد ازاں اس نے 1857ء میں خواتین اور بچوں کی بہبود کے لئے نیویارک میں ایک تنظیم قائم کی۔ امریکہ میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران اسی نے نرسنگ کا شعبہ بھی منظم کیا۔اس کی خدمات کے اعتراف میں ''ایلزبیتھ بلیک ویل میڈل‘‘ بھی جاری کیا گیا جو ہر سال طب کے شعبے میں میں خدمات سرانجام دینے والی خواتین کو دیا جاتا ہے۔