ڈی این اے کی مدد سے غلاموں کو اپنے آباؤ اجداد کی تلاش
اسپیشل فیچر
آج دنیا بھر میں سبھی اپنی جڑوں کی بات کر رہے ہیں لیکن سیاہ فام باشندوں کی جڑیں امریکہ میں کھو گئی ہیں۔انہیں اپنے آباء اجداد کی ''تلاش‘‘ ہے ، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے بزرگ کس ملک سے تعلق رکھتے تھے ، امریکہ میں ان پر کیا بیتی، کس حال میں موت واقع ہوئی، امریکہ پہنچے بھی یا انہیں سمندر میں ہی مچھلیوں کی خوراک بنا دیا گیا؟وہ یہ اور ایسے کئی سوالوں کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں سیاہ فام باشندوں نے ' 'ٹرانس اٹلانٹک سلیو ٹریڈ ڈیٹا بیس‘‘ بنا دیا ہے جس کی مدد سے وہ سمندری جہاز میں آنے والے سیاہ فام باشندوں کی مکمل معلومات اکھٹی کرر ہے ہیں،اپنی پرانی نسلوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس ضمن میں بزرگوں کی تلاش کے لئے ''Slave Dwelling Project‘‘ بھی شروع کیا گیا ہے۔
امریکہ نے اپنی تعمیر و ترقی کے لئے سیاہ فام باشندوں کو غلام بنانا شروع کیا یوں امریکہ میں دنیا کی بدترین غلامی کی شروعات ہوئی۔پروفیسر ڈیوڈ ایلٹس اور ڈیوڈ رچرڈسن کے مطابق 1525ء سے 1866ء کے درمیانی عرصے میں امریکیوں نے 1.25کروڑ افریقیوں کو ان کے خاندانوں سے چھین لیا، اپنے گھروں سے جدا کرکے امریکہ میں قید کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ 18 لاکھ افریقی باشندے راستے ہی میں دم توڑ گئے ، بیمار ہونے پر انہیں سمندر میں پھینک دیاگیا ،ان کا ریکارڈکم ہی دستیاب ہے۔ کل 1.07کروڑ افریقی امریکہ پہنچ سکے۔لیکن اب امریکیوں نے تاریخ کو بدلتے ہوئے یہ لکھنا شروع کر دیا ہے کہ تمام غلام امریکہ نہیں لائے گئے تھے ، اکثر کو انہوں نے تو دوسرے ممالک (برازیل یا کیریبین ممالک ) میں اتار دیا تھا ۔ان میں سے 4سے 6فیصد یعنی 3.88لاکھ تک افریقی غلام امریکہ پہنچائے گئے تھے۔ ان کے مطابق غلامی چار سو سال نہیں بلکہ ڈھائی سو سال تک جاری رہی۔مورخین یہ نہیں بتاتے کہ انہیں برازیل میں یوں اتار اگیا تھا، کیونکہ برازیل سے ان کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں مل رہا۔ برازیل میں غلاموں کی جماعت بھی نہ تھی۔کان کنی تھی لیکن یہ کافی پسماندہ تھی۔جس کے لئے غلام درکار نہ تھے۔مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ غلاموں کی حامی ہر ریاست میں ہر چوتھے گھر میں غلام تھے۔1860ء میں ٹیکسا س میں 1.82لاکھ غلام تھے ، کل آبادی کا 27فیصد۔
کچھ مورخین کے مطابق غلاموں کی تجارت 1619ء میں شروع ہوئی۔جب پہلی مرتبہ ڈچ سمندری جہاز میں20افریقی باشندے نوکروں کی طرح جیمز ٹائون ،ورجینیا پہنچائے گئے تھے۔ان دنوں غلاموں کی مصنوعات کی طرح بولی لگا کرتی تھی۔ سب سے زیادہ بولی 1859ء میں گوائے (Guy اور اینڈریو نامی دو غلاموں کی لگائی گئی،گوائے کی قیمت 1280 ڈالر (موجودہ کرنسی میں 33ہزار ڈالر ) اور اینڈریو 1040ڈالر (موجودہ کرنسی میں 40 ہزار ڈالر)میں بکا۔ جبکہ ان دنوں غلاموں کی ''مارکیٹ ویلیو ‘‘ 240ڈالر فی غلام تھی۔اکثر غلام تین تین بار بکے۔جارجیا کی ہیریٹ ہل بھی تین سال کی تھی جب ماں کی گود سے چھین کر فروخت کر دی گئی۔نو دس سال کی عمر میں وہ 14سو ڈالر میں بیچی گئی۔
ان سے کاشت کاری سے لے کر یونیورسٹیا ں تک بنوائی گئیں ، انہوں نے جنوبی ریاستوں میں تعلیمی ڈھانچہ قائم کیا ، سکول ، کالج اور یونیورسٹیا بنائیں، ہسپتال اور صحت کے دوسرے مراکز قائم کئے ۔لیکن انہیں اپنی مرضی سے لکھنے پڑھنے یا کچھ کھانے پینے پر سزا ملتی تھی۔ انہیں مصنوعات سمجھا جاتا تھا اور اسی قسم کا برتائو کیا جاتا تھا۔حال ہی میں د و خواتین نے ایک اور ادارہ قائم کیا ہے جس کا مقصد ہی ڈی این اے کی مدد سے پردے میں چھپی ہوئی غلامی کو سامنے لانا ہے، انہوں نے ''ڈی این اے ‘پراجیکٹ ‘‘ کے نام سے ایک بڑا ڈیٹا بیس بھی قائم کر دیا ہے، ڈی ا ین اے سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔جس میں 18لاکھ سیاہ فام غلاموں کی معلومات شامل کر دی گئی ہیں ۔ڈیٹا بیس کی تیاری میں ابراہام لنکن دور میں 1865ء میں قائم کئے جانے والے ''مرکز ''فریڈمینز بیورو‘‘ سے بھی مدد لی گئی ہے۔غلاموں کے حامیوں نے یہ مرکز 1872میں توڑ دیا تھا۔ اس کے لئے فلاڈیلفیا کے قریب ویسٹ منسٹر یونیورسٹی میں کلاس کا آغاز کر دیا ہے ۔ اس پروگرام کی کے ذریعے کسی بھی وقت طلباء اپنے بزرگوں تک پہنچنے کی کوشش کر سکتے ہیں،ان سے کہا گیا ہے کہ وہ گمشدہ رشتے داروں کی تلاش کیلئے اپنا ڈی این اے کرائیں اور اس کی مدد سے اپنی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
پروگرام کی بانی انیتا فگومین ہیں۔وہ ''میں کون ہوں ؟ ڈی این اے کی مدد سے اپنے تشخص کی تلاش ‘‘ کی مصنفہ بھی ہیں۔ان کے پاس 1870ء تک کا کافی ڈیٹا موجود ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ ''سیاہ فاموں کی تاریخ واقعی خوفناک اور ڈرا دینے والی ہے، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ،ان کے ساتھ رواکھے گئے سلوک کو جان کر‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر آدمی کا 99.9فیصد ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن اسی 0.1سے فرق رونما ہو جاتا ہے، بالوں کا رنگ، وزن، اور شخصیت کی پہچان بھی ہو سکتی ہے۔اور ہم اسی کے ذریعے اپنی اصل پہچان پا لیں گے‘‘۔